Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 136

سورة الشعراء

قَالُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡنَاۤ اَوَ عَظۡتَ اَمۡ لَمۡ تَکُنۡ مِّنَ الۡوٰعِظِیۡنَ ﴿۱۳۶﴾ۙ

They said, "It is all the same to us whether you advise or are not of the advisors.

انہوں نے کہا کہ آپ وعظ کہیں یا وعظ کہنے والوں میں نہ ہوں ہم پر یکساں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Response of the People of Hud, and Their Punishment Allah tells us how the people of Hud responded to him after he had warned them, encouraged them, and clearly explained the truth to them. قَالُوا سَوَاء عَلَيْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُن مِّنَ الْوَاعِظِينَ They said: "It is the same to us whether you preach or be not of those who preach." meaning, `we will not give up our ways.' وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِى ءالِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُوْمِنِينَ And we shall not leave our gods for your (mere) saying! And we are not believers in you. (11:53) This is how it was, as Allah says: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُوْمِنُونَ Verily, those who disbelieve, it is the same to them whether you warn them or do not warn them, they will not believe (2:6) إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ Truly, those, against whom the Word of your Lord has been justified, will not believe. (10:96-97) And they said: إِنْ هَذَا إِلاَّ خُلُقُ الاَْوَّلِينَ

موثر بیانات بھی بے اثر حضرت ہود علیہ السلام کے موثر بیانات نے اور آپ کے رغبت اور ڈر بھرے خطبوں نے قوم پر کوئی اثر نہیں کیا اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ ہمیں وعظ سنائیں یا نہ سنائیں نصیحت کریں یا نہ کریں ہم تو اپنی روش کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ ہم آپ کی بات مان کر اپنے معبودوں سے دست بردار ہوجائیں یہ یقینا محال ہے ہمارے ایمان سے آپ مایوس ہوجائیں ہم آپ کی نہیں مانیں گے ۔ فی الوقع کافروں کا یہی حال ہے کہ انہیں سمجھانا بےسود رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی آخرالزماں سے بھی یہی فرمایا کہا ان ازلی کفار پر آپ کی نصیحت مطلق اثر نہیں کرے گی یہ نصیحت کرنے اور ہوشیار کر دینے کے بعد بھی ویسے ہی رہیں گے جیسے پہلے تھے ۔ یہ تو قدرتی طور پر ایمان سے محروم کردیے گئے ہیں ۔ جن پر تیرے رب کی بات صادق آنے والی ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے والا ۔ خُلُقُ الاولین کی دوسری قرأت خَلقُ الاولین بھی ہے یعنی جو باتیں تو ہمیں کہتا ہے یہ تو اگلوں کی کہی ہوئی ہیں جیسے قریشیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو صبح شام تمہارے سامنے پڑھی جاتی ہیں ۔ یہ ایک بہتان ہے جسے تونے گھڑ لیا ہے اور کچھ لوگ اپنے طرفدار کرلئے ہیں ۔ مشہور قراء کی بنا پر معنی یہی ہوئے کہ جس پر ہم ہیں وہی ہمارے پرانے باپ دادوں کا مذہب ہے ہم تو انہیں کی راہ چلیں گے اور اسی روش پر رہیں گے جیئں گے پھر مرجائیں گے جیسے وہ مرگئے ۔ یہ محض لاف ہے کہ پھر ہم اللہ کے ہاں زندہ کئے جائیں گے ۔ یہ بھی غلط ہے کہ ہمیں عذاب کیا جائے گا آخر شان کی تکذیب اور مخالفت کی وجہ سے انہیں ہلاک کر دیا گیا ۔ سخت تیز وتند آندھی ان پر بھیجی گئی اور یہ برباد کر دئیے گئے یہ عاد اولی تھے جنہیں آیت ( اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ Ċ۝۽ ) 89- الفجر:7 ) بھی کہا گیا ۔ یہ ارم سام بن نوح علیہ السلام کی نسل میں سے تھے ۔ عمد میں یہ رہتے تھے ارم حضرت نوح علیہ السالم کے پوتے کا نام ہے نہ کہ کسی شہر کا ۔ گو بعض لوگوں سے یہ بھی مروی ہے لیکن اس کے قائل بنی اسرائیل ہیں ۔ ان سے سن سنا کر اوروں نے بھی یہ کہہ دیا حقیقت میں اسکی کوئی مضبوط دلیل نہیں ۔ اسی لئے قرآن نے ارم کا ذکر کرتے ہی فرمایا کہ آیت ( لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ Ď۝۽ ) 89- الفجر:8 ) ۔ ان جیسا اور کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا ۔ اگر اس سے مراد شہر ارم ہوتا تو یوں فرمایا جاتا کہ اس جیسا اور کوئی شہر بنایا نہیں گیا ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے آیت ( فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً 15؀ ) 41- فصلت:15 ) عادیوں نے زمین میں تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے بڑھ کر قوت والا کون ہے؟ کیا وہ اسے بھی بھول گئے ان کا پیدا کرنے والا ان سے زیادہ قوی ہے دراصل انہیں ہماری آیتوں سے انکار تھا یہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ان پر صرف بیل کے نتھنے کے برابر ہوا چھوڑی گئی تھی ۔ جس نے ان کو ان کے شہروں کا ان کے مکانات کا نام ونشان مٹادیا جہاں سے گزر گئی صفایا کردیا شائیں شائیں کرتی تمام چیزوں کا ستیاناس کرتی چلی تھی ۔ تمام قوم کے سر الگ ہوگئے اور دھڑ الگ ہوگئے ۔ عذاب الٰہی کو ہوا کی صورت آتا دیکھ کر قلعوں میں محلات میں محفوظ مکانات میں گھس گئے تھے ۔ زمین میں گڑھے کھود کھود کر آدھے آدھے جسم ان میں ڈال کر محفوظ ہوئے تھے لیکن بھلا عذاب اللہ کو کوئی چیز روک سکتی ہے؟ وہ ایک منٹ کے لئے بھی کسی کو مہلت اور دم لینے دیتا ہے؟ سب چٹ پٹ کر دئیے گئے اور اس واقعہ کو بعد میں آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنادیا گیا ۔ ان میں سے پھر بھی اکثر لوگ بے ایمان ہی رہے اللہ کا غلبہ اور رحم دونوں مسلم تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْنَآ اَوَعَــظْتَ ۔۔ : مفردات راغب میں ہے ” وعظ “ ایسا ڈانٹنا ہے جس کے ساتھ خوف دلانا بھی ہو۔ خلیل نے فرمایا : ” اس کا معنی ہے ایسے اچھے طریقے سے نصیحت کرنا جس سے دل نرم ہوجائیں۔ “ یہ ہود (علیہ السلام) کی قوم کا جواب ہے کہ تم نصیحت کرو یا نہ کرو، ہم تمہاری بات کسی طرح ماننے والے نہیں۔ ان الفاظ سے ان کا ہود (علیہ السلام) کے ساتھ بےپروائی اور تحقیر کا سلوک نمایاں ہو رہا ہے۔ سورة ہود (٥٣) میں ان کے جواب کے مزید الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْنَآ اَوَعَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِيْنَ۝ ١٣٦ۙ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٦ تا ١٣٨) وہ بولے ہمارے نزدیک دونوں چیزیں برابر ہیں خواہ آپ ہمیں ان چیزوں سے روکیں یا نہ روکیں اور جس طریقہ پر ہم قائم ہیں یہ تو پہلے لوگوں کا ایک طریقہ چلا آرہا ہے یا یہ کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو یہ تو بس پہلے لوگوں کی باتیں ہیں اور رسم ہے اور تم جو ہمیں عذاب سے ڈراتے ہو ہمیں ہرگز عذاب نہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٦ (قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَآ اَوَعَظْتَ اَمْ لَمْ تَکُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَ ) ” آپ ( علیہ السلام) کے اس وعظ کا ہم پر کچھ اثر نہیں ہوگا ‘ ہم آپ کے کہنے پر اپنے عقائد اور اپنے باپ دادا کے طریقوں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ ” ہم کسی طور ماننے والے نہیں “۔ یہ بات انہوں نے بےپرواہی اور حقارت آمیز لہجہ میں کہی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ہم دونوں حالتوں میں اپنی کردار سے باز نہ آویں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا سوآء ……الوعظین (١٣٦) انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہود صاحب آپ فضول لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے لئے آپ کا وعظ کرنا نہ کرنا برابر ہے۔ یہ جواب ان کی طرف سے سخت توہین آمیز ، سنگدلانہ اور انتہائی دینی جمود اور بلاوت کا مظہر تھا۔ یہ لوگ اپنے تقلیدی مذہب پر تلے ہوئے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(قَالُوْا سَوَاءٌ عَلَیْنَا) (الآیۃ) ان لوگوں نے جواب میں کہا کہ تمہاری و اعظانہ باتوں سے ہم متاثر ہونے والے نہیں تم ہمیں نصیحت کرو یا نہ کرو بہر حال ہم اپنی جگہ پر اٹل ہیں ہمیں بات ماننا نہیں ہے، اور یہ جو تم کہتے ہو کہ اللہ سے ڈرو اور قیامت کو مانو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں وہ بھی ایسی باتیں کہتے آئے ہیں اب تک قیامت آئی نہیں اور یہ جو تم عذاب والی بات کہتے ہو ہم اسے بھی نہیں مانتے ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ ان لوگوں نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا اللہ پاک نے انہیں سخت آندھی کے ذریعہ ہلاک کردیا جس کا ذکر سورة حم سجدہ (ع ٢) اور سورة الحاقہ (ع ١) سورة ذاریات (ع ٢) سورة قمر (ع ١) اور سورة احقاف میں فرمایا ہے سات رات اور آٹھ دن لگا تار ٹھنڈی تیز ہوا چلتی رہی جس سے سب ہلاک ہوگئے مفصل واقعہ ہم سورة اعراف (ع ٩) کی تفسیر میں بیان کر آئے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(136) ان لوگوں نے ہود (علیہ السلام) کو جواب دیا تو ہم کو نصیحت کرلے یا نصیحت کرنے والا نہ بنے ہمارے لئے دونوں باتیں برابر ہیں۔