55. The enunciation of this fundamental proposition, in the context in which it occurs, is very meaningful. In the preceding passage (verses 57-61), the characteristics of those people, who deserve true success, have been stated, and in this (verse 62), it has been made clear that those excellent qualities can be attained by anyone who tries to achieve true success, as if to say: The conditions We have laid down for true success are within the reach of those who strive for it, for “We do not lay a burden”. Therefore if you, O disbelievers, desire to achieve true success, you should follow the example of the believers from among yourselves, who have really attained it.
56. According to the Quran, an elaborate conduct book of every individual is being maintained accurately. This records every word he utters, every deed or act he performs, even every hidden thought and intention that he cherishes in his heart and mind. See also (Surah Al-Kahf, Ayat 49 and E.N. 46) thereof.
57. That is, neither a person will be accused of and punished for something he had not done, nor will he be deprived of the full reward of a good act that he had done.
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :55
اس سیاق و سباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے دراصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں ۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے ، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت ، یہ اخلاق اور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے ۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں ۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے ۔ انسان کو تو مقدرت اس رویے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو ، اور اس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہل ایمان چل رہے ہیں ۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں امکانی رویوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے ۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو ، توکل اپنی اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا ۔ اس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہو گئے ۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :56
کتاب سے مراد ہے نامہ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے ، جس میں اس کی ایک ایک بات ، ایک ایک حرکت ، حتیٰ کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جا رہی ہے ۔ اسی کے متعلق سورہ کہف میں فرمایا گیا ہے کہ : وَ وُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُولُوْنَ یٰوَیْلَتَناً مَالِ ھٰذا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرِۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا ۔ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِراً وَلَا یَظُلِمُ رَبُّکَ اَحَداً ۔ O ، اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا ، پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہونگے کہ ہائے ہماری کم بختی ، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو ۔ جو جو کچھ انہوں نے کہا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے ، اور تمہارا رب کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔ ( آیت 49 ) ۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط کر دیا ہے ۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :57 یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ درحقیقت قصور وار نہ ہو ، نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جسکے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو ، نہ کسی کو بیجا سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا ۔