Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 97

سورة المؤمنون

وَ قُلۡ رَّبِّ اَعُوۡذُ بِکَ مِنۡ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیۡنِ ﴿ۙ۹۷﴾

And say, "My Lord, I seek refuge in You from the incitements of the devils,

اور دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And say: "My Lord! I seek refuge with You from the whisperings of the Shayatin." Allah commanded him to seek refuge with Him from the Shayatin, because no trick could help you against them and you cannot protect yourself by being kind to them. We have already stated, when discussing Isti`adhah (seeking refuge), that the Messenger of Allah used to say, أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِه I seek refuge with Allah, the All-Hearing, All-Seeing, from the accursed Shayatin, from his whisperings, evil suggestions and insinuations. His saying: وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

971چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شیطان سے اس طرح پناہ مانگتے (وَ اَعُوذ باللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ حَمْزِہِ وَ نَفُخِہِ وَنَفْثِہِ ) (ابو داؤد)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ۔۔ : ” اَلْھَمْزُ “ کا معنی ہاتھ یا کسی بھی چیز کے ساتھ چوکا مارنا ہے۔ گلا گھونٹنے، طعنہ دینے اور غیبت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مراد شیطان کے چوکے، وسوسے اور اکساہٹیں ہیں، جن کے ساتھ وہ غصے پر ابھارتا ہے، حتیٰ کہ جنون تک پہنچا دیتا ہے۔ شیاطین انس و جن کے وساوس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة ناس کی تفسیر۔ ” اَنْ يَّحْضُرُوْنِ “ اصل میں ” أَنْ یَّحْضُرُوْنِيْ “ ہے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ” اَنْ “ کے ساتھ ” يَّحْضُرُوْنِ “ کا نون گر جاتا، یاء کو حذف کرکے نون کا کسرہ باقی رکھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے میرے رب ! میں صرف شیاطین کے چوکوں ہی سے تیری پناہ نہیں مانگتا، اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں، کیونکہ انھوں نے خیر کے ساتھ تو آنا ہی نہیں۔ برے لوگوں کی صحبت سے بھی بچنے کی دعا سکھائی۔ 3 برائی کا جواب نیکی سے دینا اگرچہ دشمنوں کو دوست بنانے کے لیے اکسیر ہے، مگر اس کے لیے بہت بڑے حوصلے کی ضرورت ہے، ہر شخص میں یہ برداشت نہیں پائی جاتی، آدمی کا نفس اسے انتقام پر ابھارتا ہے، پھر انسانوں اور جنوں میں سے شیطان اسے اکسا کر غصہ دلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے برائی کا جواب بہترین طریقے کے ساتھ دینے کی تلقین کے بعد ایسے شیطان انسانوں اور جنوں کی اکساہٹوں سے اپنی پناہ مانگنے کی تاکید فرمائی، کیونکہ ان ظالموں کا مقابلہ کرنے میں انسان بےبس ہے۔ یہاں اس کی کوئی تدبیر کام نہیں آتی، نہ ہی وہ شیطان کسی نیکی یا احسان سے دوست بنتے یا نرم ہوتے ہیں، کیونکہ انھوں نے دشمنی کی قسم کھا رکھی ہے۔ اس لیے اسے اس ذات گرامی کی پناہ میں آجانا چاہیے جس کے قبضے میں کائنات کی ہر چیز ہے، نیک ہو یا بد ہر ایک کی پیشانی اس کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری جگہ یہی بات تفصیل سے بیان فرمائی : (وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا ۚ وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ) [ حٰمٓ السجدۃ : ٣٤ تا ٣٦ ] ” اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کریں اور یہ نہیں دی جاتی مگر اسی کو جو بہت بڑے نصیب والا ہے۔ اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ تجھے ابھار ہی دے تو اللہ کی پناہ طلب کر، بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید پڑھتے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کا حکم دیا۔ ( النحل : ٩٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موت کے وقت شیطان کے گمراہ کرنے سے دعا کی تعلیم دی، ابو الیسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے : ( أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَدْمِ وَ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ التَّرَدِّيْ ، وَ أَعُوْذُ بِکَ منَ الْغَرَقِ وَالْحَرَقِ وَالْھَرَمِ وَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ یَتَخَبَّطَنِيَ الشَّیْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ أَمُوْتَ فِيْ سَبِیْلِکَ مُدْبِرًا وَ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ أَمُوْتَ لَدِیْغًا ) [ أبوداوٗد، الوتر، باب في الإستعاذۃ : ١٥٥٢، و صححہ الألباني ]” اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں (اپنے اوپر) دیوار وغیرہ گرنے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں نیچے گر جانے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں غرق ہونے سے، جلنے سے اور شدید بڑھاپے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی بنا دے اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تیرے راستے میں پیٹھ دیتا ہوا مروں اور تیری پناہ مانگتا ہوں کہ زہریلے ڈنگ سے مروں۔ “ کسی خاص وقت ہی میں نہیں، بلکہ ”ۙوَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ “ کا مطلب یہ ہے کہ ” اے میرے رب ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس کسی بھی وقت آئیں یا موجود ہوں۔ “ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام کاموں کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا، کیونکہ اللہ کا نام لینے سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانے پینے، جماع اور ذبح وغیرہ کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا، رات کو اللہ کا نام لے کر سونے کا حکم دیا اور فرمایا : ( وَ أَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ ، وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ لاَ یَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا، وَ أَوْکُوْا قِرَبَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ ، وَ خَمِّرُوْا آنِیَتَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ ، وَلَوْ أَنْ تَعْرُضُوْا عَلَیْہَا شَیْءًا وَ أَطْفِءُوْا مَصَابِیْحَکُمْ ) [ بخاري، الأشربۃ، باب تغطیۃ الإناء : ٥٦٢٣۔ مسلم : ٩٧؍٢٠١٢ ] ” (جب رات کی ایک گھڑی گزر جائے تو) دروازے بند کرلو اور اس وقت اللہ کا نام لو، کیونکہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا اور اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کا منہ باندھ دو ۔ اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانپ دو ، خواہ کسی چیز کو چوڑائی میں رکھ کر ہی ڈھانپ سکو اور اپنے چراغ ( سونے سے پہلے ) بجھا دیا کرو۔ “ ہمارے استاذ حافظ محمد گوندلوی (رض) نے بیان کیا کہ ان کے پاس ایک شخص نے شکایت کی کہ رات کو اچانک گھر کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں، تو انھوں نے رات بسم اللہ پڑھ کر دروازے بند کرنے کی نصیحت کی تو دروازوں کا کھلنا ختم ہوگیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غصے کے وقت بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔ سلیمان بن صرد (رض) فرماتے ہیں کہ دو آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دوسرے کو گالی دینے لگے، ہم آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے کو سخت غصے میں گالی دے رہا تھا، اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنِّيْ لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَھَا لَذَھَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ ، لَوْ قَالَ أَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ ، فَقَالُوْا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُوْلُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ؟ قَالَ إِنِّيْ لَسْتُ بِمَجْنُوْنٍ ) [ بخاري، الأدب، باب الحذر من الغضب : ٦١١٥ ] ” میں ایک کلمہ جانتا ہوں، اگر یہ شخص وہ کلمہ کہہ دے تو جو غصہ اسے آیا ہوا ہے چلا جائے۔ وہ کلمہ ” أَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ “ ہے۔ “ لوگوں نے اسے کہا : ” سنتے نہیں ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا فرما رہے ہیں ؟ “ وہ کہنے لگا : ” میں کوئی پاگل نہیں ہوں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَقُل رَّ‌بِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ﴿٩٧﴾ وَأَعُوذُ بِكَ رَ‌بِّ أَن يَحْضُرُ‌ونِ ﴿٩٨﴾ And say, ` 0 my Lord, I seek your refuge from the strokes of the Shaitan, and I seek Your refuge from that they come to me.& (23:97, 98) The word هَمَز (the infinitive of هَمَزَاتِ Hamazat translated above as &strokes& ) means |"to push, to press|" and sometimes is also used to mean |"to make a call from behind|". This is a very comprehensive prayer often invoked for protection from the guile and mischief of Shaitan and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has urged upon the Muslims to recite it frequently in order to avoid sudden bursts of rage which are brought about by the promptings of and which cause people to lose self-control. This prayer is also very effective in repelling other assaults of Shaitans and Jinns. Sayyidna Khalid (رض) suffered from insomnia and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) suggested that he should recite the following prayer before going to bed : اَعُوذ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِن غضَبِ اللہِ وَعِقَابِہٖ وَمِن شَرِّ عِبَادِہٖ وَمِن ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِینِ وَاَن یَّحضُرُونِ I seek refuge with Allah&s Perfect Words from Allah&s wrath and His punishment, and from the evils of His slaves, and from the strokes of the Shaitans and from that they come to me. Sayyidna Khalid (رض) did as advised and was soon cured of insomnia.

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ، وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ ، لفظ ھمز کے معنے دھکا دینے اور دبانے کے آتے ہیں۔ اور پیچھے کی طرف سے آواز دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ دعا اپنے مفہوم عام کے اعتبار سے ایک جامع دعا شیطان کے شر اور مکر سے بچنے کے لئے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اس دعا کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ایسے غصہ اور غیظ و غضب کی حالت میں جبکہ انسان کو اپنے نفس پر قابو نہیں رہتا اور اس میں ھمز شیطان کا دخل ہوتا ہے اس سے محفوظ رہیں۔ اس کے علاوہ شیاطین اور جنات کے دوسرے آثار اور حملوں سے بچنے کے لئے بھی یہ دعا مجرب ہے۔ حضرت خالد (رض) کو شب میں نیند نہ آتی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ کلمات دعا تلقین فرمائے کہ یہ پڑھ کر لیٹا کریں۔ انہوں نے پڑھا تو یہ شکایت جاتی رہی وہ دعا یہ ہے اعوذ بکلمات اللہ التامة من غضب اللہ و عقابہ و من شر عبادہ و من ھمزت الشیطین و ان یحضرون۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ ہَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ۝ ٩٧ۙ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ همز الْهَمْزُ کالعصر . يقال : هَمَزْتُ الشیء في كفّي، ومنه : الْهَمْزُ في الحرف، وهَمْزُ الإنسان : اغتیابه . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] يقال : رجل هَامِزٌ ، وهَمَّازٌ ، وهُمَزَةٌ. قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] وقال الشّاعر : 471 ۔ وإن اغتیب فأنت الْهَامِزُ اللُّمَزَهْ«1» وقال تعالی: وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّياطِينِ [ المؤمنون/ 97] . ( ھ م ز ) الھمز کے آصل معنی کسی چیز کو دبا کر نچوڑ نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ ھمزت الشئی فی کفی میں نے فلاں چیز کو اپنی ہتھیلی میں دبا کر نچوڑ اور اس سے حرف ہمزہ ہے جو کہ زبان جو جھٹکا د ے کر پڑھا جاتا ہے اور ھمز کے معنی غیبت کرنا بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز شارتیں کر نیوالا چغلیاں لئے پھر نیوا لا اور ھامز وھمزۃ وھما ز کے معنی عیب چینی کرنے والا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ؎ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 456 ) وان غتبت فانت الھا مز اللمزۃ اگر غیبت کی جائے تو تو طعن آمیز اشارتیں کرنے والا بد گو ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّياطِينِ [ المؤمنون/ 97] کہو اے پروردگار میں شیاطین کے وسا س پناہ مانگتا ہوں ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٧) اور آپ یہ بھی دعا کیجیے کہ اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کے وسوسوں سے کہ جن سے انسان سے خلاف مصلحت کام سرزد ہوجائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23: 97) ھمزات الشیاطین۔ جمع مجرور مضاف الشیطن مضاف الیہ۔ ھمز واحد۔ شیطانی وسوسے ۔ خطرات نفسانی۔ وہ برے خیالات جو شیطان دل کے اندر چبھوتا ہے۔ ھمز بمعنی چبھونا۔ ھمز (نصر۔ ضرب) اس کے اصل معنی کسی چیز کو دبا کر نچوڑنے کے ہیں۔ چناچہ محاورہ ہے کہ ھمزت الشیء فی کفی۔ میں نے فلاں چیز کو اپنی ہتھیلی میں دبا کر نچوڑا۔ اور اس کے معنی غیبت کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن مجید میں ہے ھماز مشاء بنمیم۔ (68:11) طعن آمیز اشارتیں کرنے والا۔ چغلیاں لئے پھرنے والا۔ ھماز مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بڑا عیب گو۔ بہت طعن کرنے والا۔ سوار کے جوتے کی ایڑھی پر جو لوہا نکلا ہوتا ہے اور اس سے گھوڑے کے پہلو پر مارتا ہے اسے مہماز۔ مھمز۔ مھمیزکہتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : برائی اور غصہ شیطان کی طرف سے ہے اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعا سکھلائی گئی کہ شیطان سے اپنے رب کی حفاظت طلب کیا کریں۔ شیطان داعی کو انگیخت دیتا ہے کہ وہ غصہ میں آکر برائی کا جواب برائی سے دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ داعی کو پوری کوشش کرنا چاہیے کہ وہ برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دے۔ جہاں تک ذاتی معاملات کا تعلق ہے اس میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ مظلوم ظالم کے جواب میں کوئی بری بات زبان پر لے آئے۔ تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ( المائدہ : آیت ١٤٨) لیکن تبلیغ کے میدان میں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں کہ برائی کا جواب برائی سے دیا جائے بلکہ حکم ہے کہ اگر ایسے موقع پر طیش آئے تو شیطان کی انگیخت سے اپنے رب کی پناہ مانگنی چاہیے۔ کیونکہ شیطان چاہتا ہے مبلغ برائی کے مقابلے میں بری زبان استعمال کرکے ناکام ہوجائے اس نقصان سے بچانے کے لیے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا سکھلائی گئی۔ (رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَات الشَّیَاطِینِ ) ” میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتاہوں “ (عَنْ سُلَےْمَانَ بْنِ صُرَدٍ قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ عِنْدَہُ جُلُوْسٌ وَّاَحَدُھُمَا ےَسُبُّ صَاحِبَہُ مُغْضَبًا قَدِ احْمَرَّ وَجْھُہُ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنِّیْ لَاَعْلَمُ کَلِمَۃً لَّوْ قَالَھَا لَذَھَبَ عَنْہُ مَا ےَجِدُ اَعُوْذُ باللّٰہِ مِن الشَّےْطٰنِ الرَّجِےْمِ فَقَالُوْا للرَّجُلِ لَا تَسْمَعُ مَا ےَقُوْلُ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنِّیْ لَسْتُ بِمَجْنُوْنٍ ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ ] حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں دو شخص گالم گلوچ پر اتر آئے ہم بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک شخص کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ وہ اپنے ساتھی کو برابھلا کہہ رہا تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص وہ کلمہ پڑھ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے وہ کلمہ یہ ہے۔ اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔ اس پر صحابہ کرام (رض) نے اس کو متوجہ کیا۔ کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سن رہا ؟ اس نے جواب دیا میں پاگل نہیں ہوں۔ اس کی مراد یہ تھی کہ میں نے سن لیا اور اس پر عمل کرتا ہوں۔ (عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ مَعَ إِحْدَی نِسَاءِہِ فَمَرَّ بِہِ رَجُلٌ فَدَعَاہُ فَجَاءَ فَقَالَ یَا فُلاَنُ ہَذِہِ زَوْجَتِی فُلاَنَۃُ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ کُنْتُ أَظُنُّ بِہِ فَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ بِکَ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِی مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ )[ رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّہُ یُسْتَحَبُّ لِمَنْ رُءِیَ خَالِیًا بامْرَأَۃٍ وَکَانَتْ زَوْجَۃً أَوْ مَحْرَمًا لَہُ أَنْ یَقُولَ ہَذِہِ فُلاَنَۃُ لِیَدْفَعَ ظَنَّ السَّوْءِ بِہِ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں میں سے کسی کے ساتھ کھڑے تھے وہاں سے ایک آدمی کا گذر ہوا آپ نے فرمایا اے فلاں آدمی یہ میری فلاں بیوی ہے اس نے عرض کی آپ کے متعلق کون ایسا گمان کرسکتا ہے اور نہ ہی میں نے ایسا سوچا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان خون کی گردش کی طرح آدمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ “ مسائل ١۔ شیطان انسان کا دشمن ہے اس سے بچنے کے لیے اپنے رب کی پناہ مانگنا چاہیے۔ ٢۔ شیطان انسان کو غصہ دلاتا ہے۔ ٣۔ شیطان انسان کے دل میں برے خیالات ڈالتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کی شیطنت اور اس سے بچنے کی دعائیں : ١۔ شیطان نے قیدی کو حضرت یوسف کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ (یوسف : ٤٢) ٢۔ شیطان نے آدم اور حوّا کو پھسلا دیا۔ (البقرۃ : ٣٦) ٣۔ شیطان نے حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈال دیا۔ (یوسف : ١٠٠) ٤۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) ٥۔ شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی شیطنت سے بچنا چاہیے۔ (فاطر : ٦) (أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ ) (وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا بِا للّٰہ)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ایک اور دعا تلقین فرمائی اور وہ یہ ہے (رَبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھَمَزَات الشَّیٰطِینِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ) (اے میرے رب میں شیطان کے وسوسوں سے آپ کی پناہ لیتا ہوں اور اس بات سے آپ کی پناہ لیتا ہوں کہ وہ میرے پاس حاضر ہوں) یہ دعا بہت اہم اور ضروری ہے ہر مسلمان کو یاد کرنی چاہئے بارہا پڑھنی چاہئے شیاطین پیچھے لگے رہتے ہیں وسوسے ڈالتے ہیں ان سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعا بہت اہم ہے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شیاطین سے محفوظ رہنے کے لیے تلقین فرمائی تو اور کون شخص ہے جسے شیاطین کے وسوسوں سے محفوظ ہونے کی دعاء سے بےنیازی ہو۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی نیند میں گھبرا جائے تو یہ الفاظ پڑھے (اَعُوْذُ بِکَلِمَات اللّٰہِ التَّآمَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَ شَرِّ عِبَادِہٖ وَ مِنْ ھَمَزَات الشَّیَاطِیْنِ وَ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ) ان کلمات کو پڑھ لے تو اسے (شیاطین) ضرر نہ پہنچا سکیں گے۔ (رواہ الترمذی) (ترجمہ) میں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ اس کے غصہ سے اور اس کے عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ یہ شیاطین میرے پاس حاضر ہوں پناہ لیتا ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74:۔ ” و قل رب الخ “ توحید بیان کرتے وقت آپ شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگیں نیز اس سے پناہ مانگیں کہ شیاطین میرے پاس آکر میرے اعمال و افعال میں دخل دیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(97) اور اے میرے پروردگار میں شیاطین کے اثرات اور ان کی چھیڑ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔