Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 72

سورة المؤمنون

اَمۡ تَسۡئَلُہُمۡ خَرۡجًا فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیۡرٌ ٭ۖ وَّ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۷۲﴾

Or do you, [O Muhammad], ask them for payment? But the reward of your Lord is best, and He is the best of providers.

کیا آپ ان سے کوئی اجرت چاہتے ہیں؟ یاد رکھئے کہ آپ کے رب کی اجرت بہت ہی بہتر ہے اور وہ سب سے بہتر روزی رساں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا ... Or is it that you ask them for some Kharj, Al-Hasan said, "A reward." Qatadah said, "Some payment." ... فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ... But the recompense of your Lord is better, means, you are not asking for any wages or payment or anything for calling them to right guidance, rather you are hoping for a great reward from Allah, as He says: قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّن أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ إِنْ أَجْرِىَ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ Say: "Whatever wage I might have asked of you is yours. My wage is from Allah only." (34:47) قُلْ مَأ أَسْـَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَأ أَنَأ مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ Say: "No wage do I ask of you for this, nor am I one of the pretenders." (38:86) قُل لاَّ أَسْـَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبَى Say: "No reward do I ask of you for this except to be kind to me for my kinship with you." (42:23) وَجَأءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يقَوْمِ اتَّبِعُواْ الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُواْ مَن لاَّ يَسْـَلُكُمْ أَجْراً And there came a man running from the farthest part of the town. He said: "O my people! Obey the Messengers. Obey those who ask no wages of you, and who are rightly guided." (35:20-21) ... وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ and He is the Best of those who give sustenance. وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٤] آپ کی دعوت سے ان لوگوں کے انکار کی ایک چوتھی وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ آپ ان سے اپنی اس محنت تبلیغ کا معاوضہ مانگتے ہوں اور وہ اسے تاوان سمجھ کر اس سے انکار کردیں۔ یہ بات بھی نہ تھی۔ نہ صرف یہ کہ آپ بےلوث ہو کر دعوت دین کا کام سرانجام دے رہے تھے بلکہ اس سے کئی مسائل پیدا ہوگئے۔ نبوت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے۔ نبوت کے بعد یہ شغل چھوٹ گیا۔ پہلے آپ مالدار تھے، بعد میں افلاس میں مبتلا ہوگئے۔ پہلے آپ اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا تھے۔ بعد میں وہی قوم آپ کی دشمن بن گئی۔ قوم نے آپ سے سمجھوتہ کی خاطر بیشمار مال و دولت قدموں میں ڈھیر کرنے کا لالچ دیا مگر آپ نے اسے ٹھکرا دیا۔ اس سے ان لوگوں کو اتنا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ جو شخص کئی طرح مصبتیں سہہ کر اور بغیر معاوضہ کے ایسی خدمت سرانجام دے رہا ہے اس کی کوئی غرض دنیا سے وابستہ نہیں ہوسکتی۔ اور جس ہستی کے لئے وہ اتنی مشقتیں برداشت کر رہا ہے اس کا معاوضہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور وہ ایسے ذرائع سے رزق مہیا کرتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں نہیں آسکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۭاَمْ تَسْـَٔــلُهُمْ خَرْجًا ۔۔ : ” خَرْجٌ“ اور ” خَرَاجٌ“ کسی شخص کو ادا کیا جانے والا روزانہ، ماہانہ یا سالانہ عطیہ۔ یہ ان کے انکار کی پانچویں وجہ ہے، جو ممکن ہوسکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یا پھر یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ آپ ان سے روزانہ، ماہانہ یا سالانہ کسی تنخواہ کا سوال کرتے ہوں، جسے وہ بوجھ محسوس کرتے ہوں، تو ان سے کہہ دیجیے کہ مجھے تم سے کسی اجرت کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ان کا دیا ہوا تو ختم ہوجائے گا مگر دنیا اور آخرت میں آپ کے رب کی طرف سے عطا کیا جانے والا رزق کبھی ختم ہونے والا نہیں اور اس سے بہتر روزی دینے والا کوئی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپ دعوت حق کا یہ کام بالکل بےلوث ہو کر کر رہے ہیں اور ان سے کوئی حق الخدمت طلب نہیں کرتے تو ان کا آپ کی دعوت کو ٹھکرانا سراسر حماقت اور عاقبت نااندیشی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئی جگہ صاف اعلان کرنے کا حکم دیا ہے کہ میں تم سے کسی اجرت یا بدلے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ مثلاً سورة ص (٨٦) وغیرہ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ تَسْـَٔــلُہُمْ خَرْجًا فَخَــرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ۝ ٠ۤۖ وَّہُوَخَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝ ٧٢ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٢) کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان مکہ والوں سے کچھ آمدنی چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ آپ کی بات کو قبول نہیں کرتے، سو یہ بھی غلط ہے کیوں کہ آمدنی تو آپ کی جو جنت میں ہے اس تمام دولت سے بہتر ہے جو ان کے پاس دنیا میں ہے اور وہ دنیا و آخرت میں سب دینے والوں سے اچھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (اَمْ تَسْءََلُہُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیْرٌق وَّہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ) ” دراصل یہاں ان الفاظ میں خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں ہے بلکہ مشرکین مکہّ سے ہے کہ عقل کے اندھو ‘ ذرا سوچو تو ! تمہارے شاعر اور قصہ گو تو تم لوگوں سے اجر و انعام چاہتے ہیں۔ مگر تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کبھی ایسی کوئی بات سنی ہے ؟ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس خدمت کے عوض تم سے کوئی اجرت طلب کی ہے ؟ ان کو تو ان کے رب کی طرف سے جو اجر و انعام ملنے والا ہے وہ پوری دنیا کے خزانوں سے بہتر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

70. This was yet another proof of the Prophet’s (peace be upon him) Prophethood. He was conveying the message without demanding any recompense for it, and he had no self interest in it. Nay, he had staked his business, reputation, peaceful home life, relationships with the unbelieving kindred for the success of his mission and was being ruthlessly persecuted for its sake. A selfish person could not have risked his all for the sake of only worldly motives. He would rather have exploited the racial and tribal prejudices of his people to become their ruler and leader. On the contrary, his message not only cut at the root of those prejudices but tended to destroy the very bases which helped his tribe to wield influence and authority over the polytheists of Arabia. This is an argument which the Quran has advanced again and again as a proof of the truth of the mission of the other Prophets as well. See (Surah Al-Anaam, Ayat 90); (Surah Yunus, Ayat 72); (Surah Hud, Ayats 29, 51); (Surah Yusuf, Ayat 104); (Surah Ya-Seen, Ayat 21) along with the relevant E.Ns.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :70 یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے ۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بے لوث ہیں ۔ کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ کوئی نفسانی غرض آپ کے پیش نظر ہے ۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی ، اب افلاس میں مبتلا ہو گئے ۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے ۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا ۔ اب گالیاں اور پتھر کھا رہے ہیں ، بلکہ جان تک کے لالے پڑے ہیں ۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے ۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑ گئے ہیں جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی ۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن ہو گیا ہے ، حتّیٰ کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے ؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش کرتا ، نہ کہ وہ بات لے کر اٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے ، بلکہ سرے سے اس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکین عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم ہے ۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ، بلکہ بالعموم تمام انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے ۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، آیت 90 ۔ یونس 72 ۔ ہود 29 ۔ 51 ۔ یوسف 104 ۔ افرقان57 ۔ الشعراء ، 109 ۔ 127 ۔ 145 ۔ 164 ۔ 180 ۔ سباء 47 ۔ یٰسین 21 ۔ ص ، 86 الشوریٰ 23 ، النجم 40 مع حواشی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:72) خرجا۔ محصول۔ باج۔ مال۔ اجروجزا۔ اخراج جمع۔ یعنی کیا تم تبلیغ دین کی اجرت طلب کرتے ہو۔ خراج۔ مال۔ حاصل۔ مزدوری۔ خراج۔ مراد یہاں اجروثواب۔ اور اللہ کا دیا ہوا رزق ہے۔ قرآن حکیم میں ہے ما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العلمین (26:109 ۔ 127 ۔ 145 ۔ 164 ۔ 180) میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

14 ۔ یعنی وہ ثواب اور درجہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ آخرت میں دیگا۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت حق کا یہ کام بالکل بےلوث ہو کر کر رہے ہیں اور ان سے کوئی حق خدمت طلب نہیں کرتے تو ان کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکرانا سراسر حماقت اور عاقبت نااندیش ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ایک استفسار کے ذریعہ حق واضح کرنے کے ساتھ آپ کو تسلی دی گئی ہے۔ اس سے پہلے کفار سے مخصوص انداز میں استفسار فرما کر ان پر حق واضح کیا گیا اب سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک استفسار کے ذریعہ حق واضح کرنے کے ساتھ آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ اے پیغمبر کیا آپ دعوت کے کام پر ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہیں ؟ کہ جس بنا پر انہیں آپ کی ذات اور بات بوجھ محسوس ہوتی ہے حقیقت یہ ہے کہ آپ ان سے ایک پائی کے طلبگار نہیں ہیں آپ تو محض اپنے رب کے حکم اور اس کی رضا کی خاطر دن رات ایک کیے ہوئے دکھ پر دکھ اٹھا رہے ہیں۔ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اطمینان خاطر رکھیے آپ کے لیے آپ کے رب کی طرف سے دیا ہوا رزق دنیا کے رزق اور فوائد سے ہزاروں گنا بہتر ہے اور آپ کا رب بہترین رزق دینے والا ہے۔ یہ بھی اطمینان رکھیں کہ آپ ان کو صراط مستقیم کی دعوت دینے والے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس کا سبب یہ ہے کہ جو لوگ قیامت بپا ہونے کا یقین نہیں رکھتے وہی لوگ صراط مستقیم سے انحراف کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت حق کے بدلہ میں لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے تھے آپ کی بےمثال جدوجہد کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بہترین رزق دینے والا ہے۔ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے صراط مستقیم پر چلنا قبول نہیں کرتے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام تسئلھم خرجا (٢٣ : ٧٢) ” کیا تو ان سے کچھ مانگ رہا ہے “ کیا اس ہدایت وتعلیم کی کوئی بھاری فیس تم مانگ رہے ہو اور وہ اس کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتے اور اس سے بھاگ رہے ہیں۔ تم تو ان سے کچھ بھی طلب نہیں کرتے ہو کیونکہ تمہارا اجر تو اللہ ہے۔ فخراج ربک خیر وھو خیر الرزقین (٢٣ : ٧٢) ” تیرے لیے تو رب یکا دیا بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے “۔ کوئی نبی لوگوں سے کسی معاوضے کا طلبگار نہیں ہوتا جبکہ انسان بہت ہی ضیعف ، فقیر اور محتاج ہوتے ہیں ۔ نبی تو اللہ سے متصل اور مربوط ہوتا ہے جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ نبی کے معبین بھی اس دنیا کے مفادات میں سے کسی مفاد کے طلبگار نہیں ہوتے کیونکہ ان کی نظریں بھی اس اجر پر ہوتی ہیں جو اللہ کے ہاں ان کے لیے تیار ہے اور دنیا میں تو قلیل ہو یا کثیر ہو ، وہ اس پر راضی ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جب انسان کی روح اللہ سے مل جائے تو اس کے لیے پھر یہ کام پوری کائنات اور پر کہ کے برابر نہیں رہتی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ تو ان لوگوں کی رہنمائی اس نظام کی طرف کررہے ہیں جو نہایت ہی مستخکم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62:۔ ” ام تسئلھم الخ “ اور پھر آپ ان سے اس وعظ و تبلیغ اور تعلیم و تدریس پر کوئی اجرت یا تنخواہ بھی نہیں مانگتے۔ اور ان کو صراط مستقیم (سیدھی راہ) کی طرف دعوت دیتے ہیں جو خالص اللہ تعالیٰ کی توحید ہے کسی ناجائز یا برے کام کا ان سے مطالبہ نہیں کرتے۔ مگر اس کے باوجود وہ حق کا انکار کیے جا رہے ہیں۔ ” فخراج ربک خیر “ آپ کو ان مشرکین کی دولت کی کیا ضرورت ہے اس تبلیغ توحید پر اللہ تعالیٰ جو آپ کو اجر دے گا وہ اس سے کہیں بڑھ کر بہتر اور مبارک ہے اور روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے جو پاکیزہ اور حلال روزی اس نے آپ کی قسمت میں لکھ دی ہے اس سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ ای مایعطیک اللہ من رزقہ وثوابہ خیر (خازن و معالم ج 5 ص 41) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(72) کیا آپ اس نصیحت پر ان سے کوئی معاوضہ آمدنی اور محصول طلب کرتے ہیں تو آپ کے پروردگار کا معاوضہ اور انعام بدرجہا بہتر ہے اور وہ سب دینے والوں سے بہتر دینے والا ہے۔ یعنی یہ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کے انعام اور اجرت اور معاوضہ سے آپ کے پروردگار کا انعام بہتر اور بدرجہا بہتر ہے اور وہ سب انعام دینے والوں سے بہتر دینے والا ہے اور یہ بات آپ کو بخوبی معلوم ہے پھر آپ ان سے کیوں انعام اور معاوضہ طلب کرتے۔ ہم نے مفسرین کے تما اقوال کی تیسیر میں رعایت رکھی ہے اور قرأت مختلفہ خوجا اور خراجاً کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ (واللہ اعلم)