Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 94

سورة المؤمنون

رَبِّ فَلَا تَجۡعَلۡنِیۡ فِی الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۹۴﴾

My Lord, then do not place me among the wrongdoing people."

تو اے رب! تو مجھے ان ظالموں کے گروہ میں نہ کرنا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"My Lord! Then, put me not amongst the people who are the wrongdoers." meaning, `if You punish them while I am witnessing that, then do not cause me to be one of them.' As was said in the Hadith recorded by Imam Ahmad and At-Tirmidhi, who graded it Sahih: وَإِذَا أَرَدْتَ بِقَومٍ فِتْنَةً فَتَوفَّنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُون If You want to test people, then take me to You (cause me to die) without having to undergo the test. وَإِنَّا عَلَى أَن نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

941چناچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرماتے تھے (وَ اِذَا اَرَدَتَ بِقَوْمِ فِتْنَۃ، ُ فَوَفَّنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنِ ) (ترندی تفسیر سورة ص و مسند احمد، جلد5 ص243 ۔ ' اے اللہ جب تو کسی قوم پر آزمائش یا عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرے تو اس سے پہلے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] اس آیت میں بھی اگرچہ خطاب بظاہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن یہ ہدایت عام مومنوں کے لئے ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اکثر یہ انداز اختیار کرلیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین جس طرح اللہ کے حق میں یہ گستاخیاں کر رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ ان پر کوئی آفت آکر رہے۔ لہذا مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی کہ ایسے حالات میں وہ اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ اگر ظالموں پر عذاب آئے تو اللہ انھیں اس عذاب سے بچانے کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary قُل رَّ‌بِّ إِمَّا تُرِ‌يَنِّي مَا يُوعَدُونَ رَ‌بِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (0 prophet) say (in prayer), |"0 my Lord, if You are to show me (in my life) that (punishment) which they (the infidels) are threatened with, then, my Lord, do not place me among the wrongdoing people.|" (23: 93, 94) There are many verses of the Qur&an which contain warnings of punishment to the unbelievers. While the award of punishment is a certainty on the Day of Judgment, it is possible that it may be awarded in this world also - and even during the life time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . And when Allah&s wrath descends upon a people, it is not confined to sinners alone, but sometimes it afflicts virtuous people too, who may not be punished in the Hereafter and may even be compensated by extra rewards for the undeserved punishment which they suffered in this world. The Qur&an says اتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً (And beware of a punishment which shall not fall on the wrongdoers only - 8:25). In these verses, the Holy Prophet has been told by Allah to pray to Him that if His wrath were to descend upon the infidels in his life time, then He should be removed from their company. This prayer was suggested to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in spite of the fact that he was impeccable and infallible, the intention being that He should at all times remember Allah and beseech His mercy so as to increase his own reward in the Hereafter.

معارف و مسائل قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِيَــنِّيْ مَا يُوْعَدُوْنَ ، رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِيْ فِي الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ مطلب ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں مشرکین و کفار پر عذاب کی وعید مذکور ہے جو عام ہے قیامت میں تو اس کا وقوع قطعی اور یقینی ہے دنیا میں ہونے کا بھی احتمال ہے پھر یہ عذاب اگر دنیا میں ان پر واقع ہو تو اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے بعد آئے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں آپ ہی کے سامنے ان پر اللہ کا کوئی عذاب آجائے اور دنیا میں جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو بعض اوقات اس عذاب کا اثر صرف ظالموں ہی پر نہیں رہتا بلکہ نیک لوگ بھی اس سے دنیاوی تکلیف میں متاثر ہوتے ہیں گو آخرت میں ان کو کوئی عذاب نہ ہو بلکہ اس دنیا کی تکلیف پر جو ان کو پہنچتی ہے اجر بھی ملے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے واتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّةً ، یعنی ایسے عذاب سے ڈرو جو اگر آ گیا تو صرف ظالموں ہی تک نہیں رہے گا دوسرے لوگ بھی اس کے لپیٹ میں آئیں گے۔ ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا تلقین فرمائی گئی ہے کہ یا اللہ اگر ان لوگوں پر آپ کا عذاب میرے سامنے اور میرے دیکھتے ہوئے ہی آنا ہے تو مجھے ان ظالموں کے ساتھ نہ رکھئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معصوم اور عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا اگرچہ آپ کے لئے یقینی تھا مگر پھر بھی اس دعا کی تلقین اس لئے فرمائی گئی کہ آپ ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھیں اس سے فریاد کرتے رہیں تاکہ آپ کا اجر بڑھے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِيْ فِي الْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٩٤ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِیْ فِی الْْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) ” جس عذاب کی وعیدیں ان لوگوں کو دی جا رہی ہیں اگر وہ میری نگاہوں کے سامنے ان پر آگیا تو اے میرے پروردگار ! مجھے اس سے اپنی پناہ میں رکھنا۔ گویا ہر شخص کو اللہ کے ایسے عذاب سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ اس ضمن میں سورة الانفال کی اس آیت کا مضمون لرزا دینے والا ہے : (وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃًج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) ” اور ڈرو اس عذاب سے کہ وہ (جب آئے گا تو ) تم میں سے صرف گنہگاروں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا ‘ اور جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے “۔ پاکستان کے خصوصی حالات کے پیش نظر ہم سب کو ایسی تنبیہات کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ چناچہ یہاں پر شریعت اسلامی کا عملی نفاذ ہم سب کیّ ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو مہلت عمل ہمیں دے رکھی ہے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کو اس سرزمین پر اقامت دین کی کوشش کے لیے کمر ہمت باندھ لینی چاہیے۔ اس فرض کی ادائیگی سے غفلت کی پاداش میں عذاب الٰہی کا ایک کوڑا ہم پر ١٩٧١ ء میں پڑچکا ہے۔ اب اس سے پہلے کہ ہماری مہلت عمل ختم ہوجائے اور ہم دوسرے کوڑے کی زد میں آجائیں ہمیں اپنے تن من اور دھن کو قربان کردینے کے جذبے کے ساتھ اس میدان میں نکلنا ہوگا۔ ہمارے لیے اللہ کی پکڑ سے بچنے اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کا یہی ایک راستہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

87. This prayer does not mean that, God forbid, there was any real danger of the Prophet’s (peace be upon him) also being involved in the punishment, or that if he had not invoked this prayer, he might have been involed in it. This way of address has been adopted to warn that all people should fear Allah’s punishment. They should not demand it nor persist in their wickedness, if Allah gives them respite. As a matter of fact, Allah’s punishment is a thing which should be dreaded not only by the sinful people but also by the righteous people, and they should all seek His refuge from it, for when the scourge of God comes, it does not destroy only the wicked people but may also involve the righteous people in it. Therefore the right course for those, who have to live in a wicked society, is that they should always pray to Allah for His refuge, for one does not know when that scourge might come down.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :87 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس عذاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبتلا ہو جانے کا فی الواقع کوئی خطرہ تھا ، یا یہ کہ اگر آپ یہ دعا نہ مانگتے تو اس میں مبتلا ہو جاتے ۔ بلکہ اس طرح کا انداز بیان یہ تصور دلانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے کہ خدا کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق چیز ۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا مطالبہ کیا جائے ، اور اگر اللہ اپنی رحمت اور اپنے حلم کی وجہ سے اس کے لانے میں دیر کرے تو اطمینان کے ساتھ شرارتوں اور نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے ۔ درحقیقت وہ ایسی خوفناک چیز ہے کہ گناہ گاروں ہی کو نہیں ، نیکوکاروں کو بھی اپنی ساری نیکیوں کے با وجود اس سے پناہ مانگنی چاہیے ۔ علاوہ بریں اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اجتماعی گناہوں کی پاداش میں جب عذاب کی چکی چلتی ہے تو صرف برے لوگ ہی اس میں نہیں پستے ، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بھلے لوگ بھی بسا اوقات لپیٹ میں آ جاتے ہیں ۔ لہٰذا ایک گمراہ اور بدکار معاشرے میں رہنے والے ہر نیک آدمی کو ہر وقت خدا کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے ۔ کچھ خبر نہیں کہ کب کس صورت میں ظالموں پر قہر الٰہی کا کوڑا برسنا شروع ہو جائے اور کون اس کی زد میں آ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٤۔ ٩٨:۔ اوپر شرک کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں جتلایا کہ اگر یہ مکہ کے مشرک شرک سے باز نہ آویں گے تو جس طرح ان لوگوں سے عذاب کے نازل کرنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اس وعدہ کے ظہور پر قادر ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے انتظام میں ہر کام کا وقت مقرر ہے اس واسطے وقت مقررہ کے آتے ہی ان مشرکوں پر ایک نہ ایک دن وہ عذاب ضرور آوے گا اس عذاب کے آنے کو ضروری جان کر اے رسول اللہ کے تم اللہ سے یہ دعا کیا کرو کہ یا اللہ تو اپنی قدرت سے مجھ کو اس لائق عذاب قوم میں نہ رکھیو ‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا قبول فرمائی اور بدر کی لڑائی کا وقت آنے سے پہلے مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم دے دیا ‘ بدر کی لڑائی کے وقت مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے سرکشوں پر جو عذاب آیا ‘ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت سے اس کا قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے ‘ آگے فرمایا ‘ ہجرت کا وقت آنے تک یہ مشرک کچھ ایذا دیویں تو اس کو درگزر کر کے ٹال دینا چاہیے اور اس ضعف اسلام کے زمانہ میں شیطان کی چھیڑ اور اس کے غلبہ سے اللہ کی پناہ کی دعا مانگنی چاہیے کیونکہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ اس ضعف اسلام کے زمانہ میں مسلمانوں اور مشرکوں میں لڑائی کرا دیوے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق ابھی اس لڑائی کا وقت نہیں آیا جس سے اسلام کے غلبہ کا نتیجہ نکلے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں سلیمان سے روایت ١ ؎ ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو غصہ کی حالت میں دیکھ کر فرمایا اگر یہ شخص اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھے تو ابھی اس کا غصہ جاتا رہے ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ غصہ شیطان کے وسوسہ سے آتا ہے اور اللہ سے پناہ مانگتے ہی اس کا اثر جاتا رہتا ہے۔ (١ ؎ الترغیب (باب) الترہیب من الغضب الخ ص ٤٥٠ ج ٣ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی گناہگاروں کیساتھ پس جانے کا اندیشہ تھا اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرنے کا حکم دیا گیا بلکہ اس سے مقصود امت کے لوگوں کو تعلیم دینا ہے کہ خدا کے عذاب سے ہر شخص کو چاہے وہ کتنا ہی نیک ہو پناہ مانگتے رہنا چاہیے اور کبھی اپنی نیکی پر اترانا نہیں چاہیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بروں کے ساتھ نیک بھی پس جاتے ہیں۔ دیکھئے سورة انفال :25 ۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی ان کی بدی کا دفعیہ ایسے برتاو کیجئے جو بہت ہی اچھا اور نرم ہو اور اپنی ذات کے لئے بدلہ نہ لیجئے بلکہ ہمارے حوالہ کردیا کیجئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(94) تو اے میرے پروردگار ! مجھے ان مشرکوں اور ظالموں میں شامل نہ کیجئو یعنی مجھے اس عذاب سے محفوظ رکھیو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دنیا کی آفت میں شامل نہ کریو۔