66. That is, do they reject the message because Muhammad (peace be upon him), who is inviting them to it, is a stranger among them? No, this is not so, for he was born and bred among them in a noble family. He bears a pure and high character. He has been truthful, upright, trustworthy, honest and morally chaste throughout his life, He is a noble and gentle person, peace-loving and just by nature, honest in word and deed, sympathetic and helpful to the weak and poor. And they themselves testified to all this before he claimed to be a Messenger of Allah. Then he has been consistently preaching the same message from the first day of his mission. Then whatever he has preached, he has first practiced it himself and demonstrated its truth. There has been no contradiction between his word and deed. He and his followers have faithfully and honestly put into practice the message of the Quran and shown excellent results. For further details, see (E.N. 21 of Surah Al-Anaam), (E.N. 21 of Surah Yunus) and (E.N. 105 of Surah Bani Israil).
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :66
یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل اجنبی آدمی جس سے یہ کبھی کے واقف نہ تھے ، اچانک ان کے درمیان آ کھڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مان لو ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بھی نہیں ہے ۔ جو شخص یہ دعوت پیش کر رہا ہے وہ ان کی اپنی برادری کا آدمی ہے ۔ اس کی نسبی شرافت ان سے مخفی نہیں ۔ اس کی ذاتی زندگی ان سے چھپی ہوئی نہیں ۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک وہ ان کے سامنے پہنچا ہے ۔ اس کی صداقت سے ۔ اس کی راستبازی سے ، اس کی امانت سے ، اس کی بے داغ سیرت سے یہ خوب واقف ہیں ۔ اس کو خود امین کہتے رہے ہیں ۔ اس کی دیانت پر ان کی ساری برادری بھروسہ کرتی رہی ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ نہایت شریف اور نہایت نیک آدمی ہے ۔ حلیم ہے ، حق پسند ہے ، امن پسند ہے ، جھگڑوں سے کنارہ کش ہے ، معاملے میں کھرا ہے ، قول و قرار کا پکا ہے ، ظلم نہ خود کرتا ہے نہ ظالموں کا ساتھ دیتا ہے ، کسی حق دار کا حق ادا کرنے میں اس نے کوتاہی نہیں کی ہے ۔ ہر مصیبت زدہ ، بیکس ، حاجت مند کے لیے اس کا دروازہ ایک رحیم و شفیق ہمدرد کا دروازہ ہے ۔ پھر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نبوت کے دعوے سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہ کیا جا سکتا ہو کہ کسی دعوے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔ اور جس روز اس نے دعویٰ کیا اس کے بعد سے آج تک وہ ایک ہی بات کہتا رہا ہے ۔ کوئی پلٹی اس نے نہیں کھائی ہے ۔ کوئی رد و بدل اپنے دعوے اور دعوت میں اس نے نہیں کیا ہے ۔ کوئی تدریجی ارتقاء اس کے دعوؤں میں نظر نہیں آتا کہ کوئی یہ گمان کر سکے کہ آہستہ آہستہ قدم جما جما کر دعووں کی وادی میں پیش قدمی کی جا رہی ہے ۔ پھر اس کی زندگی اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جو کچھ اس نے دوسروں سے کہا ہے وہ پہلے خود کر کے دکھایا ہے ۔ اس کے قول اور عمل میں تضاد نہیں ہے ۔ اس کے پاس ہاتھی کے دانت نہیں ہیں کہ دکھانے کے اور ہوں ، اور چبانے کے اور ۔ وہ دینے کے باٹ الگ اور لینے کے الگ نہیں رکھتا ۔ ایسے جانے بوجھے اور جانچے پرکھے آدمی کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صاحب دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے ، بڑے بڑے فریبی آتے ہیں اور دل موہ لینے والی باتیں کر کے اول اول اعتبار جما لیتے ہیں ، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ سب محض چکمہ ہی چکمہ تھا ، یہ صاحب بھی کیا خبر اصل میں کیا ہوں اور بناوٹ کا ملمع اترنے کے بعد کیا کچھ ان کے اندر سے نکل آئے ، اس لیے ان کو مانتے ہوئے ہمارا تو ماتھا ٹھنکتا ہے ۔ ( اس سلسلے میں مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، الانعام ، حاشیہ 21 ۔ یونس ، حاشیہ 21 ۔ بنی اسرائیل ، حاشیہ 105 ) ۔