Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 68

سورة المؤمنون

اَفَلَمۡ یَدَّبَّرُوا الۡقَوۡلَ اَمۡ جَآءَہُمۡ مَّا لَمۡ یَاۡتِ اٰبَآءَہُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۫۶۸﴾

Then have they not reflected over the Qur'an, or has there come to them that which had not come to their forefathers?

کیا انہوں نے اس بات میں غور و فکر ہی نہیں کیا ؟ بلکہ ان کے پاس وہ آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آیا تھا ؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Refutation and Condemnation of the Idolators Allah says; أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءهُم مَّا لَمْ يَأْتِ ابَاءهُمُ الاَْوَّلِينَ Have they not pondered over the Word, or has there come to them what had not come to their fathers of old, Allah denounces the idolators for not understanding the Qur'an or contemplating its meaning, and for turning away from it, even though they had been addressed specifically in this Book which Allah did not reveal to any Messenger more perfect and noble, and especially since no Book or warner had come to their forefathers who had died during the Jahiliyyah. What these people, upon whom the blessing had been bestowed, should have done, was to accept it and give thanks for it, and try to understand it and act in accordance with it night and day, as was done by the wise ones among them who became Muslim and followed the Messenger, may Allah be pleased with them. أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ ... Have they not pondered over the Word, Qatadah said, "Because, by Allah, if the people had pondered the meaning and understood it properly, they would have found in the Qur'an a deterrent to disobeying Allah. But they only paid attention to the Ayat which are not entirely clear, and so they were destroyed because of that." Then Allah says, denouncing the disbelievers of the Quraysh: أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ

قرآن کریم سے فرار اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس فعل پر اظہار کر رہا ہے جو وہ قرآن کے نہ سمجھنے اور اس میں غور وفکر نہ کرنے میں کررہے تھے اور اس سے منہ پھیر لیتے تھے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے ان پر اپنی وہ پاک اور برتر کتاب نازل فرمائی تھی جو کسی نبی پر نہیں اتاری گئی ، یہ سب سے اکمل اشرف اور افضل کتاب ہے ان کے باپ دادے جاہلیت میں مرے تھے جن کے ہاتھوں میں کوئی الہامی کتاب نہ تھی ان میں کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا ۔ تو انہیں چاہے تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مانتے کتاب اللہ کی قدر کرتے اور دن رات اس پر عمل کرتے جیسے کہ ان میں کے سمجھ داروں نے کیا کہ وہ مسلمان متبع رسول ہوگئے ۔ اور اپنے اعمال سے اللہ کو راضی رضامند کردیا ۔ افسوس کفار نے عقلمندی سے کام نہ لیا ۔ قرآن کی متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑ کر ہلاک ہوگئے ۔ کیا یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے نہیں؟ کیا آپ کی صداقت امانت دیانت انہیں معلوم نہیں ؟ آپ تو انہی میں پیدا ہوئے انہی میں پلے انہی میں بڑے ہوئے پھر کیا وجہ ہے کہ آج اسے جھوٹا کہنے لگے جسے اس سے پہلے سچا کہتے تھے ؟ دوغلے ہو رہے تھے ۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شاہ حبش نجاشی رحمتہ اللہ علیہ سے سر دربار یہی فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین وحدہ لاشریک نے ہم میں ایک رسول بھیجا ہے جس کا نسب جس کی صداقت جس کی امانت ہمیں خوب معلوم تھی ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسریٰ سے بوقت جنگ میدان میں یہی فرمایا تھا ابو سفیان صخر بن حرب نے شاہ روم سے یہی فرمایا تھا جب کہ سردربار اس نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے پوچھا تھا ۔ حالانکہ اس وقت تک وہ مسلمان بھی نہیں تھے لیکن انہیں آپ کی صداقت امانت دیانت سچائی اور نسب کی عمدگی کا اقرار کرنا پڑا کہتے تھے اسے جنون ہے یا اس نے قرآن اپنی طرف سے گھڑلیا ہے حالانکہ بات اس طرح سے نہیں ۔ حقیت صرف یہ ہے کہ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں یہ قرآن پر نظریں نہیں ڈالتے اور جو زبان پر آتا ہے بک دیتے ہیں قرآن تو وہ کلام ہے جس کی مثل اور نظیر سے ساری دنیا عاجز آگئی باوجود سخت مخالفت کے اور باجود پوری کوشش اور انتہائی مقالبے کے کسی سے نہ بن پڑا کہ اس جیسا قرآن خود بنا لیتا یا سب کی مدد لے کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاتا ۔ یہ تو سراسر حق ہے اور انہیں حق سے چڑ ہے پچھلا جملہ حال ہے اور ہوسکتا ہے کہ خبریہ مستانفعہ ، واللہ اعلم ۔ مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہوجا اس نے کہا اگرچہ مجھے یہ ناگوار ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں اگرچہ ناگوار ہو ایک روایت میں ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں ملا آپ نے اس سے فرمایا اسلام قبول کر اسے یہ برا محسوس ہوا اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا دیکھو اگر تم کسی غیرآباد خطرناک غلط راستے پر چلے جا رہے ہو اور تمہیں ایک شخص ملے جس کے نام نسب سے جس کی سچائی اور امانت داری سے تم بخوبی واقف ہو وہ تم سے کہے کہ اس راستے پر چلو جو وسیع آسان سیدھا اور صاف ہے بتاؤ تم اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلوگے یانہیں؟ اس نے کہا ہاں ضرور آپ نے فریاما بس تو یقین مانو قسم اللہ کی تم اس دن بھی سخت دشوار اور خطرناک راہ سے بھی زیادہ بری راہ پر ہو اور میں تمہیں آسان راہ کی دعوت دیتا ہوں میری مان لو ۔ مذکور ہے کہ ایک اور ایسے ہی شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاجب کہ اس نے دعوت اسلام کا برا منایا بتاتو؟ اگر تیرے دوساتھی ہوں ایک تو سچا امانت دار دوسرا جھوٹا خیانت پیشہ بتاؤ تم کس سے محبت کروگے اس نے کہا سچے امین سے فرمایا اسی طرح تم لوگ اپنے رب کے نزدیک ہو حق سے مراد بقول سدی رحمتہ اللہ علیہ خود اللہ تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اگر انہی کی مرضی کے مطابق شریعت مقرر کرتا تو زمینوں آسمان بگڑ جاتے جیسے اور آیت میں کہ کافروں نے کہا ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے شخص کے اوپر یہ قرآن کیوں نہ اترا اس کے جواب میں فرمان ہے کہ کیا اللہ کی رحمت کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں ہے اور آیت میں ہے کہ اور اگر انہیں ملک کے کسی حصے کا مالک بنا دیا ہوتا تو کسی کو ایک کوڑی بھی نہ پرکھاتے ۔ پس ان آیتوں میں جناب باری تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ انسانی دماغ مخلوق کے انتظام کی قابلیت میں نااہل ہے یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ اس کی صفتیں اس کے فرمان اس کے افعال اس کی شریعت اس کی تقدیر اس کی تدبیر تمام مخلوق کو حاوی ہے اور تمام مخلوق کی حاجت بر آری اور ان کی مصلحت کے مطابق ہے اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے نہ پالنہار ہے پھر فرمایا اس قرآن کو ان کی نصیحت کے لئے ہم لائے اور یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں پھر ارشاد ہے کہ تو تبلیغ قرآن پر ان سے کوئی اجرت نہیں مانگتا تیری نظریں اللہ پر ہیں وہی تجھے اس کا اجر دے گا جیسے فرمایا جو بدلہ میں تم سے مانگو وہ بھی تمہیں ہی دیا میں تو اجر کا طالب صرف اللہ ہی سے ہوں ۔ ایک آیت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اعلان کردو کہ نہ میں کوئی بدلہ چاہتا ہوں نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں اور جگہ ہے کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا ۔ صرف قرابت داری کی محبت کا خواہاں ہوں ۔ سورۃ یاسین میں ہے کہ شہر کے دور کے کنارے سے جو شخص دوڑا ہوا آیا اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں نبیوں کی اطاعت کرو جو تم سے کسی اجر کے خواہاں نہیں یہاں فرمایا وہی بہترین رازق ہے ۔ تو لوگوں کو صحیح راہ کی طرف بلارہا ہے مسند امام احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے جو دو فرشتے آئے ایک آپ کے پاؤں میں بیٹھا دوسرا سر کی طرف پہلے نے دوسرے سے کہا ان کی اور دوسروں کی امت کی مثالیں بیان کرو اس نے کہا ان کی مثال ان مسافروں کے قافلے کی مثل ہے جو ایک بیابان چٹیل میدان میں تھے ان کے پاس نہ توشہ تھا نہ دانہ پانی نہ آگے بڑھنے کی قوت نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت حیران تھے کہ کیا ہوگا اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ ایک بھلا آدمی ایک شریف انسان عمدہ لباس پہنے ہوئے آرہا ہے اس نے آتے ہی ان کی گھبراہٹ اور پریشانی دیکھ کر ان سے کہا کہ اگر تم میرا کہامانو اور میرے پیچھے چلو تو میں تمہیں پھلوں سے لدے ہوئے باغوں اور پانی سے بھرے حوضوں پر پہنچادوں ۔ سب نے اس کی بات مان لی اور اس نے انہیں فی الواقع ہرے بھرے تروتازہ باغوں اور جاری چشموں میں پہنچا دیا یہاں ان لوگوں نے بےروک ٹوک کھایا پیا اور آسودہ حالی کی وجہ سے موٹے تازہ ہوگئے ایک دن اس نے کہا دیکھو میں تمہیں اس ہلاکت وافلاس سے بچا کریہاں لایا اور اس فارغ البالی میں پہنچایا ۔ اب اگر تم میری مانو تو میں تمہیں اس سے بھی اعلیٰ باغات اور اس سے طیب جگہ اور اس سے بھی زیادہ جگہ لہردار نہروں کی طرف لے چلوں اس پر ایک جماعت تو تیار ہوگئی اور انھوں نے کہا ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن دوسری جماعت نے کہاہمیں اور زیادہ کی ضرورت نہیں بس یہیں رہ پڑے ۔ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہیں اپنی باہوں میں سمیٹ کرتمہاری کمریں پکڑ پکڑ کر جہنم سے روک رہا ہوں ۔ لیکن تم پرنالوں اور برساتی کیڑوں کی طرح میرے ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گر رہے ہو کیا تم یہ چاہتے ہو؟ کہ میں تمہیں چھوڑ دوں؟ سنو میں تو حوض کوثر پر بھی تمہارا پیشوا اور میرسامان ہوں ۔ وہاں تم اکا دکا اور گروہ گروہ بن کر میرے پاس آؤگے ۔ میں تمہیں تمہاری نشانیوں علامتوں اور ناموں سے پہچان لونگا ۔ جیسے کہ ایک نو وارد انجان آدمی اپنے اونٹوں کو دوسروں کے اونٹوں سے تمیز کرلیتا ہے ۔ میرے دیکھتے ہوئے تم میں سے بعض کو بائیں طرف والے عذاب کے فرشتے پکڑ کرلے جانا چاہیں گے تو میں جناب باری تعالیٰ میں عرض کروں گا ۔ کہ اے اللہ یہ میری قوم کے میری امت کے لوگ ہیں ۔ پس جواب دیا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ انہیں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالیں تھیں؟ یہ آپ کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل لوٹتے ہی رہتے ۔ میں انہیں بھی پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اپنی گردن پر بکری لئے ہوئے آئے گا جو بکری چیخ رہی ہوگی وہ میرا نام لے کر آوازیں دے رہا ہوگا ۔ لیکن میں اس سے صاف کہہ دوں گا کہ میں اللہ کے سامنے تجھے کچھ کام نہیں آسکتا میں نے تو اللہ کی باتیں پہنچا دی تھیں ۔ اسی طرح کوئی ہوگا جو اونٹ کو لئے ہوئے آئے گا جو بلبلا رہا ہوگا ۔ ندا کرے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!میں کہہ دوں گا کہ میں اللہ کے ہاں تیرے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتا میں نے تو حق بات تمہیں پہنچا دی تھی ۔ بعض آئیں گے جن کی گردن پر گھوڑا سوار ہوگا جو ہنہنا رہا ہوگا وہ بھی مجھے آواز دے گا اور میں یہی جواب دوں بعض آئیں گے اور مشکیں لادے ہوئے پکاریں گے یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں کہوں گا تمہارے کسی معاملہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ میں تو تم تک حق بات پہنچا چکا تھا ۔ امام علی بن مدینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی حدیث کی سند ہے توحسن لیکن اس کا ایک راوی حفص بن حمید مجہول ہے لیکن امام یحییٰ بن ابی معین نے اسے صالح کہا ہے اور نسائی اور ابن حبان نے بھی اسے ثقہ کہا ہے ۔ آخرت کا یقین نہ رکھنے والے راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ جب کوئی شخص سیدھی راہ سے ہٹ گیا تو عرب کہتے ہیں نکب فلان عن الطریق ۔ ان کے کفر کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے سختی کو ہٹادے انہیں قرآن سنا اور سمجھا بھی دے تو بھی یہ اپنے کفر وعناد سے ، سرکشی اور تکبر سے باز نہ آئیں گے ۔ جو کچھ نہیں ہوا وہ جب ہوگا تو کس طرح ہوگا اس کا علم اللہ کو ہے ۔ اس لئے اور جگہ ارشاد فرمایا دیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان میں بھلائی دیکھتا تو ضرور انہیں اپنے احکام سناتا اگر انہیں سناتا بھی تو وہ منہ پھیرے ہوئے اس سے گھوم جاتے یہ توجہنم کے سامنے کھڑے ہو کر ہی یقین کریں گے اور اس وقت کہیں گے کاش کہ ہم لوٹا دئیے جاتے اور رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور یقین مند ہوجاتے ۔ اس سے پہلے جو چھپا تھا وہ اب کھل گیا ۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ لوٹابھی دئیے جائیں تو پھر سے منع کردہ کاموں کی طرف لوٹ آئیں گے ۔ پس یہ وہ بات ہے جو ہوگی نہیں لیکن اگر ہو تو کیا ہو؟ اسے اللہ جانتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ لو سے جو جملہ قرآن کریم میں ہے وہ کبھی واقع ہونے والا نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

681بات سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی اس میں غور کرلیتے تو انھیں اس پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہوجاتی۔ 682یعنی ان کے پاس وہ دین اور شریعت آئی ہے جس سے ان کے آباؤ اجداد زمانہ جاہلیت میں محروم رہے۔ جس پر انھیں اللہ کا شکر ادا کرنا اور دین اسلام کو قبول کرلینا چاہیے تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] یعنی اگر لوگ قرآن اور اس کی آیات میں غور کرتے تو انھیں باسانی معلوم ہوسکتا تھا کہ اس میں وہی باتیں مذکور ہیں تو سابقہ تمام انبیاء کی تعلیم وہی ہے اور جنہیں ان کے آباء و اجداد بھی سنتے رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی تعلیم تو ہے نہیں۔ پھر آخر ان کے اس طرح بدلنے کی کیا وجہ ہے ؟ بلکہ اگر وہ سنجیدگی سے اس میں غور کرتے تو انھیں خوب معلوم ہوجاتا کہ یہ کلام طعن وتشنیع کے نہیں۔ تعریف کے قابل ہے۔ جس میں سراسر حکمت بھری ہوئی ہے اور کلام بھی ایسا فصیح وبلیغ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ ۔۔ : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزیں بیان فرمائی ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی بھی سبب ہوتا تو کفار کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان نہ لانا معقول تھا، مگر جب ان میں سے کوئی بات بھی نہیں تو ان کے پاس انکار، تکبر اور مذاق اڑانے کا کوئی عذر نہیں۔ اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ : یعنی کیا ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انھوں نے سمجھا نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں، قرآن کوئی پہیلی نہیں، کسی ایسی زبان میں نہیں جو ان کی سمجھ سے باہر ہو۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو آدمی کی سمجھ سے بالا ہو، وہ اس کی ایک ایک بات کو سمجھتے ہیں۔ مخالفت اس لیے نہیں کر رہے کہ انھوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور انھیں سمجھ نہیں آیا، بلکہ اس لیے مخالفت کر رہے ہیں کہ وہ ماننا نہیں چاہتے۔ اَمْ جَاۗءَهُمْ مَّا لَمْ يَاْتِ اٰبَاۗءَهُمُ الْاَوَّلِيْنَ : یعنی یا ان کے انکار کی یہ وجہ ہے کہ اس نے کوئی نرالی بات پیش کی ہے جو کبھی کسی کے سننے ہی میں نہیں آئی ؟ ظاہر ہے یہ بات بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء ہمیشہ آتے رہے ہیں، یہ کوئی پہلا رسول نہیں۔ فرمایا : (قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ ) [ الأحقاف : ٩ ] ” کہہ دیجیے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں۔ “ ان کے گرد و پیش عراق، شام اور مصر میں کئی انبیاء آئے ہیں، ان کی اپنی سرزمین میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) آئے، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) آئے۔ یہ خود ان کو سچے رسول مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ مشرک نہ تھے، بلکہ توحید کی دعوت لے کر آئے تھے۔ غرض ان کے انکار کی وجہ یہ بھی نہیں کہ ان کے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کوئی انوکھی بات ہے۔ تنبیہ : قرآن میں جہاں یہ ذکر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں کی طرف بھیجا گیا جن کے آباء کی طرف کوئی رسول نہیں آیا، وہاں مراد قریب زمانے میں رسول کا نہ آنا ہے اور یہاں مراد بعید زمانے میں رسول کا آنا ہے، جو ان کے بھی علم میں ہے، کیونکہ ابراہیم، اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) کو وہ لوگ بھی رسول مانتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verses 68, 69 and 70 mention five reasons which might possibly have prevented the unbelievers from accepting the faith brought by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and also give a rebuttal of each of these causes. Thus on the one hand all the arguments advanced by the infidels for not accepting the true faith have been demolished, and on the other hand there are compelling grounds and irrefutable evidence which should convince any right minded person of his error and persuade him to accept the message brought by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Their persistence in their unbelief is, therefore, the result of their unreasoning hatred towards and blind prejudice against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to which a reference has been made in the latter part of the verse (Instead, the fact is that he has come to them with truth, but it is the truth that most of them dislike - 23:70). In other words, there being no valid and rational ground for repudiating the mission of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) their opposition may be explained by their dislike of truth and their unwillingness to pay heed to its message. This, no doubt is due to their love for undisputed power and their reluctance to share it with anyone else.

اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ سے اَمْ يَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ تک ایسی پانچ چیزوں کا ذکر ہے جو مشرکین کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے کسی درجہ میں مانع ہو سکتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک وجہ کے منفی ہونے کا بیان اس کے ساتھ کردیا ہے۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ جو وجوہ ان لوگوں کے لئے ایمان سے مانع ہو سکتی تھیں ان میں سے کوئی بھی وجہ موجود نہیں اور ایمان لانے کے لئے جو اسباب و وجوہ داعی ہیں وہ سب موجود ہیں اس لئے اب ان کا انکار خالص عناد اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں جس کا ذکر اس کے بعد کی آیت میں اس طرح فرمایا ہے بَلْ جَاۗءَهُمْ بالْحَقِّ وَاَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ ۔ یعنی انکار رسالت کی کوئی عقلی یا طبعی وجہ تو موجود نہیں پھر انکار کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق بات لے کر آئے ہیں اور یہ لوگ حق بات ہی کو برا سمجھتے ہیں سننا نہیں چاہتے جس کا سبب ہوا، وہ ہوس کا غلبہ اور جاہلوں کو جو ریاست و اقتدار حاصل ہے اس کی محبت اور جاہلوں کی تقلید ہے۔ یہ پانچ وجوہ جن کا ذکر ایمان اور اقرار بالنبوت سے مانع ہونے کی حیثیت میں کیا گیا ہے ان میں ایک یہ بھی بیان فرمائی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَلَمْ يَدَّ بَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَاۗءَہُمْ مَّا لَمْ يَاْتِ اٰبَاۗءَہُمُ الْاَوَّلِيْنَ۝ ٦٨ۡ دبر والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور، ( د ب ر ) دبر ۔ التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨) کیا ان لوگوں نے اس قرآن کریم میں اور جو کچھ اس میں وعیدیں بیان کی گئی ہیں غور نہیں کیا یا ان مکہ والوں کے لیے امن و برأت کی کوئی دستاویز آگئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَ ہُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَ ہُمُ الْاَوَّلِیْنَ ) ” تو کیا وحی کا نازل ہونا اور رسول ( علیہ السلام) کا من جانب اللہ مبعوث ہونا انہیں اس لیے عجیب لگ رہا ہے کہ ان کے باپ دادا یعنی بنو اسماعیل ( علیہ السلام) پر اس سے پہلے کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ان کی طرف اس سے پہلے کوئی نبی ( علیہ السلام) آیا تھا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64. That is, do they mean to imply that they reject the message because they do not understand it? Whereas the Quran is not an enigma, nor is it being presented in an incomprehensible language, nor does it deal with themes and subjects which are beyond human understanding. The fact is that they understand everything it presents, but they oppose and reject it, because they have no intention to follow and believe what it presents. 65. That is, is the Quran presenting something which they had never heard before? No, that is not so. Allah had been sending His messages through His Prophets, who came to Arabia and in the adjoining lands and they are well acquainted with them, especially with Prophets Abraham and Ismael, and Houd, Saleh and Shoaib (peace be upon them all), who are acknowledged by them as Prophets of God, and who were not idol worshipers but enjoined the worship of One God. For further explanation, see (E.N. 84 of Surah Al-Furqan), (E.N. 5 of Surah As-Sajdah )and (E.N. 35 of Surah Saba).

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :64 یعنی کیا ان کے اس رویے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں اس لیے وہ اسے نہیں مانتے ؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں ہے ۔ قرآن کوئی چیستان نہیں ہے ، کسی ناقابل فہم زبان میں نہیں ہے ۔ کسی ایسے مضمون اور موضوع کلام پر مشتمل نہیں ہے جو آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہو ۔ وہ اس کی ایک ایک بات اچھی طرح سمجھتے ہیں اور مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ پیش کر رہا ہے اسے نہیں ماننا چاہتے ، نہ اس لیے کہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور سمجھ میں نہ آیا ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :65 یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک نرالی بات پیش کر رہا ہے جس سے انسانی کان کبھی آشنا ہی نہ ہوئے تھے ؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ بھی نہیں ہے ۔ خدا کی طرف سے انبیاء کا آنا ، کتابیں لے کر آنا ، توحید کی دعوت دینا ، آخرت کی باز پرس سے ڈرانا ، اور اخلاق کی معروف بھلائیاں پیش کرنا ، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تاریخ میں آج پہلی مرتبہ رونما ہوئی ہو ، اور اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا ہو ۔ ان کے گرد و پیش عراق ، شام اور مصر میں انبیاء پر انبیاء آئے ہیں جنہوں نے یہی باتیں پیش کی ہیں اور یہ لوگ اس سے ناواقف نہیں ہیں ۔ خود ان کی اپنی سر زمین میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام آئے ، ہود اور صالح اور شعیب علیہم السلام آئے ، ان کے نام آج تک ان کی زبانوں پر ہیں ، ان کو یہ خود فرستادہ الٰہی مانتے ہیں ، اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ خدائے واحد کی بندگی سکھاتے تھے ۔ اس لیے درحقیقت ان کے انکار کی یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ ایک بالکل ہی انوکھی بات سن رہے ہیں جو کبھی نہ سنی گئی تھی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الفرقان ، حاشیہ 84 ۔ السجدہ ، حاشیہ 5 ۔ سباء ، حاشیہ 35 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٨۔ ٧٥:۔ سورة الانعام میں گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ نسل ابراہیمی میں اپنے آپ کو زیادہ عقل مند سمجھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ اگر ہم لوگوں کی ہدایت کے لیے کوئی آسمانی کتاب نازل ہوتی تو ہم پہلے لوگوں سے بڑھ کر راہ راست پر آتے ‘ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ١ ؎ میں ابوسفیان (رض) اور ہرقل بادشاہ روم کا جو قصہ ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ نبی ہونے سے پہلے مشرکین مکہ اللہ کے رسول کو بہت سچا آدمی جانتے تھے ‘ صحیح ٢ ؎ بخاری کے حوالہ سے جبیر بن مطعم کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے، جس میں محمد بن جبیر کے باپ نے کہا جب میں نے سورة والطور سنی تو میرا دل بےقابو ہوگیا۔ سورة الانعام کی آیتوں اور اوپر کی حدیثوں کو ان آیتوں کے ساتھ لانے کا یہ مطلب ہوا کہ نہ تو قرآن ایسی نئی آسمانی کتاب ہے کہ اس سے پہلے کسی بشر پر آسمانی کتاب کا نازل ہونا ان مشرکین مکہ کے کانوں تک نہ پہنچا ہو ‘ نہ اللہ کے رسول ایسے اوپرے ہیں جن کے سچ چھوٹ سے یہ لوگ واقف نہ ہوں اور نہ قرآن ایسا کلام ہے جو دیوانے لوگوں کے کلام کی طرح بےٹھکانے ہو ‘ بلکہ یہ تو ایسا کلام ہے جس کے سننے سے ان میں کے اکثر لوگوں کے دل بےقابو ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے بڑوں کے طریقہ کو چھوڑ کر قرآن کے پیرو بن جاتے ہیں ‘ حاصل یہ ہے کہ ان باتوں میں سے کوئی بات نہیں بلکہ بات فقط اتنی ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق دوزخی ٹھہر چکے ہیں ‘ حاصل یہ ہے کہ ان باتوں میں سے کوئی بات نہیں بلکہ بات فقط اتنی ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق دوزخی ٹھہر چکے ہیں ‘ اس لیے وہ قرآن کی نصیحت کو نہ دھیان سے سنتے ہیں ‘ نہ ان کو سچی بات اچھی معلوم ہوتی ہے ان کو تو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی خواہش کے موافق دنیا میں شرک جائز ہوجائے ‘ یہ نہیں جانتے کہ اگر ایسا ہو تو جس طرح دنیا کے دو بادشاہوں کے شراکت کی بادشاہت کا انتظام بگڑ جاتا ہے ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا بھی کوئی شریک ہوتا تو تمام عالم کا انتظام خراب ہوجاتا ‘ پھر فرمایا کہ یہ لوگ قرآن کو پچھلے لوگوں کی کہانیاں جو کہتے ہیں قرآن تو ایسا نہیں ہے بلکہ قرآن میں تو ان لوگوں کی عقبیٰ کے درست ہوجانے کی نصیحت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو لوگ بدبخت ٹھہر چکے ہیں وہ اس نصیحت کو دھیان سے نہیں سنتے ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے قرآن کی نصیحت پر اجرت بھی تو نہیں مانگتے جو یہ لوگ قرآن کی نصیحت سے گھبراتے ہیں ‘ تمہاری اجرت تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ رکھی ہے کیونکہ ساری مخلوقات کی پرورش اسی کے ذمہ ہے ‘ پھر فرمایا ‘ ان میں جو لوگ عقبی کے منکر ہیں وہ عقبیٰ کی بہبودی کے سیدھے راستہ کو چھوڑ کر ٹیڑھا راستہ چلتے ہیں ‘ پھر فرمایا ‘ ان لوگوں کو سرکشی کے سبب سے مکہ میں جو قحط پڑا ‘ اگر اللہ اپنی رحمت سے اس قحط کو رفع کردے تو ان لوگوں کی شرارت تو یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ قحط کے رفع ہوتے ہی پھر یہ لوگ سرکشی کی وہی بہکی ہوئی باتیں کرنے لگیں گے ‘ صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود کی روایت کے حوالہ سے مکہ کے قحط کا قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قریش نے جب بہت سرکشی شروع کی تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے حق میں بددعا کی جس کے اثر سے مکہ میں بہت سخت قحط پڑا ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے صحیح قول ٣ ؎ کے موافق آخری آیت میں مختصر طور پر اسی قحط کا ذکر ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب اول حدیث) (٢ ؎ دیکھئے اوائل صحیح بخاری۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن جریر ص ٤٥ ج ٨ ا )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:68) افلم یدبروا القول۔ میں ہمزہ استفہام انکاری کا وقت ہے۔ ف کلام سابقہ پر عطف کے لئے ہے۔ ای افعلوا ما فعلوا من النکوص والاستکبار والھجر فلم یتدبروا القران لیعلموا بما فیہ۔ کیا ان کا آیات قرآنی سن کر پھرجانا اور تولیت کعبہ پر تکبر وفخر کرنا اور اپنی شبانہ مجلسوں میں قرآن اور فرمان رسول کے متعلق ہرزہ سرائی کرنا (محض جہالت اور ضد کی بنا پر تھا) اور انہوں نے قرآن اور فرمان رسول پر کچھ بھی تدبر نہ کیا۔ القول سے مراد القرآن اور ارشادات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ لم یدبروا۔ فعل مضارع نفی حجد بلم کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس کا مصدر تدبر (تفعل) ہے اصل میں یتدبروا تھا۔ کیا انہوں نے غور نہیں کیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ پس یہاں ” القول “ سے مراد قرآن ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : افلا یتدبرون القران۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے۔ (نساء :82) یعنی اگر غور کرتے تو صاف معلوم ہوجاتا کہ قرآن سچی کتاب۔ 7 ۔ یعنی قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں ہے بلکہ اس میں وہی باتیں ہیں جو اللہ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر زمانہ میں لاتے رہے ہیں۔ یہاں ” اباء ھم الاولین “ سے مراد پہلی امتیں ہیں۔ کیونکہ عربوں کے آباء کے متعلق تو تصریح موجود ہے کہ ان کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ (یٰٓس :6)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مراد اس سے احکام الہیہ کا آنا ہے بذریعہ رسل کے مطلب یہ کہ یہ بات بھی نہیں ہوئی کہ ان رسول پر یہ وحی جدید آئی ہو، بلکہ شرائع و رسولوں کے ذریعے سے ہمیشہ سے نازل ہوتے آئے ہیں، پس تکذیب کی یہ وجہ بھی باطل ٹھہری۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افلم یدبرو لنکبون (آیت نمبر ٦٨ تا ٧٤) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو تعلیمات پیش کی ہیں اگر ان پر کوئی ذرا بھی غور کرے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ان سے منہ پھیرے کیونکہ اس کلام میں بہت ہی خوبصورتی ، بہت کی کمال ، بہت ہی جازبیت ہے۔ اس کی تعلیمات نہایت ہی فطری اور انسانی عقل و وجدان کے مطابق ہیں ۔ اس میں دل دماغ کی غذا موجود ہے ، ان کا رحجان بہت ہی تعمیری ہے۔ یہ جو نظام و قانون پیش کرتی ہیں وہ نہایت ہی مستحکم ہے ۔ ان پوری تعلیمات کو دیکھ رکر انسانی فطرت ان کو تسلیم کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ منکرین نے اس کلام پر تدبر ہی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس سے منہ مورتے ہیں۔ افلم ید بر و القول (٢٣ : ٨ ٦) تو کیا انہوں نے کبھی اس کلام پر غور نہیں کیا۔ ام جاء ھم ھم الاولین (٢٣ : ٦٨) ” یا وہ کوئی ایسی بات لایا ہے جو کبھی ان کے اسلاف کے پاس نہ آئی تھی “۔ یا یہ بات کہ پغمبر کا بھیجنا ان کے اور ان کے آباء کی روایات میں کوئی مانوس بات نہیں ہے ۔ ان کی رویات میں بات نہیں ہے کہ کوئی رسول آئے یا ان کے سامنے کوئی کلمہ توحید جیسے افکار و نظریات پیش کرے۔ رسولوں کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ رسول پے در پے آتے ہیں اور تمام رسولوں نے یہی تعلیم دی ہے جو نبی آخر الزمان دے رہے ہیں اور ان رسولوں میں سے کئی کے بارے میں وہ معلومات بھی رکھتے ہیں۔ ام لم یعرفوا رسولھم فھم لہ منکرون (٢٣ : ٦٩) ” یا یہ اپنے رسول کبھی واقف نہ تھے اور اب یہ اس سے بد کتے ہیں “۔ یعنی ان کے امراض کا یہ سبب بھی نہیں ہوسکتا کہ جو رسول آیا ہے اس سے ان کی جان پہچان نہیں ہے ۔ وہ تو اس رسول کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کی شخصیت کو جانتے ہیں۔ اس کے نصب کو جانتے ہیں ، وہ اس کی ذات وصفات سے اچھی طرح با خبر ہیں۔ وہ یقین سے جانتے ہیں کہ وہ صادق و امین ہیں اور رسالت سے پہلے ہی خود انہوں نے ان کو صادق وامین کے لقب سے نوازا تھا ۔ ام یقولون بہ جنۃ (٢٣ : ٧٠) ” یا یہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ مجنوں ہے “۔ ان میں سے بعض بیوقوف آپ پر یہ الزام لگاتے تھے لیکن یہ محض الزام تھا ، دل سے تو وہ بھی جانتے تھے کہ وہ عاقل اور کامل سے کیونکہ پوری زندگی میں انہوں نے اس کے حوالے سے کسی لغزش کا نہ سنا تھا۔ مذکورہ بالا شبہات میں سے کسی شبہ کی کوئی گنجائش تو نہ تھی تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ حق کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ سچائی کو ناپسند کرتے تھے کیونکہ جو سچائی آپ لائے تھے وہ ان سے وہ باطل اقدار چھین رہی تھی جن میں وہ زندگی بسر کرتے تھے جن کو وہ مقدس سمجھتے تھے اور یہ سچائی ان کی خواہشات نفس اور ان کی زندگیوں میں رچی بسی اور جمی ہوئی عادات کے خلاف تھی۔ بل جاء ھم بالحق و اکثر ھم للحق کرھون (٢٣ : ٧٠) بلکہ وہ حق لایا ہے اور حق ہی ان کی اکثریت کو ناگوار ہیـــ“۔ سچائی تو سچائی ہوتی ہے۔ وہ ان کی خواہشات کے ساتھ بدل نہیں سکتی۔ سچائی پر تو زمین و آسمان کا قیام ہے ۔ اس کائنات پر نافذ ہونے والا ناموس دراصل حق ہے۔ اسی ناموس اور اسی حق کے مطابق یہ کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والی تما موجود ات چل رہی ہیں۔ ولو اتبع الحق فیھن (٢٣ : ٧١) ” اور حق اگر ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ حق ایک ہے اور ثابت ہے۔ خواہشات تو ہر انسان کی جدا جدا ہوتی ہے ، بدلتی رہتی ہیں۔ یہ پوری کائنات حق پر چلتی ہے اور اسکی چالایک ہے۔ اس کا اصول اور ناموس نہیں بدلتا ۔ اور نہ کسی عارض خواہشات کے مطابق اس ناموس میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے۔ اگر کائنات کا یہ نظام لوگوں کی تمنائوں اور بدلتی ہوئی خواہشات کے تابع ہوجائے اور لوگوں کی عارضی خواہشات کے پیچھے چلنے لگے تو دنیا کا یہ پورا نظام فساد پذیر ہوجائے۔ لوگوں کے حالات اور طریقے بگڑ جائیں ۔ اقدامات حیات اور حسن و فتح کے بدل جائیں۔ اگر کوئی خوش ہوتا ہے تو اقدار ہوتے ہن اور کوئی خفا ہوتا تو اقدار و پیمانے اور ہوتے۔ اسی طرح لوگوں کے پیمانے ان کی پسند ناپسند ، رغبت اور خوف ، خوشی اور غم کے مختلف حالات میں بھی بدلتے رہتے ہیں کیونکہ انسانی مزاج ایک حال میں نہیں رہتا۔ اس پر عوارض آتے رہتے ہیں جبکہ حق اپنی جگہ قائم رہتا اور یہ نظام کائنات اور اس کے مقاصد یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ان کے نظام میں ثبات ، یکجہتی اور تسلسل قائم رہے اور نہایت ہی پختہ اور قابل تغیر ضوابط کے مطابق یہ کائنات چلے اور تغیرات اور بےیقینی سے اس کا نظام پاک ہو۔ اس کائنات کا نظام چونکہ حق پر ہے اور اس کو حق کے مطابق ہی چلایا جا رہا ہے ۔ چناچہ انسانی زندگی کو چلانے کے لیے بھی اللہ نے ایک سچائی پر مشتمل ضابطہ مقرر کردیا گیا ہے ۔ یہ ضابطہ بھی اس ذات نے مقرر کیا ہے جو اس پوری کائنات کو چلارہی ہے۔ جس طرح کائنات کا ضابطہ اٹل ہے اسی طرح یہ انسانی ضابطہ بھی اٹل ہے کیونکہ انسان بھی کائنات کا ایک جز ہے تاکہ انسانی طرز عمل اور اس کائنات کی رفتار کے درمیان ہم آہنگی ہو۔ اس لیے حق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات کا شارع ہی انسانی ضابطہ حیات کا شارع اور مصنف ہو تاکہ انسان کی چلت کائنات کی چلت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اگر انسانوں کی زندگی کی ضابطہ بندی ان کی خواہشات پر چھوڑدی جائے تو انسانوں کی زندگی کا نظام فسا پذیر ہوجائے گا اور اس میں خلل واقع ہوجائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

58:۔ ” افلم یدبروا الخ “ یہ زجر ہے یہ لوگ حق کا انکار کیوں کرتے ہیں اور ضد پر کیوں اڑے ہوئے ہیں کیا ان لوگوں نے قرآن میں غور و فکر نہیں کیا اور مسئلہ توحید کی حقیقت کو نہیں سمجھا ؟ ” ام جاءھم الخ “ یا یہ مسئلہ توحید کوئی نئی بات ہے جس کی دعوت ان کے باپ دادا کو بھی نہیں پہنچی ؟۔ ” ام لم یعرفوا الخ “ یا وہ اب تک پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیانت و امانت، صدق، مقا۔ اور حسن فعال سے بھی نہیں پہچان سکے ؟ ” ام یقولون بہ جنۃ “ یا وہ اس خیال سے نہیں مانتے کہ وہ پیغمبر (علیہ السلام) کو عیاذا باللہ مجنون سمجھتے ہیں ؟ ان آیتوں میں مشرکین کے لیے تاکید زجر و توبیخ ہے اور ہر جگہ استفہام انکاری ہے جس سے مشرکین کے خیالات کی برائی اور شناعت کا اظہار مقصود ہے۔ الھمزۃ لانکار الواقع و استقباحہ (روح) مذکورہ بالا امور میں سے کوئی ایک بھی مشرکین کے انکار کی وجہ نہیں تھا بلکہ ان سے پہلے حضرت اسمعیل کے ذریعہ ان کے باپ دادا کو بھی اس کی دعوت پہنچ چکی تھی۔ وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دیانت و امانت اور آپ کی سچائی کو بھی خوب جان چکے تھے اور انہیں یہ بھی خوب معلوم تھا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت ہی دانا اور دانشمند ہیں اور اعلی درجہ کی عقل و فراست کے مالک ہیں اس لیے ان کے انکار کی اصل وجہ ضد و حسد اور بغض وعناد تھی قال سفیان بلی قد عرفوہ ولکنھم حسدوہ (قرطبی ج 12 ص 140) ۔ ” اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ“ جنون ولیس کذالک لانھم یعلمون انہ ارجحھم عقلا واثبتھم ذھنا (مدارک ج 3 ص 95) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(68) کیا ان لوگوں نے اس کلام میں غور نہیں کیا اور عقل و تدبر سے کام نہیں لیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آگئی ہے جو ان کے پہلے باپ دادوں کے پاس نہ آئی تھی یعنی یہ لوگ جو قرآن کریم کی اور صاحب قرآن کریم کی تکذیب کررہے ہیں کیا انہوں نے کلام الٰہی میں غور نہیں کیا جو ان پر اس کلام کا اعجاز ہونا ظاہر ہوتا اور اس کو کلام الٰہی سمجھ کر اس پر ایمان لاتے یا اس قرآن کریم کا اس رسول پر نازل ہونا کوئی ایسی انوکھی اور نئی چیز ہے کہ اس رسول سے پہلے نہ کوئی سول آیا اور نہ لوگوں کی ہدایت کے لئے کوئی صحیفہ نازل ہوا اور جب رسولوں کا آنا اور رسول کے قاصدوں کا پہنچنا ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور نصیحت کرنے والے اور صحائف آسمانی اور احکامِ آسمانی کا نزول ہر دور میں ہوا ہے تو پھر یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے جس کا انکار کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ محض ضد اور تعصب سے کام لیتے ہیں یہی جہالت اور غفلت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بات دھیان نہیں کی یعنی قرآن کریم میں فکر نہیں کرتے اور نصیحت کرنے والے ہمیشہ ہوتے رہے ہیں پیغمبر ہوتے یا پیغمبر کے تابع ہوتے۔ 12