Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 113

سورة الشعراء

اِنۡ حِسَابُہُمۡ اِلَّا عَلٰی رَبِّیۡ لَوۡ تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۱۳﴾ۚ

Their account is only upon my Lord, if you [could] perceive.

ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے اگر تمہیں شعور ہو تو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Their account is only with my Lord, if you could (but) know. And I am not going to drive away the believers. It seems that they asked him to drive these people away, then they would follow him, but he refused to do that, and said: وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الْمُوْمِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1131یعنی ان کے ضمیروں اور اعمال کی تفتیش یہ اللہ کا کام ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] ان دو آیات کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مجھے اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ جو لوگ تمہاری نظروں میں مکتبہ ہیں وہ کیا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ موچی ہیں یا جولا ہے ہیں یا لوہار ہیں یا کمہار ہیں مجھے یہ معلوم کرنے سے کوئی مطلب نہیں۔ مجھے مطلب ہے تو صرف اس بات سے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں اور میرے ساتھی ہیں۔ باقی ان کا پیشہ کیا ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو شخص میرے پاس آکر ایمان لاتا ہے اور میرے کہنے کے مطابق اس پر عمل کرنے لگتا ہے تو اس کی تہ میں کیا محرکات کام کر رہے ہیں۔ یہ اندازہ لگانا نہ میرا کام ہے نہ تمہارا بلکہ یہ اللہ کا کام ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ حِسَابُہُمْ اِلَّا عَلٰي رَبِّيْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ۝ ١ ١٣ۚ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

82 This is the first answer to their objection, which was based on the assumption that the poor people belonging to the working classes and lower social strata who performed humble duties, did not possess any mental maturity and were without intelligence and common sense. Therefore, their belief was without any rational basis, and so unreliable, and their deeds were of na value at all. To this Prophet Noah replies, "I have no means of judging the motives and assessing the worth of the deeds of the people who accept my message and act accordingly. This is not my concern but the responsibility of God".

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :82 یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے ۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، ان کے اعتراض کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ جو لوگ غریب ، محنت پیشہ اور ادنیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والے ہیں یا معاشرے کے پست طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ، ان میں کوئی ذہنی صلاحیت نہیں ہوتی ، اور وہ علم و عقل اور سمجھ بوجھ سے عاری ہوتے ہیں ، اس لیے نہ ان کا ایمان کسی فکر و بصیرت پر مبنی ، نہ انکا اعتقاد لائق اعتبار ، اور نہ ان کے اعمال کا کوئی وزن ۔ حضرت نوح علیہ السلام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو شخص میرے پاس آ کر ایمان لاتا ہے اور ایک عقیدہ قبول کر کے اس کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے ، اس کے اس فعل کی تہ میں کیا محرکات کام کر رہے ہیں اور وہ کتنی کچھ قدر و قیمت رکھتے ہیں ۔ ان چیزوں کا دیکھنا اور ان کا حساب لگانا تو خدا کا کام ہے ، میرا اور تمہارا کام نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: کافروں کے مذکورہ اعتراض میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ یہ نچلے درجے کے لوگ سوچ سمجھ کر دل سے ایمان نہیں لائے ہیں، بلکہ کسی ذاتی مفاد کی خاطر آپ کے ساتھ ہو لیے ہیں۔ اس جملے میں اس کا جواب ہے کہ اگر بالفرض ان کے دل میں کوئی اور بات ہے بھی، تو میں اس کی تحقیق کا مکلف نہیں ان کا حساب اللہ تعالیٰ خود لے لیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:113) ان نافیہ ہے۔ ان حسابھم الا علی ربی۔ ان کا حساب و محاسبہ میرے پروردگار کا کام ہے یہ اس کے ذمہ ہے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے ؟ لو تشعرون۔ کاش تم کو شعور ہوتا۔ کاش تم اتنی عقل رکھتے (کہ ان کے باطن کا محاسبہ میرا کام نہیں۔ میرے رب کا کام ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میرا کام ظاہر حال پر حکم لگانا ہے باطن کا حال مجھے معلوم نہیں۔ ” ان حسابھم الخ ‘ تمہیں اتنا بھی شعور نہیں کہ باطن کا حساب کتاب تو اللہ کو معلوم ہے۔ میرا کام ظاہر پر حکم لگانا ہے اس لیے جو لوگ شرک سے تائب ہو کر توحید پر ایمان لا چکے ہیں میں ان کو اپنے پاس سے ہٹا نہیں سکتا۔ ” ان انا الا نذیر مبین “ کیونکہ میرا کام لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا اور اس کے عذاب سے ڈرانا ہے خواہ وہ اشراف ہوں یا ارذال اور پھر ان دونوں فریقوں میں سے جو بھی میری دعوت قبول کرلے گا وہ مومن ہے اور میرا ساتھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(113) ان لوگوں سے اس کا حساب کتاب لینا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے کاش تم اس بات کو سمجھتے