Commentary قُل رَّبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (0 prophet) say (in prayer), |"0 my Lord, if You are to show me (in my life) that (punishment) which they (the infidels) are threatened with, then, my Lord, do not place me among the wrongdoing people.|" (23: 93, 94) There are many verses of the Qur&an which contain warnings of punishment to the unbelievers. While the award of punishment is a certainty on the Day of Judgment, it is possible that it may be awarded in this world also - and even during the life time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . And when Allah&s wrath descends upon a people, it is not confined to sinners alone, but sometimes it afflicts virtuous people too, who may not be punished in the Hereafter and may even be compensated by extra rewards for the undeserved punishment which they suffered in this world. The Qur&an says اتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً (And beware of a punishment which shall not fall on the wrongdoers only - 8:25). In these verses, the Holy Prophet has been told by Allah to pray to Him that if His wrath were to descend upon the infidels in his life time, then He should be removed from their company. This prayer was suggested to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in spite of the fact that he was impeccable and infallible, the intention being that He should at all times remember Allah and beseech His mercy so as to increase his own reward in the Hereafter.
معارف و مسائل قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِيَــنِّيْ مَا يُوْعَدُوْنَ ، رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِيْ فِي الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ مطلب ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں مشرکین و کفار پر عذاب کی وعید مذکور ہے جو عام ہے قیامت میں تو اس کا وقوع قطعی اور یقینی ہے دنیا میں ہونے کا بھی احتمال ہے پھر یہ عذاب اگر دنیا میں ان پر واقع ہو تو اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے بعد آئے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں آپ ہی کے سامنے ان پر اللہ کا کوئی عذاب آجائے اور دنیا میں جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو بعض اوقات اس عذاب کا اثر صرف ظالموں ہی پر نہیں رہتا بلکہ نیک لوگ بھی اس سے دنیاوی تکلیف میں متاثر ہوتے ہیں گو آخرت میں ان کو کوئی عذاب نہ ہو بلکہ اس دنیا کی تکلیف پر جو ان کو پہنچتی ہے اجر بھی ملے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے واتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّةً ، یعنی ایسے عذاب سے ڈرو جو اگر آ گیا تو صرف ظالموں ہی تک نہیں رہے گا دوسرے لوگ بھی اس کے لپیٹ میں آئیں گے۔ ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا تلقین فرمائی گئی ہے کہ یا اللہ اگر ان لوگوں پر آپ کا عذاب میرے سامنے اور میرے دیکھتے ہوئے ہی آنا ہے تو مجھے ان ظالموں کے ساتھ نہ رکھئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معصوم اور عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا اگرچہ آپ کے لئے یقینی تھا مگر پھر بھی اس دعا کی تلقین اس لئے فرمائی گئی کہ آپ ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھیں اس سے فریاد کرتے رہیں تاکہ آپ کا اجر بڑھے۔ (قرطبی)