Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 128

سورة الشعراء

اَتَبۡنُوۡنَ بِکُلِّ رِیۡعٍ اٰیَۃً تَعۡبَثُوۡنَ ﴿۱۲۸﴾

Do you construct on every elevation a sign, amusing yourselves,

کیا تم ایک ایک ٹیلے پر بطور کھیل تماشا یادگار ( عمارت ) بنا رہے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

`Ad denied the Messengers. When their brother Hud said to them: "Will you not have Taqwa! Verily, I am a trustworthy Messenger to you. So, have Taqwa of Allah, and obey me. No reward do I ask of you for it; my reward is only from the Lord of all that exists." Here Allah tells us about His servant and Messenger Hud, when he called his people `Ad. His people used to live in the Ahqaf, curved sand-hills near Hadramawt, on the borders of Yemen. They lived after the time of Nuh, as Allah says in Surah Al-A`raf: وَاذكُرُواْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَأءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِى الْخَلْقِ بَسْطَةً And remember that He made you successors after the people of Nuh and increased you amply in stature. (7:69) This refers to the fact that they were physically strong and well-built, and very violent, and very tall; they had also been given a great deal of provisions, wealth, gardens, rivers, sons, crops and fruits. Yet despite all of that, they worshipped others besides Allah. So Allah sent Hud, one of their own, as a Messenger bringing them good news and delivering warnings. He called them to worship Allah alone, and he warned them of Allah's wrath and punishment if they were to go against him and treating him harshly. He said to them, as Nuh had said to his people: أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ ايَةً تَعْبَثُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1281ریع، ریعۃ، کی جمع ہے۔ ٹیلہ، بلند جگہ، پہاڑ، درہ یا گھاٹی یہ ان گزر گاہوں پر کوئی عمارت تعمیر کرتے جو بلندی پر ایک نشانی مشہور ہوتی۔ لیکن اس کا مقصد اس میں رہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف کھیل کود ہوتا تھا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے منع فرمایا کہ یہ تم ایسا کام کرتے ہو، جس میں وقت اور وسائل کا بھی ضیاع ہے اور اس کا مقصد بھی ایسا ہے جس سے دین اور دنیا کا کوئی مفاد وابستہ نہیں بلکہ صرف کھیل کود ہوتا ہے بیکار محض بےفائدہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ : ” رِيْعٍ “ اونچی جگہ۔ قاموس میں ہے ” رِیْعٌ“ (کسرہ اور فتحہ کے ساتھ) اونچی زمین یا ہر کشادہ راستہ یا ہر راستہ یا پہاڑ میں کھلا راستہ یا بلند پہاڑ۔ واحد کے لیے تاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ ” اٰيَةً “ نشانی، یادگار۔ ” تَعْبَثُوْنَ “ ” عَبَثٌ“ (ع) بےفائدہ اور لاحاصل کام کرنا، یعنی تم بےفائدہ اور لاحاصل کام کرتے ہو۔ ” کُلُّ رِیْعٍ “ سے مراد بہت سی اونچی جگہیں ہیں، کیونکہ ہر اونچی جگہ تو یاد گار نہ بن سکتی ہے اور نہ انھوں نے بنائی تھی۔ ہود (علیہ السلام) نے پہلے اپنی قوم کو تمام انبیاء کی لائی ہوئی بنیادی تعلیم اللہ پر ایمان، اس کے تقویٰ اور اطاعت کی دعوت دی، اس کے بعد ان کے چند کاموں پر انکار کا اظہار فرمایا۔ پہلا یہ کہ تم ہر اونچی اور نمایاں جگہ، جہاں تمہارے فخر و غرور، تمہاری شان و شوکت اور دولت و قوت کا اظہار ہوسکتا ہے کوئی نہ کوئی یاد گار بنا دیتے ہو، جس کا دنیا یا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں۔ ہود (علیہ السلام) کا مقصد نمود و نمائش کے اس رجحان سے ہٹانا ہے، جس کی وجہ سے ایسے عبث کام کیے جاتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ہم کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔ بےدریغ مال خرچ کرتے ہوئے کوئی اپنی یاد گار کے طور پر شاندار مقبرہ تعمیر کرا دیتا ہے، کوئی بلند و بالا مینار کھڑا کردیتا ہے، کوئی بارہ دری بنوا دیتا ہے۔ عجائب عالم میں شمار ہونے والے اہرام مصر اور تاج محل بھی اپنے بانیوں کی ایسی ہی لاحاصل اور عبث یاد گاریں ہیں، جن کی جواب دہی انھیں کرنا ہوگی۔ ان یادگاروں کی مذمت اس لیے فرمائی کہ یہ فخر و غرور، فضول خرچی اور عمر عزیز کو ضائع کرنے پر دلالت کرتی ہیں، جن کا باعث یہ ہے کہ ان کے بنانے والوں کو جواب دہی کا احساس نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Explanation of some difficult words أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِ‌يعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ ﴿١٢٨﴾ وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ ﴿١٢٩﴾ Do you erect on every height a sign having no sound purpose, [ 128] and take the objects of architecture as if you are going to live forever, (26:128-129) Ibn Jarir (رح) has related from Mujahid (رح) that the passage between two hills is called Ri (ریع). But Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and majority have taken the meaning of Ri (ریع) as a high place, and its derivative is ri`-un-na bat& (ریع البنات), which means growing and climbing vegetation. Literal meaning of &Ayah (آیۃ) is symbol or sign, but here it means a high palace. تَعْبَثُونَ is derived from ` abath (عَبَث), which is something of no value and benefit neither in reality nor by implication. So, the meaning of the verse is that they used to make very high palaces of no benefit and which they did not need. It was just to fulfill their ego and pride. masani& (مَصَانِع) is the plural of Masna` (مَصنَع). Sayyidna Qatadah has taken masani& (مَصَانِع) for the water tank, whereas Hadrat Mujahid (رح) take it to mean strong palace. لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ (as if you are going to live forever) Imam al-Bukhari (رح) has commented in Sahih al-Bukhari that the word la&alla (لَعَلَّ ) in the verse, is used as a word of simile, and that Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has translated it as کانَكُمْ تَخْلُدُونَ that is ` as if you are..&. (Ruh al-Ma’ ani) Construction of buildings without any need is contemptible This verse indicates that the construction of houses and buildings without need is a condemnable act. The hadith quoted by Imam Tirmidhi (رح) on the authority of Sayyidna Anas (رض) conveys exactly the same message: النفقۃ کلھا فی سبیل اللہ إلّا البناء فلا خیر فیہ (All spendings are in Allah&s way, except construction, which has no merit). It means that the building which is constructed in excess of requirement has no benefit or virtue. Another narration of Sayyidna Anas (رض) also confirms this: اِن کُلّ بناء وبال علی صاحبہ إلّا – مَالا ، إلّا مالا، یعنی اِلَّا مالا بدّ منہ - ` Every building is a tribulation for the builder, except that which is necessary, because it is not a nuisance&. It is commented in Ruh al-Ma’ ani that without genuine requirement construction of tall buildings is contemptible and condemned under the Sharl&ah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .

معارف و مسائل چند مشکل الفاظ کی تشریح : اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ ، وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ ، (الریع) ابن جریر نے حضرت مجاہد سے نقل فرمایا ہے کہ ریع دو پہاڑوں کے درمیانی راستہ کو کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس سے اور جمہور سے منقول ہے کہ ریع بلند جگہ کو کہتے ہیں اور اسی سے ریع النبات نکلا ہے یعنی بڑھنے اور چڑھنے والی نباتات (ایة) اس کے اصل معنی علامت کے ہیں اس جگہ بلند محل مراد ہے (تَعْبَثُوْنَ ) یہ عبث سے ہے اور عبث اس کو کہتے ہیں جس میں نہ حقیقة کوئی فائدہ ہو اور نہ حکماً اس جگہ معنی یہ ہوں گے کہ وہ بےفائدہ بلند بلند محلات بناتے تھے جن کی ان کو کوئی ضرورت نہیں تھی صرف فخریہ بناتے تھے (مَصَانِعَ ) مصنع کی جمع ہے۔ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ مصانع سے پانی کے حوض مراد ہیں لیکن حضرت مجاہد نے فرمایا کہ اس سے مضبوط محل مراد ہیں۔ (لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ ) امام بخاری (رح) نے صحیح بخاری میں بیان فرمایا کہ اس آیت میں لَعَلَّ تشبیہ کے لئے ہے اور حضرت ابن عباس نے ترجمہ یہ فرمایا کَاَنَّکُم تَخْلُدُوْنَ یعنی گویا تم ہمیشہ رہو گے (کما فی الروح) بلاضرورت عمارت بنانا مذموم ہے : اس آیت سے ثابت ہوا کہ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اور تعمیرات کرنا شرعاً برا ہے اور یہی معنی ہیں اس حدیث کے جو امام ترمذی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ النفقة کلھا فی سبیل اللہ الا البناء فلا خیر فیہ، یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری اور بھلائی نہیں اور اس معنی کی تصدیق حضرت انس کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ان کل بناء وبال علی صاحبہ الا مالا، الا مالا یعنی الا مالا بدمنہ (ابو داؤد) یعنی ہر تعمیر صاحب تعمیر کے لئے مصیبت ہے مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے روح المعانی میں فرمایا کہ بغیر غرض صحیح کے بلند عمارت بنانا شریعت محمدیہ میں بھی مذموم اور برا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَ۝ ١٢٨ۙ بنی يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس/ 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف/ 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات/ 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه . و ( ب ن ی ) بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا } ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے { وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ } ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ { وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا } ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ { لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ } ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ { كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ } ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں :{ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ } ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے ريع الرِّيعُ : المکان المرتفع الذي يبدو من بعید، الواحدة رِيعَةٌ. قال : أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً [ الشعراء/ 128] ، أي : بكلّ مکان مرتفع، وللارتفاع قيل : رَيْعُ البئر : للجثوة المرتفعة حواليها، ورَيْعَانُ كلّ شيء : أوائله التي تبدو منه، ومنه استعیر الرَّيْعُ للزیادة والارتفاع الحاصل، ومنه : تَرَيَّعَ السّراب ( ر ی ع ) الریع بلند جگہ کو کہتے ہیں ۔ جو دور سے ظاہر ہو اس کا واحد ریعۃ ہے قرآن میں ہے ۔ أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً [ الشعراء/ 128] کیا تم ہر اونچی جگہ پر بےضرورت یاد گاریں بناتے ہو ۔ اور معنی ارتفاع کے لحاظ سے کنویں کی منڈیر کو ریع کہا جاتا ہے ۔ پھر ہر چیز کے اوائل کو ریعان کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ریع ہر چیز کے زائد حصہ اور بلندی کے لئے آتا ہے اور اسی سے تریع السحاب ہے جس کے معنی بادل کے نمایاں اور طاہر ہونے کے ہیں ۔ عبث العَبَثُ : أن يَخْلُطَ بعمله لعبا، من قولهم : عَبَثْتُ الأَقِطَ «3» ، والعَبَثُ : طعامٌ مخلوط بشیء، ومنه قيل : العَوْبَثَانِيُّ «4» لتمرٍ وسمن وسویق مختلط . قال تعالی: أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء/ 128] ، ويقال لما ليس له غرض صحیح : عَبَثٌ. قال : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون/ 115] . ( ع ب ث ) العبث دراصل اس کے معنی ہیں کسی کام کے ساتھ کھیل کود کو ملا دینا اور یہ عبثت الاقط کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے پنیز کے ساتھ اور چیز کو ملادیا اور العبث وہ کھانا جو کسی چیز کے ساتھ خلط ملط کیا گیا ہو اسی اعتبار سے کھجور ۔ گھی اور ستو کے آمیزہ کو عوبثانی کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء/ 128] تم ہر بلند مقام پر بےمقصد پڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہو نیز العبث مہر اس کام کو کہتے ہیں جس کی کوئی صحیح غرض نہ ہو قرآن میں ہے : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون/ 115] کیا تم یہ خیال کئے بیٹھے ہو کہ ہم نے تم کو یونہی بےغرض وغایت پیدا کردیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٨) کیا تم ہر ایک راستہ پر ایک یادگار کے طور پر عمارت بناتے ہو اور وہاں سے غریبوں میں سے جو بھی گزرتا ہے اس کو مارتے ہو اور اس کے کپڑے اتار لیتے ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ ہر ایک اونچے مقام پر ایک یادگار کے طور پر عمارت بناتے ہو جس کو محض فضول بناتے ہو اور وہاں سے ہر ایک گزرنے والے مذاق اڑاتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٨ (اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ ) ” تم لوگ بغیر کسی مقصد اور افادیت کے جگہ جگہ بڑی بڑی عمارتیں محض اپنی یادگاروں کے طور پر تعمیر کردیتے ہو۔ یہ فضول ریت ہر تمدن اور ہر قوم میں رہی ہے۔ ہر دور کے امراء اور حکمران زرکثیر خرچ کر کے بڑی بڑی عمارتیں محض اس لیے تعمیر کرتے رہے ہیں کہ وہ دنیا میں ان کی یادگاروں کے طور پر قائم رہیں۔ اہرام مصر اور تاج محل ان یادگاروں کی مثالیں ہیں جن پر اپنے اپنے زمانے میں کروڑ ہا روپیہ خرچ کیا گیا مگر انسانیت کے لیے ان کی افادیت کچھ بھی نہیں ہے۔ قوم عاد کے امراء بھی ایسی یادگاریں بنانے کے شوقین تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90 That is, "You build grand buildings merely to show off your wealth and power, whereas they have no use and purpose except that they stand as monuments to your grandeur and glory. "

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :90 یعنی محض اپنی عظمت و خوشحالی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسی عالی شان عمارتیں تعمیر کرتے ہو جن کا کوئی مصرف نہیں ، جن کی کوئی حاجت نہیں ، جن کا کوئی فائدہ اس کے سوا نہیں کہ وہ بس تمہاری دولت و شوکت کی نمود کے لیے ایک نشانی کے طور پر کھڑی رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: فضول حرکتوں کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر بلند جگہ پر کوئی یادگار تعمیر کرنے کو ہی فضول حرکت کہا گیا ہے، کیونکہ اس کا کوئی صحیح مقصد نہیں تھا، بلکہ محض دکھاوے اور بڑائی کے اظہار کے لیے یہ کام کیا جاتا تھا۔ دوسری تشریح بعض مفسرین، مثلا حضرت ضحاک نے یہ کی ہے کہ وہ لوگ ان اونچی تعمیروں پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر نیچے سے گذرنے والوں کے ساتھ طرح طرح کی ناشائستہ حرکتیں کیا کرتے تھے۔ اس کو فضول حرکت سے تعبیر کیا گیا ہے (روح المعانی)۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:128) اتبنون۔ الف استفہام کے لئے ہے تنبون مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم بناتے ہو۔ تم تعمیر کرتے ہو۔ بنی یبنی بناء (ضرب) وبنیان وبنی بنی مادہ۔ ریع۔ بلند جگہ جو دور سے ظاہر ہو۔ ٹیلہ۔ مکان مرتفع۔ تعبثون ۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم عبث مشغول ہوتے ہو۔ عبث یعبث (سمع) کھیل کود اور بےکار کاموں میں مشغول ہونا۔ ایۃ۔ نشانی۔ یادگار۔ آیت کا ترجمہ : کیا تم ہر اونچی جگہ بےضرورت یادگاریں بناتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی اسے بلا ضرورت اور بلامقصد بناتے ہو۔ صرف اس لئے کہ اپنی شان و شوکت اور خوشحالی کا مظاہرہ کرسکو۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اتبنون بکل ……تخلدون (٧٩) ربع عربی میں بلند زمین کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اونچے مقامات پر مکانات بناتے تھے اور دور سے وہ مکانات یوں نظر آتے تھے جیسا کہ بڑا پہاڑ اور مقصود ان کا یہ دکھانا تھا کہ وہ بڑے ماہر فن اور بڑے صاحب مقدرت ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس کے لئے عبث کا لفظ استعمال کیا ، اگر یہ بڑے بڑے نشانات وہ مسافروں کی رہنمائی یا سمندری جہازوں کی راہنمائی کے لئے بناتے تو قرآن ان کے لئے عبث کا لفظ استعمال نہ کرتا۔ اس سے یہ تاثر دینا مطلوب ہے کہ قوت اور مہارت اور دولت کو منفعت بخش امور میں خرچ کرنا ہے۔ محض نمائش ، زیبائش اور اظہار حسن و کمال کے لئے نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس تبصرے میں ایک معنی خیز فقرہ بھی استعمال کیا ہے۔ وتخذون مصائع لعلکم تخلدون (٢٦ : ١٢٩) ” تم بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو ، گویا تم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ “ قوم عاد تہذیب و تمدن میں قابل ذکر حد تک ترقی کر گئے تھے۔ بڑے بڑے محلاث بنانے اور پہاڑوں کو کانٹے کے لیء انہوں نے ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ایجاد کرلی تھی۔ بڑے بڑے مینارے بلند مقامات پر بناتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ شاید یہ بڑے بڑے محلات اور اونچی اونچی علامات اور مینار سے وہ اس لئے بناتے تھے کہ انہیں اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ نہ اس دنیا کے طبعی حالات ان پر اثر انداز ہوں گے اور نہ کوئی دشمن ان پر فتح پا سکے گا۔ حضرت ہود اپنی تنقید جاری رکھتے ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(128) کیا تم لوگ ہر اونچے مقام پر عبث اور بلا ضرورت ایک یادگار بناتے ہو۔