Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 118

سورة الشعراء

فَافۡتَحۡ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَہُمۡ فَتۡحًا وَّ نَجِّنِیۡ وَ مَنۡ مَّعِیَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۸﴾

Then judge between me and them with decisive judgement and save me and those with me of the believers."

پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے باایمان ساتھیوں کو نجات دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا ... My Lord! Verily, my people have denied me. Therefore judge You between me and them. This is like the Ayah: فَدَعَا رَبَّهُ أَنُّى مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ Then he invoked his Lord (saying): "I have been overcome, so help (me)!" (54:10) ... وَنَجِّنِي وَمَن مَّعِي مِنَ الْمُوْمِنِينَ and save me and those of the believers who are with me." And Allah says here: فَأَنجَيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے سرداروں میں کوئی دو چار دفعہ ایسے مکالمے اور بحثیں ہوئی ہوں گی۔ لیکن واقعہ ایسا نہیں۔ پورے ساڑھے نو سو سال نوح اور ان کی قوم میں ایسے مکالمے اور بحث و تکرار ہوتی رہی۔ اور جب حضرت نوح اس قوم میں سے کسی نئے فرد کے ایمان لانے سے قطعاً مایوس ہوگئے تو اس وقت آپ نے یہ دعا کی تھی۔ اس دعا کی تفصیلی ذکر سورة نوح میں آئے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا ۔۔ : اس فیصلے سے مراد انھیں نیست و نابود کردینے والا عذاب ہے، جو ” وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ “ سے سمجھ میں آ رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَہُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١١٨ فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٨ (فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا) ” یعنی ایسا کھلا فیصلہ جس کے بعد حق کے احقاق اور باطل کے ابطال میں کوئی شک یا ابہام نہ رہ جائے۔ (وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ” اہل ایمان میں سے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

86 "Deliver me and the believers with me to safety": "You should not only give Your judgment as to who is in the right and who is in the wrong, but deliver Your Judgment in such a manner that the followers of the Truth are saved and the followers of falsehood are completely annihilated from the earth.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :86 یعنی صرف یہی فیصلہ نہ کر دے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون ، بلکہ وہ فیصلہ اس شکل میں نافذ فرما کہ باطل پرست تباہ کر یئے جائیں اور حق پرست بچا لیے جائیں ۔ یہ الفاظ کہ مجھے اور میرے مومن ساتھیوں کو بچا لے خود بخود اپنے اندر یہ مفہوم رکھتے ہیں کہ باقی لوگوں پر عذاب نازل کر اور انہیں حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:118) افتح۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر تو فیصلہ کر دے۔ الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں خواہ اس ازالہ کا ادراک ظاہری آنکھ سے ہو سکے یا اس کا ادراک بصیرت سے ہو مثلاً ولما فتحوا متاعھم (12:65) اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا۔ یا لفتحنا علیہم برکات من السماء والارض (7:96) تو ہم نے ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دئیے۔ یعنی ان کو ہر طرح آسودگی اور فارغ البالی کی نعمت سے نوازتے۔ فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملہ کا فیصلہ کردیا۔ اور اس سے مشکل اور پیدگی کو دور کردیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق (7:89) اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے اسی سے الفتاح العلیم (34:26) ہے یعنی خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا۔ الفاتحہ ہر چیز کے مبداء کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة الفاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے افتح فلان کذا فلاں نے یہ کام شروع کیا۔ نجنی۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضرنی ضمیر مفعول واحد متکلم۔ تو مجھے بجات دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ یا ” ان قریش میں سے اکثر لوگ ماننے والے آئیں “۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی ان کو ہلاک کردیجئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(118) لہٰذا ! آپ میرے اور ان کے درمیان ایک فیصلہ کردیجئے اور مجھ کو اور ان ایمان والوں کو جو میرے ساتھ ہیں نجات دیدیجئے یعنی ایک عملی فیصلہ کردے ان ظالموں کو ہلاک کردے اور میرے ساتھیوں کو اس ہلاکت سے نجات دیدے۔