85 That is, "They have rejected me completely and absolutely and now there is no hope of their becoming believers." Here nobody should have the misunderstanding that just after this conversation between Prophet Noah and the chiefs of his people, and the rejection of his message by them, the Prophet submitted a report to AIIah that his people had rejected him and now He should settle the accounts between them. The Qur'an has mentioned at different places the details of the long struggle that went on for centuries between Prophet Noah and his people, who persisted in unbelief. According to verse 14 of Surah AI'Ankabut, the struggle continued for 950 years: "He (Noah) remained among them for a thousand years save fifty years." Prophet Noah during this long period studied their collective behaviour, generation after generation, and came to the conclusion that they had no inclination to accept the Truth, and formed the opinion that in their future generations also there was no hope of anybody's becoming a believer and adopting the righteous attitude: "My Lord, if You should leave them, they will lead Your servants astray, and they will bear as children none but sinners and disbelievers." (Nuh: 27). AIlah Himself confirmed this opinion of Noah, saying, "No more of your people will believe in you now than those who have already believed. So do not grieve at their misdeeds." (Hud: 36)
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :85
یعنی آخری اور قطعی طور پر جھٹلا دیا ہے جس کے بعد اب کسی تصدیق و ایمان کی امید باقی نہیں رہی ۔ ظاہر کلام سے کوئی شخص اس شبہ میں نہ پڑے کہ بس پیغمبر اور سرداران قوم کے درمیان اوپر کی گفتگو ہوئی اور ان کی طرف سے پہلی ہی تکذیب کے بعد پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کے حضور رپورٹ پیش کر دی کہ یہ میری نبوت نہیں مانتے ، اب آپ میرے اور ان کے مقدمہ کا فیصلہ فرما دیں ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس طویل کشمکش کا ذکر کیا گیا ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت اور ان کی قوم کے اصرار علی الکفر کے درمیان صدیوں برپا رہی ۔ سورہ عنکبوت میں بتایا گیا ہے کہ اس کشمکش کا زمانہ ساڑھے نو سو برس تک ممتد رہا ہے ۔ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَاماً ( آیت 14 ) ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس زمانہ میں پشت در پشت ان کے اجتماعی طرز عمل کو دیکھ کر نہ صرف یہ اندازہ فرما لیا کہ ان کے اندر قبول حق کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے ، بلکہ یہ رائے بھی قائم کر لی کہ آئندہ ان کی نسلوں سے بھی نیک اور ایماندار آدمیوں کے اٹھنے کی توقع نہیں ہے ۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْآ اِلَّا فَاجِراً کَفَّاراً ( نوح ، آیت 27 ) ۔ اے رب اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا فاجر اور سخت منکر حق ہو گا ۔ خود اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت نوح علیہ السلام کی اس رائے کو درست قرار دیا اور اپنے علم کامل و شامل کی بنا پر فرمایا : لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ہ ( ہود ، آیت 36 ) ۔ تیری قوم میں سے جو ایمان لا چکے بس وہ لا چکے ، اب کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے ۔ لہٰذا اب ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ دے ۔