Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 130
سورة الشعراء
وَ اِذَا بَطَشۡتُمۡ بَطَشۡتُمۡ جَبَّارِیۡنَ ﴿۱۳۰﴾ۚ
And when you strike, you strike as tyrants.
اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو سختی اور ظلم سے پکڑتے ہو ۔
وَ اِذَا بَطَشۡتُمۡ بَطَشۡتُمۡ جَبَّارِیۡنَ ﴿۱۳۰﴾ۚ
And when you strike, you strike as tyrants.
اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو سختی اور ظلم سے پکڑتے ہو ۔
And do you get for yourselves Masani` as if you will live therein forever! Mujahid said, "This means fortresses built up strong and high and structures that are built to last." ... لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ as if you will live therein forever, means, `so that you may stay there forever, but that is not going to happen, because they will eventually cease to be, just as happened in the case of those who came before you.' وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ
13 0 1یہ ان کے ظلم و تشدد اور قوت و طاقت کی طرف اشارہ ہے۔
[٨٣] اس قوم کے تین افعال کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا جن میں سے پہلے دو فن تعمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ لوگ یادگاریں بہت زیادہ تعمیر کرتے جن کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا۔ کسی نے اپنی یادگار میں شاندار مقبرہ تعمیر کرالیا۔ کسی نے کوئی اونچا مینار بنایا۔ تو کسی نے کوئی بارہ دری تعمیر کرا دی۔ جیسے اہرام مصر ہیں یا روضہ تاج محل اور اسی طرح کی دوسری یادگاریں آج کل بھی پائی جیتی ہیں اور ان سے مقصود۔۔ ناموری یا نمودو نمائش ہوتا تھا۔ تغبثون سے بعض لوگوں نے مراد کھیل تماشا ہی لیا ہے۔ یعنی وہ ایسی بلند عمارتوں کو اوپر چڑھ کر کبوتر بازی اور پرندوں وغیرہ کا شکار بھی کیا کرتے تھے۔ دوسری قابل ذکر چیز یہ ہے کہ وہ اپنے رہائشی گھر بھی بہت اونچے، شاندار اور مضبوط بناتے تھے فلک بوس عمارتیں کھڑی کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ان کی ضرورت بھی تھی۔ ان کے قد بھی بہت لمبے ہوتے تھے اور عمریں بھی بہت دراز ہوتی تھیں اور اگر وہ معمولی قسم کا میٹریل عمارتوں میں استعمال کرتے وہ میٹریل ان کی زندگی میں ساتھ نہیں دیتا تھا اس صورت میں ہر شخص کو اپنی زندگی میں کئی بار مکان بنانے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔ قرآن نے ان کی اس عادت پر سخت۔۔ فرمائی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکانوں کی تعمیر میں مضبوطی اور بلندی میں بہت مبالغہ سے کام لیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ شاندار تا ابد انھیں ان مکانات میں رہتا ہے۔ جب یہ قوم اللہ کے عذاب سے تباہ ہوئی تو بعد میں ان کی یہ مضبوط عمارتیں بھی کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں اور آج وہ کھنڈرات بھی معدوم ہوچکے ہیں۔ ان لوگوں کی آسودہ حالی، عالیشان عمارات، اور جسمانی مضبوطی اور توانائی نے انتہائی متکبر بنادیا تھا۔ انسان اور نرمی کا برتاؤ ان کی سرشت سے معدوم ہوچکا تھا۔ وہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں بہت دلیر اور جری تھے۔ اپنے معاشرہ کے بھی کمزور اور ضعیف طبقہ پر بھی ظلم و ستم ڈھاتے تھے اور آس پاس کے علاقوں میں بھی ان کا رویہ جابرانہ اور تاپرانہ ہوتا تھا۔
وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ : یہ ان کا تیسرا کام ہے جس پر ہود (علیہ السلام) نے انکار فرمایا کہ تم ایسے سنگدل اور انسانیت سے عاری ہو کہ کمزوروں کے لیے تمہارے دل میں کوئی رحم نہیں، وہ گرد و پیش کی کمزور قومیں ہوں یا تمہارے پست طبقہ کے لوگ، جب انھیں پکڑتے ہو تو بہت بےرحم ہو کر پکڑتے ہو، دنیا کے لالچ اور تکبر نے انسانی اخلاق کا لباس تمہارے جسموں سے اتار دیا ہے۔ اس کا باعث بھی یہی تھا کہ ان کا اللہ کی توحید اور یوم آخرت پر ایمان نہ تھا۔ ایمان سنگدلی کی اجازت نہیں دیتا۔ مومن قتل کرتے وقت بھی سنگدلی سے کام نہیں لیتا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ أَعَفَّ النَّاسِ قِتْلَۃً أَھْلُ الْإِیْمَانِ ) [ مسند أحمد : ١؍٣٩٣، ح : ٣٧٢٨، قال المحقق حدیث حسن ] ” یقیناً قتل کرنے میں سب لوگوں سے زیادہ اچھا طریقہ اختیار کرنے والے اہل ایمان ہوتے ہیں۔ “
وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ ١ ٣٠ۚ بطش البَطْشُ : تناول الشیء بصولة، قال تعالی: وَإِذا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ [ الشعراء/ 130] ، يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] ، وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر/ 36] ، إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج/ 12] . يقال : يد بَاطِشَة . ( ب ط ش ) البطش کے معنی کوئی چیز زبردستی لے لینا کے ہیں قرآن میں : { وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ } ( سورة الشعراء 130) اور جب کسی کو پکڑتے تو ظالمانہ پکڑتے ہو ۔ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر/ 36] اور لوط نے ان کو ہماری گرفت سے ڈرایا ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج/ 12] بیشک تمہاری پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے ید کا طشۃ سخت گیر ہاتھ ۔ جبر أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ( ج ب ر ) الجبر اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔
(١٣٠) اور جب کسی کا مواخذہ کرنے لگتے ہو تو بالکل ہی ظالم و جابر بن کر اس کا مواخذہ کرتے ہو اور اسے غصہ میں آکر قتل کرتے ہو۔
آیت ١٣٠ (وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ ) ” جب تم کسی قوم پر حملہ آور ہوتے ہو تو ظلم و جبر کی انتہا کردیتے ہو۔
92 That is,"In order to meet the demands of your ever rising standards of life, you do not rest content with small living quarters but you build castles and fortresses, and yet being unsatisfied you erect lofty edifices unnecessarily just for ostentation. But as human beings you have become so depraved that there is no mercy in your hearts for the weak, no justice for the poor, and alI people of lower social strata, living inside or around your land, are being oppressed tyrannically and none is safe from your barbarities."
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :92 یعنی اپنا معیار زندگی بلند کرنے میں تو تم اس قدر غلو کر گئے ہو کہ رہنے کے لیے تم کو مکان نہیں محل اور قصر درکار ہیں ، اور ان سے بھی جب تمہاری تسکین نہیں ہوتی تو بلا ضرورت عالی شان عمارتیں بنا ڈالتے ہو جن کا کوئی مصرف اظہار وقت و ثروت کے سوا نہیں ہے ۔ لیکن تمہارا معیار انسانیت اتنا گرا ہوا ہے کہ کمزوروں کے لیے تمہارے دلوں میں کوئی رحم نہیں ، غریبوں کے لیے تمہاری سر زمین کوئی انصاف نہیں ، گرد و پیش کی ضعیف قومیں ہوں یا خود اپنے ملک کے پست طبقات ، سب تمہارے جبر اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور کوئی تمہاری چیرہ دستیوں سے بچا نہیں رہ گیا ہے ۔
27: یعنی ایک طرف تو تمہارا حال یہ ہے کہ ان نام و مود کی عمارتوں پر پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہو، اور دوسری طرف غریبوں کے ساتھ تمہارا رویہ انتہائی ظالمانہ ہے کہ ذرا سی بات پر کسی کی پکڑ کرلی تو اس کی جان عذاب میں آگئی۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کی یہ باتیں نقل کر کے قرآن کریم نے ہم سب کو توجہ دلائی ہے کہ کہیں ہمارا طرز عمل بھی اس زمرے میں تو نہیں آتا کہ بس دنیا کی شان و شوکت ہی کو سب کچھ سمجھ کر آخرت سے غافل ہوں، اور دولت مندی کے نشے میں غریبوں کو اپنے ظلم و ستم کی چکی میں پیس رکھا ہو۔
(26:130) بطشتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ بطش یبطش (ضرب) و بطش یبطش (نصر) بطش مصدر۔ تم نے پکڑا۔ یہاں بمعنی تم پکڑتے ہو۔ جبارین۔ جبار کی جمع ۔ جبر مادہ۔ زبردست۔ زور آور۔ الجبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کے اصلاح کرنے کے ہیں لیکن اس کا استعمال اصلاح اور محض زبردستی کے لئے بھی ہوتا ہے۔ جبار جیر سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ الجبار جب انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلیّ سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہوتا ہے جیسے ولم یجعلنی جبارا شقیا (19:32) اور مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا۔ کبھی محض دوسرے دوسرے پر استبداد کرنے والے کو جبار کہا جاتا ہے۔ مثلاً وما انت علیہم بجبار (50:45) اور تم ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔ اور جب الجبار اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو اس کے معنی غالب آنے والا۔ زبردست بڑائی والا کے ہیں۔ جس کا استعمال مخلوق کی اصلاح کے لئے یا اپنے ارادہ کی تکمیل کے لئے (جو سراسر حکمت پر مبنی ہے) ہوتا ہے۔ یہاں اس آیت میں صاحب روح المعانی کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی گرفت ہے جس میں نہ رحم ہو اور نہ اس میں تادیب کا قصد ہو اور نہ اس میں انجام پر نظر ہو۔ ترجمہ :۔ جب تم کسی پر داروگیر کرتے ہو تو ظالم اور بےدرد بن کر دارروگیر کرتے ہو۔
3 ۔ یعنی تمہارے دلوں میں غریبوں اور کمزوروں کے لئے رحم نہیں۔ جب تم اپنے گردوپیش کے قبیلوں یا خود اپنے قبیلہ کے غریب اور کمزور لوگوں پر ہاتھ ڈالتے ہو تو تمہارا رویہ انتہائی ظالمانہ اور بےرحمی کا ہوتا ہے۔ کیونکہ دنیا کے لالچ اور تکبر نے انسانی اخلاق کے کپڑے تمہارے جسموں سے اتار لئے ہیں۔
5۔ ان اخلاق ذمیمہ کا اس لئے بیان کیا گیا کہ یہ اخلاق ذمیمہ اکثر مانع ایمان وانقیاد سے ہوجاتے ہیں۔
واذا بطشتم بطشتم جبارین (١٣٠) یہ لوگ بہت بڑے نافرمان اور سرکش تھے۔ جب کسی کو اپنی ظالمانہ گرفت میں لیتے تو حد سے گزر جاتے۔ ظلم اور سنگدلی ان کا شیوہ ہوتا۔ جس طرح اس دنیا میں مادی قوت رکھنے والے ہر جبار کا قانون ہوتا ہے۔ چناچہ حضرت ہود ان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خدا سے ڈریں اور اس کے رسول کی اطاعت میں آجائیں۔ تاکہ اللہ اور رسول ان کو اس سختی سے روک دیں۔
(وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ ) (اور جب تم پکڑتے ہو تو بڑے جابر بن کر پکڑتے ہو) چونکہ وہ لوگ بڑے ڈیل ڈول والے تھے اور انہیں اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ بھی تھا اس لیے انہوں نے از راہ تکبر یہاں تک کہہ دیا تھا (مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ) (کہ طاقت میں ہم سے بڑھ کر کون ہوگا) اپنے اسی گھمنڈ اور غرور کی وجہ سے جب کسی کو پکڑتے تھے تو بہت ظلم و زیادتی کرتے تھے بغیر کسی رحم کے ترس کھائے بغیر مارتے کاٹتے اور ظلم کرتے چلے جاتے تھے، صاحب روح المعانی لکھتے ہیں مسلطین غاشمین بلا رافۃ و لا قصد تادیب و لا نظر فی العاقبۃ۔