Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 157
سورة الشعراء
فَعَقَرُوۡہَا فَاَصۡبَحُوۡا نٰدِمِیۡنَ ﴿۱۵۷﴾ۙ
But they hamstrung her and so became regretful.
پھر بھی انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ ڈالیں بس وہ پشیمان ہوگئے ۔
فَعَقَرُوۡہَا فَاَصۡبَحُوۡا نٰدِمِیۡنَ ﴿۱۵۷﴾ۙ
But they hamstrung her and so became regretful.
پھر بھی انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ ڈالیں بس وہ پشیمان ہوگئے ۔
15 7 1یعنی باوجود اس بات کے کہ وہ اونٹنی، اللہ کی قدرت کی ایک نشانی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی، قوم ثمود ایمان نہیں لائی اور کفر و شرک کے راستے پر گامزن رہی اور اس کی سرکشی یہاں تک بڑھی کہ بالآخر قدرت کی زندہ نشانی ' اونٹنی ' کی کوچیں کاٹ ڈالیں یعنی اس کے ہاتھوں پیروں کو زخمی کردیا، جس سے وہ بیٹھ گئی اور پھر اسے قتل کردیا۔ 15 7 2یہ اس وقت ہوا جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ اب تمہیں صرف تین دن کی مہلت ہے، چوتھے دن تمہیں ہلاک کردیا جائے گا اس کے بعد جب واقع عذاب کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہوگئیں تو پھر ان کی طرف سے بھی اظہار ندامت ہونے لگا۔ لیکن علامات عذاب دیکھ لینے کے بعد ندامت اور توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔
[٩٦] لیکن یہ لوگ زیادہ مدت تک اس پابندی کو برداشت نہ کرسکے۔ چوری چھپے باتیں کرتے اور دل ہی دل میں اس پابندی سے کڑھتے رہتے تھے۔ پھر جب ان کے ایمان نہ لانے پر بھی اللہ کا عذاب نہ آیا تو وہ کچھ دلیر ہوگئے۔ ان میں ایک بدکار عورتھی جس کے بہت سے مویشی تھے اور کا صی مالدار تھی۔ اس نے اپنے آشنا کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اس اونٹنی کا قصہ پاک کردے۔ چناچہ اب اونٹنی کو مار ڈالنے کے سلسلہ میں خفیہ مشورہ ہونے لگے۔ مویشیوں کے لئے پانی اور چارے کے آدھا رہ جانے کی وجہ سے سب لوگ ہی اس اونٹنی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ لہذا سب نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ چناچہ وہی بدبخت زانی اس کام کے لئے تیار ہوگیا۔ چناچہ عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ میں حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کا اور اس شخص کا ذکر کیا جس نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا۔ آپ ~ نے فرمایا۔ وہ شخص اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ وہ ایک زور آور، شریر اور مضبوط شخص تھا جو اپنی قوم میں ابو زمعہ) زبیر بن عوام کا چچا ( کی طرح تھا اور اس کا نام قعار تھا && (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة الشمس
فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِيْنَ : اللہ تعالیٰ نے یہاں ان سب کے متعلق فرمایا کہ انھوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں، حالانکہ کونچیں کاٹنے والا صرف ایک شخص ” قدار “ تھا، جیسا کہ سورة شمس میں ہے : (اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا) [ الشمس : ١٢ ] ” جب اس (قوم) کا سب سے بڑا بدبخت اٹھا۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ کام پوری قوم کے مشورے اور ان کی فرمائش پر کیا تھا، جیسا کہ سورة قمر میں ہے : (فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ ) [ القمر : ٢٩ ] ” تو انھوں نے اپنے ساتھی کو پکارا، سو اس نے (اسے) پکڑا، پس کونچیں کاٹ دیں۔ “ اس لیے سبھی مجرم قرار دیے گئے۔ فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِيْنَ : سورة ہود میں ہے کہ اونٹنی کو قتل کرنے پر صالح (علیہ السلام) نے انھیں تین دن کی مہلت دی، چناچہ جب حسب وعدہ عذاب کے آثار نمودار ہونے لگے تو وہ ندامت کا اظہار کرنے لگے، مگر وہ وقت ندامت اور توبہ کا نہ تھا۔ (دیکھیے مومن : ٨٥) اور ان کی ندامت رسول کو جھٹلانے پر نہ تھی، بلکہ عذاب میں مبتلا ہونے پر تھی۔
فَعَقَرُوْہَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِيْنَ ١٥٧ۙ عقر عُقْرُ الحوض والدّار وغیرهما : أصلها ويقال : له : عَقْرٌ ، وقیل : ( ما غزي قوم في عقر دارهم قطّ إلّا ذلّوا) «4» ، وقیل للقصر : عُقْرَة . وعَقَرْتُهُ أصبت : عُقْرَهُ ، أي : أصله، نحو، رأسته، ومنه : عَقَرْتُ النّخل : قطعته من أصله، وعَقَرْتُ البعیر : نحرته، وعقرت ظهر البعیر فانعقر، قال : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود/ 65] ، وقال تعالی: فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر/ 29] ، ومنه استعیر : سرج مُعْقَر، وکلب عَقُور، ورجل عاقِرٌ ، وامرأة عاقر : لا تلد، كأنّها تعقر ماء الفحل . قال : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم/ 5] ، وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] ، وقد عَقِرَتْ ، والعُقْرُ : آخر الولد . وبیضة العقر کذلک، والعُقَار : الخمر لکونه کالعاقر للعقل، والمُعَاقَرَةُ : إدمان شربه، وقولهم للقطعة من الغنم : عُقْرٌ فتشبيه بالقصر، فقولهم : رفع فلان عقیرته، أي : صوته فذلک لما روي أنّ رجلا عُقِرَ رِجْلُهُ فرفع صوته «5» ، فصار ذلک مستعارا للصّوت، والعقاقیر : أخلاط الأدوية، الواحد : عَقَّار . ( ع ق ر ) العقر کے معنی حوض یا مکان کے اصل اور وسط کے ہیں اور اسے عقر بھی کہتے ہیں حدیث میں ہے (42) ماغزی قوم فی عقر دارھم قط الا ذلو ا کہ کسی قوم پر ان کے گھروں کے وسط میں حملہ نہیں کیا جاتا مگر وہ ذلیل ہوجاتی ہیں اور تصر یعنی محل کو عقرۃ کہاجاتا ہے ۔ عقرتہ اس کی عقر یعنی جڑپر مارا ۔ جیسا کہ راستہ کے معنی ہیں میں نے اس کے سر پر مارا اسی سے عقرت النخل ہے جس کے معنی ہیں میں نے کھجور کے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا ۔ عقرت البعیر اونٹ کی کو نچیں کاٹ دیں اسے ہلاک کردیا عقرت ظھر البعیر اونٹ کی پشت کو رخمی کردیا انعقر ظھرہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی قرآن میں ہے : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود/ 65] مگر انہوں نے اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں فائدہ اٹھالو ۔۔ فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر/ 29] تو اس نے جسارت کرکے اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں اور اسی سے بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ سرج شعقر زخمی کردینے والی زین ۔ کلب عقور کاٹ کھانے والا کتا ، درندہ جانور رجل عاقر بانجھ مرد ۔ امرءۃ عاقر بانچھ عورت گو یا وہ مرد کے نطفہ کو قطع کردیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم/ 5] اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ قد عقرت وہ بانجھ ہوگئی ۔ العقر آخری بچہ بیضۃ العقر آخری انڈا عقار ( پرانی ) شراب کیونکہ وہ عقل کو قطع کردیتی ہے ۔ المعاقرۃ کے معنی ہیں شراب نوشی کا عادی ہونا اور قصر کے ساتھ تشبیہ دے کر بکریوں کی ٹکڑی کو بھی عقر کہاجاتا ہے ۔ رفع فلان عقیرتہ فلاں نے آواز بلند کی مروی ہے کہ ایک آدمی کی ٹانگ کٹ گئی وہ چلایا تو اس وقت سے بطور استعارہ عقر کا لفظ بلند آواز کے معنی میں ہونے لگا ہے ۔ عقاقیر جڑی بوٹیاں ۔ اس کا واحد عقار ہے ۔ ندم النَّدْمُ والنَّدَامَةُ : التَّحَسُّر من تغيُّر رأي في أمر فَائِتٍ. قال تعالی: فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة/ 31] وقال : عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون/ 40] وأصله من مُنَادَمَةِ الحزن له . والنَّدِيمُ والنَّدْمَانُ والْمُنَادِمُ يَتَقَارَبُ. قال بعضهم : المُنْدَامَةُ والمُدَاوَمَةُ يتقاربان . وقال بعضهم : الشَّرِيبَانِ سُمِّيَا نَدِيمَيْنِ لما يتعقّبُ أحوالَهما من النَّدَامَةِ علی فعليهما . ( ن د م ) الندم واندامۃ کے معنی فوت شدہ امر پر حسرت کھانیکے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة/ 31] پھر وہ پشیمان ہوا ۔ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون/ 40] تھوڑے ہی عرصے میں پشیمان ہو کر رہ جائنیگے ۔ اس کے اصل معنی حزن کا ندیم جا نیکے ہیں اور ندیم ندمان اور منادم تینوں قریب المعنی ہیں بعض نے کہا ہے کہ مند نۃ اور مداومۃ دونوں قریب المعنی میں ۔ اور بقول بعض اہم پیالہ ( شراب نوش ) کو ندیمان اسلئے کہا جاتا ہے ۔ کہ انجام کا ر وہ اپنے فعل پر پشیمان ہوتے ہیں ۔
(١٥٧) چناچہ ان لوگوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا پھر اپنی اس حرکت پر پشیمان ہوئے۔
105 This dces not mean that as soon as they heard the challenge, they attacked the she-camel at once and hamstrung her. Actually, when the she-camel became a problem for the whole nation, the hearts of the people were filled with rage, and they began to hold lengthy consultations as to how to get rid of her. At last, a haughty chief undertook the task of putting an end to her, as mentioned in SurahAsh-Shams thus: "When arose the most villainous of the people.. ." (v. 12) and in Surah Al-Qamarthus: "They appealed to their companion; so he took up the responsibility and hamstrung (her)." (v. 29).
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :105 یہ مطلب نہیں ہے کہ جس وقت انہوں نے حضرت صالح سے یہ چیلنج سنا اسی وقت وہ اونٹنی پر پل پڑے اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں ، بلکہ کافی مدت تک یہ اونٹنی ساری قوم کے لیے ایک مسئلہ بنی رہی ، لوگ اس پر دلوں میں اونٹتے رہے ، مشورے ہوتے رہے ، اور آخر کار ایک من چلے سردار نے اس کام کا بیڑا اٹھایا کہ وہ قوم کو اس سے نجات دلائے گا ۔ سورہ شمس میں اس شخص کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : اِذِا نْبَعَثَ اَشْقَاھَا ، جبکہ اٹھا اس قوم کا سب سے زیادہ شقی آدمی ۔ اور سورہ قمر میں فرمایا گیا ہے : فَنَادَوْا صَاحِبَھُمْ فَتَعَاطیٰ فَعَقَرَ انہوں نے اپنے رفیق سے اپیل کی ، آخر کار وہ یہ کام اپنے ذمہ لے کر اٹھا اور اس نے کوچیں کاٹ ڈالیں ۔
(26:157) عقروھا۔ ماضی جمع مذکر غائب ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب (اونٹنی کے لئے) انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ عقر یعقر (ضرب) عقر سے جس کے معنی کونچیں کاٹنے کے ہیں۔ فاصبحوا۔ افعال ناقصہ میں سے ہے۔ اصباح سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب) انہوں نے صبح کی۔ وہ ہوگئے۔
7 ۔ زخمی کرنے والا ان میں سے صرف ایک شخص …تھا جیسا کہ سورة شمس میں ہے۔ ” اذا تبعث اشقاھا “ جب اس قوم کا بدبخت ترین شخص اٹھا۔ “ لیکن اس نے چونکہ اونٹنی کو ان سب کے مشورہ اور مطالبہ پر زخمی کیا تھا۔ ( سورة قمر :29) اس لئے سب ہی مجرم قرار دیئے گئے۔ 8 ۔ سورة ہود ( علیہ السلام) میں ہے کہ حضرت صالح ( علیہ السلام) نے ان کو تین کی مہلت دی۔ چناچہ جب حسب وعدہ عذاب کے آثار نمودار ہونے لگے تو وہ ندامت کا اظہار کرنے لگے مگر وہ وقت ندامت اور توبہ کا نہ تھا۔
4۔ مگر اول تو معائنہ عذاب کے وقت ندامت بےکار دوسرے خالی طبعی ندامت سے کیا ہوتا ہے، جب تک اختیاری تدارک یعنی توبہ و ایمان نہ ہو۔
فعقروھا فاصبحوا ندمین (١٥٧) ’ عقر کے عنی ذبح کرنے کے ہوتے ہیں اور جن لوگوں نے یہ کام کیا ، یہ وہی تھے جو زمین میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہ کرتے تھے۔ ان کو حضرت صالح نے خوب ڈرایا تھا مگر وہ حضرت صالح کی نسیبات کو خاطر میں نہ لائے۔ اس جرم کا عذاب پوری قوم کو ملا اور سب پکڑے گئے۔ یہ لوگ آخر کار عذاب دیکھ کر نادم ہوگئے تھے لیکن وقت کے بعد ندامت کا فائدہ ہی کیا ہوتا ہے۔ وقت کے بعد ایمان اور تصدیق کا کیا فائدہ۔
59:۔ پانی کے ایک دن کے ناغہ سے انہیں تکلیف ہونے لگی اس لیے انہوں نے اونٹنی کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور سب نے خوشی سے ایک آدمی کو اس کام پر مقرر کردیا جس نے اس کی ٹانگیں کاٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد جب اللہ کا عذاب آگیا تو اب اپنے کیے پر بہت پشیمان ہوئے مگر اب کیا فائدہ چناچہ عذاب صیحہ سے اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ ” ان فی ذلک لایۃ الخ “ اس کی تفسیر گذر چکی ہے۔
(157) آخر کار ان لوگوں نے اونٹنی کو مار ڈالا پھر وہ پشیمان ہوئے یعنی عذاب کو دیکھ کرنا دم ہوئے ہوں گے اس وقت کی ندامت سے کیا فائدہ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک عورت بدکار کے گھرمواشی بہت تھے چارے اور پانی کی تکلیف سے اپنے ایک یار کو سکھایا اس نے اونٹنی کے پائوں کاٹ کر ڈال دئیے اس کے تین بعد عذاب آیا 12