Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 61

سورة المؤمنون

اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَ ہُمۡ لَہَا سٰبِقُوۡنَ ﴿۶۱﴾

It is those who hasten to good deeds, and they outstrip [others] therein.

یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کر رہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أُوْلَيِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ ... It is these who hasten in the good deeds. This is also how Ibn Abbas, Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi and Al-Hasan Al-Basri interpreted this Ayah. ... وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ and they are foremost in them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] ان لوگوں کے مقابلہ میں اب اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں کی چند صفات بیان فرمائیں سب سے پہلی بات یہ کہ ان میں نیک کام کرتے رہنے کے باوجود ان میں نیکی کا غرور اور گھمنڈ پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اس بات سے اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کے یہ اعمال شاید اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے کے لائق تھے یا نہیں یا ان میں کچھ تقصیر تو نہیں ہوگئی۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ منزل من اللہ آیات پر ہی ایمان لاتے ہیں اور کائنات میں ہر طرف اللہ کی بکھری ہوئی آیات میں غور کرکے ان سے معرفت حاصل کرتے ہیں جن سے ان دلوں میں اللہ کی عظمت اور جلال کا سکہ بیٹھتا ہے تیسری صفت یہ ہے کہ وہ شرک کی ہر چھوٹی بڑی قسم سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور چوتھی صفت یہ کہ اپنے اموال اور دوسری اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے صدقہ و خیرات وغیرہ ادا کرنے کے باوجود اللہ کے حضور اعمال کی باز پرس سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کے متعلق نبی اکرم سے پوچھا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں، انھیں کس بات کا ڈرا لگا رہتا ہے ؟ کیا وہ شراب پیتے ہیں یا چوری کرتے ہیں ؟ && آپ نے فرمایا : اور صدیق کی بیٹی ! یہ بات نہیں بلکہ وہ لوگ روزہ رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ڈرتے ہیں شاید ان کا قبول نہ ہو۔ یہی لوگ ہیں جو نیکیوں کی طرف لپکتے اور آگے نکل جانے والے ہیں && (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۙاُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ ۔۔ : یعنی یہ لوگ جن میں یہ چاروں خوبیاں ہیں یہی نیک کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر جلدی کرتے ہیں اور یہی لوگ انھیں حاصل کرنے میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ (دیکھیے سورة واقعہ : ١٠ تا ٢٦) طبری نے ” وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ “ کے متعلق ابن عباس (رض) کا قول حسن سند کے ساتھ نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : ” سَبَقَتْ لَھُمُ السَّعَادَۃُ “ ” یعنی ان کی ان چاروں صفات کی وجہ سے (جو پہلے ہی اللہ کے علم میں ہیں) ان کے لیے پہلے ہی (جلدی بھلائیاں حاصل ہونے کی) سعادت طے ہوچکی ہے۔ “ گویا یہ اس آیت کے ہم معنی ہے : (اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ) [ الأنبیاء : ١٠١ ] ” بیشک وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے بھلائی طے ہوچکی، وہ اس سے دور رکھے گئے ہوں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أُولَـٰئِكَ يُسَارِ‌عُونَ فِي الْخَيْرَ‌اتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ Those people are accelerating towards the (real) good things, and they are the foremost to attain them. - 23:61 The meaning of مُسَارَعَت فِی الخَیرَات is that just as ordinary human beings run after worldly gains and try to leave other competitors behind, these good and virtuous people strive to gain spiritual reward and try to excel others in their efforts to fulfill their religious obligations.

اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ ، مسارعت فی الخیرات سے مراد یہ ہے کہ جیسے عام لوگ دنیا کے منافع کے پیچھے دوڑتے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتے ہیں یہ حضرات دین کے فوائد میں ایسا ہی عمل کرتے ہیں اسی لئے وہ دین کے کاموں میں دوسروں سے آگے رہتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَہُمْ لَہَا سٰبِقُوْنَ۝ ٦١ سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] ، ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (اولئک یسارعون فی الخیرات وھم لھا سابقون) یہی لوگ طاعات میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ان کی طرف لپک رہے ہیں) یہاں خیرات سے مراد طاعات ہیں جن کی طرف اللہ پر ایمان رکھنے والے لپکتے ہیں اور ان کی طرف سبقت کرنے میں پوری کوشش کرتے ہیں اس لئے کہ انہیں ان کی رغبت ہوتی ہے اور ان پر ملنے والی جزا کا انہیں علم ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس سے قول باری (وھم لھا سابقون) کی تفسیر میں فرمایا۔ سعادت یعنی خوش بختی ان کی طرف سبقت کرگئی ہے۔ “ دوسرے حضرات کا قول ہے۔” یہ لوگ اہل طاعات ہیں اور جنت کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ “ کچھ اور حضرات کا قول ہے۔ ” یہ لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (اُولٰٓءِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْْخَیْرٰتِ وَہُمْ لَہَا سٰبِقُوْنَ ) ” زندگی میں ان کی بھاگ دوڑ نیکیوں اور بھلائیوں کے لیے ہوتی ہے اور اس میدان میں وہ ہمیشہ دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :54 ( الف ) واضح رہے کہ آیت ٦۱ کا ترجمہ آیات ۵۷ سے پہلے کیا جاچکا ہے ۔ یہاں سے آیت ٦۲ کا ترجمہ شروع ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:61) اولئک۔ وہ لوگ جن کا ذکر آیات 57 ۔ 60 مذکورہ بالا میں ہوا ہے۔ سبقون۔ سبقت لے جانے والے۔ آگے بڑھنے والے۔ سبق سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ لھا میں ضمیر ھا کا مرجع الخیرات ہے۔ وہم لھا سبقون۔ اور وہ بھلائیوں کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں۔ بعض کے نزدیک لام تعلیل کا ہے اور لھا بمعنی لاجلہا ہے۔ یعنی ان بھلائیوں ہی کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں پر (قیامت کے روز) ثواب حاصل کرنے یا جنت پانے میں سبقت لے جانے والے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

14 ۔ یعنی جن میں یہ بیان کردہ چار صفات پائی جاتی ہیں۔ 15 ۔ معلوم ہوا کہ مسابقت کی چیزیں نیک اعمال اور نیک اخلاق ہیں نہ کہ مال واولاد۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53:۔ ” اُلئِکَ یُسَارِعُوْنَ الخ “ یہ مذکورہ بالا صفات سے متصف لوگوں کی طرف اشارہ ہے اور یہ ان کے لیے بشارت ہے یعنی یہ لوگ بیشک دنیا اور آخرت کی برکات حاصل کر رہے ہیں اور ان کے اعمال صالحہ رائیگاں نہیں جائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں شرف قبول عطا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ شرک جلی اور شرک خفی کی آمیزش سے پاک ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(61) یہی وہ لوگ ہیں جو دوڑ دوڑ کر بھلائیاں اور فائدے حاصل کررہے ہیں اور یہی لوگ ان بھلائیوں کی طرف بڑھ جانے والے ہیں۔ یعنی حقیقی فائدے تو وہ لوگ حاصل کررہے ہیں جو دین حق کے پیرو ہیں اپنے پروردگار کی ہیبت و جلالت سے ڈرتے ہیں۔ قرآن کریم کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے اور خیرات و صدقات بھی اپنی توفیق کے موافق کرتے ہیں اور باوجود صدقات و خیرات کے ان کے دل اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں یہی لوگ جلدی جلدی منافع حاصل کررہے ہیں اور یہی لوگ بھلائیوں کی طرف بڑھ جانے والے ہیں یعنی بھلائیوں کے یہ اہل حق ہی مالک ہیں نہ یہ کہ یہ کافر جن کے سامنے دنیا ہی دنیا ہے۔ یعلمون ظاھراً من الحیٰوۃ الدنیا۔ خیرات کے موقعہ پر دل کا خوف شاید اس وجہ سے ہو کہ نامعلوم صدقہ قبول ہوتا ہے یا نہیں۔ اچھے بندوں کا یہی شیوہ ہے کہ وہ نیکی کے بعد بھی ڈرتے ہیں۔ کانوا قلیلا من اللیل مایھجعون وبالا سحارھم یستغفرون۔ یعنی رات کو بہت کم سوتے ہیں اور کہ کم سونے پر بھی صبح سویرے استغفار کرتے ہیں یا یہ کہ رات کی عبادت کے قبول ہونے یا نہ ہونے پر صبح سویرے استغفار کرتے ہیں۔ بہرحال ! حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کیا جانیں وہاں قبول ہوا یا نہ ہوا آگے کام آوے نہ آوے دیتے ہیں یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ کفار مال اولاد کی زیادتی کو بھلائی سمجھتے ہیں اور اہل حق دین کے کاموں کو نفع اور فائدہ سمجھتے ہیں ان کو فقط دنیا میں عارضی فائدہ اور ان کو دنیا میں بھی بھلائی اور آخرت میں بھی مستقل بھلائی لہٰذا اصلی بھلائی کے اہل حق مستحق ہیں نہ دین حق کے منکر۔