Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 66

سورة المؤمنون

قَدۡ کَانَتۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تَنۡکِصُوۡنَ ﴿ۙ۶۶﴾

My verses had already been recited to you, but you were turning back on your heels

میری آیتیں تو تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں پھر بھی تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے بھاگتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Indeed My Ayat used to be recited to you, but you used to turn back on your heels. meaning, when you were called, you refused and resisted. ذَلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِىَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَـفَرْتُمْ وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُوْمِنُواْ فَالْحُكْمُ للَّهِ الْعَلِـىِّ الْكَبِيرِ "This is because, when Allah Alone was invoked, you disbelieved, but when partners were joined to Him, you believed! So the judgment is only with Allah, the Most High, the Most Great!" (40:12) مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

661یعنی قرآن مجید یا کلام الٰہی، جن میں پیغمبر کے فرمودات بھی شامل ہیں۔ 662یعنی آیا احکام الٰہی سن کر تم منہ پھیر لیتے تھے اور ان سے بھا گتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] یہ عذاب دراصل ان کے اپنے ہی اعمال کی شامت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ انھیں جب اللہ کی آیات سے نصیحت کی جاتیتھی اور برے انجام سے ڈرایا جاتا تھا تب تو وہ ایسی باتوں کو سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے اور اب جب سر سے پانی چرھ گیا تو پھر چیخنے چلانے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ كَانَتْ اٰيٰتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ ۔۔ : ” نَکَصَ “ (ض، ن) عموماً کسی خیر کے کام سے پیچھے ہٹنے کو کہتے ہیں۔ ابن عباس (رض) نے ” تَنْكِصُوْنَ “ کا معنی ” تُدْبِرُوْنَ “ (پلٹتے تھے) بیان فرمایا ہے۔ (طبری) یعنی یہ عذاب تمہارے اپنے اعمالِ بد ہی کا نتیجہ ہے کہ میری آیات جب تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو تم ایڑیوں کے بل پھرجاتے تھے، تمہیں سننا تک گوارا نہ تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ كَانَتْ اٰيٰتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَ۝ ٦٦ۙ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ عقب العَقِبُ : مؤخّر الرّجل، وقیل : عَقْبٌ ، وجمعه : أعقاب، وروي : «ويل للأعقاب من النّار» «1» واستعیر العَقِبُ للولد وولد الولد . قال تعالی: وَجَعَلَها كَلِمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف/ 28] ، وعَقِبِ الشّهر، من قولهم : جاء في عقب الشّهر، أي : آخره، وجاء في عَقِبِه : إذا بقیت منه بقيّة، ورجع علی عَقِبِه : إذا انثنی راجعا، وانقلب علی عقبيه، نحو رجع علی حافرته «2» ، ونحو : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وقولهم : رجع عوده علی بدئه «3» ، قال : وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام/ 71] ، انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران/ 144] ، وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] ، فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون/ 66] . وعَقَبَهُ : إذا تلاه عقبا، نحو دبره وقفاه، ( ع ق ب ) ب والعقب پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اعقاب ہے حدیث میں ہے ویلمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف/ 28] وضو میں خشک رہنے والی ایڑیوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عقب کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے ۔ جاء فی عقب الشھر مہنے کے آخری دنوں میں آیا ۔ رجع علٰی عقیبہ الٹے پاؤں واپس لوٹا ۔ انقلب علٰی عقیبہ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا جیسے : ۔ رجع علٰی ھافرتہ کا محاورہ ہے اور جیسا کہ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے لوٹ گئے ۔ نیز کہا جاتا ہے ۔ رجع عودہ علٰی بدئہ یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ ایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام/ 71] تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائیگا ۔ ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] تو پسپا ہوکر چل دیا ۔ فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون/ 66] اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے ۔ نكص النُّكُوصُ : الإِحْجَامُ عن الشیء . قال تعالی: نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] . ( ن ک ص ) النکوص ( ن ض ) کسی چیز سے پیچھے ہٹنا ۔ قرآن پاک میں ہے : نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] تو پسپاہوکر چل دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٦۔ ٦٧) قرآن حکیم تمہیں پڑھ کر سنایا جایا کرتا تھا اور تمہارے سامنے پیش کیا جاتا تھا تو تم اپنے پہلے دین کی طرف لوٹتے تھے اور بیت اللہ شریف کی وجہ سے خود کو بڑا سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس کے زیادہ حق دار ہیں اور کہتے تھے مشغلہ اس کے چاروں طرف ہے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) اور قرآن کریم کی شان میں تم لوگ بیہودہ باتیں بکتے تھے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ مستکبرین بہ “۔ (الخ) اب ابی حاتم (رح) نے سعید بن جبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش قوم بیت اللہ کے گرد قصے کہانیاں کہا کرتی تھی اور طواف نہیں کرتی تھی اور پھر اس پر فخر کرتے چناچہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

62. That is to say, in the worldly life you did not pay any heed to what the Messenger said. Nay, you did not even like to hear his voice.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :62 یعنی اس کی بات سننا تک تمہیں گوارا نہ تھا ۔ یہ تک برداشت نہ کرتے تھے کہ اس کی آواز کان میں پڑے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:66) تتلی۔ مضارع مجہول واحد مؤنث غائب۔ تلاوۃ سے۔ تلو مادہ یہاں واحد بمعنی جمع آیا ہے۔ یعنی جب ہماری آیتیں تمہاری سامنے پڑھی جاتی تھیں۔ تنکصون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم بھاگتے ہو۔ تم پھرے جاتے ہو۔ نکوص ہے باب ضرب) النکوض (باب ضرب ونصر) کسی چیز سے پیچھے ہٹنا۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے نکص علی عقبیہ (8 ۔ 48) تو پسپا ہو کر چل دیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ اب یہاں پر ان کا سب سے بڑا گناہ بیان کیا ہے (ابن کثیر) یہ ترجمہ اس صورت میں ہے کہ ” بہ “ کی ضمیر قرآن یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قرار دی جائے اور ” ھجر “ کے معنی بکواس کرنا اور ” سامرا “ کے معنی گپ شپ کرنے والے لوگ (جمع) لئے جائیں اور اگر ” سامرا “ کے معنی افسانہ گو (واحد) اور ” ھجر “ کے معنی چھوڑنا کئے جائیں (جیسا کہ شاہ عبد القادر (رح) نے لئے ہیں) تو ترجمہ یوں ہوگا۔ ” تو تم اس (پیغمبر) سے (یا حرم کی مج اوری پر) اکڑ کر ایک افسانہ گو کو چھوڑتے ہوئے اپنی ایڑیوں کے بل الٹے بھاگتے تھے “۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” قریش کی عادت تھی کہ رات کے وقت خانہ کعبہ کے پاس حلقے بنا کر بیٹھتے اور قرآن اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بیہودہ بکواس کرتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر، کاہن وغیرہ کہتے۔ اس لئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو رات کے وقت ہر قسم کی گپ بازی سے منع فرما دیا۔ (مختصر از شوکانی و قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنم میں داخل کیے جانے والے مجرموں کے جرائم۔ جہنم میں داخل کیے جانے والے لوگ چلائیں اور چیخ و پکار کریں گے لیکن ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ کیونکہ دنیا میں جب ان لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے فرامین پڑھے جاتے تھے تو یہ تکبر کی وجہ سے الٹے منہ پھرجاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو داستان گوئی اور بےہودگی کے انداز میں لیتے تھے ” سامراً “ کا معنٰی ہے کہ ” رات کے وقت سوتے ہوئے قصہ کہانیاں اور داستان گوئی کرنا “ گویا کہ منکرین حق اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور فرامین کو قصے کہانیوں سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتے۔ تکبر اور یاواگوئی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے اعراض کرتے ہیں۔ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِيْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِيْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔ “ مسائل ١۔ مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کی وجہ سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ٢۔ مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو بےہودہ اور داستان گوئی کے انداز میں لیتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57:۔ ” قَدْکَانَتْ الخ “ یہ ماقبل کی علت ہے تنکصون ای ترجعون، مستکبرین، تنکصون کے فاعل سے حال ہے۔ بہ کی ضمیر قرآن مجید سے کنایہ ہے جو ” آیاتی “ سے مفہوم ہورہا ہے۔ ” سٰمرًا “ ، ” تَھجرون “ کا مفعول بہ مقدم ہے۔ ” سامر “ سے واعظ اور قاری قرآن مراد ہے جو قرآن پڑھ کر تمہیں سناتا اور توحید کی تبلیغ کرتا ہے یعنی آج تمہاری مدد نہیں کی جائے گی کیونکہ پہلے تمہارا یہ حال تھا کہ ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی تھیں تو تم استکبار کرتے تھے اور آیتیں سنانے والے کو چھوڑ کر اور پیٹھ پھیر کر چلے جاتے تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(66) بلاشبہ میری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائی جاتی تھیں اور میری آیتیں تم پر تلاوت کی جاتی تھیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل اس طرح لوٹ جاتے تھے۔