Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 75

سورة المؤمنون

وَ لَوۡ رَحِمۡنٰہُمۡ وَ کَشَفۡنَا مَا بِہِمۡ مِّنۡ ضُرٍّ لَّلَجُّوۡا فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ﴿۷۵﴾

And even if We gave them mercy and removed what was upon them of affliction, they would persist in their transgression, wandering blindly.

اور اگر ہم ان پر رحم فرمائیں اور ان کی تکلیفیں دور کر دیں تو یہ تو اپنی اپنی سرکشی میں جم کر اور بہکنے لگیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And though We had mercy on them and removed the distress which is on them, still they would obstinately persist in their transgression, wandering blindly. Here Allah tells of their stubbornness in their disbelief, in that even if He had removed the calamity from them and made them understand the Qur'an, they still would not follow it; they would still persist in their disbelief and stubborn transgression. This is like the Ayat: وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لاَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ Had Allah known of any good in them, He would indeed have made them listen; and even if He had made them listen, they would but have turned away with aversion. (8:23) وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُواْ يُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ And if (Lauw) you could but see when they will be held over the (Hell) Fire! They will say: "Would that we were but sent back (to the world)! Then we would not deny the Ayat of our Lord, and we would be of the believers!" Nay, it has become manifest to them what they had been concealing before. But if they were returned (to the world), they would certainly revert to that which they were forbidden. Until His statement: بِمَبْعُوثِينَ (be resurrected). (6:27-29) This has to do with the knowledge of Allah. He knows about some- thing that will not happen, but if it were to happen, He knows how it would be. Ad-Dahhak reported from Ibn Abbas: "Every- thing that is implied in the word: لَوْ (If (Lauw)) is something that will never happen."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

751اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں جو بغض وعناد تھا اور کفر و شرک کی دلدل میں جس طرح وہ پھنسے ہوئے تھے، اس میں ان کا بیان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ ۔۔ : اس آیت کی ایک تفسیر وہ ہے جو ابن عاشور نے ” التحریر والتنویر “ میں اور بقاعی نے ” نظم الدرر “ میں فرمائی ہے۔ روح المعانی میں بھی اسے ایک امکان کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ وہ تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کا عطف آیت (٦٤) : (حَتّيٰٓ اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْهِمْ بالْعَذَابِ اِذَا هُمْ يَجْــــَٔــرُوْنَ ) (یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوش حال لوگوں کو عذاب میں پکڑیں گے، اچانک وہ بلبلا رہے ہوں گے) پر ہے اور اس آیت اور اس آیت کے درمیان کی آیات جملہ ہائے معترضہ ہیں، جن سے مقصود ان کے خلاف دلائل کا ذکر اور ان کے عذر بہانے ختم کرنا ہے۔ یعنی اگر ہم ان کے چیخنے، پکارنے اور بلبلانے پر رحم کرکے ان پر آنے والا عذاب دور کردیں، تب بھی وہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے، بلکہ اسی پر اڑے رہیں گے اور اسی میں سر مارتے پھریں گے، کیونکہ کفر اور سرکشی ان کی طبعی خصلت بن چکی ہے، جو کسی طرح ان سے جدا نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح فرمایا : ( وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ) [ الأنعام : ٢٨ ] ” اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ “ آیات کے سیاق سے یہ تفسیر نہایت مناسب ہے۔ دوسری تفسیر شیخ عبد الرحمان سعدی نے کی ہے کہ اس میں کفار کی شدید سرکشی اور ہٹ دھرمی کا بیان ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں، مثلاً قحط پڑجاتا ہے، بھوک سے لاچار ہوجاتے ہیں، سمندری طوفان میں گھر جاتے ہیں، یا کوئی وبا آ گھیرتی ہے تو خلوص دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اسے دور کرنے کی دعا کرتے ہیں، پھر اگر اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرما کر وہ مصیبت دور کر دے تو بھی وہ اپنے کفر اور سرکشی پر اڑے رہتے ہیں اور اسی میں سر مارتے پھرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَآ اَذَقْــنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْھُمْ اِذَا لَھُمْ مَّكْرٌ فِيْٓ اٰيَاتِنَا ۭ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا ۭ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ 21؀ ھُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ حَتّٰى اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ ۚ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِهَا جَاۗءَتْهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِيْطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڬ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ 22؀ فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ) [ یونس : ٢١ تا ٢٣ ] ” اور جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں، کسی تکلیف کے بعد، جو انھیں پہنچی ہو، تو اچانک ان کے لیے ہماری آیات کے بارے میں کوئی نہ کوئی چال ہوتی ہے۔ کہہ دے اللہ چال میں زیادہ تیز ہے۔ بیشک ہمارے بھیجے ہوئے لکھ رہے ہیں جو تم چال چلتے ہو۔ وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ انھیں لے کر عمدہ ہوا کے ساتھ چل پڑتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوتے ہیں تو ان (کشتیوں) پر سخت تیز ہوا آجاتی ہے اور ان پر ہر جگہ سے موج آجاتی ہے اور وہ یقین کرلیتے ہیں کہ ان کو گھیر لیا گیا ہے، تو اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ ہر عبادت کو اس کے لیے خالص کرنے والے ہوتے ہیں، یقیناً اگر تو نے ہمیں اس سے نجات دے دی تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔ پھر جب اس نے انھیں نجات دے دی اچانک وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجُّوْا فِيْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَہُوْنَ۝ ٧٥ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش ف ) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں لج اللَّجَاجُ : التّمادي والعناد في تعاطي الفعل المزجور عنه، وقد لَجَّ في الأمر يَلجُّ لَجَاجاً ، قال تعالی: وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون/ 75] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] ومنه : لَجَّةُ الصّوت بفتح اللام . أي : تردّده، ولُجَّةُ البحر بالضّم : تردّد أمواجه، ولُجَّةُ اللیل : تردّد ظلامه، ويقال في كلّ واحد لَجَّ والْتَجَّ. قال : فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] منسوب إلى لجّة البحر، وما روي : ( وضع اللّجّ علی قفيّ ) ، أصله : قفاي، فقلب الألف ياء، وهو لغة فعبارة عن السّيف المتموّج ماؤه، واللَّجْلَجَةُ : التّردّد في الکلام وفي ابتلاع الطّعام، قال الشاعر : يُلَجْلِجَ مضغة فيها أنيض «5» أي : غير منضج، ورجل لَجْلَجٌ ولَجْلَاجٌ: في کلامه تردّد، وقیل : الحقّ أبلج والباطل لَجْلَجٌ. أي : لا يستقیم في قول قائله، وفي فعل فاعله بل يتردّد فيه . ( ل ج ج ) اللجاج ( مصدر ض س ) کے معنی کسی ممنوع کام کے کرنے میں بڑھتے چلے جاتے اور اس پر ضد کرنے کے ہیں اس سے فعل لج فی الامر استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون/ 75] اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں انہیں پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں تو اپنی سر کشی پر اڑے رہیں اور بھٹکے ( پھریں ) بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اسی سے لجۃ الصوف مشہور ہے جس کے معنی اواز کے بار بار آنے جانے اور پلٹنے کے ہیں ۔ لجۃ البحر ( بضم اللام ) سمندر کی موجوں کا تلاطم ( ان کا بار بار آنا اور پلٹنا ) لجۃ اللیل ۔ رات کی تاریکی کا آنا جان اور سخت ہونا ۔ اور لجۃ و لجۃ میں ایک لغت لج ولج بھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] دریائے عمیق میں میں لجی بھی لجۃ البحر کی طرف منسوب ہے اور روایت اس نے میری گر دن پر تلوار رکھ دی ) میں لج کے معنی آبد ار تلوار کے ہیں اور قفی اصل میں قفای ہے الف یاء سے مبدل ہو کر یاء میں ادغام ہوگیا ہے ۔ اللجلجۃ کے معنی ہکلاپن کے ہیں اور نیز لقمہ کو بغیر چبائے منہ میں پھر انے کو بھی لجلجۃ کہتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 392 ) یلجلج مضغۃ فیھا انیض یعنی منہ میں گوشت کا نیم پختہ ٹکڑا پھر ا رہا ہے ۔ رجل لجلج ہکلا رک رک کر بات کرنے والا ۔ الحق ایلج والباطل لجلج حق واضح ہے اور باطل مشتبہ یعنی کوئی شخص باطل کو نہ تو صاف طور پر بیان کرسکتا ہے اور نہ انشراح صدر کے ساتھ اسے انجام دے سکتا ہے ۔ بلکہ اس میں ہمیشہ متردور رہتا ہے ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ عمه الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] . ( ع م ہ ) العمۃ کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥) اور اگر ہم ان مکہ والوں پر مہربانی فرما دیں اور ان کو بھوک کی جو تکلیف ہے اس کو ہم دور بھی کردیں تو یہ لوگ پھر بھی کفر اور گمراہی میں بھٹکتے رہیں گے کہ حق اور ہدایت ان کو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ (وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَکَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ ) ” ان الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ اس سورت کے نزول کے زمانہ میں اہل مکہّ کسی مصیبت میں گرفتار تھے۔ سورة الانعام اور سورة الاعراف میں اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا ذکر گزر چکا ہے جس کے تحت ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے تھے اور انہیں مختلف قسم کی تکالیف میں مبتلا کیا جاتا تھا تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگیں اور ان کے ذہن حق کی دعوت پر غور و فکر کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72. The affliction alluded to in this verse was the famine which occurred in Makkah some time after the advent of Prophethood. According to Abdullah bin Masud, when the Quraish persistently refused to accept the invitation of the Prophet (peace be upon him) and started putting up stiff resistance, he prayed: O Allah, help me against them with a seven year famine like the seven year famine of the time of Prophet Joseph. So a severe famine started in Makkah with the result that people were obliged to eat carrion. This famine has been alluded to in a number of Makki Surahs. For instance see (Surah Al-Anaam, Ayats 42-44); (Surah Al- Aaraf, Ayats 94-99); (Surah Yunus, Ayats 11, 12, 21); (Surah An-Nahl, Ayats 112-113) and (Surah Ad-Dukhan, Ayats 10- 16 ) along with the relevant E.Ns.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :72 اشارہ ہے اس تکلیف و مصیبت کی طرف جس میں وہ قحط کی بدولت پڑے ہوئے تھے ۔ اس قحط کے متعلق روایات نقل کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دو قحطوں کے قصوں کو خلط ملط کر دیا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اہل مکہ کو دو مرتبہ قحط سے سابقہ پیش آیا ہے ۔ ایک نبوت کے آغاز سے کچھ مدت بعد ۔ دوسرا ، ہجرت کے کئی سال بعد جب کہ ثُمامہ بن اُثال نے یمامہ سے مکے کے طرف غلے کی بر آمد روک دی تھی ۔ یہاں ذکر دوسرے قحط کا نہیں بلکہ پہلے قحط کا ہے ۔ اس کے متعلق صحیحین میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا اور سخت مزاحمت شروع کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ : اللھم اعنی علیہم بسبع کسبع یوسف ، خدایا ، ان کے مقابلے میں میری مدد یوسف کے ہفت سالہ قحط جیسے سات برسوں سے کر ۔ چنانچہ ایسا سخت قحط شروع ہوا کہ مردار تک کھانے کی نوبت آ گئی ۔ اس قحط کی طرف مکی سورتوں میں بکثرت اشارات ملتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعم ، 42 تا 44 ۔ الاعراف 94 تا 99 ۔ یونس ، 11 ۔ 12 ۔ 21 ۔ النحل ، 112 ۔ 113 ۔ الدخان 10 ۔ 16 مع حواشی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: اﷲ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ کو جھنجھوڑنے کے لئے دو ایک مرتبہ اُنہیں قحط اور معاشی بدحالی میں مبتلا کیا۔ یہ آیت کسی ایسے ہی موقع پر نازل ہوئی تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:75) ولو رحمناہم۔ اور اگر ہم ان پر رحم (بھی) کریں۔ وکشفنا مابہم من ضر۔ اور (اگر ہم) ان کو جو تکلیف ہے وہ بھی دور کردیں۔ للجوا۔ لجاج ولجاجۃ سے (سمع۔ ضرب) سے ماضی بمعنی مضارع۔ صیغہ جمع مذکر غائب۔ لجاج کسی ممنوع فعل پر اڑ جانے کو کہتے ہیں۔ للجوا۔ وہ ضرور اڑے رہیں گے۔ جمے رہیں گے۔ مصر رہیں گے۔ للجوا فی طغیانہم۔ اپنی گمراہی پر جمے رہیں گے۔ یعمھون عمہ یعمہ (فتح) عمہ یعمہ (سمع) سے مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ عمہ عموہ۔ مصدر۔ گمراہی میں بھٹکنا۔ للجوا فی طغیانہم یعمھو۔ پھر بھی یہ لوگ اپنی گمراہی میں بھٹکنے میں اصرار کرتے رہیں گے۔ ما استکانوا۔ ما نفی کے لئے ہے۔ (استکانوا) ماضی جمیع مذکر غائب۔ باب افتعال۔ سکن مادہ۔ استکان یستکین استکان واستکانۃ عاجزو ذلیل ہونا مسکین عاجز۔ وما یتضرعون۔ اور نہ انہوں نے عاجزی کی۔ صیغہ جمع مذکر غائب فعل مضارع معروف ۔ تضرع (تفعل) سے۔ استکانت اور تضرع مرادف نہیں اول کا تعلق ظاہر سے ہے اور ثانی کا قلب سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ اور قرآن بھی ان کے فہم میں اتار دیں۔ یہاں ” ضر “ سے مراد ہے اس قحط کی تکلیف جس میں قریش آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے مبتلا ہوئے تھے۔ اس قحط کا متعدد روایات میں ذکر آیا ہے صحیحین میں ہے کہ جب قریش کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے حق میں بددعا فرمائی : اللھم اعنی علیھم بسبع کسبع یوسف۔ اے اللہ ! میری ان کے مقابلہ میں ایسے ہفت سالہ قحط سے مدد فرما۔ جیسا قحط یوسف ( علیہ السلام) کے زمانہ میں پڑا تھا۔ (شوکانی) 4 ۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے جو مصیبت ٹلتی ہے اپنے ہی حسن انتظام سے ٹلتی ہے۔ خدا کا اس کے ٹالنے میں کوئی احسان نہیں ہے۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اور وہ قول وقرار جو مصیبت میں کئے تھے، سب گاو خورد ہوجاویں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کا کردار اور انجام۔ قیامت کا انکار کرنے والا شخص نہ صرف صراط مستقیم سے منحرف ہوجاتا ہے بلکہ اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس پر کرم فرما کر اسے کسی مصیبت سے نجات دے تو وہ اپنے رب کا مطیع اور شکرگزار ہونے کے بجائے سرکشی میں اندھا ہوجاتا ہے۔ جب وہ اپنے گناہوں اور سرکشی میں اندھا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بڑی مصیبت میں گرفتار کرتا ہے لیکن اپنے گناہوں میں اندھا ہونے کی وجہ سے ایسا شخص اپنے رب کے حضور توبہ کرنے اور گڑگڑانے کے لیے تیار نہیں ہوتا بالآخر اللہ تعالیٰ اس پر شدید عذاب نازل کرتا ہے اس قسم کے لوگ اپنے رب سے بخشش اور رحمت طلب کرنے کی بجائے ناامید ہوجاتے ہیں حتٰی کہ اسی حالت میں انہیں موت آلیتی ہے یہ کسی انسان کی سب سے بڑی بدقسمتی اور اس پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی انتہا ہوتی ہے۔ کہ اسے مصیبت اور عذاب کے وقت بھی توبہ کی توفیق حاصل نہ ہو۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولو رحمنہم مبلسون (آیت نمبر ٧٥ تا ٧٧) ” ۔ ۔ “۔ یہ ہے بعض لوگوں کا مستقبل رویہ۔ یہ سخت دل لوگ ہوتے ہیں ۔ اللہ سے غافل ہوتے ہیں ، آخرت کی تکذیب کرتے ہیں ۔ مشرکین مکہ اسیے ہی لوگوں سے تھے جن سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سابقہ تھا۔ اگر کسی پر مصیبت آجائے اور وہ اللہ کے سامنے عاجزی اور تضرع کرنے لگے تو یہ رجوع الی اللہ کی دلیل ہوتا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے دل میں خدا کا شعور ہے اور یہ تصور بھی ہے کہ آخری سارا اللہ ہے۔ جو دل اس طرح اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ نرم ہوتا ہے ، بیدار ہوتا ہے اور نصیحت اس کو فائدہ دیتی ہے ۔ یہ احساس انسان کو غفلت اور لغزش سے بچاتا ہے ۔ اسیے ہی لوگ مصائب اور مشکلات سے فائدہ اور نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن جب کو ئی اپنی گمراہی اور سرکشی میں بہت آگے چلا جائے اور اندھا ہوجائے تو اس شخص سے مایوس ہوجا نا چاہیے ۔ اس کی اصلاح کی پھر کوئی امید نہیں رہتی۔ اسے چھوڑ دیا جائے کہ وہ عذاب آخرت کا شکار ہو اور یہ آخرت بہت ہی اچانک ہوگی۔ اچانک ہر کسی کے سامنے آجائے گی اور تمام لوگ اس وقت حیران و پریشان ہوں گے اور اس بات سے مایوس ہوں گے کہ اب ہر کوئی خلاصی ممکن ہے۔ ایک بار پھر ان کے شعور اور وجدان کو جگانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ النفس و آفاق میں دلائل ایمان کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسے امور کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو پیش یا افتادہ ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(75) آگے ان کی جہالت اور احسان فراموشی کی حالت اور متکبرانہ عادت کو اور واضح فرماتا ہے اور اگر ہم ان پر رحم اور مہربانی فرمائیں اور ان پر جو تکلیف ہے اس کو دور بھی کردیں تو یہ لوگ بحالت تحیر و تردد اپنی سرکشی میں اور اصرار کرنے لگیں کفار کی یہ عام عادت ہے کہ مصیبت ک وقت مخلص بن کر خدا کو پکارتے ہیں اور جب وہ تکلیف اور مصیبت دور ہوجاتی ہے تو پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ آیت میں شاید اس قحط کی طرف اشارہ ہو جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے مکہ والوں پر مسلط ہوا تھا یا عام اشارہ ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے ایک بار مکہ کے لوگوں پر قحط پڑا تھا پھر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی دعا سے کھلا شاید اسی کو فرمایا۔ 12 غرض ! ان کی ناسپاسی اور احسان فراموشی ظاہر ہے آگے ان کے عام طرز عمل کا ذکر فرمایا۔