Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 83

سورة المؤمنون

لَقَدۡ وُعِدۡنَا نَحۡنُ وَ اٰبَآؤُنَا ہٰذَا مِنۡ قَبۡلُ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۸۳﴾

We have been promised this, we and our forefathers, before; this is not but legends of the former peoples."

ہم سے اور ہمارے باپ دادوں سے پہلے ہی سے یہ وعدہ ہوتا چلا آیا ہے کچھ نہیں یہ تو صرف اگلے لوگوں کے افسانے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"Verily, this we have been promised -- we and our fathers before (us)! This is only the tales of the ancients!" This means, "It is impossible that we could be brought back. This was said by those who learned it from the books and disputes of the ancients." This denial and rejection on their part is like the Ayah where Allah tells us about them: أَءِذَا كُنَّا عِظَـماً نَّخِرَةً قَالُواْ تِلْكَ إِذاً كَرَّةٌ خَـسِرَةٌ فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَحِدَةٌ فَإِذَا هُم بِالسَّاهِرَةِ "Even after we are crumbled bones," They say: "It would in that case, be a return with loss!" But it will be only a single Zajrah, When behold, they find themselves on the surface of the earth alive after their death. (79:11-14) أَوَلَمْ يَرَ الاِنسَـنُ أَنَّا خَلَقْنَـهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مٌّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلً وَنَسِىَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحىِ الْعِظَـمَ وَهِىَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِى أَنشَأَهَأ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ Does not man see that We have created him from Nutfah. Yet behold he (stands forth) as an open opponent. And he puts forth for Us a parable, and forgets his own creation. He says: "Who will give life to these bones after they are rotten and have become dust!" Say: "He will give life to them Who created them for the first time! And He is the All-Knower of every creation!" (36:77-79)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

831یہ سب لکھی ہوئی حکایتیں، کہانیاں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ کب سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے آباؤ اجداد سے، لیکن ابھی تک روبہ عمل نہیں ہوا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دی ہیں جو نقل در نقل ہوتی چلی آرہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا ۔۔ :” اَسَاطِيْرُ “ ” أُسْطُوْرَۃٌ“ کی جمع ہے، دل لگی کے لیے لکھے جانے والے قصے کہانیاں اور افسانے۔ ” أُفْعُوْلَۃٌ“ کا وزن عموماً دل لگی کا مفہوم ادا کرنے والے الفاظ کے لیے آتا ہے، جیسے : ” أُضْحُوْکَۃٌ، أُرْجُوْحَۃٌ، أُعْجُوْبَۃٌ، أُحْدُوْثَۃٌ، أُغْلُوْطَۃٌ“ وغیرہ۔ 3 پچھلی آیت میں ان کے قیامت کے انکار کی ایک وجہ بیان ہوئی ہے، یہ دوسری وجہ ہے کہ دوبارہ زندہ ہو کر پیش ہونے کا دعویٰ اس پیغمبر کی طرح پہلے انبیاء کی طرف سے بھی ہوتا چلا آ رہا ہے، مگر سیکڑوں ہزاروں برس گزرنے کے باوجود پورا نہیں ہوا، کوئی مرنے کے بعد واپس نہیں آیا، معلوم ہوا یہ سب قصے کہانیاں ہیں۔ گویا ان کے خیال میں دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ اسی دنیا کے اندر پورا ہونا ہے۔ انتہائی ذہانت اور عقل کے دعوے داروں کی سمجھ دیکھیے کہ رسول کیا فرما رہے ہیں اور وہ اس کا مطلب کیا سمجھ رہے ہیں ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ وُ عِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۝ ٨٣ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ سطر السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء/ 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر : 233- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ( س ط ر ) السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جس کا ہم سے وعدہ کر رہے ہیں اس کا اس سے پہلے ہمارے بڑوں سے بھی وعدہ ہوتا چلا آیا ہے آپ جو بیان کرتے ہیں یہ کچھ بھی نہیں محض بےسند اگلوں کی منقول شدہ باتیں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77. Their denial of the life after death implied the denial of the powers and wisdom of Allah as well.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :77 خیال رہے کہ انکا آخرت کو مستبعد سمجھنا صرف آخرت ہی کا انکار نہ تھا ، خدا کی قدرت اور حکمت کا بھی انکار تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ماننے والے پہلے بھی اس کا دعویٰ کرتے چلے آئے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لقد الا ولین (٢٣ : ٨٣) ” ہم نے یہ بھی وعدے بہت سنے ہیں اور ہم سے پلے باپ دادا بھی سنتے رہے ہیں ۔ یہ محض افسانہ ہائے پارینہ ہیں ــ“۔ لیکن بعث بعد الموت کے لیے تو ایک وقت مقرر ہے۔ یہ اللہ نے اپنی تدبیر اور اپنی حکمت سے مقرر کیا ہے۔ اس میں کوئی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ یہ گھڑی وقت سے قبل نہیں آسکتی الا یہ کہ اللہ چاہے ، اگر چہ تمام مخلوق اس کا مطالبہ کردے یا غافلین کا کائی گروہ اس نظریہ سے مذاق ہی کرتا رہے۔ مشرکین عرب کے عقائد میں بڑا ہی اضطراب تھا۔ وہ اللہ کے وجود کا انکار نہ کرتے تھے۔ وہ اس بات کا انکار بھی نہ کرتے تھے کہ اللہ مالک سماوات والارض ہے۔ وہ مدبر سماوات ہے اور زمین اور آسمانوں کو تھامنے والا ہی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ دوسرے الہوں کو اللہ کے ساتھ شریک کرتے تھے۔ اور ان کا نظریہ یہ تھا کہ دوسرے الہوں کی بندگی وہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ انہیں اللہ کے قریب کرتے ہیں ۔ پھر وہ اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے تھے حالانکہ اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ اللہ کی طرف نسبت کرتے تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ ان کے مسلمہ عقائد کا ذکر کے ان پر گرفت کرتے ہیں تاکہ ان کے عقائد کے اندر اضطراب پایا جاتا ہے ، اسے دور کردیا جائے اور انہیں اس عقیدہ توحید کی طرف لایا جائے جس کی طرف ان کے مسلمہ عقائد بھی راہنمائی کرتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنی فطرت پر قائم ہوں اور انحراف نہ کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(83) اور یہ بھی کہتے ہیں کہ بلاشبہ یہ وعدہ ہم سے اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ مگر یہ وعدہ سوائے اس کے نہیں کہ محض پہلے لوگوں کی بےسروپاکہانیاں اور قصے ہیں یعنی یہ دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہم سے پہلے ہمارے بزرگوں سے بھی اس قسم کا وعدہ ہوتا چلا آیا ہے جو آج تک تو شرمندئہ ایفاء ہوا نہیں اس سے کیا سمجھا جائے یہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا کچھ نہیں مگر پہلے لوگوں کی بےسروپا کہانیاں ہیں جو یہ شخص بھی کہتا ہے یعنی ان باتوں کا کوئی وجود نہیں کہنے کو تو پہلے پیغمبر بھی یہی کہتے چلے آئے ہیں اور ہمارے بزرگوں کو یہی وعدہ دیتے آئے ہیں لیکن اس وعدے کی اصلیت کا آج تک تو ظہور ہوا نہیں۔