Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 71

سورة المؤمنون

وَ لَوِ اتَّبَعَ الۡحَقُّ اَہۡوَآءَہُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ بَلۡ اَتَیۡنٰہُمۡ بِذِکۡرِہِمۡ فَہُمۡ عَنۡ ذِکۡرِہِمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿ؕ۷۱﴾

But if the Truth had followed their inclinations, the heavens and the earth and whoever is in them would have been ruined. Rather, We have brought them their message, but they, from their message, are turning away.

اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہرچیز درہم برہم ہو جائے حق تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالاَْرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ... And if Al-Haqq had followed their desires, verily, the heavens and the earth, and whosoever is therein would have been corrupted! Mujahid, Abu Salih and As-Suddi said, "Al-Haqq is Allah, may He be glorified." What is meant by the Ayah is that if Allah had responded to the desires in their hearts and prescribed things accordingly, the heavens and the earth and whosoever is therein, would have been corrupted, i.e., because of their corrupt and inconsistent desires. As Allah says of them elsewhere: لَوْلاَ نُزِّلَ هَـذَا الْقُرْءَانُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ "Why is not this Qur'an sent down to some great man of the two towns!" (43:31) Then He says: أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّكَ Is it they who would portion out the mercy of your Lord! (43:32) And Allah says: قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَايِنَ رَحْمَةِ رَبِّى إِذًا لامْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الاِنفَاقِ Say: "If you possessed the treasure of the mercy of my Lord, then you would surely hold back for fear of spending it." (17:100) أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذاً لاَّ يُوْتُونَ النَّاسَ نَقِيراً Or have they a share in the dominion! Then in that case they would not give mankind even a Naqir. (4:53) All of this goes to show how incapable mankind is and how divergent and inconsistent their ideas and desires are. Only Allah, may He be glorified, is Perfect in all His attributes, words, actions, laws, power and control of His creation, may He be exalted and sanctified. There is no God but He and no Lord besides Him. Then He says: ... بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ ... Nay, We have brought them their reminder, meaning the Qur'an, ... فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ but they turn away from their reminder. The Prophet does not ask for any payment, and he calls to the straight path Allah says;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

711حق سے مراد دین اور شریعت ہے۔ یعنی اگر دین ان کی خواہشات کے مطابق اترے تو ظاہر بات ہے کہ زمین و آسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ ایک معبود کے بجائے متعدد معبود ہوں، اگر فی الواقع ایسا ہو، تو کیا نظام کائنات ٹھیک رہ سکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] یعنی اگر اللہ تعالیٰ یا اللہ تعالیٰ کے احکام عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق نازل ہوں اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی خواہشات کے مطابق احکام کرے تو اللہ تعالیٰ مالک مختار رہ کہاں گیا ؟ اس صورت میں تو اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) بندوں کے ہاتھوں میں کٹ پتلی بن گیا۔ پھر خواہشات بھی ہر شخص کی الگ الگ ہیں۔ اور ایک دوسرے کی خواہشات سے ٹکراتی ہیں اس بات کو ایک سادہ سی کہانی سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں ایک آدمی کی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح ایک زمنیدار لڑکے سے کردیا اور دوسری کا ایک کمہار سے۔ ایک دفعہ وہ اپنی بیٹیوں سے ملنے گیا۔ پہلے بری بیٹی کے ہاں گیا تو وہ کہنے لگی۔ ابا جان ! کافی عرصہ سے بارش نہیں ہو رہی فصل کو پانی کی شدید ضرورت ہے۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ رحمت کی بارش برسا دے۔ ورنہ اگر فصل نہ ہوئی تو ہم تو بھوکوں مرجائیں گے۔ اس نے بیٹی سے دعا کا وعدہ کیا۔ پھر دوسری بیٹی کے ہاں گیا۔ تو وہ کہنے لگی : ابا جان ! ابھی ابھی ہم نے برتنوں والا آوا چڑھایا ہے۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ ابھی کچھ مدت بارش نہ ہو۔ اگر بارش ہوگئی تو ہمارا بہت نقصان ہوجائے گا && وہ اس کی بات سن کر کہنے لگا : && یا اللہ ! جیسے تیری مرضی ہے ویسے ہی کر۔ اپنے کاموں کو تو ہی بہتر جانتا ہے && اب اگر مشرکوں کی خواہش کا اتباع کیا جائے تو ان کی تو یہ خواہش ہے کہ ان کے معبودوں کو تصرف امور میں شریک سمجھا ہی نہ جائے بلکہ بنا بھی دیا جائے۔ اب بتلائیے کہ اس صورت میں یہ نظام کائنات ایک ساعت بھی قائم رہ سکتا ہے ؟ ایک گھر میں دو منتظم یا ایک مملکت میں دو بادشاہ بھی سما نہیں سکتے تو کیا اس کائنات میں مشرکوں کے سینکڑوں خداؤں کی خدائی سے کائنات کا نظام ایک منٹ بھی چل سکتا ہے۔ حق صرف اس لئے حق ہے کہ لوگ اس کی اتباع کریں نہ یہ کہ حق لوگوں کی خواہشات کی اتباع کرنے لگے۔ اور اگر بفرض محال ایسی صورت ہو تو کوئی بات بھیحق نہ رہے گی۔ [٧٣] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہم نے ان کی طرف قرآن اس لئے نازل کیا تھا کہ وہ ہدایت حاصل کرتے۔ جیسا کہ کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ اگر ذکر ہماری طرف نازل کیا جائے تو ہم یقیناً دوسری سب قوموں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔ (٦: ١٥٧) پھر جب ذکر ان کے پاس آگیا تو بجائے اس کے کہ اسے قبول کرلیتے اس سے اعراض کرنے لگے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہاں ذکر سے مراد عزو شرف ہے اور یہ معنی بھی اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے یعنی ہم نے یہ ذکر تمہاری ہی زبان میں نازل کیا تاکہ تم اسے خوب سمجھ سکو پھر رسول نے تمہیں واضح طور پر بتلا دیا کہ اگر تم اس کی تعلیم پر عمل کرو گے تو تم عرب و عجم کے حکمران بن جاؤ گے اور اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ عقبہ بن ربیعہ، جو ایک معزز قریش سردار، نہایت بہادر اور فطرتاً نیک دل انسان تھا۔ حرم میں بیٹھ کر اپنے دوسرے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ امید ہے وہ ان میں سے ایک نہ ایک ضرور قبول کرے گا اور اگر اس نے قبول کرلی تو ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ مشرکوں نے کہا : ابو الولید ! ضرور یہ کام کرو۔ چناچہ آپ کے پاس اگر چند باتیں پیش کیں۔ جن کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں۔ ان سب باتوں کے جواب میں آپ نے سورة حم السجدہ کی چند آیات پڑھیں جنہیں عقبہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جب آپ اس آیت پر پہنچے (فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13۝ۭ ) 41 ۔ فصلت :13) && یعنی اگر یہ لوگ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں عاد وثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرہ سے آگاہ کر رہا ہوں && تو عتبہ کے آنسو بہنے لگے اور آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ قرآن کی یہ آیات اس کے دل کو خوب متاثر کر رہی تھیں اور اسے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا عذاب اسی وقت نہ آن پڑے۔ وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مگر اب وہ پہلا عتبہ نہ رہا تھا۔ جاکر قریشیوں سے کہنے لگا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کرتا ہے وہ شاعری نہیں کچھ اور ہی چیز ہے تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس میں تمہاری ہی عزت ہے اور اگر وہ خود ہی ختم ہوگیا تو یہی کچھ تم چاہتے ہو && وہ کہنے لگے : && ابوالولید ! معلوم ہوتا ہے تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ (تفسیر ابن کثیر، ج ٦ د ١٥٩ تا ١٦١) مگر جب یہ عزوشرف بخشنے والا ذکر آگیا تو انہوں نے اس سے اعراض اور نفرت کا اظہار شروع کردیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ ۔۔ : یعنی اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلے تو زمین و آسمان کا یہ سلسلہ تباہ ہوجائے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے کی خواہش سے ٹکراتی ہے اور ان کا علم محدود ہے، نہ پوری موجود کائنات کا علم رکھتے ہیں، نہ آئندہ کی کچھ خبر رکھتے ہیں۔ ان کی خواہشات پر عمل کا نتیجہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ دور کیوں جائیے، ملکوں کے منتخب نمائندے ایک قانون بناتے ہیں، جب اس کی خرابیاں سامنے آتی ہیں تو اسے ختم کر کے اور بنا دیتے ہیں، کچھ دیر کے بعد اسے بھی بدلنا پڑتا ہے۔ کتنے قانون انھوں نے خود بنائے، جن کے نتیجے میں وہ خود پھانسی کے پھندے میں جھول گئے۔ پھر یہ لوگ تو اللہ کے سوا کئی معبودوں کی پرستش کرتے ہیں، اگر ان کی خواہش کے مطابق ایک سے زیادہ معبودوں کے ہاتھ میں کائنات کا نظام دے دیا جائے تو سوچ لو کہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ سلسلہ چل سکتا ہے ؟ یہ کائنات تو صرف ایک مالک کے حکم پر چل رہی ہے، جو خود حق ہے، اس کا کلام حق ہے اور اس کا سب کچھ برحق ہے۔ دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (٢٢) : (لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ) کی تفسیر۔ بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ ۔۔ : ذکر کے دو معنی ہیں، ایک نصیحت اور ایک عز و شرف اور ناموری، یہاں دونوں درست ہیں۔ نصیحت اس لیے کہ کفار مکہ کہہ سکتے تھے : ( لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَهْدٰي مِنْهُمْ ) [ الأنعام : ١٥٧ ] ” اگر ہم پر کتاب نازل کی جاتی تو ہم پہلی امتوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کو شکوے کا موقع ہی نہیں دیا اور خود ہی وہ کتاب نازل فرما دی جو ان کے لیے نصیحت ہے، مگر چونکہ اس میں ان کے عیوب اور خامیوں کی اصلاح کی بات تھی، اس لیے تکبر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ اسے تسلیم کرنے کے بجائے اپنی ہی نصیحت اور خیر خواہی کی بات سے منہ موڑنے والے بن گئے۔ فعل ماضی ” أَعْرَضُوْا “ کے بجائے اسم فاعل ” مُّعْرِضُوْنَ “ کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک دو بار ہی منہ نہیں موڑا، بلکہ پکے منہ موڑنے والے بن گئے۔ ذکر کا دوسرا معنی عز و شرف اور شہرت و ناموری ہے، یعنی یہ قرآن ایمان لانے والوں، خصوصاً عرب کے لیے تمام دنیا میں قیامت تک کے لیے عز و شرف اور ناموری کا باعث ہے، مگر یہ ایسے بدنصیب ہیں کہ انھیں اپنی ناموری اور اپنا عز و شرف بھی راس نہیں آتا۔ یہ دوسرا مطلب یہاں زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَہْوَاۗءَہُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۝ ٠ۭ بَلْ اَتَيْنٰہُمْ بِذِكْرِہِمْ فَہُمْ عَنْ ذِكْرِہِمْ مُّعْرِضُوْنَ۝ ٧١ۭ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) اور اگر بالفرض والتقدیر خدا ان کے خیالات کے مطابق ہوجاتا کہ آسمان میں بھی ایک اللہ اور زمین پر بھی ایک اللہ تعالیٰ تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں مخلوقات ہیں سب تباہ ہوجاتے بلکہ ہم نے ان کے نبی کے پاس بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) قرآن کریم بھیجا جس میں ان کی عزت اور شرافت ہے سو یہ لوگ اپنی شرافت وعزت کی چیز کو بھی جھٹلاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَہْوَآءَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ ط) ” اگر حق کہیں ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین و آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ حق ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق نہیں ڈھل سکتا ‘ بلکہ انہیں خود کو حق کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور اس کی پیروی کرنا ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

68. This brief sentence expresses a great reality which should be understood well. The foolish people in the world generally feel offended by a person who points out the truth to them. They do not like to hear and consider the truth because it goes against their desires and interests but the truth remains the truth and cannot be changed after one's personal whims and wishes. Man is subject to the eternal and unalterable laws operating in the universe and has therefore to adjust his thinking, desires and conduct accordingly and should try to discover the truth and reality through experience, reasoning and observation. Only a foolish person can stick to and regard his personal whims, wishes and prejudices to be the reality and refuse to hear and consider any argument, however rational and scientific, simply because it goes against them. 69. Here the word zikr means. (1) Mention of human nature and its demands. (2) Admonition. (3) Esteem, honor and fame. In the light of these, the full meaning of the verse will be: Your rejection of the Quran is irrational, for it contains the mention of those things which develop the best in human nature. It is an admonition that will result in your own good and well being, and it will bring esteem and honour for you in this world as well as in the Hereafter.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :68 اس مختصر سے جملے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ گویا ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو ، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو ۔ حالانکہ حقیقت بہرحال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا ناپسند ۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور کسی امر حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی ، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھلا کریں اور ہر آن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں ۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کے زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے ۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے ۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیر سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی ظاہر ہی نہیں ہے کہ اپنے خیالات ، خواہشات اور طرز عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے ، اور اس غرض کے لیے ہر وقت دلیل ، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے ۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرز فکر و عمل اختیار کر سکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے ، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ ہو ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے ، اس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :69 یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی صحیح بیٹھتے ہیں : 1 : ذکر بمعنی بیان فطرت ۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کسی دوسرے عالم کی باتیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اپنی ہی حقیقت اور فطرت اور اس کے مقتضیات ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، تاکہ وہ اپنے اس بھولے ہوئے سبق کو یاد کریں ، مگر وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے ہیں ۔ ان کا یہ فرار کسی غیر متعلق چیز سے نہیں بلکہ اپنے ہی ذکر سے ہے ۔ 2 : ذکر بمعنیٰ نصیحت ۔ اس کی رو سے آیت کی تفسیر یہ ہو گی کہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے یہ ان ہی کے بھلے کے لیے ایک نصیحت ہے ، اور ان کا یہ فرار کسی اور چیز سے نہیں اپنی ہی بھلائی کی بات سے ہے ۔ 3 : ذکر بمعنی شرف و اعزاز ۔ اس معنی کو اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہم وہ چیز ان کے پاس لائے ہیں جسے یہ قبول کریں تو ان ہی کو عزت اور سرفرازی نصیب ہو گی ۔ اس سے ان کی یہ روگردانی کسی اور چیز سے نہیں ، اپنی ہی ترقی اور اپنے ہی اٹھان کے ایک زرین موقع سے رو گردانی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:71) لفسدت۔ لام تاکید کا ہے فسدت ماضی واحد مؤنث غائب۔ تو (آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے) درہم برہم ہوجاتے ۔ تباہ ہوجاتے ۔ اتینہم بذکرہم۔ ہم تو ان کے پاس ان ہی کی نصیحت کی بات لائے تھے۔ ذکر سے مراد القرآن ہے جو ان کے لئے باعث فخرو شرف ہے اور اس میں ان کے لئے موعظت حسنہ ہے۔ معرضون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ روگردانی کرنے والے۔ منہ موڑنے والے، اجتناب کرنے والے۔ اعراض مصدر۔ باب افعال۔ اعرض لی۔ وہ میرے سامنے آیا۔ اعرض عن۔ اس نے رخ پھیرلیا۔ منہ موڑ لیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یعنی ویسا ہوتا یا ہوجایا کرتا جیسا یہ چاہتے ہیں۔ 12 ۔ کیونکہ ان کی خواہش اختلاف و تضاد کا مجموعہ ہیں یا مطلب یہ ہے کہ ان کی خاہش کے مطابق اگر اللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو کائنات کا یہ سارا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اکثر مفسرین (رح) نے اس آیت کا یہی دوسرا مطلب لیا ہے۔ (شوکانی) 13 ۔ یا جس میں ان کیلئے نصیحت ہے اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں لفظ ” ذکر “ کے مفسرین (رح) نے متعدد معنی بیان کئے ہیں۔ (انبیاء :10)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حقائق جاننے کے باوجود لوگ اس لیے ایمان لاتے نہیں کہ یہ حق کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ حق کے منکر لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ حق کو اپنے مفاد اور خواہشات کے پیچھے لگا یا جائے۔ اسی لیے مکہ والوں نے مختلف موقعوں پر آپ سے یہ مطالبات کیے کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں کچھ ہم بدل جاتے ہیں۔ (القلم : ٩) پھر انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اس قرآن کی بجائے کوئی اور قرآن لے آئیں ہم اس پر ایمان لے آئیں گے۔ (یونس : ١٥) ان کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے حالانکہ دو یا دو سے زائد الٰہ ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے جس سے زمین و آسمان میں فساد ہونا ناگزیر ہوتا (المؤمنون : ٩١) انہوں نے یہاں تک مطالبہ کرڈالا کہ ایک سال آپ کے رب کی عبادت کی جائے اور دوسرے سال ہمارے خداؤں کی پرستش کرنا ہوگی اسے سورة الکافرون میں یہ کہہ کر صرف نظر کردیا گیا ” آپ فرما دیجیے : اے کافرو ! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ “ (الکافرون ) اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اگر حق ان کی خواہشات کا غلام بن جائے تو زمین میں فساد برپا ہوجائے حق سے مراد اللہ کا دین ہے اور دین کی بنیاد عقیدہ توحید ہے توحید کا پرچار اور ابلاغ دنیا میں امن وامان کی ضمانت ہے، یہی سب سے بڑی نصیحت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیر خواہی کے لیے نازل کیا ہے لیکن لوگ انہیں کی بھلائی کے لیے آنے والی نصیحت کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِیْ الْاَرْضِ اَللّٰہُ اَللّٰہُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ عَلٰی اَحَدٍ یَقُوْلُ اَللّٰہُ اَللّٰہُ ۔ ) [ رواہ مسلم : باب ذَہَابِ الإِیمَانِ آخِرَ الزَّمَانِ ] حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں ‘ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک زمین پر اللہ اللہ کی آواز آنا ختم نہ ہوجائے گی ایک روایت میں ہے قیامت ایسے شخص پر قائم نہیں ہوگی، جو اللہ اللہ کہنے والا ہوگا۔ “ (وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یُؤْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِءْتُ بِہٖ ) [ رواہ فی شرح السنۃ وقال النووی فی أربعینہ ہذا حدیث صحیح ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش اس چیز کے تابع نہیں ہوجاتی جسے میں لے کر آیا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اگر حق لوگوں کی خواہشات کا غلام بن جائے تو زمین و آسمان میں فساد برپا ہوجائے۔ ٢۔ لوگ اپنے ہی فائدہ کی خاطر نصیحت قبول نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن حق سے اعراض کرنے والے لوگ :۔ ١۔ قرآن سے اعراض کرنے والے ظالم اور گمراہ ہیں۔ (الکہف : ٥٧) ٢۔ قرآن سے منہ پھیرنے والے مجرموں سے انتقام لیا جائے گا۔ (السجدۃ : ٢٢) ٣۔ قرآن سے اعراض کرنے والے قیامت کے دن اندھے ہوں گے۔ (طٰہٰ : ١٢٤، ١٢٥) ٤۔ اعراض اور گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ (طٰہٰ : ١٠٠، ١٠١) ٥۔ قرآن کا انکار برے لوگ ہی کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ٩٩) ٦۔ انہیں دنیا اور آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) ٧۔ اکثر لوگ حق سے اعراض کرتے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٤) ٨۔ جو رحمن کے ذکر سے اعراض کرتا ہے اس پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ ( الزخرف : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولو اتبع فیھن (٢٣ : ٧١) ” اور حق کہیں ان کی خواہشات کے پیچھے تو زمین و آسمان اور ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہوجا تا “۔ لہذا یہ نظام کلی طور پر حق کے تابع ہے حق کا مطیع فرمان ہے اور مدبر کائنات کی حیثیت کے مطابق چل رہا ہے ۔ یہ امت کے پاس یہ حق آیا ہے ‘ اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ وہ اس مطیع ہوجائے۔ ایک تو یہ کہ یہ ایک حق کی بات ہے ، دوسرے یہ کہ اس امت کے لیے یہ بہت بڑی اعزاز بھی ہے پھر یہ سچائی اس امت کی شناخت بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نہ ہوتا تو اقوام عالم میں عربوں کی اور کیا شناخت ہوتی اور اسلام نہ ہوتا تو مسلمان ہوتے کہاں ؟ اسلام سے قبل تاریخ اقوام میں عربوں کا کوئی ذکر نہ تھا اور نہ ہی ان کا کوئی کردار تھا۔ پھر جب تک عرب قرآن کا دامن تھامے رہے ان کی آواز پوری کائنات میں گونج رہی تھی اور جب عربوں نے قرآن کو چھوڑا تو تاریخ میں ان کا کردار بھی گھٹتا گیا اور مٹتا گیا حتی کہ وہ قابل ذکر نہ ہی رہے اور نہ آئندہ کبھی وہ کوئی مقام حاصل کرسکتے ہیں الا یہ کہ وہ اپنے اصل عنوان کو اختیار کرلیں اور اپنی اصل شناخت کو اختیار کرلیں ۔ چونکہ ان لوگوں کو دعوت حق دی گئی اور نہوں نے اس کا انکار کیا اور الٹا داعی حق پر الزام شروع کردیا اور غلط موقف اختیار کیا تو اس مضمون کی منا سبت سے اب روئے سخن ان کے اس غلط موقف کی طرف پھرجاتا ہے ۔ ان کے اس غلط رویے کی مذمت کی جاتی ہے اور وہ رسول امین پر جو الزامات لگاتے تھے ان کی تردید کی جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین کی خواہشوں کا اتباع کیا جائے تو آسمان و زمین میں فساد آجائے، کافر راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں یہ سات آیات ہیں ان میں پہلی آیت میں یہ فرمایا کہ حق لوگوں کے خلاف اور ان کی خواہشوں کے تابع نہیں ہوسکتا اگر ایسا ہوجائے تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے کیونکہ جب حق لوگوں کی خواہشوں کے تابع ہوگا تو حق ہی نہیں رہے گا اگر لوگوں کو کھلی چھٹی دیدی جائے کہ اپنی اپنی مرضی کے مطابق جو چاہیں کریں تو وہ اپنی طبیعتوں کے مطابق کفر و شرک کو اختیار کریں گے اور برے اعمال ہی کی طرف چلیں گے جب ایسا ہوگا تو سب قہر الہٰی کے مستحق ہوجائیں گے اور غضب الہٰی کا نزول ہوگا تو خود بھی ہلاک ہوں گے اور آسمان و زمین بھی اور ان میں جو کچھ ہے وہ بھی۔ کیونکہ سارے عالم کا بقا اہل ایمان کے بقا سے ہے اسی لیے حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک زمین پر اللہ اللہ کہا جاتا رہے گا۔ (رواہ مسلم) (بَلْ اَتَیْنَاھُمْ بِذِکْرِھِمْ فَہُمْ عَنْ ذِکْرِھِمْ مُعْرِضُوْنَ ) (بلکہ بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت بھیجی ہے سو یہ لوگ اپنی نصیحت سے رو گردانی کرتے ہیں) نصیحت ربانی سے منہ موڑ کر اپنی جہالتوں اور ضلالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دوسری اور تیسری آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے، ارشاد فرمایا کیا آپ ان سے کچھ آمدنی کا مطالبہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ایمان قبول نہیں کرتے، یہ استفہام انکاری ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ ان سے کوئی پیسہ کوڑی طلب نہیں کرتے تاکہ یہ یوں کہیں کہ یہ نبوت و رسالت والی بات اس لیے چلائی ہے کہ لوگ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کو کچھ دیا کریں جب آپ کی طرف سے دعوت ایمان کی ساری محنت بالکل للہ فی اللہ ذرا سا بھی شائبہ کسی طرح کی دنیا طلبی کا نہیں ہے تو پھر انہیں کفر پر جمے رہنے کے لیے اس بات کو بہانہ بنانے کا بھی موقع نہیں ہے کہ دنیا کے لالچ کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں اور آپ کو کسی مخلوق سے کچھ چاہنے کی ضرورت ہی کیا ہے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کو دیا ہے اور جو کچھ عطا فرمائے گا وہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ سب دینے والوں سے بہتر عطا فرمانے والا ہے، پھر ارشاد فرمایا کہ آپ انہیں سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہیں آپ اپنے کام میں لگے رہیں۔ چوتھی آیت میں فرمایا کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں حق واضح ہوجانے پر بھی صراط مستقیم پر نہیں آتے، پانچویں آیت میں فرمایا کہ اگر ہم ان پر مہربانی کردیں اور وہ جن تکلیفوں میں مبتلا ہیں انہیں دور کردیں تو اس کی وجہ سے شکر گزار نہ ہوں گے اور ایمان کی راہ اختیار نہ کریں گے بلکہ برابر سر کشی کرتے رہیں گے، یہ انسان کا مزاج ہے کہ خوش حالی میں اور آرام و راحت میں صراط مستقیم سے ہٹ کر چلتا ہے اور مزید بغاوت پر کمر باندھ لیتا ہے جیسا کہ سورة زمر میں فرمایا (وَاِِذَا مَسَّ الْاِِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِیبًا اِِلَیْہِ ثُمَّ اِِذَا خَوَّلَہُ نِعْمَۃً مِّنْہُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدْعُو اِِلَیْہِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّہِ اَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ ) (اور آدمی کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع ہو کر اسی کو پکارنے لگتا ہے پھر جب اللہ تعالیٰ اس کو اپنے پاس سے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو جس کے لیے پکار رہا تھا اس کو بھول جاتا ہے اور خدا کے شریک بنانے لگتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے دوسروں کو گمراہ کرتا ہے) ۔ چھٹی اور ساتویں آیت میں یہ فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں کو بعض اوقات عذاب میں گرفتار کیا لیکن اس وقت بھی ان لوگوں نے اپنے رب کے حضور میں فروتنی اور عاجزی اختیار نہ کی۔ معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کی سر کشی پر ان کے لیے بد دعا فرما دی کہ یا اللہ ان پر قحط کے ایسے سال بھیج دے جیسے یوسف (علیہ السلام) کے عہد میں بھیجے تھے جب قحط پڑا اور بہت ہی بد حالی کا سامنا ہوا تو ابو سفیان (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) خدمت عالی میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا، آپ یہ نہیں فرماتے کہ میں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں یہ بات ضرور کہتا ہوں، اس پر ابو سفیان نے کہا ہمارے بڑوں کو تو آپ نے (بدر میں) تہ تیغ کردیا اور اب ہمارے بیٹوں کو بھوک سے مار رہے ہیں، اللہ سے دعا کردیجیے کہ ہمارے قحط کی مصیبت کو دور فرما دے، آپ نے دعا فرما دی جس سے ان کی مصیبت دور ہوگئی اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (وَ لَقَدْ اَخَذْنَا ھُمْ ) (آخر تک) نازل فرمائی اس میں یہ بتایا کہ ان لوگوں پر مصیبت آچکی ہے پھر بھی اپنے رب کے سامنے نہ جھکے یعنی حسب سابق کفر پر قائم رہے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ عین عذاب کے وقت بھی اپنے رب کی طرف متوجہ نہ ہوں وہ آرام و راحت اور عافیت کے زمانے میں تو اور بھی زیادہ بغاوت اور سر کشی اختیار کریں گے۔ (حَتّٰی اِِذَا فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ ) یہاں تک کہ جب ہم ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں تو وہ اچانک حیرت زدہ ہو کر رہ جائیں گے (اور وہ اس وقت بھی توبہ نہ کرسکیں گے) اس میں تنبیہ ہے اور وعید بھی ہے کہ اچانک سخت عذاب میں گرفتار کیے جاسکتا ہیں لہٰذا اس سے بچنے کے لیے ہمارے بھیجے ہوئے بنی پر اور نازل کی ہوئی کتاب پر ایمان لائیں۔ معالم التنزیل میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ سخت عذاب سے مشرکین کا غزوہ بدر میں قتل ہونا مراد ہے اور بعض حضرات نے اس سے موت اور بعض حضرات نے قیامت قائم ہونا مراد لیا ہے اور مُبْلِسُونَ کا ترجمہ آئسون من کل خیر کیا ہے یعنی جب سخت عذاب کا دروازہ کھلے گا تو ہر خیر سے نامید ہوجائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ ” ولو اتبع الحق الخ “ یہ زجر ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین یہ چاہتے تھے کہ حق ان کی خواہشات کے تابع ہوجائے لیکن یہ ناممکن ہے اس لیے مطلب یہ ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حق ویسا ہی ہو جیسا کہ وہ کہتے ہیں یعنی ان کی خواہشات ہی حق اور نفس الامر کے مطابق ہوں مثلاً وہ کہتے ہمارے معبود کارساز ہیں۔ لات مناۃ عزی وغیرہ جہان میں متصرف ہیں۔ دعاء، پکار اور نذر و نیاز کے مستحق ہیں اور خدا کے نزدیک شفیع غالب ہیں ہمارے ان عقائد کو حق مان لیا جائے یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ” الشعراء یتبعہم الغاون “ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گمراہ لوگ شاعروں کے پیچھے چلتے ہیں لیکن مقصود یہ ہے کہ اکثر شاعر خود گمراہ ہوتے ہیں جیسا کہ اس کے بعد ارشاد ہے۔ ” الم تر انھم فی کل واد یھیمون وانھم یقولون ما لا یفعلون “ یہ دونوں باتیں خود شعراء کے بارے میں بیان کی گئی ہیں اس طرح یہاں دو باتیں بیان کرنا مقصود ہے اول یہ کہ شعراء خود غاوی اور گمراہ ہوتے ہیں دوم یہ کہ جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی گمراہ ہوتے ہیں۔ اس سے مومن شعراء مستثنی ہیں جن کی شاعری میں حق کی ترجمانی ہو۔ ” لفسدت السموت الخ اگر ان مشرکین کی خواہشات حق ہوتیں اور ان کی مرضی کے مطابق اس جہان کا نظم ونسق بہت سے معبودوں اور کارسازوں کے سپرد ہوتا تو یہ سارا نظام عالم درہم برہم ہوجاتا اور ایک لمحہ کیلئے بھی قائم نہ رہ سکتا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” لوکان فیھما اٰلہۃ الا اللہ لفسدتا “ (انبیاء رکوع 2) ای لو وافق الامر المطابق للوقاقع اھواءھم بان کان الشرک حقا لفسدت السموت والارض جسما قرر فی قولہ تعالیٰ لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا۔ (روح ج 18 ص 52) ۔ 61:۔ ” بل اتینھم الخ “ ذکر سے مراد قرآن ہے جو دنیا و آخرت میں ان کے لیے باعث شرف و فضیلت ہے یہ ان کی انتہائی شقاوت اور بد نصیبی ہے کہ جو قرآن ان کے لیے دنیوی اور اخروی برکات و خیرات کا سرچشمہ ہے وہ اس سے بھی اعراض کر رہے ہیں۔ یا ” ذکر “ بمعنی مذکور ہے یعنی وہی بات جسے وہ آپس میں ہمیشہ ذکر کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے وحدہ لا شریک ہونے کا اقرار جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مشرکین خود بھی تلبیہ حج میں کہا کرتے تھے۔ اللھم لبیک لا شریک لک الخ (سنن ابو داود) تو اس قرآن نے ان ہی کے قول واقرار کی مزید تشریح و تنویر کردی ہے کوئی نئی بات نہیں کہی تو اس سے کیوں اعراض کرتے ہیں جو ان کی اپنی بات کی وضاحت کر رہا ہے۔ قالہ الشیخ (رح) جیسا کہ آجکل کے مشرک بھی لا الہ الا اللہ پڑھتے ہیں لیکن اسی کلمہ توحید کی تشریح کر کے ان کے خود ساختہ کارسازوں کی نفی کی جائے تو آمادہ پیکار ہوجاتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) اور اگر کہیں خدانخواستہ دین حق ان کی خواہشات باطلہ کا تابع ہوجاتا تو یقیناً آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب خراب اور درہم برہم ہوجاتے بلکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت پہنچادی مگر وہ اپنی نصیحت سے روگردانی کررہے ہیں اور منہ پھیر رہے ہیں یعنی ان کی خواہشات باطلہ کا اگر خدانخواستہ حق کو تابع کردیا تو پھر حق ہی کہاں ہوا حق بات کا تو مقتضا یہ ہے کہ حق کی پیروی کی جائے نہ کہ حق کو باطل کا تابع کردیا جائے پھر تو سب کفر اور باطل ہی ہوجائے گا اور کفر غضب الٰہی کا موجب ہے اور غضب الٰہی ہلاکت کا سبب ہے لہٰذا زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ ان میں ہے سب ہلاک و برباد ہوجائے بھلا حق جس کے سہارے تمام کائنات قائم ہے اہل باطل کے اختیار میں دے دیا جائے تو اس کا انجام ظاہر ہے بھلا حق جس کے سہارے تمام کائنات قائم ہے اہل باطل کے اختیار میں دے دیا جائے تو اس کا انجام ظاہر ہے بلکہ بات یہ ہے کہ یہ حق کو تو کیا تابع بنائیں گے ان کی حالت تو یہ ہے کہ ہم نے ان کو ان کی نصیحت بھیجی ہے جو ان کے نفع کی چیز ہے مگر یہ اس نصیحت سے بھی روگردانی کررہے ہیں حالانکہ نصیحت اگر نافع بھی نہ ہو تب بھی اس کو قبول کرنا ضروری ہے چہ جائے کہ وہ نصیحت نفع بخش بھی ہو۔ بعض نے ذکر کا ترجمہ یہاں شرف کیا ہے۔ اس قرآن کریم کا عربی لغت میں ہونا اور عرب میں تمام دنیا کے لئے رسول کا آنا یہ اہل عرب کی بہت بڑی شرافت کا سبب ہے لیکن یہ اتنی بڑی شرافت کی چیز سے جو ان کے لئے دنیا و آخرت میں عزت کا سبب ہے روگردانی اور اعراض کررہے ہیں پھر ان کی خواہش یہ ہے کہ دین حق کو ان کا تابع بناکر باطل بنادیا جائے۔