Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 77

سورة المؤمنون

حَتّٰۤی اِذَا فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیۡدٍ اِذَا ہُمۡ فِیۡہِ مُبۡلِسُوۡنَ ﴿۷۷﴾٪  4

Until when We have opened before them a door of severe punishment, immediately they will be therein in despair.

یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اسی وقت فوراً مایوس ہوگئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Until, when We open for them the gate of severe punishment, then lo! they will be plunged in despair. When the command of Allah reaches them and the Hour comes to them suddenly, and they are overtaken by the punishment of Allah which they were not expecting, then they will despair of any ease and goodness, and all their hopes will disappear. A reminder of the Blessings of Allah and His immense Power Allah tells:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

۔1اس سے دنیا کا عذاب بھی مراد ہوسکتا ہے اور آخرت کا بھی، جہاں وہ تمام راحت اور خیر سے مایوس اور محروم ہوں گے اور تمام امیدیں منقطع ہوجائیں گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] سخت عذاب سے مراد وہ امر ہے جو کافروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں پڑتی رہی اور جس کا آغاز غزوہ بدر سے ہوا تھا۔ [٧٨] لفظ مُبْلِسُوْنَ آیا ہے اور یلس کے معنی غم کی وجہ سے سخت مایوس ہوجانا یا سخت مایوسی کی وجہ سے غمگین ہونا پھر اسی مایوسی کی بنا پر برافروختہ ہوجانا یا بھڑک اٹھنا۔ سعدی کا ایک شعر ہے۔ نہ بینی کہ چوں گر بہ عاجز شود۔۔ برآزر بچنگال چشم پلنگ ترجمہ : تم دیکھتے نہیں کہ چیتے کے مقابلہ میں جب بلی عاجز ہوجاتی ہے اور اسے اپنی موت کا یقین ہوجاتا ہے تو چیتے پر حملہ کرکے اپنے پنجہ سے اس کی آنکھ نکال دیتی ہے) یعنی ان کافروں کی یہ حالت ہے کہ جوں جوں انھیں مار پڑتی ہے اور انھیں اپنی کامیابی کے امکان ختم ہوتے نظر آتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ سیدھی راہ اختیار کریں۔ مزید بروافروختہ ہوجاتے ہیں۔ اور دوسری اقوام اور دوسرے مشرک قبائلی کو اپنے ساتھ ملا کر اجتماعی طور پر مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر انھیں صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَا فَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيْدٍ اِذَا ہُمْ فِيْہِ مُبْلِسُوْنَ۝ ٧٧ۧ فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بلس الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» . ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ بلست الناقۃ فھی مبلاس آواز نہ کرو ناقہ زغایت خواہش کش اور کلاس بمعنی ٹاٹ فارسی پل اس سے معرب ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٧) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی یہ حالت اس وقت تک ہے کہ جب ہم ان پر قحط سالی کے عذاب کا سخت دروازہ کھول دیں گے تو اس وقت یہ ہر ایک بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73. The Arabic word mublis is used for one whom frustration makes so desperate and obdurate that he does not hesitate to resort to any crime. The Devil has been called Iblis for the same reason.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :73 اصل میں لفظ مُبْلِسُوْن استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم مایوسی سے ادا نہیں ہوتا ۔ بَلَس اور اِبْلَاس کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ حیرت کی وجہ سے دنگ ہو کر رہ جانا ۔ خوف اور دہشت کے مارے دم بخود ہو جانا رنج و غم کے مارے دل شکستہ ہو جانا ۔ ہر طرح سے ناامید ہو کر ہمت توڑ بیٹھنا ۔ اور اسی کا ایک پہلو مایوسی و نامرادی کی وجہ سے برافروختہ Desperate ) ( ہو جانا بھی ہے جس کی بنا پر شیطان کا نام ابلیس رکھا گیا ہے ۔ اس نام میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ یاس اور نامرادی ( Frustration ) کی بنا پر اس کا زخمی تکبر اس قدر بر انگیختہ ہو گیا ہے کہ اب وہ جان سے ہاتھ دھو کر ہر بازی کھیل جانے اور ہر جرم کا ارتکاب کر گزر نے پر تلا ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:77) مبلسون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ مبلس واحد۔ مایوس۔ غمگین۔ پشیمان متحیر۔ خاموش۔ جن کو کوئی بات بن پڑنی ممکن نہیں۔ ابلاس (افعال) مادہ۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے ویوم تقوم الساعۃ یبلس المجرمون (30:12) اور جس دن قیامت برپا ہوگی گنہگار مایوس ومغموم ہوجائیں گے۔ بعض کا خیال ہے کہ ابلیس اسی سے مشتق ہے۔ یلس وابلاس، حیرت کی وجہ سے دنگ ہو کر رہ جانا۔ خوف و دہشت کے مارے دم بخود ہوجانا۔ رنج وغم کے مارے دل شکستہ ہوجانا۔ ہر طرف سے ناامید ہو کر ہمت توڑ کر بیٹھنا۔ نامرادی کی وجہ سے برا فروختہ ہوجانا۔ جس کی بنا پر شیطان کا نام ابلیس رکھا گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جس زمانہ میں قریش قحط میں مبتلا تھے ابو سفیان نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : ” کیا آپ کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سارے جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں وہ بولے “ (مگر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو آباء کو تلوار سے اور ابناء (بیٹوں) کو بھوک سے مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابن جریر) 6 ۔ مراد آخرت کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور بدر کے دن کا بھی جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو کان، آنکھیں اور دل اس لیے دیے ہیں کہ حقائق دیکھ اور سن کر ان کے مطابق عمل کریں تاکہ قیامت کے عذاب سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے انسان کو کان، آنکھیں اور دل عطا کیا تاکہ حقائق دیکھ اور جان کر اپنے رب کا شکر گزار بندہ بن جائے۔ اسی نے انسان کو زمین سے پیدا کرکے زمین پر پھیلا یا اور بسایا اور اسی کی طرف سب نے اکٹھا ہونا ہے وہی ذات موت وحیات پر اختیار رکھتی ہے اسی کے حکم کے مطابق دن اور رات ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں لیکن پھر بھی لوگ عقل وفکر نہیں کرتے۔ ان آیات میں انسان کی تخلیق، زمین میں انسان کا رہنا سہنا، زندگی گزارنا، اور مرنا رات اور دن کے اختلاف کا حوالہ دے کر انسان کو دو باتوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے پہلی بات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ اور کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق سمجھے اور یہ حقیقت جاننے کی کوشش کرے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے فنا اور بقا بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہاں تک کہ میرے اعضاء اور جوارح بھی اس کی عطا کا نتیجہ ہیں اس لیے میرا فرض بنتا ہے کہ میں اس کا شکر ادا کروں۔ انسان اس وقت تک اپنے رب کی نعمتوں پر شکر گزار نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے رب کی عنایات پر توجہ اور غور نہیں کرتا۔ جسے غوروفکر کی توفیق مل جائے وہ بالیقین اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّآءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّآءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہٗ کُلُّہٗ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کا معاملہ عجب ہے بیشک اس کے تمام کاموں میں بہتری ہے جو مومن کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ مومن کو خوش کردینے والی چیز ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ “ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ أَخَذَ بِیَدِیْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ لَأُحِبُّکَ یَا مُعَاذُ فَقُلْتُ وَأَنَا أُحِبُّکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلاَ تَدَعْ أَنْ تَقُوْلَ فِیْ کُلِّ صَلاَۃٍ رَبِّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ سنن النسائی : باب نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الدُّعَآءِ ] ” حضرت معاذبن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے معاذ ! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے رہو۔ اسے کبھی نہ چھوڑنا اے میرے پروردگار ! ذکر، شکر اور اچھی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کو سننے، دیکھنے اور سوچنے کے لیے اعضاء عطا فرمائے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کو زمین سے پیدا کرکے زمین پر پھیلایا اور بسایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی موت اور زندگی کا مالک ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لانے والا ہے۔ ٥۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی دی ہوئی نعمتوں پر غور کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر اور اس کے فضائل : ١۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر اس کا شکریہ ادا کرو۔ (الانفال : ٢٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو تمہارے تابع کیا جس سے تازہ مچھلی، زیبائش کا سامان نکلتا ہے اس پر اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ (النحل : ١٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو باعث سکون اور دن کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (القصص : ٧٣) ٤۔ شکر کے بارے میں حضرت داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کی دعائیں۔ (صٓ: ٣٥، النمل : ١٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار لوگوں کو مزید دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65:۔ ” حتی اذا فتحنا الخ “ عذاب سے عذاب آخرت، یا جنگ بدر یا یوم فتح مکہ کا عذاب مراد ہے اب تو نہیں مانتے اور آرزو رکھتے ہیں اسلام کے خلاف ان کے منصوبے کامیاب ہوجائیں گے لیکن جب ہم نے ان پر دنیا یا آخرت کے عذاب کا دروازہ کھول دیا تو پھر دین اسلام کی سچائی کو مان لیں گے اور اس وقت وہ اپنے پروگراموں کی کامیابی اور ہر خیر و برکت سے مایوس ہوجائیں گے (روح) یہاں تک سورة کا پہلا حصہ ختم ہوا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(77) یہاں تک کہ جب ہم ان پر کسی سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تو یہ اس عذاب میں مبتلا ہوکر دفعۃً ناامید و حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شاید وہ دروازہ لڑائیوں کا کھلا جس میں تھک کر عاجز ہوئے۔ 12 شاید عذاب دنیوی اور عذاب اخروی دونوں مراد ہوں۔ ویوم تقوم الساعۃ یومئذیلبس المجرمون۔