Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 6

سورة المؤمنون

اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾

Except from their wives or those their right hands possess, for indeed, they will not be blamed -

بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاء ذَلِكَ فَأُوْلَيِكَ هُمُ الْعَادُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] یعنی مسلمانوں کے لئے اپنے شہوانی جذبات اور خواہشات کی تکمیل کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کریں اور دوسری یہ کہ اپنی مملوک کنیزوں سے پوری کرسکتے ہیں۔ مملوک لونڈیوں کے لئے نکاح کی شرط نہیں اور اس سے تمتع کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ ملک ہے۔ اس آیت سے مزید دو امور کا پتہ چلتا ہے۔ ایک یہ کہ راہب سنیاسی یا بعض صوفی قسم کے لوگ شہوانی خواہش کی تکمیل کو برا سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ نکاح کو ان کی خود ساختہ ولایت کے معیار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہ نکاح کے بعد انسان خانہ داری اور اولاد کے جھنجھٹوں میں پڑجاتا ہے۔ اور یہ چیز رہبانیت کی ریاضت کے حصول میں آڑے آتی ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے نظریہ کا پورا پورا رد موجود ہے۔ نیز دور نبوی میں صحابہ کرام (رض) میں بھی کچھ رہبانیت کا رحجان چل نکلا تھا۔ چناچہ حضرت بن مالک فرماتے ہیں کہ && تین آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کے گھر آئے اور آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے لگے۔ جب انھیں بتلایا گیا تو اسے انہوں نے کم سمجھا اور کہنے لگے کہ کہاں ہم اور ہاں اللہ کے رسول جن کے پہلے اور پچھلے سب گناہ معاف کئے جاچکے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا : میں ہمیشہ ساری رات نماز میں گزارا کرونگا && دوسرے نے کہا : && میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور تیسرے نے کہا میں ہمیشہ عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا && اتنے میں آپ تشریف لے آئے اور ان لوگوں سے پوچھا : && کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کی ہیں ؟ اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور پرہیزگار ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں۔+ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ تو جو کوئی میری سنت کو ناپسند کرے اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں && (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الترغیب فی النکاح) اور دوسری یہ بات کہ مرد کے لئے تو اس کی مملوکہ کنیز سے تمتع جائز ہے۔ لیکن عورت اپنے مملوک غلام سے تمتع نہیں کرسکتی۔ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں ایک عورت نے اپنے غلام سے تمتع کرلیا۔ پھر دلیل میں یہ آیت پیش کی۔ آپ نے صحابہ کی مجلس شوریٰ میں یہ معاملہ پیش کیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ تَاَوَّلْتُ کِتَاب اللّٰہِ تَعَالٰی خَیْرُ تَاوِیْلِہ (یعنی اس عورت نے اللہ کی کتاب کا غلط مفہوم اخذ کیا ہے) اور عورت کے لئے اس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اپنی مالکہ کی خواہش شہوانی تو پوری کرسکتا ہے۔ لیکن اس کا قوام نہیں بن سکتا۔ لہذا ایسی عورت کے لئے بہتر یہی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ اسلام جوگیوں، راہبوں اور بعض صوفیوں کی طرح جنسی خواہش کو سرے سے روک دینے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ بیویوں اور لونڈیوں سے جماع کو جائز قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کا حکم دیا ہے، فرمایا : (وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ) [ النور : ٣٢ ] ” اور اپنے میں سے بےنکاح مردوں، عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تین صحابہ سے جن میں سے ایک نے نکاح نہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، فرمایا : ( أَمَا وَاللّٰہِ ! إِنِّيْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَ أَتْقَاکُمْ لَہُ ، لٰکِنِّيْ أَصُوْمُ وَ أُفْطِرُ وَ أُصَلِّيْ وَ أَرْقُدُ وَ أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ ) [ بخاري، النکاح، باب الترغیب في النکاح۔۔ : ٥٠٦٣ ] ” اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ اس سے بچنے والا ہوں، لیکن (اس کے باوجود) میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، میں قیام اللیل بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، پھر جو میری سنت سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔ “ ” اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ “ سے معلوم ہوا کہ شہوت پوری کرنے کے لیے مسلمان مرد کے پاس صرف دو راستے ہیں، بیوی اور لونڈی اور عورت کے لیے صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے خاوند یا لونڈی کا مالک۔ کیونکہ جب بیوی خاوند کے لیے حلال ہوئی تو خاوند بیوی کے لیے خود بخود حلال ہوگیا۔ عورت اپنے غلام سے حاجت پوری نہیں کرسکتی، کیونکہ ” عَلیٰ “ کا لفظ اس سے منع کرتا ہے، جو بلندی اور اوپر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ کسی عورت سے جماع کے جواز کے لیے نکاح ضروری ہے، یا اس کا مملوکہ ہونا۔ مالک کو مملوکہ لونڈی کے لیے نکاح کی ضرورت نہیں، اگر مالک کو اس سے جماع کے لیے نکاح ضروری ہوتا تو ” عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ “ ہی کافی تھا، مملوکہ لونڈیوں کا الگ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۝ ٦ۚ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔ يَمِينُ ) قسم) في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة/ 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ. الیمین بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے لوم اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] ، وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة/ 54] ، فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون/ 6] ، فإنه ذکر اللّوم تنبيها علی أنه إذا لم يُلَامُوا لم يفعل بهم ما فوق اللّوم . ( ل و م ) لمتہ ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں ۔ وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة/ 54] اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ اور ملوم ( ملامت کیا ہوا ) صفت مفعولی ۔ ہے اور آیت کریمہ : فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون/ 6] ان سے مباشرت کرنے میں انہیں ملامت نہیں ہے ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ جب ان پر ملامت ہی نہیں ہے ۔ تو اس سے زیادہ سرزنش کے وہ بالاولےٰ مستحق نہیں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (اِلَّا عَلآی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ) ” ان کا چوتھا وصف یہ بیان ہوا کہ وہ صرف جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرتے ہیں اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ یعنی جنسی جذبہ فی نفسہُٖ برا نہیں ‘ بلکہ برائی اس کے غلط استعمال میں ہے۔ اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں تجرد کی زندگی بسر کرنا اور اپنے جنسی جذبہ کو ‘ جو فطرت اور جبلتّ میں ایک نہایت قوی جذبہ ہے ‘ کچلنا ایک اعلیٰ ترین روحانی قدر قرار دیا جاتا ہے ‘ جبکہ اسلام دین فطرت ہے ‘ چناچہ وہ اس فطری و جبلی جذبہ کو بالکلیہ کچلنے اور دبانے کو قطعاً پسند نہیں کرتا۔ اس کا منشا و مدعا یہ ہے کہ اس جذبہ کی تسکین کے لیے جائز اور حلال راہیں اختیار کی جائیں۔ نکاح کو اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی سنتوں میں سے ایک سنتّ قرار دیا ہے۔ چناچہ یہاں جنسی تسکین کے جائز راستوں کے لیے ” غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ “ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: اس سے مراد وہ کنیزیں ہیں جو شرعی احکام کے مطابق کسی کی ملکیت میں آئی ہوں لیکن آج کل ایسی کنیزوں کا کوئی وجود نہیں رہا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:6) علی بمعنی من ہے۔ فانہم میں ف جواب شرط مقدر کے لئے ہے۔ ای فان بذلوا فروجہم لازواجہم او مائھم فانہم غیر ملومین۔ اگر اپنی شرمگاہوں کو اپنی منکوحہ بیویوں اور لونڈیوں کے ساتھ عمل میں لادیں تو ان کے لئے کوئی ملامت نہیں ہے۔ ملومین۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ لوم مادہ ومصدر۔ ملام وملامۃ بھی مصدر ہیں۔ لام یلوم (نصر) لوما کے معنی کسی کو برے فعل پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں لائم ملامت کرنے والا۔ ملوم ملامت کیا گیا۔ ملامت زدہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں جس طرح بیوی سے تعلق رکھنا جائز ہے اسی طرح لونڈی سے تعلق رکھنا بھی جائز ہے۔ عاوہ ازیں شہوت رانی حرام ہے۔ لہٰذا نکاح متعہ بھی حرام ہے۔ گو بعض موقعوں پر اس کی اجازت دی گئی تاہم بعد میں ہمیشہ کے لئے حرام قرار دے دیا گیا کیونکہ جس عورت سے متعہ کیا جائے اس پر زوجہ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ نیز دیکھئے سورة نساء آیت 24 ۔ امام شافعی (رح) اور دیگر علما نے اس آیت سے اسمنا کی حرمت پر بھی استدلال کیا ہے کیونکہ ان کو عادوں حد سے متجاوز کرنے والے قرار دیا ہے۔ (ابن کثیر، قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا لازم ہے مگر جائز طریقہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مومن مرد اور عورت اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس حکم سے ایک غلط فہمی پیدا ہوسکتی تھی جس کے تدارک کے لیے یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ اپنی بیویوں سے فطری عمل کرنا جائز ہے اگر کسی کے پاس آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے وسائل نہ ہوں تو اسے اپنی لونڈی کے ساتھ فطری عمل کرنے کی اجازت ہے۔ بیوی اور لونڈی کے ساتھ فطری عمل کرنے پر کوئی ملامت نہیں۔ جس نے اس کے بغیر کوئی طریقہ یا راستہ اختیار کیا وہ حد سے گزرنے والوں سے ہوگا۔ اسلام دین فطرت ہے اس نے فطرت کا خیال رکھتے ہوئے ایک سے زائد نکاح کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی شخص بلاشرعی عذر غیر ازواجی زندگی بسر کرے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے کہ نکاح کرنا میری سنت ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں (رواہ ابن ماجہ : باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ النِّکَاحِ ) جو مرد اور عورت اس فرمان کے باوجود راہب یا تارک الدنیا ہوجاتے ہیں ان کا اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ جہاں تک لونڈی اور غلامی کا تعلق ہے اس بارے میں غیر مسلم لوگ نہایت ہی الزامی گفتگو اور منفی پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں جو شخص آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کے اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا وہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرسکتا ہے لونڈی سے نکاح کے لیے اس کا حق مہر ادا کرنا ہوگا۔ اس لونڈی کا بھی فرض ہے کہ وہ محض شہوت رانی کے بجائے مستقل نکاح کی نیت رکھتے ہوئے پاک دامنی کے ارادے سے ازدواجی بندھن میں آئے اور کسی دوسرے مرد سے پوشیدہ دوستی رکھنے سے مکمل اجتناب کرے۔ (عن أَبی بُرْدَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الْأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا فَلَہُ أَجْرَانِ وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا ثُمَّ اٰمَنَ بالنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَہُ أَجْرَانِ وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللّٰہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی سے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سنا۔ سرکار دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عنایت کیا جائے گا۔ ان میں ایک وہ ہے جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا پھر اس کو آزاد کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا۔ دوسرا یہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔ تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔ “ غلامی کو جزوی طور پر کیوں برقرار رکھا گیا۔ تفصیل جاننے کے لیے پانچویں پارے کی پہلی آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ اپنی بیوی سے جائز طریقے کے ساتھ مباشرت کرنا فطرت اور سنت ہے۔ ٢۔ لونڈی کے ساتھ مباشرت کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ تفسیر بالقرآن لونڈیوں اور غلاموں کے حقوق : ١۔ صدقات مفلسوں، محتاجوں، عاملین، تالیف قلب، غلاموں کی آزادی، قرض داروں، اللہ کی راہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ (التوبۃ : ٦٠) ٢۔ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ تم چار بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے تو ایک بیوی یا ایک لونڈی ہی کافی ہے۔ ( النساء : ٤) ٣۔ تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہتے ہیں تو ان سے مکاتبت کرو۔ (النور : ٣٣) ٤۔ اے ایمان والو ! تمہارے غلام بھی تم سے اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوں۔ ( النور : ٥٨) ٥۔ تم میں سے جو پاک دامن آزاد مؤمن عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کرسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لونڈی سے نکاح کرلے۔ (النساء : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” اِلَّا عَلٰے اَزْوَاجَهِمْ الخ “ یہ ما قبل سے مستثنی ہے مرد کو صرف دو قسم کی عورتوں کے ساتھ جنسی اختلاط کی اجازت دی گئی ہے۔ اول وہ عورت جو ازروئے شریعت اسلامیہ اس کی بیوی ہو۔ دوم وہ عورت جو شرعی طور پر اس کی زر خرید لونڈی ہو۔ دنیا میں اس دوسری قسم کا وجود باقی نہیں رہا۔ ” فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَاءَ ذٰلِکَ الخ “ جو لوگ مذکورہ بالا دونوں جگہوں کے علاوہ شہوت رانی کریں وہ ظالم اور حد سے گذرنے والے ہیں اور حلال سے حرام کی طرف بڑھنے والے ہیں۔ ای الظلمون المجاوزون الحد من الحلال الی الحرام الخ (خازن و معالم ج 5 ص 32) ۔ یہ آیت متعہ، لواطت، اور استمناء بالید کی حرمت پر دلیل ہے کیونکہ یہ تمام صورتیں وراء ذالک میں داخل ہیں۔ وفیہ دلیل علی تحریم المتعۃ والاستمناء بالکف لارادۃ الشھوۃ (مدارک ج 3 ص 88) ۔ و یدخل فیما وراء ذالک الزنا واللواط ومواقعۃ البھائم مما لا خلاف فیہ (روح ج 18 ص 7) ۔ روافض کہتے ہیں جس عوت سے متعہ کیا جائے چونکہ وہ بھی بیوی کے حکم میں ہے اس لیے وہ ” ازواجهم “ میں داخل ہے اور ” وراء ذالک “ میں داخل نہیں لہذا اس آیت سے نکاح متعہ کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اسکا جواب یہ ہے کہ متعہ والی بیوی ازروئے شریعت بیوی نہیں کیونکہ اس کے احکام شرعی زوجہ سے بالکل مختلف ہیں دونوں کا فرق سمجھنے سے پہلے متعہ کی حقیقت سمجھ لیجئے۔ نکاح متعہ کی صورت یہ ہے کہ ایک مرد ایک عورت کے ساتھ معین رقم کے بدلے معین تک نکاح کرے۔ اب دونوں کے احکام ملاحظہ ہوں جو شرعی طور پر ایک مرد کی بیوی ہو اس کے احکام حسب ذیل ہیں (1) اگر وہ فوت ہوجائے تو خاوند اس کا وارث ہوگا اور اگر خاوند فوت ہوجائے تو وہ اس کی وارث ہوگی (2) جو اولاد پیدا ہوگی وہ اس کے خاوند کی کہلائیگی۔ (3) خاوند کی جانب سے طلاق دئیے بغیر وہ اس کے نکاح سے باہر نہیں ہوسکے گی۔ (4) طلاق کے بعد عدت سے پہلے وہ کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکے گی لیکن ممتوعہ یعنی جس عورت سے کسی نے متعہ کیا ہو (1) اس کے اور متعہ کرنے والے کے درمیان وراثت جاری نہیں ہوگی (2) اولاد بھی شرعاً اس کے ساتھ ملحق نہ ہوگی۔ (3) طلاق کی ضرورت نہیں مدت ختم ہونے پر نکاح بھی ختم ہوجائیگا اور (4) عدت کی بھی ضرورت نہیں پہلے متعہ کی مدت ختم ہوتے ہی دوسری جگہ متعہ کرسکتی ہے۔ اس طرح ممتوعہ شرعی بیوی کے حکم میں داخل نہیں اور لا محالہ وراء ذالک ہی میں داخل ہے۔ وھذا یقتضی تحرم الزنی وما قلناہ من الاستمناء و نکاح المتعۃ لان المتمتع بھا لا تجری بحری الزوجات لا ترث ولا تورث، ولا یلحق بہ ولدھا، ولا یخرج من نکاحھا بطلاق یستانف لھا وانھا یخرج بانقضاء المدۃ التی عقدت علیھا وصارت کا لمستاجرۃ (قرطبی ج 12 ص 106) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) مگر ہاں ! اپنی بیویوں یا اپنے ہاتھ کے مال یعنی شرعی باندیوں سے نہیں کیونکہ ان لوگوں پر کوئی الزام اور الاہنا نہیں۔ یعنی حرام کے ذریعہ شہوت رانی سے حفاظت کرتے ہیں مگر ہاں ! اپنی بیویوں سے اور اپنی باندیوں سے شہوت رانی میں کچھ حرج نہیں تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام اور ملامت نہیں۔