Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 117

سورة الشعراء

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوۡمِیۡ کَذَّبُوۡنِ ﴿۱۱۷﴾ۚ ۖ النصف

He said, "My Lord, indeed my people have denied me.

آپ نے کہا اے میرے پروردگار! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِ : ” كَذَّبُوْنِ “ اصل میں ” کَذَّبُوْنِيْ “ ہے۔ جب قوم اس حد تک پہنچ گئی کہ اپنے رسول کو سنگسار کر دے اور اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو اطلاع بھی دے دی کہ اب ان میں سے مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا (دیکھیے ہود : ٣٧) تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اس دعا کے الفاظ قرآن میں مختلف مقامات پر موجود ہیں، فرمایا : (اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ) [ القمر : ١٠ ] ” کہ بیشک میں مغلوب ہوں، سو تو بدلا لے۔ “ اور فرمایا : (رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ) [ نوح : ٢٦ ] ” اے میرے رب ! زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔ “ یہاں انھوں نے جو کہا ہے کہ ” اے میرے رب ! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا “ یہ اللہ کے حضور شکایت کے لیے ہے، یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات معلوم نہیں اور نوح (علیہ السلام) اسے بتا رہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِ۝ ١ ١٧ۚۖ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٧ تا ١١٩) تب نوح (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار میری قوم میری رسالت کی مسلسل تکذیب کر رہی ہے۔ اور میرے ماننے والوں کو قتل کر رہی ہے تو میرے اور ان کے درمیان ایک عملی عادلانہ فیصلہ فرما دیجیے اور مجھے اور میرے ماننے والوں کو ان لوگوں پر جو آپ عذاب نازل فرمائیں اس سے نجات دیجیے چناچہ ہم نے ان کو اور ان کے ساتھ جو مسلمان اس بھری ہوئی کشتی میں سوار تھے نجات دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

85 That is, "They have rejected me completely and absolutely and now there is no hope of their becoming believers." Here nobody should have the misunderstanding that just after this conversation between Prophet Noah and the chiefs of his people, and the rejection of his message by them, the Prophet submitted a report to AIIah that his people had rejected him and now He should settle the accounts between them. The Qur'an has mentioned at different places the details of the long struggle that went on for centuries between Prophet Noah and his people, who persisted in unbelief. According to verse 14 of Surah AI'Ankabut, the struggle continued for 950 years: "He (Noah) remained among them for a thousand years save fifty years." Prophet Noah during this long period studied their collective behaviour, generation after generation, and came to the conclusion that they had no inclination to accept the Truth, and formed the opinion that in their future generations also there was no hope of anybody's becoming a believer and adopting the righteous attitude: "My Lord, if You should leave them, they will lead Your servants astray, and they will bear as children none but sinners and disbelievers." (Nuh: 27). AIlah Himself confirmed this opinion of Noah, saying, "No more of your people will believe in you now than those who have already believed. So do not grieve at their misdeeds." (Hud: 36)

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :85 یعنی آخری اور قطعی طور پر جھٹلا دیا ہے جس کے بعد اب کسی تصدیق و ایمان کی امید باقی نہیں رہی ۔ ظاہر کلام سے کوئی شخص اس شبہ میں نہ پڑے کہ بس پیغمبر اور سرداران قوم کے درمیان اوپر کی گفتگو ہوئی اور ان کی طرف سے پہلی ہی تکذیب کے بعد پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کے حضور رپورٹ پیش کر دی کہ یہ میری نبوت نہیں مانتے ، اب آپ میرے اور ان کے مقدمہ کا فیصلہ فرما دیں ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس طویل کشمکش کا ذکر کیا گیا ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت اور ان کی قوم کے اصرار علی الکفر کے درمیان صدیوں برپا رہی ۔ سورہ عنکبوت میں بتایا گیا ہے کہ اس کشمکش کا زمانہ ساڑھے نو سو برس تک ممتد رہا ہے ۔ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَاماً ( آیت 14 ) ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس زمانہ میں پشت در پشت ان کے اجتماعی طرز عمل کو دیکھ کر نہ صرف یہ اندازہ فرما لیا کہ ان کے اندر قبول حق کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے ، بلکہ یہ رائے بھی قائم کر لی کہ آئندہ ان کی نسلوں سے بھی نیک اور ایماندار آدمیوں کے اٹھنے کی توقع نہیں ہے ۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْآ اِلَّا فَاجِراً کَفَّاراً ( نوح ، آیت 27 ) ۔ اے رب اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا فاجر اور سخت منکر حق ہو گا ۔ خود اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت نوح علیہ السلام کی اس رائے کو درست قرار دیا اور اپنے علم کامل و شامل کی بنا پر فرمایا : لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ہ ( ہود ، آیت 36 ) ۔ تیری قوم میں سے جو ایمان لا چکے بس وہ لا چکے ، اب کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے ۔ لہٰذا اب ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:117) رب : ای یا ربی۔ کذبون اصل میں کذبونی تھا۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ی ضمیر مفعول واحد متکلم۔ محذوف۔ انہوں نے مجھے جھٹلایا۔ انہوں نے مجھے جھوٹا قرار دیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(117) نوح (علیہ السلام) نے پروردگار کی جناب میں عرض کیا اے میرے پروردگار ! میری قوم برابر میری تکذیب کر رہی ہے اور مجھ کو جھوٹابتا رہی ہے۔