Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 146

سورة الشعراء

اَتُتۡرَکُوۡنَ فِیۡ مَا ہٰہُنَاۤ اٰمِنِیۡنَ ﴿۱۴۶﴾ۙ

Will you be left in what is here, secure [from death],

کیا ان چیزوں میں جو یہاں ہیں تم امن کے ساتھ چھوڑ دیئے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Reminder to Them of their Circumstances and the Blessings Salih warns: أَتُتْرَكُونَ فِي مَا هَاهُنَا امِنِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ

صالح علیہ السلام کی باغی قوم حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم میں وعظ فرما رہے ہیں انہیں اللہ کی نعمتیں یاد دلا رہے ہیں اور اسکے عذابوں سے متنبہ فرما رہے ہیں کہ وہ اللہ جو تمہیں یہ کشادہ روزیاں دے رہا ہے جس نے تمہارے لئے باغات اور چشمے کھیتیاں اور پھل پھول مہیا فرمادئیے ہیں امن چین سے تمہاری زندگی کے ایام پورے کررہے ہیں تم اس کی نافرمانیاں کرکے انہی نعمتوں میں اور اسی امن وامان میں نہیں چھوڑے جاسکتے ۔ ان باغات اور ان دریاؤں میں ان کھیتوں میں ان کھجوروں کے باغات میں جن کے خوشے کجھجوروں کی زیادتی کے مارے بوجھل ہو رہے ہیں اور جھکے پڑتے ہیں جن میں تہہ بہ تہہ تر کجھوریں بھر پور لگ رہی ہیں جو نرم خوش نما میٹھی اور خوش ذائقہ کجھوروں سے لدی ہوئے ہیں تم اللہ کی نافرمانیاں کرکے ان کو بہ آرام ہضم نہیں کرسکتے ۔ اللہ نے تمہیں اس وقت جن مضبوط اور پر تکلف بلند اور عمدہ گھروں میں رکھ چھوڑا ہے اللہ کی توحید اور میری رسالت سے انکار کے بعد یہ بھی قائم نہیں رہ سکتے ۔ افسوس تم اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے اپنا وقت اپنا روپیہ بےجا برباد کرکے یہ نقش ونگار والے مکانات پہاڑوں میں بہ تصنع وتکلف صرف بڑائی اور ریاکاری کیلئے اپنی عظمت اور قوت کے مظاہرے کیلے تراش رہے ہو جس میں کوئی نفع نہیں بلکہ اسکا وبال تمہارے سروں پر منڈلا رہا ہے پس تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے اور میری اتباع کرنی چاہئے اپنے خالق رازق منعم محسن کی عبادت اور اسکی فرمانبرداری اور اس کی توحید کی طرف پوری طرح متوجہ ہوجانا چاہئے ۔ جس کا نفع تمہیں اپنے دنیا اور آخرت میں ملے تمہیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اس کی تسبیح وتہلیل کرنی چاہئیے صبح وشام اس کی عبادت کرنی چاہئے تمہیں اپنے ان موجودہ سردارں کی ہرگز نہ ماننی چاہئے یہ تو حدود اللہ سے تجاوز کر گئے ان موجودہ سرداروں کی ہرگز نہ ماننی چاہئے ، یہ تو حدود اللہ سے تجاوز کر گئے ہیں ، توحید کو ، اتباع کو بھلا بیٹھے ہیں ۔ زمین میں فسادپھیلا رہے ہیں نافرمانی ، گناہ ، فسق وفجور پر خود لگے ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی کی طرف بلا رہے ہیں اور حق کی موافقت اور اتباع کرکے اصلاح کی کوشش نہیں کرتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1461یعنی یہ نعمتیں کیا تمہیں ہمیشہ حاصل رہیں گی، نہ تمہیں موت آئے گی نہ عذاب ؟ استفہام انکاری اور توبیخی ہے یعنی ایسا نہیں ہوگا بلکہ عذاب یا موت کے ذریعے سے، جب اللہ چاہے گا، تم ان نعمتوں سے محروم ہوجاؤ گے اس میں ترغیب ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ اور اگر ایمان و شکر کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تباہی و بربادی تمہارا مقدر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] قوم ثمود کا یہ علاقہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع تھا۔ وادیاں زرخیز تھیں۔ جا بجا میٹھے پانی کے چشمے موجود تھے۔ کھیتیاں اور باغات بکثرت تھے۔ جن میں طرح طرح کے پھل اور اعلیٰ قسم کی کھجور پیدا ہوتی تھی۔ اور پہاڑوں کی تراش کر جو وہ مکان بناتے تھے تو وہ محض ضرورت رہائش پوری کرنے کے لئے نہیں بناتے تھے بلکہ خوبصورت سے خوبصورعت اور اعلیٰ سے اعلیٰ مکان بنانے میں ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا تھا اور اس سے ان کا مقصد اپنے ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کا مظاہرہ کرنا ہوتا تھا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا، تمہارا کیا خیال ہے کہ تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی جو اس قدر دنیا پر ریجھ گئے ہو اور اپنے پروردگار کو بالکل فراموش کردیا ہے ؟ اللہ نے اگر تمہیں یہ نعمتیں دی ہیں تو اس کی ناشکری کی بنا پر وہ تم سے چھین بھی سکتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ اور اس کی گرفت سے ڈرتے رہو اور اگر انجام بخیر چاہتے ہو تو میرے بتلائے ہوئے راستہ پر عمل کرو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا هٰهُنَآ اٰمِنِيْنَ ۔۔ : قوم عاد کی طرح یہ لوگ بھی اللہ کی عبادت سے کنارہ کش ہوچکے تھے، بتوں کے پجاری اور قیامت کے منکر تھے، جس کے نتیجے میں ان کی ساری تگ و دو دنیا کی آسائشوں کے حصول اور عیش پرستی تک محدود تھی، آخرت کی فکر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس سے یکسر عاری تھے، ان کے بدترین اور مفسد لوگ ان کے سردار اور راہ نما بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف صالح (علیہ السلام) کو بھیجا، جنھوں نے اوپر والی آیات کے مطابق انھیں اللہ سے ڈرنے اور اپنے رسول کی اطاعت کرنے کی تلقین فرمائی اور بتایا کہ وہ ان سے کسی بھی قسم کی مالی منفعت کے طلب گار نہیں ہیں۔ اس کے بعد انھیں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کر اور اس کے عذاب سے ڈرا کر نصیحت فرمائی۔ قوم ثمود کی آبادی حجر کے علاقہ میں تھی، جو مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے اور آج کل اسے ” مدائن صالح “ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک کو جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تھے، اس کی تفصیل سورة اعراف (٧٣) میں دیکھیے۔ یعنی یہاں دنیا کے اندر اپنے علاقے میں جو تم امن سے رہ رہے ہو، کسی دشمن کا خوف نہیں، ضرورت کی ہر چیز تمہیں میسر ہے اور راحت و آرام کے تمام اسباب بھی، تو کیا تمہیں ان باغوں چشموں، کھیتوں کے نرم و نازک خوشوں والے درختوں اور پہاڑوں کو تراش کر نہایت مہارت کے ساتھ بنائی پائیدار اور خوبصورت عمارتوں میں ہمیشہ رہنے دیا جائے گا ؟ جب یہ طے شدہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، بلکہ ہر حال میں تمہیں مالک کے سامنے پیش ہو کر جواب دہ ہونا ہے، تو اللہ سے ڈرو اور اس سوال کا جواب سوچ لو کہ اس کا دیا کھاتے ہو اور دوسرے کے گن گاتے ہو اور میری اطاعت کرو، کیونکہ اس نے مجھے تمہاری ہدایت کے لیے بھیجا ہے۔ وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ ۔۔ : عاد کے تمدن کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے، جب کہ ثمود کے تمدن کی سب سے نمایاں خصوصیت، جس کی بنا پر وہ مشہور تھے، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے۔ چناچہ سورة فجر (٧) میں عاد کو ” ذَاتِ الْعِمَاد “ (ستونوں والے) کہا گیا ہے اور ثمود کے متعلق فرمایا : (وَثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بالْوَادِ ) [ الفجر : ٩ ] ” جنھوں نے وادی میں چٹانوں کو تراشا۔ “ اس کے علاوہ وہ اپنے میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے محل تعمیر کرتے تھے، فرمایا : (تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا ) [ الأعراف : ٧٤ ] ” تم اس کے میدانوں میں محل بناتے ہو۔ “ ان تعمیرات سے ان کی غرض وغایت اپنی شان و شوکت، مہارت اور کمال فن کی نمائش تھی، نہ کہ کوئی حقیقی ضرورت۔ بگڑے ہوئے معاشروں کا یہی حال ہوتا ہے کہ ایک طرف لوگوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی تو دوسری طرف امراء اور اہل ثروت کمزوروں کی مدد کے بجائے اپنی ضرورت سے زیادہ عمارتیں بنانے کے بعد بلاضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ تفہیم القرآن میں ہے : ” ثمود کی ان عمارات میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں، جنھیں ١٩٥٩ ء کے دسمبر میں میں نے خود دیکھا ہے۔ یہ جگہ مدینہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام ” العلاء “ (جسے عہد نبوی میں وادی القریٰ کہا جاتا تھا) سے چند میل کے فاصلے پر بجانب شمال واقع ہے۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائن صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں۔ اس علاقے میں ” العلاء “ تو اب بھی نہایت سرسبز و شاداب وادی ہے، جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں، مگر ” الحجر “ کے گرد و پیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے، آبادی برائے نام ہے، روئیدگی بہت کم ہے، چند کنویں ہیں، انھی میں سے ایک کنویں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوئے تو ” العلاء “ کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ایسے پہاڑ نظر آئے جو بالکل کھیل کھیل ہوگئے ہیں، صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انھیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجھوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف ” العلاء “ سے خیبر جاتے ہوئے تقریباً پچاس (٥٠) میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کے حدود میں ٣٠، ٤٠ میل کے اندر ملتے چلے گئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور سو میل چوڑا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا ہٰہُنَآ اٰمِنِيْنَ۝ ١٤ ٦ۙ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھس جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٦ تا ١٤٨) کیا تمہیں کو ان ہی نعمتوں میں موت عذاب اور زوال سے بےفکری کے ساتھ رہنے دیا جائے گا یعنی باغوں میں اور پاک پانی کے چشموں میں۔ اور کھیتوں میں اور ان کھجوروں میں جن کے گچھے خوب گوندھے ہوئے اور خوبصورت ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٦ (اَتُتْرَکُوْنَ فِیْ مَا ہٰہُنَآ اٰمِنِیْنَ ) ” تمہارا کیا خیال ہے کہ تم ان سب چیزوں کے درمیان جو یہاں تمہیں میسر ہیں ‘ یونہی امن و سکون اور اطمینان سے ہمیشہ رہنے دیے جاؤ گے اور یہ نعمتیں کبھی تم سے جدا نہ ہوں گی ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

97 hat is, "Do you consider that your life of indulgence and pleasure is everlasting, and you will never be asked to account for Allah's favours to you and for your own misdeeds?"

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :97 یعنی کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہارا یہ عیش دائمی اور ابدی ہے ؟ کیا اس کو کبھی زوال آنا نہیں ہے ؟ کیا تم سے کبھی ان نعمتوں کا حساب نہ لیا جائے گا اور کبھی ان اعمال کی باز پرس نہ ہو گی جن کا تم ارتکاب کر رہے ہو؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:146) اتترکون۔ الف استفہام انکاری کے لئے ہے تترکون مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ ترک یترک (نصر) ترک مصدر کیا تم چھوڑ دئیے جاؤ گے۔ کیا تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ فیما ھھنا۔ ما موصولہ ہے اور ھھنا اشارہ قریب ۔ موجودہ حالت تنعم کی طرف ہے۔ باغات، چشمے ۔ سرسبز کھیت۔ اور پر شگوفہ کھجوروں کے اشجار۔ یعنی کیا تم ان باغات و چشموں اور شاداب کھیتوں اور کھجور کے درختوں میں جن کے شگوفے بڑے نرم و نازک ہیں (عیش کرنے کے لئے) محفوظ و بےخطر چھوڑ دئیے جاؤ گے ؟ امنین : امن کی جمع بےخوف۔ مطمئن، امن میں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اتنراکون فی ……فرھین (١٤٩) یہ لوگ ایسے معاشی حالات میں رہتے تھے جس کی تصویر کشی ان کے لئے ان کے بھائی صالح کر رہے تھے۔ لیکن یہ لوگ نہایت غفلت سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس بات کی کوئی فکر نہیں کر رہے کہ یہ انعامات دینے والا کون ہے۔ ان انعامات کا سرچشمہ اور آنے کی جگہ کون سی ہے۔ یہ لوگ اس منعم حقیقی کا تصور بھی نہیں کرتے جس نے یہ انعامات عطا کئے ہیں۔ چناچہ رسول وقت نے ان کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرو ورنہ واپس لی جاسکتی ہیں۔ حضرت صالح نے ان کو ایسے جھٹکے دیئے کہ ان کے غافل دل جاگ اٹھیں اور اللہ کا خوف کریں۔ اتترکون فی ماھھنا امنین (٢٦ : ١٣٦) ” کیا تم ان سب چیزوں کے درمیان جو یہاں ہیں ، بس یوں ہی اطمینان سے رہنے دیئے جائو گے۔ “ مطلب یہ کہ کیا تم جس خوشحالی ، عیش و عشرت اور نعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہو ، ہمیشہ رہو گے ، تمہیں کہیں جواب نہیں دینا ہے ، کہیں نہیں جاتا ہے۔ کسی بالائی قوت سے تمہیں کوئی ڈر نہیں ہے۔ ان کے زوال کا بھی کوئی ڈر نہیں ہے۔ کیا ڈرتے نہیں ہو کہ حالات بدل بھی سکتے ہیں۔ ان باغات اور چشموں میں ان فصلوں اور میوہ جات میں تاکستانوں اور نخلستانوں میں اور ان خوشگوار اور خوش ذائقہ میوہ جات میں ، زود ہضم پھلوں میں اور پہاڑوں میں تم جو مکانات بناتے ہو ، یا اپنی عیاشیوں کے لئے تم پہاڑوں جیسے اونچے مکانات بناتے ہو اور یہ سب کام عبث ہے کیونکہ یہ تمہاری رہائش کی ضرورت سے بہت ہی زیادہ ہے۔ محض مہارت حسن اور تعیش کے اظہار کے لئے۔ یوں حضرت صالح ان غافل لوگوں کو سخت جھٹکے دے کر جگانے کے بعد ان کو دعوت دیتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور ان لوگوں کی مخالفت کرو جو ظالم سردار ہیں اور جو ہر وقت شر و فساد اور ظلم کی طرف مائل رہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(146) کیا تم ان نعمتوں میں جو اس وقت تمہارے پاس موجود ہیں یوں ہی بےخوف اور نڈر اور بےفکری کے ساتھ چھوڑ دیاجائے گا یعنی وہ نعمتیں جو دنیا میں تم کو حاصل ہیں ان دنیوی نعمتوں میں تم کو بےخوفی اور بےفکری کے ساتھ رہنے دیاجائے گا۔