Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 119

سورة الشعراء

فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ مَنۡ مَّعَہٗ فِی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ ﴿۱۱۹﴾ۚ

So We saved him and those with him in the laden ship.

چنانچہ ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو بھری ہوئی کشتی میں ( سوار کراکر ) نجات دے دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَنْجَيْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ۔۔ : اس کی تفصیل سورة ہود (٣٦ تا ٤٩) میں ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَنْجَيْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝ ١١٩ۚ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ شحن قال تعالی: فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء/ 119] ، أي : المملوء، والشَّحْنَاءُ : عداوة امتلأت منها النّفس . يقال : عدوّ مُشَاحِنٍ ، وأَشْحَنَ للبکاء : امتلأت نفسه لتهيّئه له . ( ش ح ن ) الشحن ۔ کشتی یا جہاز میں سامان لادنا بھرنا قرآن میں ہے : فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء/ 119] بھری ہوئی کشتی میں ( سوار ) تھے ۔ الشحناء کینہ و عداوت جس سے نفس پر اور بھر ہوا ہو عدو مشاحن بہت سخت دشمن گویا وہ دشمنی سے پر ہے ۔ اشحن للبکاء غم سے بھر کر رونے کیلئے آمادہ ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٩ (فَاَنْجَیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ ) ” یہ کشتی پوری طرح بھری ہوئی تھی کیونکہ اس میں انسانوں (مؤمنین) کے علاوہ ہر قسم کے حیوانات کے ایک ایک جوڑے کو بھی سوار کرلیا گیا تھا تاکہ ان کی نسل کو محفوظ رکھا جاسکے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

87 "Laden Ark", because the Ark became full with the believers and the pairs of animals from every species. For further details, see Hud: 40.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :87 بھری ہوئی کشتی سے مراد یہ ہے کہ وہ کشتی ایمان لانے والے انسانوں اور تمام جانوروں سے بھر گئی تھی جن کا ایک ایک جوڑا ساتھ رکھ لینے کی ہدایت فرمائی گئی تھی ۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود ، آیت 40 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:119) الفلک المشحون موصوف صفت۔ المشحون اسم مفعول واحد مذکر۔ شحن مصدر (باب فتح) بھری ہوئی۔ الشحن کشتی یا جہاز میں سامان لادنا یا بھرنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے فیصلہ کن عذاب کی بدعا کی اللہ تعالیٰ نے انھیں اور ان کے مومن ساتھیوں کو عذاب سے محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو واضح طور پر بتلادیا کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیری قوم سے جن لوگوں نے ایمان لانا تھا لاچکا۔ اب کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا لہٰذا ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی تیار کیجیے اور اب میرے حضور ظالموں کے حق میں فریاد نہ کرنا کیونکہ یہ غرق ہو کر رہیں گے۔ (ہود : ٣٦۔ ٣٧) ” نوح نے کشتی بنانی شروع کردی۔ اور جب ان کی قوم کے سردار ان کے قریب سے گزرتے تو ان سے تمسخر کرتے نوح جواب دیتے کہ جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اسی طرح ایک وقت ہم بھی تم سے تمسخر کرینگے۔ اور تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کردے گا۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر قسم کے جانداروں میں سے جوڑا جوڑا یعنی دو دو جانور ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہوچکا ہے کہ ہلاک ہوجائے گا اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو اور جو ایمان لایا ہو اس کو کشتی میں سوار کرلو اور ان کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے۔ ( نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر سوارہو جاؤ۔ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔ کشتی ان کو لے کر طوفان کی لہروں میں چلنے لگی لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ تھے اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو کہا جو کشتی سے الگ تھا۔ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں میں شامل نہ ہو۔ اس نے کہا کہ میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے اتنے میں دونوں کے درمیان لہر آ حائل ہوئی اور وہ ڈوب گیا۔ (ھود : ٣٨ تا ٤٣ ) ”(نوح نے) اپنے پروردگار سے دعا کی کہ بار الٰہا میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں تو میری مدد فرما۔ تو ہم نے ان پر موسلاد ھاربارش کے آسمان سے دروازے کھول دئیے۔ اور زمین سے چشمے جاری کر دئیے۔ سارا پانی مل گیا ایسے کام کے لیے جس کا فیصلہ ہوچکا تھا، اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا۔ وہ ہماری نگرانی میں چلتی تھی یہ سب کچھ اس شخص کے انتقام کے لیے کیا گیا جس کو کافر مانتے نہ تھے۔ اور ہم نے اس کو ایک عبرت بنا چھوڑا تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔ سو دیکھ لو کہ میرا عذاب اور ڈرانا کیسا ہوا ؟۔ (القمر : ١٠ تا ١٦ ) اس سارے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” آنے والے لوگوں کے لیے اس میں ایک سبق ہے لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا رب پوری طرح غالب اور نہایت ہی مہربان ہے۔ “ اس میں یہ بات بتلا دی گئی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال انفرادی اور اجتماعی طور پر دن رات لوگوں کو سمجھاتے رہے لیکن قوم میں چند آدمیوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ اے میرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اور آپ کے ساتھیوں کو دعوت دیتے ہوئے ابھی چند سال گزرے ہیں آپ کو دل چھوٹا کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جہاں تک آپ کے دشمنوں کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ اس بات پر پوری طرح غالب اور قادر ہے کہ جب چاہے وہ ان کو کسی اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کر دے۔ لیکن وہ اپنے بندوں کو بار بار موقعہ دیتا ہے تاکہ وہ سنبھل جائیں کیونکہ وہ نہایت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الفرقان : ٣٧) ٢۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح : ٢٦) ٤۔ حضرت نوح کا بیٹا بھی غرق ہوا۔ (ہود : ٤٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعاء کے مطابق ہم نے ان کی قوم پر طوفان بھیج دیا۔ نوح اور اس کے مومن ساتھیوں کو کشتی میں محفوظ رکھا اور طوفان سے بچا لیا لیکن باقی تمام مشرکوں کو غرق کر کے ہلاک کردیا اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ برکات دہندہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے نوح (علیہ السلام) اور مومنوں کو طوفان سے بچایا اور یہی نوح (علیہ السلام) کی دعوت تھی نیز مشرکین قوم نوح کے اس انجام بد سے مشرکین مکہ کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(119) چناچہ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ایک ایسی کشتی میں بچا لیا جو سوار ہونے والوں سے بھری ہوئی تھی ۔