Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 69

سورة المؤمنون

اَمۡ لَمۡ یَعۡرِفُوۡا رَسُوۡلَہُمۡ فَہُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ ﴿۫۶۹﴾

Or did they not know their Messenger, so they are toward him disacknowledging?

یا انہوں نے اپنے پیغمبر کو پہچانا نہیں کہ اس کے منکر ہو رہے ہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or is it that they did not recognize their Messenger so they deny him, means, `do they not recognize Muhammad and the honesty, trustworthiness and good character with which he grew up among them! Can they deny that or argue against it!' Jafar bin Abi Talib said to An-Najashi, the king of Ethiopia: "O King, Allah has sent to us a Messenger whose lineage, honesty and trustworthiness are known to us." Al-Mughirah bin Shu`bah said something similar to the deputy of Kisra when he wanted to challenge him. When the Byzantine ruler Heraclius asked Abu Sufyan Sakhr bin Harb and his companions -- who were still disbelievers and had not yet become Muslim -- about the characteristics, lineage, honesty and trustworthiness of the Prophet, they could only tell the truth and admit that he was indeed noble and truthful.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

691یہ بطور توبیخ کے ہے، کیونکہ وہ پیغمبر کے نسب، خاندان اور اسی طرح اس کی صداقت و امانت، راست بازی اور اخلاق و کردار کی بلندی کو جانتے تھے اور اس کا اعتراف کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] اللہ کی آیات سے بدلنے کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی تھی کہ وہ اپنے اس رسول سے پوری طرح متعارف نہ ہوتے۔ اور جب وہ یہ باتیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کی زندگی ابتداء ہی سے بےداغ رہی ہے۔ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ کسی انسان سے فریب نہیں کیا۔ کبھی کسی کی امانت میں خیانت نہیں کی۔ نہ کبھی وعدہ خلافی کی ہے نہ کبھی کسی سے الجھا ہے تو کیا وہ شخص کسی انسان سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ پر جھوٹ بول سکتا ہے کہ اس نے مجھے رسول بنایا ہے اور اللہ کے نام پر تمہیں فریب دے سکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْ لَمْ يَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ : تیسری وجہ ان کے ایمان نہ لانے کی یہ ہوسکتی ہے کہ ایک بالکل اجنبی آدمی ان میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا ہو کہ مجھے رسول مانو، جس کے حسب نسب، صدق و امانت اور حسن اخلاق کو وہ نہ جانتے ہوں، سو یہ وجہ بھی نہیں، کیونکہ وہ ان میں سے سب سے عالی خاندان کا فرد اور عالی اخلاق کا مالک ہے۔ اس دعویٰ سے پہلے چالیس سال تک وہ ان میں رہا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یونس (١٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَمْ لَمْ يَعْرِ‌فُوا رَ‌سُولَهُمْ Or did they not recognize their messenger? - 23:69. One reason for their denial of the true faith could have been if the message was brought to them by an outsider who was a stranger to them and with whose character and antecedents they were unfamiliar. But this argument could not be invoked in the case of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who belonged to the noble family of Quraish, was born in Makkah, grew up among them, and his whole life was like an open book before them: Before prophethood was bestowed upon him, he was known among the unbelievers of Makkah as اَمِین (trustworthy) and صَادِق (truthful) and nobody had ever raised an accusing finger on his character and general behavior. Thus they could not take the plea that their repudiation of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and of the message brought to him was due to their ignorance about him or about his family connections.

اَمْ لَمْ يَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ ، یعنی ان کے انکار کی ایک وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ جو شخص دعوت حق اور دعوائے نبوت لے کر آیا ہے یہ کہیں باہر سے آیا ہوتا تاکہ یہ لوگ اس کے نام و نسب اور عادات و خصال اور کردار سے واقف نہ ہوتے تو یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم اس مدعی کے حالات سے واقف نہیں اس کو کیسے نبی و رسول مان کر اپنا مقتدا بنالیں۔ مگر یہاں تو یہ بات کھلی ہوئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش ہی کے اعلیٰ نسب میں اسی شہر مکہ میں پیدا ہوئے اور بچپن سے لے کر جوانی اور مابعد کا سارا زمانہ انہیں لوگوں کے سامنے گزرا۔ آپ کا کوئی عمل کوئی عادت ان سے چھپی ہوئی نہیں تھی اور دعوائے نبوت سے پہلے تک سارے کفار مکہ آپ کو صادق و امین کہا کرتے تھے آپ کے کردار و عمل پر کسی نے بھی کبھی کوئی شبہ ظاہر نہیں کیا تھا تو اب ان کا یہ عذر بھی نہیں چل سکتا کہ وہ ان کو پہچانتے نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ لَمْ يَعْرِفُوْا رَسُوْلَہُمْ فَہُمْ لَہٗ مُنْكِرُوْنَ۝ ٦٩ۡ عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٩) یا یہ لوگ اپنے رسول سے واقف نہیں تھے اس وجہ سے ان کے منکر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66. That is, do they reject the message because Muhammad (peace be upon him), who is inviting them to it, is a stranger among them? No, this is not so, for he was born and bred among them in a noble family. He bears a pure and high character. He has been truthful, upright, trustworthy, honest and morally chaste throughout his life, He is a noble and gentle person, peace-loving and just by nature, honest in word and deed, sympathetic and helpful to the weak and poor. And they themselves testified to all this before he claimed to be a Messenger of Allah. Then he has been consistently preaching the same message from the first day of his mission. Then whatever he has preached, he has first practiced it himself and demonstrated its truth. There has been no contradiction between his word and deed. He and his followers have faithfully and honestly put into practice the message of the Quran and shown excellent results. For further details, see (E.N. 21 of Surah Al-Anaam), (E.N. 21 of Surah Yunus) and (E.N. 105 of Surah Bani Israil).

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :66 یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل اجنبی آدمی جس سے یہ کبھی کے واقف نہ تھے ، اچانک ان کے درمیان آ کھڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مان لو ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بھی نہیں ہے ۔ جو شخص یہ دعوت پیش کر رہا ہے وہ ان کی اپنی برادری کا آدمی ہے ۔ اس کی نسبی شرافت ان سے مخفی نہیں ۔ اس کی ذاتی زندگی ان سے چھپی ہوئی نہیں ۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک وہ ان کے سامنے پہنچا ہے ۔ اس کی صداقت سے ۔ اس کی راستبازی سے ، اس کی امانت سے ، اس کی بے داغ سیرت سے یہ خوب واقف ہیں ۔ اس کو خود امین کہتے رہے ہیں ۔ اس کی دیانت پر ان کی ساری برادری بھروسہ کرتی رہی ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ نہایت شریف اور نہایت نیک آدمی ہے ۔ حلیم ہے ، حق پسند ہے ، امن پسند ہے ، جھگڑوں سے کنارہ کش ہے ، معاملے میں کھرا ہے ، قول و قرار کا پکا ہے ، ظلم نہ خود کرتا ہے نہ ظالموں کا ساتھ دیتا ہے ، کسی حق دار کا حق ادا کرنے میں اس نے کوتاہی نہیں کی ہے ۔ ہر مصیبت زدہ ، بیکس ، حاجت مند کے لیے اس کا دروازہ ایک رحیم و شفیق ہمدرد کا دروازہ ہے ۔ پھر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نبوت کے دعوے سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہ کیا جا سکتا ہو کہ کسی دعوے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔ اور جس روز اس نے دعویٰ کیا اس کے بعد سے آج تک وہ ایک ہی بات کہتا رہا ہے ۔ کوئی پلٹی اس نے نہیں کھائی ہے ۔ کوئی رد و بدل اپنے دعوے اور دعوت میں اس نے نہیں کیا ہے ۔ کوئی تدریجی ارتقاء اس کے دعوؤں میں نظر نہیں آتا کہ کوئی یہ گمان کر سکے کہ آہستہ آہستہ قدم جما جما کر دعووں کی وادی میں پیش قدمی کی جا رہی ہے ۔ پھر اس کی زندگی اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جو کچھ اس نے دوسروں سے کہا ہے وہ پہلے خود کر کے دکھایا ہے ۔ اس کے قول اور عمل میں تضاد نہیں ہے ۔ اس کے پاس ہاتھی کے دانت نہیں ہیں کہ دکھانے کے اور ہوں ، اور چبانے کے اور ۔ وہ دینے کے باٹ الگ اور لینے کے الگ نہیں رکھتا ۔ ایسے جانے بوجھے اور جانچے پرکھے آدمی کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صاحب دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے ، بڑے بڑے فریبی آتے ہیں اور دل موہ لینے والی باتیں کر کے اول اول اعتبار جما لیتے ہیں ، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ سب محض چکمہ ہی چکمہ تھا ، یہ صاحب بھی کیا خبر اصل میں کیا ہوں اور بناوٹ کا ملمع اترنے کے بعد کیا کچھ ان کے اندر سے نکل آئے ، اس لیے ان کو مانتے ہوئے ہمارا تو ماتھا ٹھنکتا ہے ۔ ( اس سلسلے میں مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، الانعام ، حاشیہ 21 ۔ یونس ، حاشیہ 21 ۔ بنی اسرائیل ، حاشیہ 105 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: اگر کوئی شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی سچائی اور امانت و دیانت سے واقف نہ ہوتا تو اس کے دل میں آپ کی نبوت میں شک ہونا کم از کم شروع میں سمجھ میں آ سکتا تھا، لیکن یہ لوگ چالیس سال سے آپ کی سچائی اور اعلی اخلاق و کردار کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتے رہے ہیں، اور انہیں یقین سے معلوم ہے کہ آپ نے کبھی نہ جھوٹ بولا ہے، نہ کسی کو دھوکا دیا ہے، اس کے باوجود وہ آپ کو اس طرح جھٹلا رہے ہیں جیسے وہ آپ کے حالات سے کبھی واقف ہی نہیں تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ یعنی یہ بات بھی نہیں کیونکہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دیانت و امانت کو خوب پہچانتے تھے بلکہ خود انہیں ” امین “ کہہ کر پکارتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی یہ وجہ بھی باطل ہے کیونکہ آپ کے صدق پر سب کا اتفاق تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(69) کیا یہ لوگ اپنے پیغمبر کو جانتے پہچانتے نہیں اور اس وجہ سے اس کو نہیں مانتے یعنی یہ رسول مکہ میں پیدا ہوا یہیں بڑھا پلا چھوٹے سے بڑا ہوا بچپن سے اس کی عادت اور خصلت سے واقف ہو اس کی امانت اور دیانت کے معترف ہو یہ عجیب بات ہے کہ محمد بن عبداللہ کی تو تعریف کرتے ہو اور اس کی خوبیاں مانتے ہو اور جب محمد بن عبداللہ محمد رسول اللہ ہوجاتا ہے تو اس کی تکذیب کرتے ہو اور اس کی ایذا رسانی کے درپے ہوجاتے ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہمیشہ اس رسول کی خو اور خصلت سے واقف ہیں اور اس کی سچائی اور نیکی جان رہے ہیں۔ 12