Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 60

سورة المؤمنون

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمۡ اِلٰی رَبِّہِمۡ رٰجِعُوۡنَ ﴿ۙ۶۰﴾

And they who give what they give while their hearts are fearful because they will be returning to their Lord -

اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who give that which they give with their hearts full of fear, because they are sure to return to their Lord. means, they give in charity, fearing that it may not be accepted from them because of some shortcoming or failure to meet the required conditions of giving. This has to do with fear and taking precautions, as Imam Ahmad recorded from A'ishah: I said: "O Messenger of Allah, وَالَّذِينَ يُوْتُونَ مَا اتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ (And those who give that which they give with their hearts full of fear...), Are these the ones who steal and commit Zina and drink alcohol while fearing Allah!" The Messenger of Allah replied: لاَا يَا بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ وَلَكِنَّهُ الَّذِي يُصَلِّي وَيَصُومُ وَيَتَصَدَّقُ وَهُوَ يَخَافُ اللهَ عَزَّ وَجَل No, O daughter of Abu Bakr. O daughter of As-Siddiq, the one who prays, fast and gives in charity, fearing Allah. This was recorded by At-Tirmidhi, and Ibn Abi Hatim recorded something similar in which the Prophet said: لاَا يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ وَلَكِنَّهُمُ الَّذِينَ يُصَلُّونَ وَيَصُومُونَ وَيَتَصَدَّقُونَ وَهُمْ يَخَافُونَ أَلاَّ يُقْبَلَ مِنْهُمْ No, O daughter of As-Siddiq, they are the ones who pray and fast and give in charity while fearing that it will not be accepted from them,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

601یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہمارا عمل یا صدقہ نامقبول قرار نہ پائے۔ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ نے پوچھا ' ڈرنے والے کون ہیں ؟ وہ جو شراب پیتے، بدکاری کرتے اور چوریاں کرتے ہیں ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نامقبول نہ ٹھہریں ' (ترمذی تفسیر سورة المومنون۔ مسند احمد6195160 ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا ۔۔ : ” آتٰی یُؤْتِيْ إِیْتَاءً “ کا معنی ہے، دینا۔ عام طور پر اس سے مراد صدقہ و زکوٰۃ لیا جاتا ہے، مگر ابن عباس (رض) اور سعید بن جبیر (رض) نے فرمایا : ” اس سے نیکی کے تمام اعمال مراد ہیں۔ “ (طبری) عربی میں ”إِیْتَاءٌ“ (دینا) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے، مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کرلینے کے لیے کہتے ہیں : ” آتَیْتُہُ مِنْ نَفْسِي الْقَبُوْلَ “ اور اطاعت قبول نہ کرنے کے لیے کہتے ہیں : ” آتَیْتُہُ مِنْ نَفْسِي الإِْبَاءَ ۔ “ ابن عطیہ فرماتے ہیں : ” یہ معنی زیادہ خوب صورت ہے، گویا فرمایا : ” وَالَّذِیْنَ یُعْطُوْنَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ فِيْ طَاعَۃِ اللّٰہِ مَا بَلَغَہُ جُھْدُھُمْ “ ” یعنی وہ اپنی جانوں کی طرف سے اللہ کی اطاعت میں وہ سب کچھ پیش کردیتے ہیں جو ان کے آخری بس میں ہوتا ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ وہ ہر نیک عمل کرتے ہوئے خود پسندی کا شکار ہونے کے بجائے سخت ڈر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کے پاس جانا ہے، کیا خبر اس کی جناب میں ہمارا عمل قبول ہوتا ہے یا نہیں اور کیا خبر کہ رب تعالیٰ کے حضور جانے کے وقت ہمارے ایمان و عمل کا کیا حال ہوتا ہے، کیونکہ دار و مدار تو خاتمے پر ہے۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا : ( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! (ۙوَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ ) [ المؤمنون : ٦٠ ] أَ ھُوَ الَّذِيْ یَزْنِيْ وَ یَسْرِقُ وَ یَشْرَبُ الْخَمْرَ ؟ قَالَ لَا، یَا بِنْتَ أَبِيْ بَکْرٍ ! أَوْ یَا بِنْتَ الصِّدِّیْقِ ! وَلٰکِنَّہُ الرَّجُلُ یَصُوْمُ وَ یَتَصَدَّقُ وَ یُصَلِّيْ ، وَ ھُوَ یَخَافُ أَنْ لَا یُتَقَبَّلَ مِنْہُ ) [ ابن ماجہ، الزھد، باب التوقي علی العمل : ٤١٩٨۔ ترمذي : ٣١٧٥۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ١٦٢]” یا رسول اللہ ! (اللہ کا فرمان ہے): (ۙوَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ ) کیا اس سے مراد وہ شخص ہے جو چوری کرتا ہے، زنا کرتا ہے اور شراب پیتا ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہیں ! اے ابوبکر کی بیٹی ! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اور وہ ڈر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے قبول نہ کیا جائے۔ “ ترمذی کی حدیث کے آخر میں ہے کہ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (ۙاُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ ) [ المؤمنون : ٦١ ] ” یہی (مذکورہ بالا صفات والے) وہ لوگ ہیں جو بھلائیاں حاصل کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور یہی لوگ ان کی طرف آگے نکلنے والے ہیں۔ “ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ” يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا “ سے مراد صرف صدقہ و زکوٰۃ ہی نہیں، بلکہ تمام اعمال ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ (And those who give whatever they give with their hearts full of fear - 23:60.) The word يُؤْتُونَ is derived from اِیتا meaning |"to give, to spend|", and is used in commentaries in the sense of صَدَقَات (alms to the poor). Another reading of this verse reported from Sayyidah ` A&ishah (رض) is يُؤْتُونَ مَا آتَوا (They do whatever they do - 23:60) and this covers all good deeds such as charity, prayers, fasting etc. As for the generally accepted reading of the verse, although it mentions alms to the poor only, yet it would include all good deeds also as is borne out by a hadith. Sayyidah ` A&ishah (رض) asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the meaning of this verse whether those who do these deeds are the ones who drink wine and steal things. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied, |"0 daughter of Siddiq! It is not as you say. These are the people who observe fasts, say their prayers and give alms, yet they are apprehensive lest, due to some mind lapse on their part, all their good deeds may not be accepted by Allah. They hasten to do good deeds and are foremost, in accomplishing them.|" (Ahmad, Tirmidhi, Ibn Majah, Mazhari) Hasan a1-Basri (رح) says that he knew people who did virtuous deeds, yet were more fearful than people who committed evil deeds. (Qurtubi)

معارف و مسائل وَالَّذِيْنَ يُؤ ْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ، لفظ یوتون، ایتاء سے مشتق ہے جس کے معنے دینے اور خرچ کرنے کے ہیں اس لئے اس کی تفسیر صدقات کے ساتھ کی گئی ہے اور حضرت صدیقہ عائشہ سے ایک قرات اس کی یاتون ما اتو بھی منقول ہے یعنی عمل کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں اس میں صدقات نماز، روزہ اور تمام نیک کام شامل ہوجاتے ہیں اور مشہور قرات پر اگرچہ ذکر یہاں صدقات ہی کا ہوگا مگر مراد بہرحال عام اعمال صالحہ ہیں جیسا کہ ایک حدیث سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کا مطلب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یہ کام کر کے ڈرنے والے لوگ وہ ہیں جو شراب پیتے یا چوری کرتے ہیں ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اے صدیق کی بیٹی یہ بات نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے اور نمازیں پڑھتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اس کے باوجود اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ شاید ہمارے یہ عمل اللہ کے نزدیک (ہماری کسی کوتاہی کے سبب) قبول نہ ہوں ایسے ہی لوگ نیک کاموں میں مسارعت اور مسابقت کیا کرتے ہیں (رواہ احمد والترمذی و ابن ماجہ۔ مظہری) اور حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو نیک عمل کر کے اتنے ڈرتے تھے کہ تم برے عمل کر کے بھی اتنا نہیں ڈرتے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰى رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ۝ ٦٠ۙ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ وجل الوَجَل : استشعار الخوف . يقال : وَجِلَ يَوْجَلُ وَجَلًا، فهو وَجِلٌ. قال تعالی: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ [ الأنفال/ 2] ، إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر/ 52- 53] ، وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ [ المؤمنون/ 60] . ( و ج ل ) الوجل کے معنی دل ہی دل میں خوف محسوس کرنے کے ہیں اور یہ باب وجل یوجل کا مصدر ہے جس کے معنی ڈر نے یا گھبرا نے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ [ الأنفال/ 2] مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو انکے دل ڈر جاتے ہیں ۔ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر/ 52- 53] انہوں نے کہا ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے ۔ یہ وجل کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ڈر نے ولا ۔ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر/ 52- 53]( مہمانوں نے ) کہا کہ ڈر یئے نہیں ۔ وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ [ المؤمنون/ 60] اور ان کے دل ڈر تے رہتے ہیں ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

راہ خدا میں خرچ کرتے ہوئے بھی اللہ سے ڈرتے ہیں قول باری ہے (والذین یوتون ما اتوا وقلوبھم وجلۃ انھم الی ربھم راجعون) اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے) وکیع نے مالک بن مغول سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن سعید بن وہب سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی وہ دیتے ہیں اور ان کے دل کانپتے رہتے ہیں، آیا اس سے مراد وہ شخص ہے جو شراب پیتا اور چوری کرتا ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔” عائشہ ! یہ بات نہیں، اس سے وہ شخص مراد ہے جو نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا ہے نیز اللہ کی راہ میں صدقہ بھی کرتا ہے لیکن ڈرتا ہے کہ کہیں اس کے یہ اعمال اللہ کے ہاں قبول ہونے سے رہ نہ جائیں۔ “ جزیر نے لیث سے روایت کی۔ انہوں نے اس شخص سے جس نے انہیں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر سے روایت سنائی کہ (یوتون ما اتوا) سے زکواۃ مراد ہے۔ حسن بصر ی سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ ” میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جنہیں اپنی نیکیاں رد ہوجانے کا اس سے زیادہ خطرہ رہتا تھا جتنا تمہیں اپنی برائیوں پر عذاب کا خطرہ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ ) ” یعنی اللہ کی راہ میں وہ حتی المقدور صدقہ و خیرات کرتے رہتے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ دوسروں کی مدد کرتے ہوئے وہ انہیں کمتر اور خود کو برتر نہیں سمجھتے ‘ بلکہ انہیں یہ خدشہ اور اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں کسی کوتاہی ‘ غلطی یا خلوص کی کمی کے باعث ان کا یہ عمل اللہ کے ہاں رد نہ کردیا جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. This verse (60) may be elaborated like this: They serve their Lord and try their best to obey Him and do righteous deeds, but all along they remain humble in their hearts and are not puffed up with the pride of their piety. Nay, in spite of all their good deeds, their hearts are always filled with awe that they shall have to render an account to their Lord, and they are not sure whether they will come out successful in the judgment of their Lord or not. A concrete interpretation of this verse is afforded by Umar. Although he served his Allah in a way that was exemplary, yet he was so afraid of accountability to Him that he is reported to have said before death: I shall consider it a favor, if I am neither rewarded nor punished in the Hereafter. Hasan Basri has expressed the same thing in a beautiful manner: A believer obeys Allah and is yet fearful of Him, and a hypocrite disobeys Allah and is yet fearless of Him.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :54 عربی زبان میں دینے ( ایتاء ) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے ، مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کر لینے کے لیے کہتے ہیں کہ اٰتیتہ من نفسی القبول کسی شخص کی اطاعت سے انکار کر دینے کے لیے کہتے ہیں اٰتیتہ من نفسی الابائۃ ۔ پس اس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہ خدا میں مال دیتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے ۔ اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں ، جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں ، جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں ، ان پر وہ پھولتے نہیں ہیں ، غرور تقویٰ اور پندار خدا رسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے ، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو ، ہمارے گناہوں کے مقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو ، ہمارے رب کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو ، یہی مطلب ہے جس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ ! کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے ؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اسے : یَأتُوْنَ مَا اَتَوْا کے معنی میں لے رہی تھیں ، یعنی کرتے ہیں جو کچھ بھی کرتے ہیں ۔ جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یا بنت الصدیق و لٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق وھو یخاف اللہ عزو جلّ ، نہیں ، اے صدیق کی بیٹی اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے ، روزے رکھتا ہے ، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزوجل سے ڈرتا رہتا ہے ۔ اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت : یَأتُوْنَ نہیں بلکہ یُؤْتُوْنَ ہے ، اور یہ یُؤْتُوْنَ صرف مال دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بچانے کے وسیع معنی میں ہے ۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کس قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے ۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سے ڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے خوب کہا ہے کہ مومن طاعت کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہے اور منافق معصیت کرتا ہے پھر بھی بے خوف رہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: یعنی نیک عمل کرتے ہوئے بھی ان کے دل میں کوئی بڑائی نہیں آتی، بلکہ وہ سہمے رہتے ہیں کہ اس عمل میں کوئی ایسی کوتاہی نہ رہ گئی ہو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بن جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:60) یؤتون۔ مضارع جمع مذکر غائب وہ دیتے ہیں۔ ایتاء سے اتوا ماضی جمع مذکر غائب ایتاء مصدر۔ یؤتون ما اتوا۔ وہ جو کچھ بھی دیتے ہیں۔ جو عطیہ بھی وہ دیتے ہیں ۔ وجلۃ۔ صفت مشبہ واحد مؤنث وجل مذکر۔ وجل مصدر (باب سمع) خوف زدہ ڈرنے والے۔ ڈرتے رہتے ہیں۔ وقلوبہم وجلۃ (خائفۃ ان لا تقبل منہم لتقصیرہم) میں وائو حالیہ ہے اور جملہ قلوبہم وجلۃ اسم موصول الذین ضمیر سے موضع حال میں ہے اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں دیتے ہیں جو کچھ بھی وہ دیتے ہیں (حال ان کا یہ ہوتا ہے) کہ دل ان کے کانپ رہے ہوتے اس خوف سے کہ (ان کی یہ زکوٰۃ یا صدقہ ) کہیں عدم قبولیت کا شکار نہ ہوجائے۔ انہم الی ربہم راجعون۔ سے قبل لام تعلیلیہ مقدر ہے اور یہ جملہ وجلۃ سے متعلقہ ہے۔ یعنی دل ڈر رہے ہوتے ہیں اس کو ف سے کہ وہ (ایک دن) اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں (اور اس دن حقیقت منکشف ہوگی کہ کونسا عمل قبول ہوا اور کونسا نہ ہوا۔ (2) یا انہم الی ربہم راجعون سے قبل من مقررہ لایا جائے۔ ای وجلۃ من ان رجوعہم الیہ عزوجل۔ کہ دل خوف زدہ ہیں کہ انہوں نے (ایک دن ) اللہ تعالیٰ کے حضور جانا ہے (تو اس وقت حقیقت آشکار ہوگی کہ کون سا عمل قبول ہوا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

13 ۔ وہاں معلوم نہیں ان کا دیا ہوا صدقہ قبول بھی ہوتا ہے یا نہیں ؟۔ ڈرنے کا تعلق اس چیز سے ہے نہ کہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے سے مطلب یہ ہے کہ وہ صدقہ اور اسی طرح دوسری تمام عبادات بجا لاتے ہیں لیکن اس پر ناز نہیں کرتے۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شراب پی لے، چوری کرلے، زنا کرلے مگر اللہ سے ڈرتا رہے ؟ فرمایا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی روزہ رکھے، صدقہ کرے نماز پڑھے پھر بھی ڈرتا رہے کہ شاید بارگاہ الٰہی میں قبول نہ ہو اور سلف گناہوں پر جتنا ڈرتے تھے، اس سے زیادہ نیکی کی عدم قبولیت کا اندیشہ ان کو دامن گیر رہتا تھا۔ (قرطبی۔ شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی باوجود دینے کے ان کے دل خوفزدہ رہتے ہیں کہ دیکھئے وہاں جاکر ان صدقات کا کیا ثمرہ ظاہر ہو، ایسا نہ ہو کہ موافق حکم کے نہ دیا گیا ہو مثلا مال حلال نہ ہو یا نیت خالص نہ ہو تو الٹا مواخزہ ہونے لگے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51:۔ ” وَالَّذِیْنَ یُوْتُوْنَ الخ “ اس میں ” اَلَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ “ کا اعادہ ہے۔ ” یُوْتُوْنَ “ بمعنی یفعلون ہے اور یہ لفظ تمام اعمال خیر اور افعال تر کو شامل ہے۔ قال ابن عباس وابن جبیر ھو عام فی جمیع اعمال البر کانہ قال والذین یفعلون من انفسہم فی طاعۃ اللہ ما بلغہ جھدہم (بحر ج 6 ص 410) ۔ یعنی اللہ کی اطاعت اور اعمال خیر میں وہ حسب طاقت حصہ لیتے اور جو کام کرنے کے ہیں انہیں بجالاتے ہیں۔ 52:۔ ” وَقُلُوْبُھُمْ وَجِلَةٌ الخ “ وہ حسب طاقت نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں مگر اس کے باوجود آخرت کے حساب سے خائف ہیں اور انہیں اس بات کا ڈر رہاتا ہے کہ ان کی نیکیاں قبول بھی ہوئی ہیں یا نہیں جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔ الذین یصومون ویصلون و یتصدقون وھم یخافون ان لا یقبل منھم اولئک الذین یسارعون فی الخیرات (قرطبی ج 12 ص 132) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(60) اور جو اللہ کی راہ میں دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور باوجود اس کے ان کے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں اور وہ اپنے رب کی طرف واپس جانے والے ہیں۔