Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 102

سورة الشعراء

فَلَوۡ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾

Then if we only had a return [to the world] and could be of the believers... "

اگر کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر جانا ملتا تو ہم پکے سچے مومن بن جاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(Alas!) If we only had a chance to return, we shall truly be among the believers! They will wish that they could come back to this world so that they could do deeds of obedience to their Lord -- as they claim -- but Allah knows that if they were to come back to this world, they would only go back to doing forbidden things, and He knows that they are liars. Allah tells us in Surah Sad about how the people of Hell will argue with one another, as He says: إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ Verily, that is the very truth -- the mutual dispute of the people of the Fire! (38:64) Then He says: إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّوْمِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1021اہل کفر و شرک، قیامت کے روز دوبارہ دنیا میں آنے کی آرزو کریں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرکے اللہ کو خوش کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ اگر انھیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] مجرموں اور جہنمیوں کے اس قول اور اس آرزو کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بار آیا ہے اور ساتھ ہی اس کا جواب بھی مذکور ہے۔ یعنی ان کو اگر دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو پھر بھی وہ وہی کام کریں گے جیسے پہلے کرتے رہے ہیں (١٦: ٢٨ ( کیونکہ انسان کی تو عادت ہی یہ ہے کہ مشکل کے وقت جب جان پر بن جاتی ہے تو اس وقت وہ صرف ایک اللہ ہی کو یاد کرتا ہے اور دوسرے معبودوں کو بھول جاتا ہے۔ لیکن جب اللہ اسے مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو بعد میں وہ پھر اللہ کو بھول جاتا ہے اور اپنے معبودوں کو ہی پکارنے لگ جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً ۔۔ : کفار کی اس تمنا کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر ہے اور یہ بھی کہ ان کی یہ تمنا کبھی پوری نہیں ہوگی۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٦٧) ، انعام (٢٧، ٢٨) اور مؤمنون (١٠٦ تا ١٠٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّۃً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١٠٢ كر الْكَرُّ : العطف علی الشیء بالذّات أو بالفعل، ويقال للحبل المفتول : كَرٌّ ، وهو في الأصل مصدر، وصار اسما، وجمعه : كُرُورٌ. قال تعالی: ثُمَّ رَدَدْنا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ [ الإسراء/ 6] ، فَلَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الشعراء/ 102] ، وَقالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً [ البقرة/ 167] ، لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً [ الزمر/ 58] والْكِرْكِرَةُ : رحی زَوْرِ البعیر، ويعبّر بها عن الجماعة المجتمعة، والْكَرْكَرَةُ : تصریف الرّيحِ السّحابَ ، وذلک مُكَرَّرٌ من كَرَّ. ( ک ر ر ) الکر۔ اس کے اصل معنی کسی چیز کو بالذات بالفعل پلٹا نا یا موڑ دینا کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو بھی کر کہاجاتا ہے ۔ یہ اصل میں مصدر ہے مگر بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ اس کی جمع کرور آتی ہے اسی سے الکرۃ ( دوسری بار ) ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ رَدَدْنا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ [ الإسراء/ 6] پھر ہم نے دوسری بار تم کو ان پر غلبہ دیا ۔ فَلَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الشعراء/ 102] کا ش ہمیں دنیا میں پھرجانا ہو تو ہم مومنوں میں ہوجائیں ۔ وَقالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً [ البقرة/ 167]( یہ حال دیکھ کر ) پیروی کرنے والے ( حسرت سے ) کہیں گے کہ اسے کاش ہمیں پھر دنیا میں جانا نصیب ہوتا ۔ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً [ الزمر/ 58] لو ان لی کرۃ ۔ اگر مجھے پھر ایک بار دنیا میں جانا نصیب ہوتا ۔ الکرکرۃ ( مثل زبرجۃ ) شتر کے سینہ کی سخت جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور لوگوں کی مجتمع جماعت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ الکرکرۃ کے معنی ہوا کے بادل کو چلانا کے ہیں اور یہ کر سے فعل رباعی ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٢) سو کیا اچھا ہوتا کہ ہمیں دنیا میں پھر واپس جانا ملتا کہ ہم ایمان لا کر مسلمانوں کے زمرہ میں داخل ہوجاتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72 That Qur'an has given an answer to this kind of longing and desire as well:".. evenif they be sent back to the earthly life, they would do all that they had beenforbidden to do." (Al-An`am: 28). As for the reasons why they will not be allowed to return to the world, please see E.N.'s 90-92 of Al-Mu'minun above.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :72 اس تمنا کا جواب بھی قرآن میں دے دیا گیا ہے کہ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْا عَنْہٗ ۔ ( الانعام ۔ آیت 28 ) اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے ۔ رہا یہ سوال کہ انہیں واپسی کا موقع کیوں نہ دیا جائے گا ، اس کے وجوہ پر مفصل بحث ہم سورہ مؤمنون حواشی 90 تا 92 میں کر چکے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: یہ وہ تقریر تھی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے فرمائی۔ باقی واقعہ یہاں بیان نہیں کیا گیا، اس کی تفصیل پیچھے سورۂ انبیاء : 51 میں گذر چکی ہے اور کچھ تفصیل سورۂ صافات : 83 میں بھی آنے والی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٢ تا ١٠٤:۔ اوپر کی آیتوں کے موافق جب کہ جنت طرح طرح کی نعمتوں سے آراستہ کی جاوے گی جس آراستگی کا ذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی صحیح بخاری ومسلم کی روایت ٤ ؎ میں مختصر طور پر یوں فرمایا ہے کہ ایک کمان کی لکڑی کی لمبائی برابر جگہ بھی جنت میں تمام دنیا اور تمام دنیا کی نعمتوں سے بہتر ہے اور اسی طرح دوزخ میں طرح طرح کے عذاب مہیا کئے جاویں گے جس کا ذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ترمذی ٥ ؎ کی صحیح روایت میں اس طرح فرمایا ہے کہ دوزخ کے تھور کے دودھ کا ایک قطرہ بھی دنیا میں آن پڑے تو تمام اہل دنیا کی زیست دشوار ہوجائے اس جنت کی نعمتوں اور دوزخ کے عذابوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے مختصر طور پر اوپر کی آیتوں میں فرما کر اب یہ فرمایا ہے کہ دنیا میں تو عاقبت کے منکر لوگ دوزخ کے عذاب سے نڈر ہیں میدان حشر میں جب وہ عذاب دیکھیں گے۔ تو یہ خواہش کریں گے۔ کہ کاش وہ پھر دنیا میں پیدا کئے جاویں اور نیک کام کر کے جس طرح نیک کام کرنے والوں کو اس عذاب سے نجات مل گئی ہے اسی طرح ان کو بھی اس عذاب سے نجات مل جاوے مگر یہ خواہش ان کی اللہ تعالیٰ کے علم میں جھوٹی ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے سورة انعام میں فرما دیا ہے کہ اگر ان لوگوں کو دوبارہ دنیا میں پیدا کیا جاوے تو پھر یہ ایسے ہی میرے مخالف کام کریں گے جیسے اب کر رہے ہیں غرض یہ تو حشر کے وقت کا حال ہوا اب حساب کتاب کے بعد لوگ جب دوزخ میں منہ کے بل ڈالے جاویں گے اس وقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں فرمایا ہے کہ کبھی تو یہ بدلوگ قسمیں کھا کھا کر اپنی گمراہی پر افسوس کریں گے اور کبھی یہ بد لوگ شیطان یا گمراہ کرنے والے دوست جنہوں نے بہکایا ہے ان کو برا بھلا کہیں گے اور کبھی چھوٹے گناہ گاروں کو انبیاء اور ملائکہ اور نیک لوگوں کی شفاعت سے نجات پاتے دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ کوئی دوست ان کا بھی ایسا پیدا ہوجاوے کہ ان کی شفاعت کرے اور ان کو اس عذاب سے نجات دلوادے مگر آخرت تو ایسا ایک مقام ہے کہ سوا توحید کے اور کوئی چیز وہاں کام نہیں آسکتی اس واسطے ان مشرکوں کو کوئی آرزو کام نہ آوے گی اور فرشتے ان کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر اوپر کی آیتوں کے موافق یہ طعنے دیویں گے کہ اللہ کے سوا جو تم لوگوں نے دنیا میں اپنے معبود ٹھہرا رکھے تھے وہ تمہارے معبود آج کہا ہیں وہ معبود ایسے برے وقت میں آن کر تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کی عقلمندی اس میں ہے کہ دنیا میں کچھ نیک عمل کر کے عاقبت کے لیے تھوڑا بہت ذخیرہ کرلے اور پھر اللہ کی رحمت سے عاقبت میں نجات کی توقع رکھے جو لوگ دنیا میں تمام عمر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں اور عاقبت میں اپنی بہبودی کی توقع اللہ سے رکھتے ہیں وہ لوگ بالکل عقل سے بےبہرہ ہیں اور وقت پر کوئی توقع ان کی پوری ہونے والی نہیں معتبر سند سے ترمذی اور ابن ماجہ میں شداد بن اوس ١ ؎ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو دنیا میں عاقبت کے نجات کے کام کرے اور عقل سے بےبہرہ وہ شخص ہے جو دنیا میں جو اس کا جی چاہے وہ کرتا ہے اور عاقبت میں اللہ تعالیٰ کی جناب سے طرح طرح کی اپنی امیدیں اور خواہش پوری ہونے کی ہوش دل میں رکھتا ہے آخر فرمایا کہ دنیا میں عقبیٰ کا انجام جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جتلا دیا ہے یہ اس کی قدرت کی ایک نشانی ہے لیکن جو لوگ علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ کسی نشانی سے راہ راست پر نہیں آنے والے یہ اللہ کی ایک رحمت ہے جو اس نے ایسے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے اگر مہلت کے زمانہ میں بھی یہ لوگ نہ راہ راست پر آئے تو اللہ کی پکڑ بھی ایسی زبردست ہے کہ جب وہ پکڑتا ہے تو وہ بالکل برباد کردیتا ہے چناچہ اس کے بعد چند نافرمان قوموں کے قصے ان لوگوں کو سنائے جاتے ہیں جن قصوں سے ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کافران قوموں کو پہلے مہلت دی گئی اور پھر مہلت کے بعد ان کا انجام کیا ہوا۔ (٤ ؎ مشکوٰۃ باب صفۃ الجنۃ واہلہا۔ ) (٥ ؎ مشکوۃ النار واہلہا فصل دوسری۔ ) (١ ؎ مشکوٰۃ باب استحباب المال والعمر للطاعۃ فصل دوسری۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:102) فلو۔ یہاں لو شرطیہ بھی ہوسکتا ہے یعنی اگر ہمارے لئے ممکن ہوتا دوبارہ (دنیا میں) جانا فنکون (جزائ) تو ہم اہل ایمان سے ہوتے۔ اور لو تمنائی بھی ہوسکتا ہے کاش ہمیں (دنیا میں) دوبارہ جانا ملتا فنکون من المؤمنین (جواب تمنا) تو ہم مومن ہو جاتے کرۃ : الکر اصل میں مصدر ہے مگر بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی چیز کو بالذات یا بالفعل پلٹانا یا موڑ دینا۔ کر کے بعد ۃ وحدت کی ہے جس کے معنی ہیں ایک بار لوٹنا۔ ایک پھیرا۔ ایک مرتبہ واپسی۔ یہاں اس کے معنی ہیں عالم آخرت سے لوٹ کر ایک بار پھر دنیا میں جانا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر ہوگئی، آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا انتہائی مایوسی کے عالم میں دنیا میں پلٹ جانے کا مطالبہ کرنا : جہنمی جب جہنم میں اپنے بڑوں اور معبودوں کے ساتھ جھگڑا کریں گے تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑائیں گے کہ خواہ مخواہ ہم پر الزام لگاتے ہو تم تو خود گمراہ تھے۔ (الصّٰفٰت : ٣٢) برے مرید، ور کرر اور مقتدی حسرت کے ساتھ اس بات کا اظہار کریں گے کہ ہائے افسوس ! جن کو ہم سفارشی سمجھتے رہے آج ہمارے لیے سفارش کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جن کو ہم اپنا بہی خواہ اور مخلص سمجھتے تھے آج کوئی خیر خواہی اور بھائی چارہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ کاش ! ہمیں ایک بار دنیا میں واپس جانے کا موقع مل جائے تو ہم سب کو چھوڑ کر ایک رب پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے تابعدار بندے بن جائیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے، باپ قوم اور مجرموں ہونے والی گفتگو میں بہت ہی عبرت موجود ہے لیکن پھر بھی اکثر لوگ حقیقت تسلیم نہیں کرتے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یقیناً آپ کا رب ہر بات پر غالب اور بڑا رحم و کرم فرمانے والا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے لیے عبرت ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ اور ان کی قوم کے پاس سوائے پہلے لوگوں کی تقلید کرنے کے شرک کی کوئی دلیل نہ تھی اسی طرح ہر دور کے مشرک کے پاس شرک کی دلیل نہیں ہوتی۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے مشرک باپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے اسی طرح مشرک اور مجرم ایک دوسرے کو فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے، نہ ہی ان کا کوئی سفارشی اور کوئی خیر خواہ ہوگا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن مجرم اپنے جرائم کا اعتراف کریں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کا کوئی سفارشی نہ ہوگا۔ ٣۔ قیامت کے دن کسی کی دوستی کام نہیں آئے گی۔ ٤۔ قیامت کے دن مجرم دنیا میں واپس آنے کی التجا کریں گے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہونے کے باوجود رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کافر، مشرک اور مجرم کی کوئی سفارش نہیں کرسکے گا : ١۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں ہوسکے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٥) ٢۔ سفارش اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (النبا : ٣٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسند کی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ : ١٠٩) ٤۔ کافر زمین کے برابر سونا دے کر بھی جہنم سے نجات نہیں پاسکتے۔ (آل عمران : ٩١) ٥۔ قیامت کے دن ان کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام : ٥١) ٦۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہ آسکے گا۔ (الاعراف : ٤٨) ٧۔ کفار کے مال واولاد ان کے کام نہ آسکیں گے۔ (آل عمران : ١٠) ٨۔ کافر قیامت کے دن سفارشی تلاش کریں گے۔ (الاعراف : ٥٣) ٩۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دے سکیں گے۔ (یونس : ١٨) ١٠۔ قیامت کے دن رشتہ داربھاگ جائیں گے۔ ( عبس : ٣٤ تا ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ کاش ! ہمیں ایک بار پھر دنیا میں بھیجا جائے تو ہم اخلاص اور صدق نیت سے ایمان لائیں، توحید کو مانیں اور شرک سے دور بھاگیں اور پھر ہمیں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے تو ہم اس عذاب میں مبتلا نہ ہوں۔ ” ان فی ذلک لایۃ الخ “ ان دونوں آیتوں کی تفسیر گذر چکی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(102) پس کیا اچھا ہوتا کہ ہم کو دنیا میں پھر واپس جانا مل جاتا تو ہم بھی ایمان والوں میں س ہوجاتے ۔ یعنی نہ کوئی شفاعت کرنے والا ہے جو سفارش کرکے اس عذاب سے پیچھا چھڑائے اور نہ کوئی مخلص اور غم خوار دوس جو کم سے کم ہمدردی کرکے ہمارے غم کو ہلاک کرے کیا اچھا ہو اگر ہم کو پھر واپس ہونے کا ایک موقعہ مل جائے تو ہم بھی ایمان لا کر ایمان والوں میں سے ہوجائیں۔