Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 98

سورة المؤمنون

وَ اَعُوۡذُ بِکَ رَبِّ اَنۡ یَّحۡضُرُوۡنِ ﴿۹۸﴾

And I seek refuge in You, my Lord , lest they be present with me."

اور اے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"And I seek refuge with You, My Lord! lest they should come near me." means, in any issue of my life. So we are commanded to mention Allah at the beginning of any undertaking, in order to ward off the Shayatin at the time of eating, intercourse, slaughtering animals for food, etc. Abu Dawud recorded that the Messenger of Allah used to say: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُ... وذُ بِكَ مِنَ الْهَرَمِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَدْمِ وَمِنَ الْغَرَقِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْت O Allah, I seek refuge with You from old age, I seek refuge with You from being crushed or drowned, and I seek refuge with you from being assaulted by the Shayatin at the time of death.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

981اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکید فرمائی کہ ہر اہم کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرو یعنی بسم اللہ پڑھ کر، کیونکہ اللہ کی یاد، شیطان کو دور کرنے والی چیز ہے۔ اسی لئے آپ یہ دعا بھی مانگتے تھے۔ (اللَّھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْحَرَمِ وَ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْغَرَقِ ، و اَعُوذُبِکَ ا... َنْ یَّتَخَبَّطَنِیْ الشَّیْطَانُ عِنْدَالمُوْتِ ) (ابو داؤد)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] سابقہ آیات میں ان دشمنوں کا ذکر تھا جو انسانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہخود بھی اور ان کے معاندانہ اعمال و افعال بھی سب کچھ کم از کم نظر تو آتے ہیں اور انسان ان کا مداوا بھی سوچ سکتا ہے ان دو آیات میں ان دشمنوں کا ذکر ہے جو جنوں یا شیطانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو انسانوں کے جسم میں داخل ہو کر برے...  خیالات اور برے ارادوں کے ذریعہ یوں حملہ آور ہوتے ہیں کہ انسان نہ انھیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ان کی کارکردگی کو۔ اور بعض دفعہ انسان ایسے دشمن کی اکساہٹ پر کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو اس کے برسوں کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ایسے دشمن کے حملہ سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی پناہ میں آجائے۔ اور یہ دعا کرتا رہے جو ان دو آیات میں سکھلائی گئی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَن يَحْضُرُ‌ونِ (from that they come to me - 23:98) According to a Hadith in Sahih of Muslim the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said that Shaitan meddles in all human affairs and tempts people to do evil deeds, and that this prayer is the best protection against his attempts. (Qurtubi)

اَنْ يَّحْضُرُوْنِ ، صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شیطان تمہارے ہر کام میں ہر حال میں تمہارے پاس آتا ہے اور ہر کام میں گناہوں اور غلط کاموں کا وسوسہ دل میں ڈالتا رہتا ہے (قرطبی) اسی سے پناہ مانگنے کے لئے یہ دعا تلقین فرمائی گئی ... ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ۝ ٩٨ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْت... ُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٨) اور اے میرے رب میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ شیطان میرے پاس بھی آئیں خواہ نماز میں یا تلاوت قرآن کریم کے وقت یا موت کے وقت۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٨ (وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ) ” ایک داعی کے لیے شیطان کی چھوت اور اکساہٹ کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ اسے اپنی دعوتی کوششوں کے دوران اپنے مخاطبین پر غصہ آجائے اور وہ انہیں حق کی طرف مائل کرنے کے بجائے متنفر کر دے۔ سورة الاعراف کی آیت ٢٠٠ میں بھی ایسی ہی صورت حال سے بچنے کے لیے ال... لہ کی پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88. For explanation, see (E.Ns 71, 72 of Surah Al-Anaam); (E.Ns 138, 150 to 153 of Surah Al-Aaraf); (E.N. 39 of Surah Younus); (E.N. 48 of Surah Al-Hijr); (E.Ns 122 to 124 of Surah An-Nahl); (E.Ns 58 to 63 of Surah Bani-Israil) and (E.Ns 35 to 41 of Surah HaMim-Sajdah).

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :88 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حواشی 71 ، 72 ۔ جلد دوم ، الاعراف ، حواشی 138 ۔ 150 تا 153 ۔ یونس ، حاشیہ 39 ۔ الحجر ، حاشیہ 48 ۔ النحل ، حواشی 122 تا 124 ۔ بنی اسرائیل ، حواشی 58 تا 63 ۔ حٰم السجدہ ، حواشی 36 تا 41 ۔...    Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:98) یحضرون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ حضور مصدر (باب نصر) اصل میں یحضرونی تھا۔ وہ میرے پاس حاضر ہوں۔ میرے پاس (بھی ) پھٹکیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

13 ۔ یعنی کسی حال میں میرے ساتھ ہوں کیونکہ جب وہ کسی انسان کے ساتھ ہوں گے تو وسوسہ اندازی اور برائی پر اکسانے اور نیکی سے پھیردینے کے سوا ان کا کوئی کام ہی نہ ہوگا۔ (شوکانی) اس آیت میں شیطان کے شر سے بچنے کے لئے دعا کی تعلیم دی ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں رات کو سوتے وقت...  پڑھنے کے لئے یہ دعا سکھایا کرتے تھے تاکہ گھبراہٹ سے محفوظ رہیں : بسم اللہ اعوذ بکلمات اللہ التامۃ من غضبہ و عقابہ و شر عبادہ ومن ھمزت الشیطین وان یحضرون۔ (شوکانی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(98) اور میرے پروردگار اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس آویں۔ یعنی کسی وقت کوئی ایسی بات ہو کہ آپ کو غصہ آجائے تو یہ بھی ایک شیطانی اثر ہے تو ایسے وقت پروردگار سے پناہ مانگ لیا کیجئے اور اس سے بھی پناہ مانگئے کہ شیطان آپ کے پاس آئیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چھیڑ شیطان کی ہ... ے کہ دین کے سوال و جواب میں غصہ چڑھے اور لڑائی ہو پڑے اسی پر فرمایا کہ برے کا جواب دے اس سے بہتر۔ 12۔ خلاصہ ! یہ کہ شیطان کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی ایسا دخل نہیں جو کسی خلاف شریعت کام پر ابھارسکے اندیشہ اس کا ہے کہ خلاف مصلحت کسی کام پر نہ آمادہ کرے یا یہ کہ خطاب آپ کو ہے اور مراد عام لوگ ہیں۔ بہرحال ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شیطان سے محفوظ اور معصوم رکھا گیا ہے۔ پناہ مانگنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر قسم کے اثر سے محفوظ رکھا جائے۔  Show more