Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 62

سورة المؤمنون

وَ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا وَ لَدَیۡنَا کِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۶۲﴾

And We charge no soul except [with that within] its capacity, and with Us is a record which speaks with truth; and they will not be wronged.

ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے ، ان کے اوپر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Justice of Allah and the Frivolity of the Idolators Allah tells; وَلاَ نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا ... And We task not any person except according to his capacity, Allah tells us of His justice towards His servants in this world, in that He does not task any person except according to his capacity, i.e., He does not burden any soul with more than it can bear. On the Day of Resurrection He will call them to account for their deeds, which He has recorded in a written Book from which nothing is omitted. He says: ... وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ ... and with Us is a Record which speaks the truth, meaning, the Book of deeds ... وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ and they will not be wronged. means, nothing will be omitted from their record of good deeds. As for evil deeds, He will forgive and overlook many of them in the case of His believing servants. Then Allah says, denouncing the disbelievers and idolators of the Quraysh:

آسان شریعت اللہ تعالیٰ نے شریعت آسان رکھی ہے ۔ ایسے احکام نہیں دئیے جو انسانی طاقت سے خارج ہوں ۔ پھر قیامت کے دن وہ اعمال کا حساب لے گا جو سب کے سب کتابی صورت میں لکھے ہوئے موجود ہوں گے ۔ یہ نامہ اعمال صحیح صحیح طور پر ان کا ایک ایک عمل بتادے گا ۔ کسی طرح کا ظلم کسی پر نہ کیا جائے گا کوئی نیکی کم نہ ہوگی ہاں اکثر مومنوں کی برائیاں معاف کردی جائیں گی ۔ لیکن مشرکوں کے دل قرآن سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں ۔ اس کے سوا بھی ان کی اور بد اعمالیاں بھی ہیں جیسے شرک وغیرہ جسے یہ دھڑلے سے کررہے ہیں ۔ تاکہ ان کی برائیاں انہیں جہنم سے دور نہ رہنے دیں ۔ چنانچہ وہ حدیث گزر چکی جس میں فرمان ہے کہ انسان نیکی کے کام کرتے کرتے جنت سے صرف ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے جو اس پر تقدیر کا لکھا غالب آجاتا اور بداعمالیاں شروع کردیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہنم واصل ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے آسودہ حال دولت مند لوگوں پر عذاب الٰہی آپڑتا ہے تو اب وہ فریاد کرنے لگتے ہیں ۔ سورۃ مزمل میں فرمان ہے کہ مجھے اور ان مالدار جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیجئے انہیں کچھ مہلت اور دیجئے ہمارے پاس بیڑیاں بھی ہیں اور جہنم بھی ہے اور گلے میں اٹکنے والا کھانا ہے اور دردناک سزا ہے ۔ اور آیت میں ہے ( كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ Ǽ۝ ) 38-ص:3 ) یعنی ہم نے ان سے پہلے اور بھی بہت سی بستیوں کو تباہ کردیا اس وقت انہوں نے واویلا شروع کی جب کہ وہ محض بےسود تھی ۔ یہاں فرماتا ہے آج تم کیوں شور مچا رہے ہو؟ کیوں فریاد کررہے ہو؟ کوئی بھی تمہیں آج کام نہیں آسکتا تم پر عذاب الٰہی آپڑے اب چیخنا چلانا سب بےسود ہے ۔ کون ہے ؟ جو میرے عذابوں کے مقالبے میں تمہاری مدد کرسکے؟ پھر ان کا ایک بڑا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ میری آیتوں کے منکر تھے انہیں سنتے تھے اور ٹال جاتے تھے ، بلائے جاتے تھے لیکن انکار کردیتے تھے توحید کا انکار کرتے تھے شرک پر عقیدہ رکھتے تھے حک تو بلندوبرتر اللہ ہی کا چلتا ہے مستکبرین دال ہے ان کے حق سے ہٹنے اور حق کا انکار کرنے سے آیت ہے کہ یہ اس وقت تکبر کرتے تھے اور حق اور اہل حق کو حقیر سمجھتے تھے ۔ اس معنی کی رو سے بہ کے ضمیر کا مرجع یا تو حرم ہے یعنی مکہ کہ یہ اس میں بیہودہ بکواس بکتے تھے ۔ یا قرآن ہے جسے یہ مذاق میں اڑاتے تھے کبھی شاعری کہتے تھے کبھی کہانت وغیرہ ۔ یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ راتوں کو بیکار بیٹھے ہوئے اپنی گپ شب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی شاعر کہتے ، کبھی کاہن کہتے ، کبھی جادوگر کہتے ، کبھی جھوٹا کہتے ، کبھی مجنون بتلاتے ۔ حالانکہ حرم اللہ کا گھر ہے قرآن اللہ کا کلام ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں جہنیں اللہ نے اپنی مدد پہنچائی اور مکے پر قابض کیا ۔ ان مشرکین کو وہاں سے ذلیل وپست کرکے نکالا ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ لوگ بیت اللہ کی وجہ سے فخر کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ وہ اولیاء اللہ ہیں حالانکہ یہ خیال محض وہم تھا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مشرکین قریش بیت اللہ پر فخر کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا مہتمم اور متولی بتلاتے تھے حالانکہ نہ اسے آباد کرتے تھے نہ اس کا صحیح ادب کرتے تھے امام ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں پر بہت کچھ لکھا ہے حاصل سب کا یہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

621ایسی ہی آیت سورة بقرہ کے آخر میں گزر چکی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] یعنی ہم نے احکام شریعت ایسے نازل نہیں کئے جو انسان کی مسباط سے باہر ہوں۔ شرعی احکام میں مصلحت کے جس پہلو کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ شرعی احکام بالعموم مسلمانوں کی اکثریت کے لئے اور نارمل حالات میں قابل عمل ہوتے ہیں۔ جب حالات بدل جائیں جو احکام میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کردی جاتی ہے پھر چونکہ یہ احکام ایک عام انسان کی استعداد یا قوت کار کو ملحوظ رکھ کردیئے جاتے ہیں۔ لہٰذاعام استعداد سے کم استعداد رکھنے والوں مثلاً بیماروں یا معذوروں کے لئے رخصت یا رعایت دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ نابالغ، مجنون وغیرہ سے شرعی احکام ویسے ہی ساقط کردیئے گئے ہیں۔ پھر معاشرہ میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ایک عام انسان کی استعداد سے زیادہ استعداد رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے وسیع میدان عمل کو سامنے لاکر اس حکم کی زیادہ سے زیادہ بجاآوری کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مثلاً ہر عاقل و بالغ مسلمان کو پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے اور نماز سے پہلے وضو یا طہارت بھی ضروری ہے تو حالات کے مطابق مراعات تو یہ ہیں کہ جسے وقت پر وضو کے لئے پانی دستیاب نہ ہو وہ تیمم کرسکتا ہے۔ بیمار کو اگر وضو کرنے سے بیماری بڑھنے یا کسی اور تکلیف کا خطرہ ہو تو وہ بھی تیمم کرسکتا ہے۔ صفر، خوف کی حالت میں نماز قصر بھی کرسکتا ہے اور دو نمازیں اکٹھی بھی پڑ سکتا ہے، نیز سفر کی حالت میں سواری پر بھی نماز ادا کرسکتا ہے۔ نیز اگر قبلہ یا وقت صحیح کی تعیین میں دقت ہو تو اندازہ سے کام لے سکتا ہے۔ بارش یا کسی اور معقول عذر کی وجہ سے مسجد نہیں جاسکتا تو گھر پر نماز ادا کرسکتا ہے۔ اور کم استعداد والوں کی مثال یوں سمجھئے کہ بیمار بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اگر زیادہ بیمار ہے تو لیٹے لیٹے ہی پڑھ سکتا ہے۔ اتنی بھی ہمت نہ رہی ہو تو اشارہ سے بھی ادا کرسکتا ہے۔ ایسا بیمار یا انتہائی بوڑھا جو مسجد تک جانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ مستقل طور پر اپنے گھر میں نماز ادا کرسکتا ہے۔ یہی اس جملہ کا مطلب ہے کہ && ہم کسی شخص کو اس کے مقدور سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے && اتنی مراعات کے باوجود پھر بھی کوئی شخص عمداً (نماز ادا نہیں کرتا تو وہ کافر ہوجائے گا اور اگر نماز کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔ اور جو لوگ زیادہ استعداد رکھتے ہیں۔ ان کے لئے فرضی نماز کے علاوہ نوافل تجویز کئے گئے ہیں۔ مثلاً ظہر کی نماز کی فرض رکعات صرف چار ہیں۔ ان چار رکعات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تطوعاً جو اضافہ کیا وہ ہمارے لئے سنت ہیں اور وہ چار رکعات فریضہ نماز سے پہلے ہیں اور دو بعد میں۔ پھر ان فرض اور سنت رکعات پر تطوعاً آخر میں مزید رکعات کا اضافہ ہوا جسے نفل کہتے ہیں اور ان پر مزید نوافل کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پھر کچھ نمازیں ایسی ہیں جو فرض کفایہ ہیں جیسے نماز جمعہ اور نماز جنازہ وغیرہ اور کچھ سنت ہیں جیسے تہجد کی نماز جو آپ~صل ٣~ پر تو فرض تھی مگر امت کے لئے سنت موکدہ ہے یا نماز تراویح اور کچھ نمازیں ہی نفلی ہیں مثلاً نماز چاشت، ادا بین اور شکرانہ کے نوافل اور کچھ نفل نمازیں حالات سے متعلق ہیں۔ جیسے نماز استسقائ، نماز کسوف اور خسوف وغیرہ یہ ہے وہ وسیع میدان جو ترقی درجات کا سبب بنتا ہے۔ پھر ایک نماز ہی کی یہ صورت نہیں۔ صدقات و خیرات بلکہ ہر رکن اسلام اور عمل صالح کی یہی صورت ہے کہ اس میں تطوعات کا وسیع میدان موجود ہے یہی وہ میدان ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ 61؀) 23 ۔ المؤمنون :61) اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرنا کوئی ایسی بات نہیں جو انسان کی بساط سے باہر ہو۔ کم از کم ہر انسان کو ایسا کرنے کی کوشش ضرور کرنا چاہئے۔ [٦٢] یعنی ہر انسان کے اعمال، افعال، اقوال حتیٰ کہ مال کے خیالات اور دل میں پیدا ہونے والے وساوس اور ارادے بھی ساتھ کے ساتھ ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ قرآن کی تصریح کے مطابق یہ قلم بندی کرنے والے دو معزز فرشتے ہوتے ہیں ایک انسان کے دائیں طرف، دوسرا بائیں طرف، پھر ان کی ڈیوٹیاں بھی فجر اور عصر کے وقت بدلتی رہتی ہیں موجودہ دور کی سائنسی ایجادات نے اس حقیقت کو بہت حد تک قریب الفہم بنادیا ہے کہ یہ باتیں از خود کس طرح ریکارڈ میں آجاتی ہیں۔ گویا ہر شخص کی زندگی کی مکمل ہسٹری شیٹ اللہ کے ہاں موجود رہتی ہیں اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات قلم بند ہونے سے رہ جاتی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی غلط اندراج ہوسکتا ہے (نیز دیکھئے سورة کہف کی آیت نمبر ٤٩) [٦٣] یعنی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کسی کو اس کے کام سے کم اجر ملے، نہ یہ کہ اس کے گناہ سے زیادہ سزا ملے۔ یا کسی کا جرم کسی دوسرے کے کھاتے میں چلا جائے۔ غرضیکہ کسی طرح کی زیادتی اور حق تلفی ممکن نہ ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۔۔ : یعنی ہم نے اپنے مومن بندوں کی جو صفات بیان کی ہیں، یہ ایسی نہیں ہیں کہ انسان کی وسعت اور گنجائش سے باہر ہوں اور وہ ان پر عمل نہ کرسکتا ہو۔ کیونکہ یہ ہمارا دستور ہی نہیں کہ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف دیں۔ اسی لیے جہاں عذر آتا ہے رخصت دے دی جاتی ہے۔ پانی نہیں تو تیمم کرلو، سفر ہے تو نماز قصر کرلو اور روزہ افطار کرلو، بیمار ہو تو بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھ لو، خوف ہے تو پیدل یا سوار ہی پڑھ لو، بھوک سے بےبس ہو تو بقدر ضرورت حرام کھالو، اگر نفس کی سرکشی سے نافرمانی ہوجائے تو توبہ کرکے پلٹ آؤ۔ پھر اتنی آسانیوں کے بعد بھی بےرخی اور سرکشی کی روش اپناؤ، تو یاد رکھو کہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے، جس میں تمہارا چھوٹا، بڑا، ظاہر اور مخفی ہر عمل محفوظ ہے۔ دیکھیے سورة کہف (٤٩) اور جاثیہ (٢٩) رازی نے فرمایا : ” کتاب کو انسان کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو بولتا ہے، کیونکہ کتاب تو بولتی نہیں، بلکہ جو اس میں لکھا ہوتا ہے اس کا اظہار کرتی ہے۔ “ مگر اب وڈیو کیمرے کے ذریعے سے کسی بھی شخص کے عمل کی تصویر بھی محفوظ ہوتی ہے اور آواز بھی۔ اس لیے اس تاویل کی ضرورت نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تو ہمارے خیال سے بھی کہیں بلند ہے، جس کے حکم سے چمڑے اور ہاتھ پاؤں بول کر سب کچھ بتائیں گے، اس کے حکم سے کتاب کا بولنا کون سا بعید ہے۔ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ : یعنی نہ کسی کو قصور کے بغیر سزا ملے گی، نہ کسی کا قصور دوسرے کے نامۂ اعمال میں درج ہوگا، نہ کسی عمل کی جزا میں کمی ہوگی اور نہ سزا میں زیادتی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا وَلَدَيْنَا كِتٰبٌ يَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝ ٦٢ كلف الْكَلَفُ : الإيلاع بالشیء . يقال : كَلِفَ فلان بکذا، وأَكْلَفْتُهُ به : جعلته كَلِفاً ، والْكَلَفُ في الوجه سمّي لتصوّر كُلْفَةٍ به، وتَكَلُّفُ الشیءِ : ما يفعله الإنسان بإظهار كَلَفٍ مع مشقّة تناله في تعاطيه، وصارت الْكُلْفَةُ في التّعارف اسما للمشقّة، والتَّكَلُّفُ : اسم لما يفعل بمشقّة، أو تصنّع، أو تشبّع، ولذلک صار التَّكَلُّفُ علی ضربین : محمود : وهو ما يتحرّاه الإنسان ليتوصّل به إلى أن يصير الفعل الذي يتعاطاه سهلا عليه، ويصير كَلِفاً به ومحبّا له، وبهذا النّظر يستعمل التَّكْلِيفُ في تكلّف العبادات . والثاني : مذموم، وهو ما يتحرّاه الإنسان مراء اة، وإياه عني بقوله تعالی: قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص/ 86] وقول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا وأتقیاء أمّتي برآء من التّكلّف» «1» . وقوله : لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] أي : ما يعدّونه مشقّة فهو سعة في المآل . نحو قوله : وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ [ الحج/ 78] ، وقوله : فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً الآية [ النساء/ 19] . ( ک ل ف ) الکلف ( س) کسی چیز پر شیفتہ ہونا محاورہ ہے ۔ کلف فلان بکذا ۔ فلان اس پر شفیتہ ہے ۔ اکلفتہ بہ میں نے اسے شیفتہ کردیا ۔ الکف ۔ ( ایضا ) چہرہ پر کے سیاہ دھبے ، چہرہ کی چھائیاں گویا اس پر کفلت کا اثر ظاہر ہے ۔ التکلف ۔ کوئی کام کرتے وقت شیفتگی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں شفقت پیش آرہی ہو اس لئے عرف میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو مشقت تصنع یا اوپرے جی سے دکھلادے کے لئے کہا جائے اس لئے تکلیف دو قسم پر ہے محمود اور مذموم اگر کسی کا م کو اس لئے محنت سے سر انجام دے کہ وہ کام اس پر آسان اور سہل ہوجائے اور اسے اس کام کے ساتھ شیفتگی اور محبت ہوجائے تو ایسا تکلف محمود ہے چناچہ اسی معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور اگر وہ تکلیف محض ریا کاری کے لئے ہو تو مذموم ہے ۔ چناچہ آیت : قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص/ 86] اور اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں ۔ میں تکلیف کے یہی معنی مراد ہیں اور حدیث میں ہے (99) انا واتقیاء امتی برآء من التکلف کہ میں اور میری امت کے پرہیز گار آدمی تکلف سے بری ہیں اور آیت ؛لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جن احکام کو یہ مشقت سمجھتے ہیں وہ مآل کے لحاظ سے ان کے لئے وسعت کا باعث ہیں جیسے فرمایا : وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ [ الحج/ 78] اور تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں کی اور تمہارے لئے تمہارے باپ ابراہیم کا دین پسند کیا ۔ اور نزی فرمایا ؛فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً الآية [ النساء/ 19] مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر/ 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو . ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔ نطق [ النُّطْقُ في التّعارُف : الأصواتُ المُقَطّعة التي يُظْهِرُها اللسّانُ وتَعِيهَا الآذَانُ ] . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] ولا يكاد يقال إلّا للإنسان، ولا يقال لغیره إلّا علی سبیل التَّبَع . نحو : النَّاطِقُ والصَّامِتُ ، فيراد بالناطق ما له صوت، وبالصامت ما ليس له صوت، [ ولا يقال للحیوانات ناطق إلّا مقيَّداً ، وعلی طریق التشبيه کقول الشاعر : 445- عَجِبْتُ لَهَا أَنَّى يَكُونُ غِنَاؤُهَا ... فَصِيحاً وَلَمْ تَفْغَرْ لِمَنْطِقِهَا فَماً ] «1» والمنطقيُّون يُسَمُّون القوَّةَ التي منها النّطقُ نُطْقاً ، وإِيَّاهَا عَنَوْا حيث حَدُّوا الإنسانَ ، فقالوا : هُوَ الحيُّ الناطقُ المَائِتُ «2» ، فالنّطقُ لفظٌ مشترکٌ عندهم بين القوَّة الإنسانيَّة التي يكون بها الکلامُ ، وبین الکلامِ المُبْرَزِ بالصَّوْت، وقد يقال النَّاطِقُ لما يدلُّ علی شيء، وعلی هذا قيل لحكيم : ما الناطقُ الصامتُ ؟ فقال : الدَّلائلُ المُخْبِرَةُ والعِبَرُ الواعظةُ. وقوله تعالی: لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] إشارة إلى أنّهم ليسوا من جِنْس النَّاطِقِينَ ذوي العقول، وقوله : قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : أراد الاعتبارَ ، فمعلومٌ أنَّ الأشياءَ كلّها ليستْ تَنْطِقُ إلّا من حيثُ العِبْرَةُ ، وقوله : عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] فإنه سَمَّى أصواتَ الطَّيْر نُطْقاً اعتباراً بسلیمان الذي کان يَفْهَمُهُ ، فمن فَهِمَ من شيء معنًى فذلک الشیء بالإضافة إليه نَاطِقٌ وإن کان صامتاً ، وبالإضافة إلى من لا يَفْهَمُ عنه صامتٌ وإن کان ناطقاً. وقوله : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] فإن الکتابَ ناطقٌ لکن نُطْقُهُ تُدْرِكُهُ العَيْنُ كما أنّ الکلام کتابٌ لکن يُدْرِكُهُ السَّمْعُ. وقوله : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : إن ذلك يكونُ بالصَّوْت المسموعِ ، وقیل : يكونُ بالاعتبار، واللهُ أعلمُ بما يكون في النَّشْأَةِ الآخرةِ. وقیل : حقیقةُ النُّطْقِ اللَّفْظُ الّذي هو كَالنِّطَاقِ للمعنی في ضَمِّهِ وحصْرِهِ. وَالمِنْطَقُ والمِنْطَقَةُ : ما يُشَدُّ به الوَسَطُ وقول الشاعر : 446- وَأَبْرَحُ مَا أَدَامَ اللَّهُ قَوْمِي ... بِحَمْدِ اللَّهِ مُنْتَطِقاً مُجِيداً «1» فقد قيل : مُنْتَطِقاً : جَانِباً. أي : قَائِداً فَرَساً لم يَرْكَبْهُ ، فإن لم يكن في هذا المعنی غيرُ هذا البیت فإنه يحتمل أن يكون أراد بِالمُنْتَطِقِ الذي شَدَّ النِّطَاقَ ، کقوله : مَنْ يَطُلْ ذَيْلُ أَبِيهِ يَنْتَطِقْ بِهِ «2» ، وقیل : معنی المُنْتَطِقِ المُجِيدِ : هو الذي يقول قولا فَيُجِيدُ فيه . ( ن ط ق ) عرف میں نطق ان اصات مقطعہ کو کیا جاتا ہے جو زبان سے نکلتی ہیں اور کان انہیں سنکر محفوظ کرلیتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ۔ یہ لفط بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لئے بالتبع استعمال ہوات ہے جیسے المال الناطق والصامت کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے جسیا کہ شاعر نے کہا ہے ( 430 ) عجبت لھا انی یکون غناؤ ھا فصیحا ولم تفعلو لنطقھا فما مجھے تعجب ہو ا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لئے منہ نہیں کھولا ۔ اہل منطق قوت گو یائی کو نطق کہتے ہیں جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے الحی الناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ناطق سے ان کی یہی مراد ہونی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطیقہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے کبھی ناطق کے معنی الدال علی الشئی کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم جب پوچھا گیا کہ الناطق الصامت کسے کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا لادلائل المخبرۃ والعبر ولوا عظۃ اور آیت کریمہ : ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتبار ی مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتا ناطق نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لحاظ سے نطق کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھا ہو تو وہ چیزخواہ صامت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی ۔ میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ کلام بھی ا یک کتاب ہے لیکن اس کا ادراک حاسہ سماعت سے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوقی مراد ہے ۔ اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے ۔ اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ معنی کو لپیٹنے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے ۔ المنطق والمنطقۃ کمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول ۔ (431) وابرح ما ادام اللہ قومی بحمداللہ منتطقا مجیدا جب تک میری قوم زندہ ہے ۔ میں بحمداللہ عمدگی شاعر رہوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے منتطقا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی میں گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا ہاں یہ اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا تو یہاں منطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمرپر نطاق باندھا ہوا ہو ۔ جیسا کہ مقولہ مشہو رہے ۔ ومن یطل ذیل ابیہ ینتطق بہ یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے ۔ تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ منتطق کے معنی عمدگو کے ہیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) اور ہم تو کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کام کرنے کو نہیں کہتے اور ہمارے پاس ایک دفتر نامہ اعمال کا محفوظ ہے جس میں ہر ایک کی نیکیاں اور برائیاں لکھی ہوئی ہیں جو ٹھیک ٹھیک عدل و انصاف کے ساتھ سب کا حال بتا دے گا اور ان کی نیکیوں میں کسی قسم کی کوئی کمی اور ان کی برائیوں میں کوئی ذرہ برابر اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (وَلَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا) ” یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ مثلاً سورة البقرۃ آیات : ٢٣٣ اور ٢٨٦ ‘ سورة الانعام آیت : ١٥٢ ‘ سورة الاعراف آیت : ٤٢ ‘ اور سورة الطلاق آیت : ٧ میں یہ مضمون ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ دہرایا گیا ہے۔ (وَلَدَیْنَا کِتٰبٌ یَّنْطِقُ بالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ) ” اس سے مراد ہر شخص کا اعمال نامہ اور اس کی زندگی بھر کے اعمال و افعال کی جزئیات و تفصیلات پر مشتمل ریکارڈ ہے۔ اس اعمال نامے کے مطابق انسان کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک عمل کا اس کی استطاعت اور صلاحیتوں کے مطابق جائزہ لے کر اس کے لیے جزا اور سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ آج کمپیوٹر کے دور میں اس تصور کو سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ چناچہ یوں سمجھ لیں کہ انسان کے جینز (genes) کے بارے میں تمام معلومات (جبلی صلاحیتوں) اور اس کے ماحولیاتی عوامل کی تفصیلات اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک سپر کمپیوٹر میں موجود ہیں۔ ماحول اور صلاحیتوں کی عطا کلی طور پر اللہ کی دین ہے ‘ اس میں انسان کے اپنے اختیار و انتخاب کا کچھ دخل نہیں۔ جینز اور ماحولیاتی عوامل وغیرہ مل کر انسان کا ’ شاکلہ “ تشکیل دیتے ہیں۔ (شاکلہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : بیان القرآن حصہ چہارم میں سورة بنی اسرائیل آیت ٨٤ کی تشریح۔ ) اللہ تعالیٰ کا سپر کمپیوٹر ہر شخص کے اعمال کو اس کی شخصیت کے شاکلہ کے ساتھ منطبق کر کے بتائے گا کہ اس کے شاکلہ میں کس عمل کے لیے کتنی استطاعت اور گنجائش تھی اور اس نے کس حد تک اس کی کوشش کی۔ اس حساب کتاب (evaluation) کے بعد یہ کمپیوٹر نتائج کا اعلان کرے گا ‘ جس کے لیے یہاں ” یَنْطِقُ بالْحَقِّ “ کے الفاظ آئے ہیں۔ سورة الکہف میں اس کیفیت کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے : (وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰہَاج وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ) ” اور رکھ دیا جائے گا اعمال نامہ ‘ چناچہ تم دیکھو گے مجرموں کو ڈرے ہوئے اس سے جو کچھ اس میں ہوگا ‘ اور وہ کہیں گے : ہائے ہماری شامت ! یہ کیسا اعمال نامہ ہے ؟ اس نے تو نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو ‘ مگر اس کو محفوظ کر کے رکھا ہے ‘ اور جو عمل بھی انہوں نے کیا ہوگا وہ اسے اپنے سامنے موجود پائیں گے ‘ اور آپ کا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55. The enunciation of this fundamental proposition, in the context in which it occurs, is very meaningful. In the preceding passage (verses 57-61), the characteristics of those people, who deserve true success, have been stated, and in this (verse 62), it has been made clear that those excellent qualities can be attained by anyone who tries to achieve true success, as if to say: The conditions We have laid down for true success are within the reach of those who strive for it, for “We do not lay a burden”. Therefore if you, O disbelievers, desire to achieve true success, you should follow the example of the believers from among yourselves, who have really attained it. 56. According to the Quran, an elaborate conduct book of every individual is being maintained accurately. This records every word he utters, every deed or act he performs, even every hidden thought and intention that he cherishes in his heart and mind. See also (Surah Al-Kahf, Ayat 49 and E.N. 46) thereof. 57. That is, neither a person will be accused of and punished for something he had not done, nor will he be deprived of the full reward of a good act that he had done.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :55 اس سیاق و سباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے دراصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں ۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے ، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت ، یہ اخلاق اور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے ۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں ۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے ۔ انسان کو تو مقدرت اس رویے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو ، اور اس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہل ایمان چل رہے ہیں ۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں امکانی رویوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے ۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو ، توکل اپنی اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا ۔ اس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہو گئے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :56 کتاب سے مراد ہے نامہ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے ، جس میں اس کی ایک ایک بات ، ایک ایک حرکت ، حتیٰ کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جا رہی ہے ۔ اسی کے متعلق سورہ کہف میں فرمایا گیا ہے کہ : وَ وُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُولُوْنَ یٰوَیْلَتَناً مَالِ ھٰذا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرِۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا ۔ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِراً وَلَا یَظُلِمُ رَبُّکَ اَحَداً ۔ O ، اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا ، پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہونگے کہ ہائے ہماری کم بختی ، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو ۔ جو جو کچھ انہوں نے کہا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے ، اور تمہارا رب کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔ ( آیت 49 ) ۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط کر دیا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :57 یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ درحقیقت قصور وار نہ ہو ، نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جسکے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو ، نہ کسی کو بیجا سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٢:۔ اوپر ان نیک لوگوں کا ذکر تھا جو نیک کاموں میں پیش قدمی کرتے ہیں ‘ اس آیت میں فرمایا ‘ اس پیش قدمی میں یہ تائید غیبی بھی ہے کہ شریعت کا کوئی کام اللہ تعالیٰ نے انسان کی طاقت سے باہر نہیں رکھا مثلا جو بیمار آدمی نماز میں کھڑا نہ ہو سکے تو اس کو بیٹھ کر نماز جائز ہے ‘ اسی طرح مسافر یا بیمار آدمی وقت پر روزے نہ رکھے ‘ تو کچھ گناہ نہیں ‘ پھر فرمایا ہر شخص کے ہر طرح کے عمل پہلے لوح محفوظ میں اور پھر نامہ اعمال میں لکھے گئے ہیں جس سے ہر شخص کو اپنے عملوں کا سچا سچا حال سزاو جزا کے وقت معلوم ہوجاوے گا اور سزاو جزاء کے وقت کسی پر یہ ظلم نہ ہوگا کہ نیک کا اجر گھٹا دیا جاوے یا جرم کی حیثیت سے سزا کی مقدار بڑھا دی جاوے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جو شخص اپنے نامہ اعمال میں کے لکھے ہوئے گناہوں کا انکار کرے گا تو اس کے ہاتھ پاؤں اعمال نامہ کی صداقت بطور گواہی کے بیان کریں گے ‘ صحیح مسلم ‘ ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی یہ حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے۔ اعمالنامہ میں سچا سچا حال لکھے جانے کا اور سزا وجزا کے وقت کسی پر کچھ ظلم نہ ہونے کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اعمال نامہ میں ایسا سچا حال لکھا جاتا ہے جس کی صداقت کو گواہی کے لیے آدمی کے ہاتھ پاؤں تیار ہوجاویں گے اور سزا وجزا کے وقت کسی پر کوئی ظلم اس سبب سے نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:62) کتب۔ سے مراد نامہ اعمال ہے۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے ویقولون یویلتنا مال ھذا الکتب لا یغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصھا (18:49) اور کہہ رہے ہوں گے ہائے ہماری کمبختی اس نوشتہ (نامہ اعمال) کو کیا ہوگیا ہے کہ اس نے (کوئی گناہ) چھوڑا ہی نہیں چھوٹا ہو یا بڑا۔ بعض نے اس سے مراد لوح محفوظ لیا ہے۔ ینطق۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ وہ کتاب بولتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ اور شریعت کے تمام احکام میں یہی اصول کار فرما ہے۔ (بقرہ :286) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لانکلف ‘ ہم بوجھ نہیں ڈالتے۔ ہم تکلیف نہیں دیتے (لدینا) ہمارے پاس ‘ (ینطق) بولتا ہے ‘(غمرۃ) بیخبر ی۔ غفلت۔ جہالت۔ سختی ‘(مترفی (مترفین) عیش پسند و خوشحال لوگ ‘ (یجئرون) وہ چیختے چلاتے ہیں ‘ (اعقاب (عقب) ایڑیاں ‘(تنکصون) تم الٹے پاؤں پھرجاتے ہو۔ (سامر) رات کو قصے گھڑ گھڑ کر سنانے والا ‘ (تھجرون) برے الفاظ سے یاد کرتے ہو ‘ لم یدبرو (غور نہیں کیا) (کارھون (ناپسند کرنے والے) ‘ خرج (معاوضہ ۔ بدلہ) ‘ لجوا (منہمک رہے۔ وہ اڑے رہے) مایتضرعون (وہ گڑ گراتے نہیں ہیں) ‘ مبلسون (حیران رہ جانے والے) تشریح : آیت نمبر 62 تا 77 : تمام انسانوں پر اللہ کا بہت بڑا کرم ہے کہ وہ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا جسے وہ اٹھا نہ سکیں وہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتا ‘ بار بار آگاہ اور خبردار کرتا رہتا ہے ‘ نصیحت و عبرت کے کسی پہلو کو نہیں چھوڑتا جسے وہ سامنے نہ رکھ دیتا ہو مگر کفر و شرک ‘ شک و شبہ اور غفلت و لاپرواہی میں ڈوبے ہوئے عیش پرست اور خوش حال لوگ برے انجام سے آنکھیں بند کر کے مدہوشی میں زندگی گذارتے رہتے ہیں جب ان کے مسلسل گناہوں اور زیادتیوں کی وجہ سے ان پر عذاب الہی ٹوٹ پڑتا ہے تو وہ اس سے حیران و پریشان رہ جاتے ہیں۔ اور وہ سوچتے ہیں کہ وہ باتیں جنہیں ہم بہت معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا کرتے تھے کیا واقعی ان کی اتنی زبردست اہمیت تھی کہ ان کی وجہ سے زندگی کی بنیادیں تک ہل جائیں گی۔ اگر وہ عذاب کی شدت سے پہلے توبہ کرلیتے ہیں تو ان پر رحم کردیا جاتا ہے۔ مگر ان کی ناشکری اور بےقدری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جب ان پر عذاب کی سختی کم ہوجاتی ہے تو وہ پھر سے اپنی اسی روش زندگی پر آجاتے ہیں۔ صد ‘ ہٹ دھرمی اور غفلت و لاپرواہی کا مظاہرہ شروع کردیتے ہیں۔ گذرے ہوئے برے اعمال سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے بجائے اسے وہ اپنی جدوجہد ‘ حسن تدبیر اور کوششوں کا نتیجہ قرار دینے لگتے ہیں۔ لیکن جب وہ گناہوں خطاؤں اور نافرمانیوں کی انتہاؤں پر پہنچنے کے باوجود اپنی غفلتوں سے باز نہیں آتے اور ایمان و عمل صالح میں میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے تب اللہ تعالیٰ ان کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ جس سے وہ رونے ‘ چلانے اور آہ وزاری کرنے لگتے ہیں۔ لیکن وقت گذرنے کے بعد ان کارونا ‘ چلانا ‘ فریاد کرنا بےکار ہوتا ہے۔ جس سے وہ رونے ‘ چلانے اور آہ وزاری کرنے لگتے ہیں ۔ لیکن وقت گذرنے کے بعد ان کا رونا ‘ چلانا ‘ فریاد کرنا بےکارہوتا ہے۔ فرمایا کہ یہ تو اس دنیا میں حال ہے آخرت میں جب یہ عیش پسند پہنچیں گے اور جہنم کی بھڑکتی آگ کو دیکھیں گے تو وہ اللہ کے سامنے روئیں گے ‘ گڑ گڑائیں گے اور ہر طرح کی فریاد کریں کے مگر اس وقت کا رونا ‘ چلانا ان کے کسی کا نہ آسکے گا اور آخرت میں ہر طرح کی خیر سے محروم رہیں گے۔ اس طرح وہ نہ صرف دنیا میں اللہ کا عذاب چکھیں گے بلکہ آخرت کے دائمی عذاب سے کس طرح چھٹکار انہ پاسکیں گے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر صحابہ کرام کو ہجرت کرنے کا حکم دیا اور بعد میں اللہ کے حکم سے آپ نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اس وقت اللہ نے اپنے رسول کو نظر انداز کرنے کی سزا یہ دی کہ ان پر شدید قحط کو مسلط کردیا یہ قحط اس قدر بھیانک تھا کہ مکہ والے درختوں کے پتے اور مرد ار جانور تک کھانے پر مجبور ہوگئے۔ بعد میں جب حضرت ابوسفیان (جو اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے ) نے مدینہ منور جاکر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس قحط کو دور کرنے کے لئے دعا کی درخواست کی تو اللہ نے اپنے نبی کی دعا کو قبول فرمایا اور مکہ والوں پر سے قحط ختم ہوا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ کفار اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آتے مگر دلوں میں نرمی کے بجائے وہ اپنی سابقہ ہٹ دھرمی پر اور سخت ہوگئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قصے کہانیاں سنانے والا قرار دے دیا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو شدید تنبہہ کی ہے کہ اگر وہ اپنی ان حرکتوں اور کفر و شرک سے با زنہ آئے تو ان کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گی۔ ان بنیادی باتوں کی طرف زیر مطالعہ ٓیات میں توجہ دلائی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اللہ کسی شخص پر اس کی ہمت و طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ فرمایا کہ ہمارے پاس ایک ایسی کتاب (نامہ اعمال) ہے جو بالکل ٹھیک ٹھیک بولتی ہے اور کسی پر کسی طرح کا ظلم اور زیادتی نہ ہوگی۔ بلکہ ان کے دل ہی غفلتوں اور شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت ہی برے کاموں میں مبتلارہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ہم ان میں خوش حال اور عیش پسند لوگوں کو گرفت میں لے کر ان پر عذاب نازل کریں گے تو وہ چلانا ‘ چیخنا اور فریاد کرنا شروع کردیں گے۔ اللہ کی طرف سے کہا جائے گا گا کہ اب تم مت چلائو کیونکہ آج تمہاری کوئی مدد نہ کی جائے گی۔ زندگی بھر تمہارا یہ حال رہا کہ جب بھی میری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی گئیں تو تم تکبر اور غرور سے الٹے پاؤں بھاگتے تھے اور کلام الہی کے متعلق نا مناسب باتیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ان سچائیوں کو ماننے کے بجائے نبی کو کہا نیاں سنانے والوں کی طرح بےحقیقت سمجھتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے پوچھا ہے کہ (1) کیا ان کے پاس کوئی ایسی کتاب آگئی ہے جو انوکھی اور نئی ہے جو ان کے باپ دادا کے پاس ہیں آئی تھی ؟ (2) یا وہ اللہ کے رسول کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ان کا انکار کرتے ہیں ؟ (3) کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس شخص پر جنون طاری ہے ؟ فرمایا کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اللہ کی طرف سے حق و صداقت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ وہ ہیں جنہیں سچی اور حق و صداقت سے بھر پور باتیں کڑوی لگتی ہیں۔ فرمایا کہ وہ یہ چاہتی ہیں کہ حق و صداقت کی جو بات بھی ہو وہ ان کی خواہشوں اور تمناؤں کے مطابق ہو۔ وہ جس طرح کرنا چاہیں اور جس بات کو جس طرح کہنا چاہیں وہی حق و صداقت کی آواز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہوجائے تو زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب کا سب تباہ و برباد ہو کر رہ جائے۔ کیونکہ یہ باطل پرست حق و صداقت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نبی کی لائی ہوئی تعلیمات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور عبرت و نصیحت کی کسی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اور اس سے منہ پھیر پھیر کر چلتے ہیں اور اپنی بد نصیبی کو آواز دیتے ہیں۔ فرمایا کہ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اللہ کے یہ نبی محض اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے ہر سچی بات کو پہنچا رہے ہیں اس پر ان سے کوئی بدلہ یا معاوضہ کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اسی طرح اللہ کے دین اور صراط مستقیم کی طرف بلاتے رہیے۔ وہ لوگ جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے وہ صراط مستقیم سے اس طرح ہٹتے جارہے ہیں کہ اگر ہم ان پر ان کے گناہوں کے باوجود رحم و کرم کی انتہا کردیں تو وہ اپنی گمراہی اور ضد میں اور زیادہ آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ فرمایا کہ جب وہ (کفار مکہ) عذاب میں مبتلا ہوئے (قحط پڑگیا تھا) تو انہوں نے کسی عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ نہیں کیا نہ وہ گڑ گڑائے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو ان پر اللہ کا بہت زیادہ کرم ہوتا۔ لیکن وہ اپنے برے اعمال میں لگے ہوئے ہیں۔ جب ان پر اللہ کے عذاب کا درازہ کھول دیا جائے گا تو وہ اچانک مایوس اور حیران و پریشان ہو کر رہ جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے کی ترغیب اور حکم دیا ہے لیکن کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کا حکم دیا ہے ایک دوسرے سے سبقت کرنے میں مشقت کا پہلو محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا ہے کہ مومنوں کو اس بات کی تسلی دی جائے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنا ہے مگر اپنے آپ پر اتنا بوجھ نہیں ڈالنا جس میں آدمی حد سے زیادہ تکلیف محسوس کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دین کے کسی کام میں انسان کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف اور بوجھ نہیں رکھا۔ انسان معمول کے مطابق نیکی کرے یا دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرے وہ جس نیت اور انداز سے نیکی کرتا ہے اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں لکھا جاتا ہے جسے شریعت کی زبان میں انسان کا اعمال نامہ کہا جاتا ہے۔ اعمال نامے کے بارے میں بتلایا ہے کہ وہ قیامت کے دن حق کے مطابق بولے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اعمال نامے کا بولنا ایک محاورہ بھی ہے جسے ہر زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے۔ مجرم کا ریکارڈ اس کے سامنے رکھ کر کہا جاتا ہے کہ اپنا اعمال نامہ پڑھ اس کا ایک ایک لفظ تیری کرتوتوں کی گواہی دے رہا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حقیقتاً دوسری شہادتوں کے ساتھ انسان کے اعمال نامہ کو گویائی کی قوت دی جائے اور اس کا ایک ایک لفظ بول کر انسان کے اچھے اور برے اعمال کے بارے میں گواہی دے۔ اگر آج ٹیپ ریکارڈر اور ڈیجیٹل قرآن کے ذریعے الفاظ بولتے ہیں تو قیامت کے دن اعمال نامہ کیوں نہیں بول سکتا ؟ انسانی اعضا بھی بول کر گواہی دیں گے۔ (حَتّٰی اِِذَا مَا جَاءُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) [ حٰم السجدۃ : ٢٠] ” یہاں تک کہ وہ اس تک پہنچ ہی جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم ان کے خلاف پر ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دَخَلَ عَلَیْہَا وَعِنْدَہَا امْرَأَۃٌ قَالَ مَنْ ہَذِہِ قَالَتْ فُلاَنَۃُ تَذْکُرُ مِنْ صَلاَتِہَا قَالَ مَہْ ، عَلَیْکُمْ بِمَا تُطِیقُونَ ، فَوَاللَّہِ لاَ یَمَلُّ اللَّہُ حَتَّی تَمَلُّوا وَکَانَ أَحَبَّ الدِّینِ إِلَیْہِ مَا دَامَ عَلَیْہِ صَاحِبُہُ ) [ باب أَحَبُّ الدِّینِ إِلَی اللَّہِ أَدْوَمُہُ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاں تشریف لائے اس وقت میرے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی آپ نے پوچھا یہ کون ہے حضرت عائشہ (رض) کہنے لگی یہ وہی عورت ہے جس کے کثرت نماز کے تذکرہ ہوتا ہے آپ نے فرمایا بہت اچھا مگر تم پر اتنی عبادت لازم ہے جس قدر تم طاقت رکھتی ہو۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ اجر دیتے ہوئے نہیں تھکتے تم اعمال کرتے کرتے تھک جاؤ گے۔ اللہ کے ہاں وہی عمل محبوب ہے جس پر عمل کرنے والا اس پر ہمیشگی اختیار کرے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی انسان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ ٢۔ قیامت کے دن انسان کا اعمال نامہ بول بول کر گواہی دے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہونے پائے گی۔ تفسیر بالقرآن دین میں تکلّف نہیں ہے : ١۔ دین میں جبر نہیں۔ (البقرۃ : ٢٥٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ (البقرۃ : ٢٨٦) ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں پر داروغہ نہیں بنایا گیا۔ (بنی اسرائیل : ٥٤) ٤۔ نبی کسی کو ہدایت کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔ (القصص : ٥٦) ٥۔ نبی کسی پر نگران نہیں ہوتا۔ (النساء : ٨٠) ٦۔ کیا آپ لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئیں۔ ( یونس : ٩٩) ٧۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے ذمے صرف پیغام پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ ( النحل : ٨٢) ٨۔ رسول کا کام اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ ( العنکبوت : ١٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولا نکلف لا یظلمون (آیت نمبر ٢٦) اللہ نے انسان کچھ فرائض عائد کیے ہیں ، لیکن اللہ نے یہ فرائض اور تکالیف انسانی استعداد کے مطابق عائد کی ہیں۔ اور یہ بات اللہ خوب جانتا ہے کہ انسان اس کی مخلوق ہے اور حساب بھی اللہ اس عمل کالے گا جو ان کے حد استطاعت میں ہو۔ اللہ انسانوں پر یہ ظلم نہیں کرتا تا کہ ان پر اس قدر بوجھ لاد دے جس کو وہ اٹھا نہیں سکتے۔ نہ اللہ ان کے اعمال میں سے کسی بھی چیز کو چھوڑدے گا یا ساقط کردے گا۔ جو بھی وہ کریں گے اس کا حساب درج ہوگا۔ ینطق بالحق (٢٣ : ٦٢) ” ٹھیک ٹھیک بتا دے گی “۔ ہر چیز کو وہ کھول کر رکھ دے گی ۔ اللہ بہترین حساب کرنے والا ہے۔ پھر لوگ غفلت کیوں کرتے ہیں ؟ ٹھیک ٹھیک بتا دے گی “۔ ہر چیز کو وہ کھول کر رکھ دے گی۔ اللہ بہترین حساب کرنے والا ہے۔ پھر لوگ غفلت کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ ان کے دل حقیقت سے بیخبر ہیں۔ ان میں وہ روشنی داخل ہی نہیں ہوئی جو دلوں کو زندہ کردیتی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اس روشنی کو چھوڑ کر دوسرے کاموں مین مشغول ہوگئے ہیں اور اپنی ان مشغولیات میں بہت ہی آگے جاچکے ہیں جس وقت انہیں ہوش آئے گا تو ان کے سامنے عذاب الیم ہوگا اور اس عذاب کے ساتھ توبیخ اور سرزنش بھی ہوگی اور ان کو ایک حقارت انگیز سلوک کا سا منا کرنا ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ ” وَ لَا نُکَلِّفُ الخ “ جملہ معترضہ ہے دنیا اور آخرت کی برکات و خیرات حاصل کرنے کے لیے ہم کسی کو اس کی وسعت و طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ تمام اعمال سیئہ سے اجتناب کرو اور حسب طاقت اعمال صالحہ بجا لاؤ۔ ” وَلَدَیْنَا کِتٰب الخ “۔ کتاب اسم جنس ہے اور اس سے اعمالنامے مراد ہیں اور یہ تخویف اخروی ہے یعنی ہمارے پاس تمہارے اعمال کا مکمل ریکارڈ موجود ہے اس لیے سب کو ان کے اعمال کی پوری پوری جزاء ملے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) اور ہم کسی شخص کو اس کی وسعت اور قوت برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس اعمالوں کی ایک ایسی کتاب ہے جو ٹھیک ٹھیک اور سچ سچ سب کے اعمال بتادیتی ہے اور وہ لوگ ذرا بھی ظلم نہیں کئے جائیں گے یعنی شرعی احکام اور شریعت کے کام ایسے مشکل نہیں جو کسی شخص کی طاقت سے باہرہوں بلکہ یہ دین تو بڑا آسان اور سہل ہے الدین یسر ہر عزیمت کے ساتھ رخصت اور آسانی موجود ہے۔ کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے یا ہر شخص کانامۂ عمل مراد ہے جب نامہ عمل پڑھا جائے گا تو وہ بالکل درست ہوگا اور جو کچھ کسی نے کیا ہے وہ سب صحیح صحیح سامنے آئے گا۔ جب ہر چیز کتاب میں ٹھیک ٹھیک ہے تو کسی کے ساتھ ناانصافی کا شبہ نہیں ہوسکتا نہ کسی کے ثواب میں کمی ہوگی اور نہ کسی کے جرم میں اضافہ ہوگا۔