The Response of the People of Hud, and Their Punishment
Allah tells us how the people of Hud responded to him after he had warned them, encouraged them, and clearly explained the truth to them.
قَالُوا سَوَاء عَلَيْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُن مِّنَ الْوَاعِظِينَ
They said: "It is the same to us whether you preach or be not of those who preach."
meaning, `we will not give up our ways.'
وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِى ءالِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُوْمِنِينَ
And we shall not leave our gods for your (mere) saying! And we are not believers in you. (11:53)
This is how it was, as Allah says:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُوْمِنُونَ
Verily, those who disbelieve, it is the same to them whether you warn them or do not warn them, they will not believe (2:6)
إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ
Truly, those, against whom the Word of your Lord has been justified, will not believe. (10:96-97)
And they said:
إِنْ هَذَا إِلاَّ خُلُقُ الاَْوَّلِينَ
موثر بیانات بھی بے اثر
حضرت ہود علیہ السلام کے موثر بیانات نے اور آپ کے رغبت اور ڈر بھرے خطبوں نے قوم پر کوئی اثر نہیں کیا اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ ہمیں وعظ سنائیں یا نہ سنائیں نصیحت کریں یا نہ کریں ہم تو اپنی روش کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ ہم آپ کی بات مان کر اپنے معبودوں سے دست بردار ہوجائیں یہ یقینا محال ہے ہمارے ایمان سے آپ مایوس ہوجائیں ہم آپ کی نہیں مانیں گے ۔ فی الوقع کافروں کا یہی حال ہے کہ انہیں سمجھانا بےسود رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی آخرالزماں سے بھی یہی فرمایا کہا ان ازلی کفار پر آپ کی نصیحت مطلق اثر نہیں کرے گی یہ نصیحت کرنے اور ہوشیار کر دینے کے بعد بھی ویسے ہی رہیں گے جیسے پہلے تھے ۔ یہ تو قدرتی طور پر ایمان سے محروم کردیے گئے ہیں ۔ جن پر تیرے رب کی بات صادق آنے والی ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے والا ۔ خُلُقُ الاولین کی دوسری قرأت خَلقُ الاولین بھی ہے یعنی جو باتیں تو ہمیں کہتا ہے یہ تو اگلوں کی کہی ہوئی ہیں جیسے قریشیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو صبح شام تمہارے سامنے پڑھی جاتی ہیں ۔ یہ ایک بہتان ہے جسے تونے گھڑ لیا ہے اور کچھ لوگ اپنے طرفدار کرلئے ہیں ۔ مشہور قراء کی بنا پر معنی یہی ہوئے کہ جس پر ہم ہیں وہی ہمارے پرانے باپ دادوں کا مذہب ہے ہم تو انہیں کی راہ چلیں گے اور اسی روش پر رہیں گے جیئں گے پھر مرجائیں گے جیسے وہ مرگئے ۔ یہ محض لاف ہے کہ پھر ہم اللہ کے ہاں زندہ کئے جائیں گے ۔ یہ بھی غلط ہے کہ ہمیں عذاب کیا جائے گا آخر شان کی تکذیب اور مخالفت کی وجہ سے انہیں ہلاک کر دیا گیا ۔ سخت تیز وتند آندھی ان پر بھیجی گئی اور یہ برباد کر دئیے گئے یہ عاد اولی تھے جنہیں آیت ( اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ Ċ۽ ) 89- الفجر:7 ) بھی کہا گیا ۔ یہ ارم سام بن نوح علیہ السلام کی نسل میں سے تھے ۔ عمد میں یہ رہتے تھے ارم حضرت نوح علیہ السالم کے پوتے کا نام ہے نہ کہ کسی شہر کا ۔ گو بعض لوگوں سے یہ بھی مروی ہے لیکن اس کے قائل بنی اسرائیل ہیں ۔ ان سے سن سنا کر اوروں نے بھی یہ کہہ دیا حقیقت میں اسکی کوئی مضبوط دلیل نہیں ۔ اسی لئے قرآن نے ارم کا ذکر کرتے ہی فرمایا کہ آیت ( لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ Ď۽ ) 89- الفجر:8 ) ۔ ان جیسا اور کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا ۔ اگر اس سے مراد شہر ارم ہوتا تو یوں فرمایا جاتا کہ اس جیسا اور کوئی شہر بنایا نہیں گیا ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے آیت ( فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً 15 ) 41- فصلت:15 ) عادیوں نے زمین میں تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے بڑھ کر قوت والا کون ہے؟ کیا وہ اسے بھی بھول گئے ان کا پیدا کرنے والا ان سے زیادہ قوی ہے دراصل انہیں ہماری آیتوں سے انکار تھا یہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ان پر صرف بیل کے نتھنے کے برابر ہوا چھوڑی گئی تھی ۔ جس نے ان کو ان کے شہروں کا ان کے مکانات کا نام ونشان مٹادیا جہاں سے گزر گئی صفایا کردیا شائیں شائیں کرتی تمام چیزوں کا ستیاناس کرتی چلی تھی ۔ تمام قوم کے سر الگ ہوگئے اور دھڑ الگ ہوگئے ۔ عذاب الٰہی کو ہوا کی صورت آتا دیکھ کر قلعوں میں محلات میں محفوظ مکانات میں گھس گئے تھے ۔ زمین میں گڑھے کھود کھود کر آدھے آدھے جسم ان میں ڈال کر محفوظ ہوئے تھے لیکن بھلا عذاب اللہ کو کوئی چیز روک سکتی ہے؟ وہ ایک منٹ کے لئے بھی کسی کو مہلت اور دم لینے دیتا ہے؟ سب چٹ پٹ کر دئیے گئے اور اس واقعہ کو بعد میں آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنادیا گیا ۔ ان میں سے پھر بھی اکثر لوگ بے ایمان ہی رہے اللہ کا غلبہ اور رحم دونوں مسلم تھے ۔