Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 43

سورة النور

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزۡجِیۡ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیۡنَہٗ ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِیۡہَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَیُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَصۡرِفُہٗ عَنۡ مَّنۡ یَّشَآءُ ؕ یَکَادُ سَنَا بَرۡقِہٖ یَذۡہَبُ بِالۡاَبۡصَارِ ﴿ؕ۴۳﴾

Do you not see that Allah drives clouds? Then He brings them together, then He makes them into a mass, and you see the rain emerge from within it. And He sends down from the sky, mountains [of clouds] within which is hail, and He strikes with it whom He wills and averts it from whom He wills. The flash of its lightening almost takes away the eyesight.

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی بادلوں کو چلاتا ہے پھر انہیں ملاتا ہے پھر انہیں تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان میں سے مینہ برستا ہے ۔ وہی آسمانوں کی جانب سےاولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انہیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انہیں ہٹا دے بادل ہی سے نکلنے والی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ گویا اب آنکھوں کی روشنی لے چلی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Power of Allah to create the Clouds and that which comes from Them Allah tells: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ... See you not that Allah drives the clouds gently, Allah tells us that He drives the clouds from the beginning, when they are formed and are still weak. This is the "Gentle driving." ... ثُمَّ يُوَلِّفُ بَيْنَهُ ... then joins them together, means, He brings them together after they have been scattered. ... ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا ... then makes them into a heap of layers, means, He piles them up on top of one another. ... فَتَرَى الْوَدْقَ ... and you see the Wadq, meaning the rain, ... يَخْرُجُ مِنْ خِلَلِهِ ... come forth from between them; means, from the gaps between them. This is how it was understood by Ibn Abbas and Ad-Dahhak. Ubayd bin Umayr Al-Laythi said: "Allah sends the scatterer (wind), which stirs up that which is on the surface of the earth. Then he sends the generator (wind), which forms the clouds. Then He sends the joiner (wind) which brings them together. Then He sends the fertilizer (wind) which fertilizes or `seeds' the clouds." This was recorded by Ibn Abi Hatim and Ibn Jarir. ... وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاء مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ ... and He sends down from (Min) the sky, from (Min) mountains in it of (Min) ice, Some of the grammarians said that the first Min describes the place from which it is coming, the second specifies from which part of the sky it comes, and the third means some kind of mountains. This is based on the view of those scholars of Tafsir who say that, مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ from (Min) mountains in it of (Min) ice, means that there are mountains of hail in the sky from which Allah sends down ice. As for those who say that "mountains" here is used as a metaphor for clouds, they think that the second Min is also used to describe the place from which the ice is coming, and is thus interchangeable with the first. And Allah knows best. ... فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاء وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاء ... and strikes therewith whom He wills, and averts it from whom He wills. It may be that the phrase فَيُصِيبُ بِهِ (and strikes therewith), means, with what He sends down from the sky of different kinds of rain and hail. So then the phrase فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاء (and strikes therewith whom He wills) means, by His mercy towards them, and وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاء (and averts it from whom He wills) means, He withholds rain from them. Or it may be that فَيُصِيبُ بِهِ (and strikes therewith), means, with hail, as a punishment towards whomever He wills, striking their fruits and destroying their crops and trees. And He averts it from whomever He wills as a mercy towards them. ... يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالاَْبْصَارِ The vivid flash of its lightning nearly blinds the sight. the brightness of its lightning almost takes away their sight if the eyes follow it and try to look at it.

بادل مرحلہ وار پتلے دھوئیں جیسے بادل اول اول تو قدرت الہٰی سے اٹھتے ہیں پھر مل جل کر وہ جسیم ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر جم جاتے ہیں پھر ان میں سے بارش برستی ہے ۔ ہوائیں چلتی ہیں ، زمین کو قابل بناتی ہیں ، پھر ابر کو اٹھاتی ہیں ، پھر انہیں ملاتی ہیں ، پھر وہ پانی سے بھر جاتے ہیں ، پھر برس پڑتے ہیں ۔ پھر آسمان سے اولوں کو برسانے کا ذکر ہے اس جملے میں پہلا من ابتداء غایت کا ہے ۔ دوسرا تبعیض کا ہے ۔ تیسرا بیان جنس کا ہے ۔ یہ اس تفسیر کی بنا پر ہے کہ آیت کے معنی یہ کئے جاہیں کہ اولوں کے پہاڑ آسمان پر ہیں ۔ اور جن کے نزدیک یہاں پہاڑ کا لفظ ابر کے لئے بطور کنایہ ہے ان کے نزدیک من ثانیہ بھی ابتدا غایت کے لئے ہے لیکن وہ پہلے کا بدل ہے واللہ اعلم ۔ اس کے بعد کے جملے کا یہ مطلب ہے کہ بارش اور اولے جہاں اللہ برسانا چاہے ، وہاں اس کی رحمت سے برستے ہیں اور جہاں نہ چاہے نہیں برستے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ اولوں سے جن کی چاہے ، کھیتیاں اور باغات خراب کر دیتا ہے اور جن پر مہربانی فرمائے انہیں بچالیتا ہے ۔ پھر بجلی کی چمک کی قوت بیان ہو رہی ہے کہ قریب ہے وہ آنکھوں کی روشنی کھودے ۔ دن رات کا تصرف بھی اسی کے قبضے میں ہے ، جب چاہتا ہے دن کو چھوٹا اور رات کو بڑی کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے رات کو بڑی کر کے دن کو چھوٹا کر دیتا ہے ۔ یہ تمام نشانیاں ہیں جو قدرت قادر کو ظاہر کرتی ہیں ، اللہ کی عظمت کو آ شکارا کرتی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ آسمان وزمین کی پیدائش ، رات دن کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ہمارے علمائے ہیئت نے اللہ کی ہر نشانی میں کچھ ایسے طبعی قوانین دریافت فرما رکھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت کہیں کام کرتا نظر نہ آئے اور یہی قوانین سکولوں اور کالوں میں بچوں کو پڑھائے جاتے ہیں۔ مثلاً بارش کے لئے دریافت کردہ طبعی قوانین یہ ہیں کہ سمندر پر سورج کی گرمی سے بخارات بن کر اوپر اٹھتے ہیں۔ پھر ہواؤں کا رخ ان بخارات کو کسی مخصوص سمت کی طرف اڑا لے جاتا ہے۔ تاآنکہ یہ بخارات کسی سرد منطقہ فضائی میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر یہ بخارات پھر پانی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور بارش ہونے لگتی ہے اور اگر شدید سرد منطقہ میں پہنچ جائیں تو پھوارے برسنے لگتے ہیں انہی اصولوں کے مطابق ہمارے ہاں پاکستان میں بارش یوں ہوتی ہے کہ جون جولائی کے گرم مہینوں میں بحیرہ عرب سے بخارات اٹھتے ہیں جو کوہ ہمایہ سے آکر ٹکراتے ہیں یہاں ہوائیں پھر ان کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیتی ہیں اور وہ اس پہاڑ کے سرد حصوں میں پہنچ کر پانی بن جاتے ہیں اور اس طرح موسم برسات یا جولائی یا اگست میں ہمارے ہاں بارشیں ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے کسی خاص مقام پر بارش ہونے کے عوامل یہ ہیں۔ سمندر سے اس مقام کا فاصلہ سطح سمندر سے بلندی، ہواؤں کا رخ، پہاڑوں کا رخ اور بلندی، ان اصولوں کے تحت ضروری ہے کہ ایک خاص مقام پر اور ایک خاص موسم میں ہر سال یکساں بارش ہو۔ کیونکہ نہ سمندر کے پھیلاؤ میں فرق آتا ہے نہ سورج کی گرمی میں، نہ پہاڑوں کی بلندی اور رخ میں سرد ہوائیں بھی طبعی قانون کے تحت ایک خاص رخ ہی اختیار کرتی ہیں۔ مگر ہمارا مشاہد یہ ہے کہ ہر سال یکساں بارش نہیں ہوتی۔ ایک سال تو بارشوں کی کثرت سے اس خاص مقام پر سیلاب آجاتا ہے اور کوئی سال بالکل خشک گزر جاتا ہے سرے سے بارش ہوتی ہی نہیں پھر ان طبعی قوانین کے نتائج میں یہ کمی بیشی اور تبدیلی کیوں واقع ہوتی ہے ؟ آخر ان باتوں سے یہ نتیجہ کیوں نہیں نکالا جاسکتا کہ کوئی ایسی زبردست اور بالاتر ہستی بھی موجود ہے جو ان بےجان قوانین کے نتائج میں تبدیلی کا پورا پورا اختیار رکھتی ہے۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ بادل جو کروڑوں ٹن پانی کے بخارات سے لدے ہوتے ہیں وہ کسی سرد منطقہ میں پہنچ کر پانی بن جاتے ہیں۔ تو یہ پانی برستے وقت آخر قطروں کی شکل کیوں اختیار کرتا ہے۔ پانی کے بخارات کی مقدار قلیل ہو تو اس کے متعلق تو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کروڑوں ٹن پانی آخر کس مقام پر یک دم کیوں نہیں گرپڑتا۔ اس پانی کی کثیر مقدار کو اس انداز میں نازل کرنا وہ خلق خدا، درختوں اور نباتات ارضی کے لئے نقصان دہ ہونے کے بجائے فائدہ مند ثابت ہو یہ آخر کون سے بےجان طبعی قانون کا نتیجہ ہے۔ پھر یہی بخارات جب شدید سرد منطقہ میں پہنچتے ہیں تو پانی جم جاتا ہے اسی کیفیت کے متعلق قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ بلندی میں اولوں کے پہاڑ ہوتے ہیں جن کا فائدہ بہت کم اور نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی وہی چیز جو اللہ کی رحمت تھی۔ اللہ کا عذاب بن کر گرنے لگتی ہے۔ اور فصلوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے انھیں تباہ کردیتی ہے۔ اور یہ اولے بھی گرتے اسی مقام پر ہیں جہاں اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کے مطابق ہواؤں کے رخ کو فوراً پھیر دیتا ہے اور جن لوگوں کو چاہتا ہے اولوں کے اس عذاب سے بچا بھی لیتا ہے اور جس قوم پر چاہتا ہے یہ عذاب اسی پر نازل ہوتا ہے۔ [٧١] یعنی آبی بخارات یا منجمد بادلوں کے ٹکراؤ سے بجلی بھی پیدا ہوتی ہے جو گر کر ہر چیز کو جلا دیتی ہے اور اسے تباہ کرکے رکھ دیتی ہے اور اس کی روشنی اس قدر تیز اور نگاہوں کو خیرہ کرنے والی ہوتی ہے کہ اگر انسان کچھ دیر اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کی بینائی کے نور کو بھی تباہ کرکے رکھ دے۔ یعنی بارش جو تمام اہل زمین کے لئے خیر کا پہلو رکھتی ہے اس میں اہل زمین کے لئے شر کے کئی پہلو موجود ہیں۔ یعنی اس بارش کے پانی میں بجلی اور آگ بھی موجود ہے۔ اس میں اتنی تیز روشنی بھی ہے جو آنکھوں کو بےنور کرسکتی ہے پھر یہی پانی اولے بن کر نقصان دہ چیز بھی بن جاتا ہے۔ لہذا انسان کو خوشی کے عالم میں کبھی اترانا نہ چاہئے بلکہ اللہ کی گرفت سے ڈرتے رہنا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزْجِيْ سَحَابًا ۔۔ : ” أَزْجٰی یُزْجِيْ “ نرمی کے ساتھ چلانا، ہانکنا، دھکیلنا۔ ” ألَّفَ یُؤَلِّفُ “ دو یا زیادہ چیزوں کو جوڑنا۔ بادل کو جوڑنے سے مراد اس کے ٹکڑوں کو جوڑنا ہے۔ ” رَکْمٌ“ کہتے ہیں ایک چیز کو دوسری کے اوپر رکھنا۔ ” رُکَاماً “ تہ بہ تہ۔ ” خِلاَلٌ“ ” خَلَلٌ“ کی جمع ہے، جیسے : ” جِبَالٌ“ ” جَبَلٌ“ کی جمع ہے۔ ” خَلَلٌ“ کا معنی شگاف، دراڑ اور سوراخ ہے۔ 3 ہوائیں کئی کام سر انجام دیتی ہیں، اللہ تعالیٰ پہلے ہوائیں بھیجتا ہے، وہ زمین پر جھاڑو پھیر کر خوب صفائی کردیتی ہیں، پھر مزید ہوائیں بھیجتا ہے، وہ بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں، تیسری ہوائیں بادلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر تہ بہ تہ کردیتی ہیں، پھر چوتھی ہوائیں انھیں برسانا شروع کردیتی ہیں۔ دیکھیے سورة اعراف (٥٧) ، روم (٤٨) اور فاطر (٩) ۔ یہ توحید کی دوسری دلیل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر انھیں جوڑ کر تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر یہ بھی اس کا احسان ہے کہ تہ بہ تہ بادلوں میں موجود پانی کے ذخیرے کو قطروں کی صورت میں زمین پر گراتا ہے، جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اور انسانوں، حیوانوں اور پودوں کو زندگی ملتی ہے۔ اگر وہ سیکڑوں ہزاروں مربع میل میں پھیلے ہوئے بادلوں کا کروڑوں اربوں ٹن پانی ایک ہی وقت میں زمین پر گرا دے تو نہ کوئی جان دار اس بوجھ کو برداشت کرسکے، نہ کوئی پودا اور نہ کوئی مکان باقی رہ جائے جس میں کوئی شخص سکونت اختیار کرسکے۔ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْهَا مِنْۢ بَرَدٍ : ” َبرَدٍ “ ” اولے۔ “ زمین سے جیسے جیسے بلندی کی طرف جائیں ٹھنڈک بڑھتی چلی جاتی ہے اور بعض اوقات اللہ کے حکم سے بادل برف کے پہاڑوں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ اب یہ اللہ کا فضل ہے کہ برف کے ان پہاڑوں میں سے تودوں کی شکل میں برف گرانے کے بجائے وہ اسے اولوں کی شکل میں گراتا ہے، جس سے کم از کم نقصان ہوتا ہے اور یہ بھی اس کی قدرت کا ثبوت ہے کہ وہی سمندر ہے، وہی سورج ہے جس کی تپش سے پانی بخارات بن کر اٹھتا ہے، وہی زمین ہے جس پر برستا ہے، زمین کے ہر قطعے کا سمندر سے اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا پہلے تھا، پہاڑ جن سے ٹکرا کر سائنسدان بارش برسنے کا ذکر کرتے ہیں، وہ بھی اسی جگہ ہیں، سارے اسباب یکساں ہونے کے باوجود ہمیشہ ہر جگہ ایک جیسی نہ بارش ہوتی ہے، نہ اولے پڑتے ہیں۔ کسی جگہ اگر کبھی خوش حالی لانے والی بارش ہے تو کبھی وہاں قحط مسلط کرنے والی خشکی ہے، کبھی غرق کردینے والا سیلاب ہے اور کبھی اولوں کی صورت میں تباہی و بربادی ہے، یہ سب کچھ اللہ مالک الملک کی توحید، اس کی قدرت اور اس کے اختیار کی دلیل ہے۔ فَيُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ : اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ ان اولوں کو جس پر برسانا چاہتا ہے برسا دیتا ہے اور جس سے ہٹانا چاہتا ہے ہٹا دیتا ہے، محکمہ موسمیات کے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ يَكَادُ سَـنَا بَرْقِهٖ يَذْهَبُ بالْاَبْصَارِ : ” سَـنَا “ بروزن ” عَصَا “ چمک، روشنی اور ” سَنَاءٌ“ بروزن ” جَلاَءٌ“ بلندی اور رفعت شان۔ آیت کا یہ جملہ اس جملے کی طرح ہے جس میں فرمایا : (يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ ) [ البقرۃ : ٢٠ ] مزید دیکھیے سورة رعد (١٢، ١٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا From the sky mountains (of clouds) having hail in them - 43. Here the word سَمَاء is purported for clouds, and Jibal جِبَالٍ (mountains) for big masses of clouds, while hails are called Barad.

مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْهَا یہاں سماء سے مراد بادل ہے اور جبال سے مراد بڑے بڑے بادل ہیں اور برد اولے کو کہا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَہٗ ثُمَّ يَجْعَلُہٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ۝ ٠ۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْہَا مِنْۢ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَصْرِفُہٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ۭ يَكَادُ سَـنَا بَرْقِہٖ يَذْہَبُ بِالْاَبْصَارِ۝ ٤٣ۭ زجا التَّزْجِيَةُ : دَفْعُ الشّيء لينساق، كَتَزْجِيَةِ ردیء البعیر، وتَزْجِيَةِ الرّيح السّحاب، قال : يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] ، وقال : رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [ الإسراء/ 66] ، ومنه : رجل مُزْجًى، وأَزْجَيْتُ ردیء التّمر فَزَجَا، ومنه استعیر : زَجَا الخراج يَزْجُو، وخراج زَاجٍ ، وقول الشاعر : وحاجة غير مُزْجَاةٍ من الحاج أي : غير يسيرة، يمكن دفعها وسوقها لقلّة الاعتداد بها . ( ز ج و ) التزجیۃ کے معنی کسی چیز کو دفع کرنے کے ہیں تاکہ چل پڑے مثلا پچھلے سوار کا اونٹ کو چلانا یا ہوا ۔ کا بادلوں کو چلانا ۔ قرآن میں ہے : يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43]( اللہ ہی ) بادلوں کو ہنکاتا ہے رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [ الإسراء/ 66] جو تمہارے لئے ( سمندروں میں ) جہازوں کو چلاتا ہے ۔ اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ رجل مزجی ہنکایا ہوا آدمی یعنی کمزور اور ذلیل آدمی ۔ ازجیت ردی التمر میں نے ردی کھجوروں کو دور پھینک دیا اور زجا لازم ) ازجی ٰ کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہاجاتا ہے ۔ رجا الخزاج ( ن ) خراج کا سہولت سے جمع ہوجاتا ۔ اور ، ، خراج زاج ، ، اس خراچ کو کہتے ہیں جو معمولی ہونے کی وجہ سے سہولت سے جمع ہوجائے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ (203) وجاجۃ غیر مزجاۃ عن الحاج اور حاجت مندوں کی بعض حاجتیں معمولی نہیں ہوتیں کہ انہیں پورا کیا جاسکے ۔ سحب أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] . ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔ ألف الأَلِفُ من حروف التهجي، والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران/ 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] . والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش/ 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . والأَلْفُ : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت . ( ا ل ف ) الالف ۔ حروف تہجی کا پہلا حرف ہے اور الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : { إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ } ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ { لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ } ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : { وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔ اوالف الطیر مانوس پرندے جو گھروں میں رہتے ہیں ۔ الالف ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے ركم يقال : ( سحاب مَرْكُومٌ ) «1» أي : متراکم، والرُّكَامُ : ما يلقی بعضه علی بعض، قال تعالی: ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] ، والرُّكَامُ يوصف به الرّمل والجیش، ومُرْتَكَمُ الطّريق : جادّتُهُ التي فيها رُكْمَةٌ ، أي : أثر مُتَرَاكِمٌ. ( ر ک م ) رکم ( ن ) کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر تلے رکھنا قرآن میں ہے ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] تہ بہ تہ بادل ۔ الرکام اوپر تلے رکھی ہوئی چیزیں جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] پھر اسے تہ بہ تہ کردیتا ہے ۔ اسی سے ریت کے ٹیلے اور لشکر کو بھی رکام کہا جاتا ہے اور مرتکم الطریق شاہراہ کو کہتے ہیں ۔ جس میں آمد رفت کے نشانات بکثرت ہوں ۔ ودق الوَدَق قيل : ما يكون من خلال المطر كأنه غبار، وقد يعبّر به عن المطر . قال تعالی: فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] ويقال لما يبدو في الهواء عند شدّة الحرّ وَدِيقَة، وقیل : وَدَقَتِ الدّابّةُ واسْتَوْدَقَتْ ، وأتانٌ وَدِيقٌ ووَدُوقٌ: إذا أَظْهَرَتْ رطوبةً عند إرادة الفحل، والْمَوْدِقُ : المکان الذي يَحْصُلُ فيه الْوَدَقُ ، وقول الشاعر : تعفّي بذیل المرط إذ جئت مَوْدِقِي تعفّي أي : تزیل الأثر، والمرط : لباس النّساء فاستعارة، وتشبيه لأثر موطئ القدم بأثر موطئ المطر . ( و د ق ) الودق ۔ بعض نے کہا ہے کہ بارش میں جو غبار سا نظر آتا ہے اسے ودق کہا جاتا ہے اور کبھی اس سے مراد بارش بھی ہوتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل میں سے مینہ نکل کر ( برس ) رہا ہے ۔ اور گرمی کی شدت سے ہوا میں جو لہریں نظر آتی ہیں انہیں ودیقتہ کہتے ہیں ۔ اور ودقت الدبتہ واستودقت کے معنی ہیں مادہ چو پایہ کا نر کی خواہش کے وقت رطوبت نکالنا چناچہ اس مادہ ( چوپایہ ) کو نر کی خواہش میں رطوبت نکال رہی ہو ودیق یا ودوق کہتے ہیں ۔ اور جہا بارش ہوئی ہو اس جگہ کو مودق ( ظرف ) کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 444) تعفی بذیل المرط اذاجئت مودنی تعفی کے معنی نشان مٹانے کے ہیں اور ہرط پڑی چادر کو کہتے ہیں جو ستر کے لیئے عورتیں اوپر اوڑھتی ہیں یہاں شاعر نے قدم کے پڑنے کی جگہ کو موضع مطر کے ساتھ تشبیہ دی ہے ور شعر کے معنی یہ ہیں کہ جب میں اپنی محبوبہ کے پاس آتا ہوں تو وہ اپنی چادر سے میرے قدموں کے نشان مٹادیتی ہے ۔ خل ( درمیان) الخَلَل : فرجة بين الشّيئين، وجمعه خِلَال، کخلل الدّار، والسّحاب، والرّماد وغیرها، قال تعالیٰ في صفة السّحاب : فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] ، فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] ، قال الشاعر : 143- أرى خلل الرّماد ومیض جمر وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] ، أي : سعوا وسطکم بالنّميمة والفساد . ( خ ل ل ) الخلل ۔ دو چیزوں کے درمیان کشاد گی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مچلا بادل اور گھروں کے درمیا کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خلال ہے ۔ چناچہ بادل کے متعلق فرمایا : فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے ۔ اور گھروں کے متعلق فرمایا : اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے ۔ شاعر نے کہا ہے میں راکھ کے اندر آگ کے انگارے کی چمک دیکھتا ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں دوڑے دوڑے پھرتے ۔ یعنی چغل خواری اور اور فساد سے تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ برد أصل البرد خلاف الحر، فتارة يعتبر ذاته فيقال : بَرَدَ كذا، أي : اکتسب بردا، وبرد الماء کذا، أي : أكسبه بردا، نحو : 48- ستبرد أکبادا وتبکي بواکيا «4» ويقال : بَرَّدَهُ أيضا، وقیل : قد جاء أَبْرَدَ ، ولیس بصحیح «5» ، ومنه البَرَّادَة لما يبرّد الماء، ويقال : بَرَدَ كذا، إذا ثبت «6» ثبوت البرد، واختصاص للثبوت بالبرد کا ختصاص الحرارة بالحرّ ، فيقال : بَرَدَ كذا، أي : ثبت، كما يقال : بَرَدَ عليه دين . قال الشاعر : 49- الیوم يوم بارد سمومه «7» وقال الآخر : 50- .... قد برد المو ... ت علی مصطلاه أيّ برود «1» أي : ثبت، يقال : لم يَبْرُدْ بيدي شيء، أي : لم يثبت، وبَرَدَ الإنسان : مات . وبَرَدَه : قتله، ومنه : السیوف البَوَارِد، وذلک لما يعرض للمیت من عدم الحرارة بفقدان الروح، أو لما يعرض له من السکون، وقولهم للنوم، بَرْد، إمّا لما يعرض عليه من البرد في ظاهر جلده، أو لما يعرض له من السکون، وقد علم أنّ النوم من جنس الموت لقوله عزّ وجلّ : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر/ 42] ، وقال : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ/ 24] أي : نوما . بارد، أي : طيّب، اعتبارا بما يجد الإنسان في اللذة في الحرّ من البرد، أو بما يجد من السکون . والأبردان : الغداة والعشي، لکونهما أبرد الأوقات في النهار، والبَرَدُ : ما يبرد من المطر في الهواء فيصلب، وبرد السحاب : اختصّ بالبرد، وسحاب أَبْرَد وبَرِد : ذو برد، قال اللہ تعالی: وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور/ 43] . والبرديّ : نبت ينسب إلى البرد لکونه نابتا به، وقیل : «أصل کلّ داء البَرَدَة» «2» أي : التخمة، وسمیت بذلک لکونها عارضة من البرودة الطبیعية التي تعجز عن الهضم . والبَرُود يقال لما يبرد به، ولما يبرد، فيكون تارة فعولا في معنی فاعل، وتارة في معنی مفعول، نحو : ماء برود، وثغر برود، کقولهم للکحل : برود . وبَرَدْتُ الحدید : سحلته، من قولهم : بَرَدْتُهُ ، أي : قتلته، والبُرَادَة ما يسقط، والمِبْرَدُ : الآلة التي يبرد بها . والبُرُد في الطرق جمع البَرِيد، وهم الذین يلزم کل واحد منهم موضعا منه معلوما، ثم اعتبر فعله في تصرّفه في المکان المخصوص به، فقیل لكلّ سریع : هو يبرد، وقیل لجناحي الطائر : بَرِيدَاه، اعتبارا بأنّ ذلک منه يجري مجری البرید من الناس في كونه متصرفا في طریقه، وذلک فرع علی فرع حسب ما يبيّن في أصول الاشتقاق . ( ب ر د ) البرد ( ٹھنڈا ) اصل میں یہ حر کی ضد ہے ۔ محاورہ میں کبھی اس کی ذات کا اعتبار کرکے کہا جاتا ہے : برد ( ن ک ) کذا اس نے ٹھند حاصل کی برد ( ن) الماء کذا پانی نے اسے ٹھنڈا کردیا ۔ جیسے ع ( الطویل ) ( 47 ) ستبرد اکباد وتبلی بو کیا تو بہت سے کلیجوں کو ٹھنڈا کیا اور بہت سی رونے والیوں کو رلا ڈالے گی اور برد تفعیل ) بھی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے بعض کے نزدیک ابردر ( افعال ) بھی اس معنی میں آجاتا ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اسی سے البرادۃ ہے جس کے معنی پانی ٹھنڈا کرنے والی چیز کے ہیں اور محاورہ میں برد کذا کے معنی کسی چیز کے البرد ا ولے کی طرح جامد اور ثابت ہونا بھی آتے ہیں جس طرح حر کو حرکت لازم ہی اسی طرح برد کے ساتھ کسی چیز کا ثبات مختص ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے ۔ برد علیہ دین ۔ اس پر قرض ٹھہر گیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ) ( 48 ) الیوم باردسمومہ ۔ آج باد سموم جامد ہے ۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 49 ) ۔۔۔۔۔۔ قدبرد الموت ۔۔ ت علی مصطلاہ ۔۔۔۔ کہ اس کے ہاتھ اور چہرہ پر موت طاری ہوگئی ۔ لم یبرد بیدی شیئ میرے ہاتھ میں کوئی چیز قرار نہیں پکڑتی ۔ برد الانسان مرجانا فوت ہوجانا ۔ بردہ اسے قتل کر ڈالا اسی سے سیوف کو بوارد کہا جاتا ہے کیونکہ ہیت بھی فقدان روح سے سرد پڑجاتی ہے اور اسے سکون کا حق ہوتا ہے ۔ یا ظاہری طور پر جلد میں خنکی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور یہ معلوم ہے کہ نیند بھی ایک طرح کی موت ہے ۔ جیسا کہ قران میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر/ 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی دو روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ؟ اور آیت کریمہ : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ/ 24] میں بھی برد بمعنی نیند ہے یعنی ہاں کسی قسم کی راحت اور زندگی کی خوشگواری نصیب ہیں ہوگی اور اس اعتبار سے کہ گرمی میں سردی سے احت اور سکون حاصل ہوتا ہے خوشگوار زندگی لے لئے عیش بارد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے الابردان صبح وشام کیونکہ یہ دونوں وقت ٹھنڈ ہی ہوتے ہیں ۔ البرد کے معنی اولے کے ہیں اور برد السحاب کے معنی ہیں بادل نے ژالہ باری کی سحاب ابرد وبرد ۔ اور اولے برسانے والے بادل قرآن میں ؟ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور/ 43] اور آسمان کے پہاڑوں سے اولے نازل کرتا ہے ۔ لبرد دی نرکل کی قسم کا ایک پونا ۔ یہ برد کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ بھی پانی میں پیدا ہوتا ہے غل مشہور ہے اصل کل داء البردۃ کہ بدہضمی الا مراض ہے بدہضمی کو بردۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس برودت طبعی کی وجہ سے عارض ہوتی ہے س سے قوت ہضم ناقابل ہوجاتی ہے ۔ البردود ٹھنڈا پہنچانے والی چیز کو کہتے ہیں اور کبھی ٹھنڈی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ فعول کبھی بمعنی فاعل ہوتا ہے اور کبھی بمعنی مفعول آتا ہے ۔ جیسے ماء برود ( ٹھنڈا پانی ) ثغر یرود ( خنک دانت ) جیسا کہ آنکھ کو ٹھنڈک پہنچانے والے سرمہ کو برود کہا جاتا ہے بردت الحدید میں نے لو ہے ریتی سے رگڑ یہ بردتہ بمعنی قتلتہ سے مشتق ہے اور لوہ چون کو برادۃ کہا جاتا ہے ۔ المبرۃ ( آلہ ) ریتی جس سے لوہے کو ریتتے بیں ۔ ۔ ا البرد یہ البرید کی جمع ہے اور محکمہ مواصلات کی صطلاح میں برد ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ پر پیغام رسانی کے لئے متعین رہتے ہیں ۔ وہ ہر کارے چونکہ سرعت سے پیغام رسانی کا کام کرتے تھے اس لئے ہر تیز رو کے کے لئے ھو یبرد کا محاورہ استعمال ہونے لگا ہے ۔ اور پرند گے ہر وں کو برید ان کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی اسے برید کا کام دیتے ہیں تو یہ بناء الفرح علی الفرع کے قبیل سے ہے جیسا کہ علم الا شتقا ا میں بیان کیا جاتا ہے ۔ صوب الصَّوَابُ يقال علی وجهين : أحدهما : باعتبار الشیء في نفسه، فيقال : هذا صَوَابٌ: إذا کان في نفسه محمودا ومرضيّا، بحسب مقتضی العقل والشّرع، نحو قولک : تَحَرِّي العدلِ صَوَابٌ ، والکَرَمُ صَوَابٌ. والثاني : يقال باعتبار القاصد إذا أدرک المقصود بحسب ما يقصده، فيقال : أَصَابَ كذا، أي : وجد ما طلب، کقولک : أَصَابَهُ السّهمُ ، وذلک علی أضرب : الأوّل : أن يقصد ما يحسن قصده فيفعله، وذلک هو الصَّوَابُ التّامُّ المحمودُ به الإنسان . والثاني : أن يقصد ما يحسن فعله، فيتأتّى منه غيره لتقدیره بعد اجتهاده أنّه صَوَابٌ ، وذلک هو المراد بقوله عليه السلام : «كلّ مجتهد مُصِيبٌ» «4» ، وروي «المجتهد مُصِيبٌ وإن أخطأ فهذا له أجر» «1» كما روي : «من اجتهد فَأَصَابَ فله أجران، ومن اجتهد فأخطأ فله أجر» «2» . والثالث : أن يقصد صَوَاباً ، فيتأتّى منه خطأ لعارض من خارج، نحو من يقصد رمي صيد، فَأَصَابَ إنسانا، فهذا معذور . والرّابع : أن يقصد ما يقبح فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يقصده، فيقال : أخطأ في قصده، وأَصَابَ الذي قصده، أي : وجده، والصَّوْبُ ( ص و ب ) الصواب ۔ ( صحیح بات ) کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کی ذات کے اعتبار سے یعنی خب کوئی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے قابل تعریف ہو اور عقل و شریعت کی رو سے پسندیدہ ہو مثلا تحری العدل صواب ( انصان کو مدنظر رکھنا صواب ہے ) الکرم صواب ( کرم و بخشش صواب ہے ) (2) قصد کرنے والے کے لحاظ سے یعنی جب کوئی شخص اپنے حسب منشا کسی چیز کو حاصل کرلے تو اس کے متعلق اصاب کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے مثلا اصابہ بالسھم ( اس نے اسے تیر مارا ) پھر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اس کی چند قسمیں ہیں (1) اچھی چیز کا قصد کرے اور اسے کر گزرے یہ صواب تام کہلاتا ہے اور قابل ستائش ۔ (2) مستحسن چیز کا قصد کرے لیکن اس سے غیر مستحسن فعل شرزہ اجتہاد کے بعد اسے صواب سمجھ کر کیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کل مجتھد مصیب ( کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ) کا بھی یہی مطلعب ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ المجتھد مصیب وان اخطاء فھذا لہ اجر کہ مجتہد مصیب ہوتا ہے اگر خطا وار بھی ہو تو اسے ایک اجر حاصل ہوتا ہے جیسا کہ ا یک اور روایت میں ہے من اجتھد فاصاب فلہ اجران ومن اجتھد فاخطا فلہ اجر کہ جس نے اجتہاد کیا اور صحیح بات کو پالیا تو اس کے لئے دواجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ (3) کوئی شخص صحیح بات یا کام کا قصد کرے مگر کسی سبب سے اس سے غلطی سرزد ہوجائے مثلا ایک شخص شکار پر تیز چلاتا ہے مگر اتفاق سے وہ کسی انسان کو الگ جاتا ہے اس صورت میں اسے معذور سمجھا جائے گا ۔ ( 4 ) ایک شخص کوئی برا کام کرنے لگتا ہے مگر اس کے برعکس اس سے صحیح کام صحیح کام سرز د ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ گو اس کا ارادہ غلط تھا مگر اسنے جو کچھ کیا وہ درست ہے ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے سنا السَّنَا : الضّوء الساطع، والسَّنَاءُ : الرِّفعة، والسَّانِيَةُ : التي يسقی بها سمّيت لرفعتها، قال : يَكادُ سَنا بَرْقِهِ [ النور/ 43] ، وسَنَتِ الناقة تَسْنُو، أي : سقت الأرض، وهي السَّانِيَةُ. ( س ن و ) السنار ( اسم مقصود ) چمک دار روشنی کو کہتے ہیں اور السناء ( ممدوح کے معنی رفعت کے ہیں ۔ اور معنی رفعت کے اعتبار سے آپ کشی جانور کو ، ، سانیہ ، ، کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يَكادُ سَنا بَرْقِهِ [ النور/ 43] اور بادل میں جو بجلی ہے اس کی چمک آنکھوں کو ذخیرہ کرکے بینائی کو ) اچکے لئے جاتی ہے ۔ اور سنت الناقۃ تسنو کے معنی ہیں اونٹنی نے کنویں سے پانی نکالا اور زمین کو سیراب کیا اور ایسی اونٹنی کو سانیۃ کہاجاتا ہے ( والجمع السونی ) برق البَرْقُ : لمعان السحاب، قال تعالی: فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] ( ب رق ) البرق کے معنی بادل کی چمک کے ہیں قرآن میں ہے : فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھارہا ) ہو اور بادل ) گرج ( رہا ) ہو اور بجلی کوند رہی ہو ۔ ذهاب والذَّهَابُ : المضيّ ، يقال : ذَهَبَ بالشیء وأَذْهَبَهُ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ، لَيَقُولَنَّ : ذَهَبَ السَّيِّئاتُ عَنِّي [هود/ 10] ( ذ ھ ب ) الذھب الذھاب ( والذھوب ) کے معنی چلا جانے کے ہیں ۔ ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ لَيَقُولَنَّ : ذَهَبَ السَّيِّئاتُ عَنِّي [هود/ 10] تو ( خوش ہوکر ) کہتا ہے کہ ( آہا ) سب سختیاں مجھ سے دور ہوگئیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (وینزل من السمآء من جبال فیھا من ترد فیصیب بہ من یشآء ویصرفہ عن یشآء) اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں اولے برساتا ہے اور پھر جیسے چاہتا ہے اس کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے بچا لیتا ہے۔ ایک قول کے مطابق پہلا حرف من ابتدائے غایت کے لئے ہے اس لئے کہ ابتداء آسمان سے نازل کرنے کے ساتھ ہوتی ہے دوسرا حرف من تبیعض کے لئے ہے اس لئے کہ اولے ان پہاڑوں کا ایک حصہ ہیں جو آسمانوں میں بلند ہیں۔ تیسرا حرف من جنس کو بیان کرنے کے لئے ہے کیونکہ ان پہاڑوں کی جنس اولوں کی جنس میں سے ہے۔ قول باری ہے : (واللہ خلق کل دابۃ من ماء۔ ) اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا ایک قول کے مطابق تخلیق کی بنیاد پانی پر رکھی گئی، پھر اس پانی کو آگ میں تبدیل کردیا گیا اور اس سے جنوں کی تخلیق ہوئی، پھر اسے ہوا میں تبدیل کردیا گیا اور ا س سے فرشتوں کی تخلیق ہوئی اور پھر اسے مٹی میں تبدیل کرکے اس سے آدم کی تخلیق کی گئی ۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کا ذکر کیا جو دو پائوں پر چلتا ہے اور اس کا جو چار پائوں کے سہارے چلتا ہے لیکن چار سے زائد پیر رکھنے والوں کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ ایسا جانور دیکھنے میں چار پائوں پر ہی چلتا نظر آتا ہے اس لئے اس کا ذکر چھوڑ دیا کیونکہ جہاں تک عبرت حاصل کرنے کا تعلق ہے چار پایہ جاندار کے ذکر اس کے لئے کافی سمجھا گیا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک بادل کو دوسرے کی طرف چلا تا ہے اور پھر اس بادل کے مجموعہ کو ایک دوسرے سے ملا دیتا ہے پھر اس کو تہہ بہ تہہ کرتا ہے پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ ان بادلوں کے بیچ میں سے نکل کر آتی ہے اور پھر اسی بادل سے یعنی اس کے بڑے بڑے حصوں سے اولے برساتا ہے اور پھر ان اولوں سے جو اس سزا کا مستحق ہوتا ہے اس پر گرا کر اس کو سزا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اپنے اس عذاب کو ہٹا دیتا ہے۔ اور اس بادل میں سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے اس کی چمک کی تیزی کی یہ حالت ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ بینائی چھین لے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَابًا) ” سمندر کے بخارات سے بادل بنتے ہیں اور ہواؤں کے دوش پر ہزاروں میل کا سفر طے کر کے کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ (ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہٗ ثُمَّ یَجْعَلُہٗ رُکَامًا) ” جن لوگوں کو ہوائی سفر کا تجربہ ہے انہوں نے بادل کے تہ بر تہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا۔ ابر آلود موسم میں بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ بادلوں کی ایک تہ میں سے جہاز اوپر چڑھتا ہے اور اس کے بعد فضا صاف ہوتی ہے۔ پھر اوپر جا کر بادلوں کی ایک اور تہ ہوتی ہے۔ اس طرح متعدد تہیں ہوسکتی ہیں۔ (وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْہَا مِنْم بَرَدٍ ) ” جب زمین پر اولے پوری شدت سے برس رہے ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آسمانوں میں اولوں کے پہاڑ ہیں۔ (فَیُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَیَصْرِفُہٗ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُ ط) ” جب کسی کھیتی کو کسی وجہ سے برباد کرنا مقصود تو اس پر اللہ کی مشیت سے یہ اولے برس پڑتے ہیں اور جس کھیتی کو وہ تباہ کرنا نہیں چاہتا اس کی طرف سے ان کا رخ پھیر دیتا ہے۔ بعض اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک کھیت اولوں سے تباہ ہوگیا ‘ لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا کھیت بالکل سلامت رہا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74. As has been explained above, Allah is the Light of the whole universe, but His Light can be perceived and comprehended by the righteous believers only. All other people grope about in the dark like the blind in spite of the all-pervading, all-embracing Light. Here a few of the countless signs which guide to the Light are being mentioned by way of example. If a person whose eyes of the heart are open, sees them, he can perceive Allah working everywhere around him at all times. But those who are blind of the heart, and can only see with the head’s eyes, can see Biology and Zoology and other sciences working in the world, but they fail to perceive and recognize Allah’s signs anywhere working in the world. 75. This may mean frozen clouds which have been called mountains in the heavens metaphorically. It may also mean the mountains of the earth which stand high in the heavens and whose snow-capped peaks cause condensation in the clouds which results in hailstorms.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :75 اس سے مراد سردی سے جمے ہوئے بادل بھی ہو سکتے ہیں جنہیں مجازاً آسمان کے پہاڑ کہا گیا ہو ۔ اور زمین کے پہاڑ بھی ہو سکتے ہیں جو آسمان میں بلند ہیں ، جن کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف کے اثر سے بسا اوقات ہوا اتنی سرد ہو جاتی ہے کہ بادلوں میں انجماد پیدا ہونے لگتا ہے اور اولوں کی شکل میں بارش ہونے لگتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٣۔ ٤٤:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آسمان و زمین میں اکیلے اللہ کی حکومت ہے ‘ اس کی حکومت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ‘ ان آیتوں میں اس حکومت کی یہ مثال بیان فرمائی ‘ جس کا حاصل یہ ہے کہ تمام دنیا کی زندگی کا دارو مدار زمین کی پیداوار پر اور زمین کی پیداوار کا دارومدار مینہ کے برسنے پر ہے۔ ان مشرکوں کا یہ جو اعتقاد ہے کہ تاروں کی گردش سے مینہ برستا ہے مکہ کے قحط کے وقت ان کو اپنے ان اعتقاد کی غلطی اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ اللہ کے رسول کی دعا پر جب اللہ کا حکم ہوا تو مینہ برسا بغیر اللہ کے حکم کے نہ تاروں کی گردش کچھ کام آئی نہ ان مشرکوں کے بت کچھ کام آئے مشرکین مکہ کا یہ جو اعتقاد تھا کہ تاروں کی گردش سے مینہ برستا ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کی زید بن خالد جہنی کی روایت کے حوالہ سے اس کا ذکر ایک ١ ؎ جگہ گزر چکا ہے مکہ کے قحط کا قصہ بھی عبداللہ بن مسعود کا صحیح بخاری کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ ٢ ؎ بیان کردیا گیا ہے۔ حاصل مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ ہی کی حکومت کا یہ اثر سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ دنیا بھر میں جہاں اس کو مینہ برسانا منظور ہوتا ہے ‘ ہوا اس کے حکم سے بادل کے ٹکڑوں کو وہاں لے جاتی ہے اور پھر ٹکڑوں کو جوڑا کر اور تہ بتہ کیا جا کر جتنی دور تک حکم ہوتا ہے اتنی دور تک گہرا بادل چھا جاتا ہے اور اس بادل میں سے مینہ برستا ہے جس سے ہر طرح کی پیداوار اناج اور میووں کی سال بسال ہوجایا کرتی ہے ‘ ایک سال بھی وقت پر مینہ نہیں برستا ‘ تو کھیتیاں ‘ باغ سب خشک ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اولوں کی بلا کا بھیجنا منظور ہوتا ہے تو آسمان سے وہ برف کی سلیں کی سلیں بادلوں میں بھیج دیتا ہے جس سے اولے پڑ کر وہ کھیت اور باغ اجڑ جاتے ہیں اور سوائے اللہ کے اس بلا کو کوئی نہیں ٹال سکتا ‘ پھر فرمایا اس اولے والے بادل میں بجلی کی چمک اس غضب کی ہوتی ہے کہ جس سے آدمی کی آنکھیں بند ہوجاتی ہے ‘ جس طرح اب فارسی اردو کے شاعر اپنے شعروں میں گردش زمانہ کی شکایت باندھتے ہیں ‘ عرب کے شاعروں کی بھی یہی عادت تھی ‘ اسی کو فرمایا گردش زمانہ رات دن کی الٹ پلٹ کا ہم ہے اور رات دن کی یہ الٹ پلٹ کہ کبھی رات ہے اور کبھی دن اللہ کے حکم سے ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ٣ ؎ سے حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ جو لوگ گردش زمانہ کو برا کہتے ہیں وہ گویا مجھ کو برا کہتے ہیں کیونکہ گردش زمانہ میری قدرت کی نشانیوں کا نام ہے۔ اس حدیث سے یُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رات دن کا ہیر پھیر اور اس ہیر پھیر میں رات دن جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہے اور رات دن کی ہیر پھیر کا نام ہی گردش زمانہ ہے تو کفر کی رسم کے موافق کسی ایماندار آدمی کو جائز نہیں ہے کہ وہ گردش زمانہ کو برا کہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی روایت کئی جگہ گزر چکی ٤ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن شریف کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے اس حدیث سے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لْاَوُلیِ الْاَ بْصَارِ کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں جو بیان کی جاتی ہیں ‘ اگرچہ وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں لیکن ان نشانیوں کی عبرت کی نظر سے وہی لوگ دیکھتے ہیں جن کی آنکھوں پر غفلت کا پردہ نہیں ہے ورنہ جن لوگوں کی آنکھوں پر غفلت کا پردہ پڑا ہوا ہے ان کے حق میں وہ قدرت کی نشانیاں ایسی ہی رائیگاں ہیں جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے ‘ سورة الرعد میں بجلی کا حال گزر چکا ہے۔ (١ ؎ ص ٢٢ ج ٣ تفسیر بذا ) (٢ ؎ مثلا دیکھئے ص ٣١٤ ج ٣ تفسیر ہذا ) (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ١٣ کتاب الا یمان ) (٤ ؎ مثلا ص ٣٠ ج ٣ تفسیر ہذا۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:43) یزجی۔ مضارع واحد مذکر غائب ازجاء (افعال) مصدر۔ التزجیۃ (باب تفعیل) کسی چیز کو دفع کرنا کہ وہ چل پڑے۔ مثلاً پچھلے سوار کا اونٹ کو چلانا ۔ یا ہوا کا بادلوں کو چلانا۔ یزجی سحابا۔ وہ بادلوں کو ہنکاتا ہے اور جگہ قرآن مجید میں ہے یزجی لکم الفلک (17:66) جو تمہارے لئے (سمندروں میں) جہازوں کو چلاتا ہے۔ اسی سے ہے رجل مزجی۔ ہنکایا ہوا آدمی۔ یعنی کمزور۔ ذلیل آدمی۔ یؤلف۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ تالیف (تفعیل) مصدر۔ وہ ملا دیتا ہے ۔ وہ اکٹھا کردیتا ہے۔ یؤلف بینہ۔ پھر (اس کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو) باہم اکٹھا کردیتا ہے۔ ای یؤلف بین اجزاء السحاب۔ رکاما۔ ای متراکما تہ بہ تہ۔ بعضہ فوق بعض۔ ایک دوسرے کے اوپر اسم مفعول ہے (تہ بہ تہ بادل) رکم یرکم (باب نصر) تہ بہ تہ کرنا۔ ڈھیر لگانا۔ الودق۔ اسم، بارش۔ سخت بارش۔ دوسری جگہ قرآن میں آیا ہے ویجعلہ کسفا فتری الودق یخرج من خللہ (30:48) اور وہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے پھر تو مینہ کو دیکھتا ہے کہ اس کے اندر سے نکلتا ہے۔ خللہ۔ اس کے درمیان۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع سحابا ہے۔ الخلل دو چیزوں کے درمیان کشادگی۔ اور فاصلہ کو کہتے ہیں۔ مثلاً بادلوں کے درمیان کا فاصلہ۔ گھروں کے درمیان کا فاصلہ۔ جیسے آیہ ہذا (بادلوں کے لئے) اور گھروں کے متعلق فجاسوا کلل الدیار (17:5) اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے اور وفجرنا خللھما نھرا (18:33) اور ہم نے ان دونوں کے درمیان ایک ندی جاری کر رکھی تھی۔ ینزل۔ مضارع واحد مذکر غائب تنزیل (تفعیل) مصدر وہ نازل کرتا ہے برساتا ہے۔ من السمائ۔ آسمان سے۔ برد۔ اولے۔ ینزل من السماء من جبال فیھا من برد۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ :۔ من الجبال، من برد۔ میں من دونوں جگہ زائد ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے ای ینزل من السماء بردا یکون کالجبال۔ یعنی آسمان سے برف اتارتا ہے جو کہ پہاڑوں کی طرح ہوتی ہے۔ (یعنی اتنی کثرت سے برستی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ برف کے پہاڑ ہیں جو آسمان سے اتر رہے ہیں۔ صاحب تفیسر ماجدی لکھتے ہیں :۔ سماء کے لغوی معنی پر حاشیے کئی بار گذر چکے۔ (بلند سائبان اور چھت پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ یہاں مراد ابر ہے۔ من جبال عربی محاورہ میں کثرت و عظمت کے اظہار لئے آتا ہے۔ مثلاً کثرت علم کے موقعہ پر عندہ جبال من العلم اور کثرت زر کے موقع پر فلان یملک جبالا من ذھب (بحر) اردو محاورہ میں بھی بولتے ہیں ” اس کے پاس تو سونے کے پہاڑ ہیں۔ زجاج نحوی کا قول نقل ہوا ہے کہ :۔ من جبال۔ یہاں کالجبال کے معنی میں ہے حرف تشبیہ ک محذوف ہے۔۔ من السماء میں من ابتدائے غایت کا ہے اور من جبال تبعیض کا ہے اور من برد میں من تبیین جنس کا ہے۔ انہوں نے اس فقرہ کا ترجمہ یوں کیا ہے۔ اور اسی بدل سے یعنی اس کے بڑے حصوں میں سے اولے برساتا ہے۔ یصیب مضارع واحد مذکر غائب۔ اصابۃ مصدر (باب افعال) وہ پہنچاتا ہے یعنی وہ برساتا ہے۔ یصرفہ۔ مضارع واحد مذکر غائب ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ وہ اس کو پھر دیتا ہے وہ اس کو ہٹا دیتا ہے۔ فیصیب بہ اور یصرفہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب برد کے لئے ہے۔ سنا۔ چمک دار روشنی، بچلی کی چمک۔ یا آگ کی چمک ۔ ہر تیز روشنی۔ برقہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع سحاب ہے۔ یکاد۔ یذھب۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ قریب ہے کہ لے جائے۔ الابصار آنکھوں کی بینائی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ یعنی ان کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک چیز بنا دیتا ہے۔ 8 ۔ جیسے چھلنی کے سوراخوں میں سے کوئی چیز ٹپکتی ہے۔ 9 ۔ یعنی اس کی تیز روشنی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اس کی بادشاہی پر غور کرنے کے لیے بادلوں کی طرف توجہ کرو۔ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بادل بناتا اور اٹھاتا ہے پھر ان کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس کے بعد بادلوں کو ایک دوسرے پر تہہ در تہہ کردیتا ہے اور پھر ان سے موسلادار بارش برساتا ہے۔ جو پہاڑوں کی مانند نظر آتی ہے اس میں بسا اوقات اولے بھی برستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے وہاں اولے برساتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولوں سے محفوظ فرماتا ہے۔ یہی صورت حال بارش کی ہے جو کہیں برستی ہے اور کہیں سے یوں ہی بادل گزر جاتے ہیں۔ بادلوں میں اس طرح بجلی چمکتی ہے جو آنکھوں کی بینائی کو حیرہ کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا ہے بصیرت رکھنے والوں کے لیے اس میں اللہ کی ذات اور اس کی کبریائی کو پہچاننے کے لیے اَن گنت دلائل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں قدیم اور جدید فلکیات کا علم رکھنے والے سائنسدانوں نے ٹھیک اندازہ لگایا کہ سورج کی گرمی سے پانی بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور ہوائیں بخارات کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں پھر بخارات فضا کے ایسے خطہ میں پہنچتے ہیں کہ جہاں پہنچ کر وہ بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ہوا بادلوں کو دھکیل کر کہیں سے کہیں لے جاتی ہے جب بخارات ایک خاص نقطہ انجماد پر پہنچتے ہیں تو بارش بن کر زمین پر برستے ہیں سائنسدانوں میں بےدین طبقہ نے اس سے آگے سوچنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی جس بناء پر وہ بارش کے سارے عمل کو فطری نظام سمجھ کر صرف نظر کردیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس پورے عمل میں گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی دعوت دی ہے کیا بارش کو فطری عمل قرار دینے والے بےدین سائنسدان اس پر غور نہیں کرتے کہ آخر ہوا میں اتنی قوت اور کشش کس نے پیدا کی ہے جو بخارات کی صورت میں لاکھوں ٹن پانی اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے اور سورج نسبتاً قریب ہونے کے باوجود اس پانی کو اپنی حرارت کے ذریعے کیوں ختم نہیں کردیتا ؟ فضا میں وہ خطے کس نے پیدا کیے ہیں جہاں پہنچ کر بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں پھر ہواؤں کا رخ موڑنے والی کونسی قوت ہے جو ہوا کو ادھر سے ادھر جانے کا حکم دیتی ہے پھر سوچیے کہ وہ کونسی طاقت ہے جو کھربوں من پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو ایک دوسرے کے اوپر ایک مناسب فاصلہ پر رکھتے ہوئے سنبھالے ہوئے ہے پھر یہی بادل کہیں موسلادھار بارش کی صورت میں برستے ہیں اور کہیں بونداباندی کی صورت ٹپکتے ہیں۔ آخر بارش کا یہ نظام کس نے قائم کیا ہے دنیا میں کہیں بھی بادل یکدم نیچے نہیں گرتا۔ وہ قطرات کی شکل میں برستا اور اپنے وجود کو ختم کردیتا ہے۔ اب ان برسنے والے اولوں پر غور کیجیے کہ ایک ہی بادل سے بیک وقت اس قدر اولے برستے ہیں کہ زمین کئی کئی فٹ برف سے ڈھک جاتی ہے اور اسی زمین سے چند فٹ دور وہاں بارش میں ایک اولہ بھی نہیں پڑتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک فصل کو اولوں سے تباہ کردیتا ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہوئی دوسری فصل کو بارش سے نہلا تا اور اسے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے اب اس کے درمیان چمکنے اور گرجنے والی بجلی پر غور کریں جب وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ گرجتی اور چمکتی ہے۔ تو نہ صرف ڈر کے مارے لوگ سہم جاتے ہیں بلکہ بجلی کی چکاچوند روشنی میں ان کی بصارت بھی کام نہیں دیتی اگر اس موقع پر انسان کی نظر آسمانی بجلی کی شعاعوں سے ٹکرا جائے تو آنکھوں کی بینائی ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ جس بجلی کی کڑک سے لوگ خوف کھاتے ہیں اس کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔ (الرعد : ١٤) یہی رب ذوالجلال رات اور دن کو بدلتا ہے آج تک کبھی نہیں ہوا اور قیامت تک نہ ہو سکے گا کہ کسی علاقہ میں رات دن کو بالکل ختم کردے اور دوسرے علاقہ میں دن رات کو ہڑپ کر جائے۔ پورے نظام میں سوچ وبچار کرنے والوں کے لیے نصیحت حاصل کرنے اور ہدایت پانے کے لیے بہت سے شواہد و قرائن ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ أَقْبَلَتْ یَہُودُ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا یَآأَبَا الْقَاسِمِ أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا ہُوَ قَالَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلاآءِکَۃِ مُوَکَّلٌ بالسَّحَابِ مَعَہٗ مَخَارِیْقُ مِّنْ نَارٍ یَّسُوقُ بِہَا السَّحَابَ حَیْثُ شَآء اللّٰہُ فَقَالُوْا فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِیْ نَسْمَعُ قَالَ زَجْرُہٗ بالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَہٗ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی حَیْثُ أُمِرَ قَالُوْا صَدَقْتَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورة الرعد وہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسم ! ہمیں بجلی کی کڑک کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے جہاں لے جانے کا اسے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ان میں آواز کیا ہے جو ہم سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ فرشتہ بادلوں کو ہانکتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی بادلوں کو اٹھانے والا اور انہیں تہہ درتہہ فضا میں قائم رکھنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے اولے برساتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ٣۔ اللہ ہی بارش برساتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمانی بجلی پر کنٹرول کرنے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہی رات اور دن کو مناسب اوقات میں تبدیل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن بارش کے بارے میں قرآن مجید کے دلائل : ١۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا اللہ ہے کیا اس کے ساتھ کوئی اور برسانے والا ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ وہ ذات جو ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے بھیجتا ہے وہ ہوابھاری بادل اٹھاتی ہیں۔ (الاعراف : ٥٧) ٢۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ قیامت برپا ہونے، بارش کے نازل ہونے، جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٤۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرمائے۔ (ہود : ٥٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ارشاد فرمایا (اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِی سَحَاباًٰ ) (الایہ) اس میں عالم علوی کے بعض تصرفات کا تذکرہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بادل کو دوسرے بادل کی طرف چلاتا ہے پھر ان سب کو آپس میں ملا دیتا ہے پھر ان کو تہہ بہ تہہ جمانے کے بعد اس میں سے بارش نازل فرماتا ہے۔ اے مخاطب تو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے بارش نکل رہی ہے اور جب اس کی مشیت ہوتی ہے تو انہیں بادلوں کے بڑے بڑے حصوں میں سے جو پہاڑوں کی مانند ہیں اولے برسا دیتا ہے۔ یہ اولے بڑے خطر ناک ہوتے ہیں جس کی جان یا مال کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بچا دیتا ہے اور جسے مالی نقصان پہنچانا ہو وہ ان اولوں کو اس کی ہلاکت یا کثیر و قلیل ضرر کا سبب بنا دیتا ہے۔ قال صاحب الروح فی تفسیرہ قولہ تعالیٰ و ینزل من السماء من جبال ای من السحاب من قطع عظام تشبہ الجبال فی العظم والمراد بھا قطع السحاب بعض مرتبہ بادلوں میں بجلی پیدا ہوتی ہے جس کی چمک بہت تیز ہوتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آنکھوں کی بینائی کو اچک لے گی۔ اس کا پیدا فرمانا بھی اللہ تعالیٰ کے تصرفات میں سے ہے۔ اس کے ذریعہ اموات بھی ہوجاتی ہیں اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہتا ہے بچا لیتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ ” الم تر ان اللہ یزجی الخ “ : یہ دوسری عقلی دلیل ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ مختلف سمتوں سے بادلوں کو چلا کر ایک جگہ جمع کرتا ہے پھر اس کی قدرت سے ان بادلوں سے بارش برستی ہے وہ آسمان کی طرف سے پہاڑوں کی مانند بادلوں میں سے اولے برساتا ہے جن کی وجہ سے بعض لوگوں کا جانی اور مالی نقصان ہوجاتا ہے اور بعض اس سے محفوط رہتے ہیں۔ بادلوں جب بجلی کوندتی ہے اس کی روشنی اس قدرت تیز ہوتی ہے کہ آنکھوں کی روشنی ہی سلب کرلے۔ یہ سارا نظام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔ ” یقلب اللیل والنھار الخ “ : اس کے علاوہ رات دن کا انقلاب یعنی رات دن کی یکے بعد دیگرے آمد و رفت اور ان کی کمی بیشی بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ” ان فی ذالک الخ “: جو لوگ عقل و بصیرت رکھتے ہیں ان کے لیے ان تمام تکوینی دلائل میں عبرت ہے ان سے اللہ تعالیٰ کی کارسازی، اس کا معبود برحق ہونا اور سارے عالم میں متصرف و مختار ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (لعبرۃ لاولی الابصار) ای دلالۃ لاھل العقل و البصائر علی قدرۃ اللہ وتوحیدہ (خازن ج 5 ص 83) ۔ یہی وہ دعوی ہے جس کی وجہ سے منافقین نبی (علیہ السلام) پر بدنامیاں لگا رہے ہیں۔ ” من السماء “ یعنی اوپر کی جانب سے مراد بادل ہیں۔ ” من جبال “ ، من السماء سے بدل ہے اور جبال بادلوں سے کنایہ ہے کیونکہ بادل سفید پہاڑوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ من السماء ای من السحاب فان کل ما علاک سماء من جبال ای من قطع عظام تشبہ الجبال فی العظم (روح ج 18 ص 190) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) کیا اے مخاطب تو نے نہیں دیکھا اور کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی بادل کے ٹکڑوں کو چلاتا ہے پھر ان کو آپس میں ایک دوسرے سے ملا دیتا ہے پھر ان کو تہ بہ تہ رکھتا ہے پھر اے مخاطب تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس بادل کے درمیان سے نکلتی ہے اور تو اس بادل کے درمیان سے مینہ برستا ہوا دیکھتا ہے اور آسمانوں میں جو اولوں کے پہاڑ ہیں ان سے اولے برساتا اور اتارتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے ان اصولوں کو گراتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ان اولوں کو پھیر دیتا ہے اور ہٹا دیتا ہے بادل کی بجلی کی چمک اور اس کی کوند قریب ہے کہ ابھی آنکھوں کی بینائی لے جائے۔ یعنی یہ اس کی قدرت ہے کہ بادل کے ٹکڑوں کو ہنکا لانا پھر ٹکڑوں کو ملانا اور اوپر تلے رکھ کر ایک وسیع اور موٹا بادل ترتیب دینا پھر بارش کو اس کے درمیان سے نکالنا اور برسانا اولوں کے پہاڑ آسمان کی جانب سے اتارتا اور نازل کرتا ہے یہ فرمایا غلیظ بادل کو کہ اس میں سے اولے گرتے ہیں پھر جس جگہ چاہتے ہیں اس کی چھال ڈال دیتے ہیں اور جس سمت کو چاہتا ہے اولوں سے بچالیتا ہے جیسا کہ بعض کھیت محفوظ رہتے ہیں اور بعض کھیت بعض جانور بعض آدمی اولوں کی زد میں آجاتے ہیں ۔ بڑے شہر میں بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض علاقہ محفوظ رہتا ہے اور بعض علاقے میں اولے پڑجاتے ہیں اور اولوں کا بادل چونکہ غلیظ ہوتا ہے اس لئے بجلی بھی خوب چمکتی ہے اس کو فرمایا کہ اس کی چمک کا یہ عالم ہے قریب ہے کہ وہ آنکھوں کی بینائی اچک لے اور آنکھوں کو خیرہ کردے۔ ہم نے عام علماء کے قول کے مطابق ترجمہ کیا ہے اگرچہ بعض علماء نے اور طرح بھی تفسیر کی ہے بہرحال یہ اس کی قدرت کاملہ ہے کہ پانی میں سے آگ پیدا کرتا ہے بادلوں پر کنٹرول اور قابو رکھتا ہے جس کھیت یا باغ کو اولوں سے تباہ کرنا چاہتا ہے تباہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بچالیتا ہے یا جس کو چاہتا ہے بارش سے سیراب کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے خشک پڑا رہنے دیتا ہے۔ فسبحان من یخرج الماء والنار والنور والظلمۃ من شئی واحد۔