Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 165
سورة الشعراء
اَتَاۡتُوۡنَ الذُّکۡرَانَ مِنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۵﴾ۙ
Do you approach males among the worlds
کیا تم جہان والوں میں سے مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو ۔
اَتَاۡتُوۡنَ الذُّکۡرَانَ مِنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۵﴾ۙ
Do you approach males among the worlds
کیا تم جہان والوں میں سے مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو ۔
Lut's Denunciation of His People's Deeds, Their Response and Their Punishment Allah said: أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُم بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ
ہم جنسی پرستی کاشکار لوط نبی علیہ السلام نے اپنی قوم کو انکی خاص بدکاری سے روکا کہ تم مردوں کے پاس شہوت سے نہ آؤ ۔ ہاں اپنی حلال بیویوں سے اپنی خواہش پوری کر جنہیں اللہ نے تمہارے لئے جوڑا بنادیا ہے ۔ رب کی مقرر حدوں کا ادب واحترام کرو ۔ اس کا جواب ان کے پاس یہی تھا کہ اے لوط علیہ السلام اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے جلا وطن کردیں گے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان پاکبازوں لوگوں کو تو الگ کردو ۔ یہ دیکھ کر آپ نے ان سے بیزاری اور دست برداری کا اعلان کردیا ۔ اور فرمایا کہ میں تمہارے اس برے کام سے ناراض ہوں میں اسے پسند نہیں کرتا میں اللہ کے سامنے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں ۔ پھر اللہ سے ان کی لئے بددعاکی اور اپنی اور اپنے گھرانے کی نجات طلب کی ۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو نجات دی مگر آپ کی بیوی نے اپنی قوم کا ساتھ دیا اور انہی کے ساتھ تباہ ہوئی جیسے کہ سورۃ اعراف ، سورۃ ہود اور سورۃ حجر میں بالتفصیل بیان گزر چکا ہے ۔ آپ اپنے والوں کو لے کر اللہ کے فرمان کے مطابق اس بستی سے چل کھڑے ہوئے حکم تھا کہ آپ کے نکلتے ہی ان پر عذاب آئے گا اس وقت پلٹ کر ان کی طرف دیکھنا بھی نہیں ۔ پھر ان سب پر عذاب برسا اور سب برباد کردئیے گئے ۔ ان پر آسمان سے سنگ باری ہوئی ۔ اور انکا انجام بد ہوا ۔ یہ بھی عبرتناک واقعہ ہے ان میں سے بھی اکثر بے ایمان تھے ۔ رب کے غلبے میں اس کے رحم میں کوئی شک نہیں ۔
اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ : اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ سارے جہانوں میں سے تم نے مردوں کو اس کام کے لیے چن لیا ہے کہ ان سے خواہش نفس پوری کرو، حالانکہ دنیا میں عورتیں بہت ہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا بھر میں تم ہی ایسے لوگ ہو جو شہوت پوری کرنے کے لیے مردوں کے پاس جاتے ہو، تم سے پہلے کسی نے یہ خسیس حرکت نہیں کی۔ اس مفہوم کی صراحت سورة عنکبوت میں اس طرح آئی ہیں : ( اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ ۡ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) [ العنکبوت : ٢٨ ] ” بیشک تم یقیناً اس بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے جہانوں میں سے کسی نے نہیں کی۔ “
اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٥ۙ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے ذَّكَرُ ( مذکر) والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران/ 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری/ 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران/ 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری/ 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔
(١٦٥۔ ١٦٦) کیا تمام دنیا جہاں والوں میں تم یہ حرکت کرتے ہو کہ مردوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو اور تمہارے لیے جو تمہارے پروردگار نے تمہاری بیویوں کی شرم گا ہیں حلال کر رکھی ہیں ان کو نظر انداز کیے رکھتے ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم حلال کو چھوڑ کر حرام کاموں کی طرف بڑھنے والے لوگ ہو۔
آیت ١٦٥ (اَتَاْتُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ ) ” دنیا جہان میں ایک تم ہی ایسے لوگ ہو جو شہوت رانی کی غرض سے َ مردوں کے پاس جاتے ہو۔ ورنہ انسانوں میں کوئی دوسری قوم یہ حرکت نہیں کرتی ‘ بلکہ یہ کام تو جانور بھی نہیں کرتے۔
108 This can have two meanings: (1) Of all the creatures you have chosen males only for the purpose of gratifying your sex desires, whereas there are plenty of women in the world; and (2) You alone are the people in the whole world, who go to men to satisfy the sex desires; even the animals do not resort to this. This second meaning has been explained in Surahs Al-A'raf and Al- 'Ankabut thus: "Have you become so shameless that you commit such indecent acts as no one committed before you in the world?" (Al-A'raf: 80).
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :108 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ ساری مخلوق میں سے صرف مردوں کو تم نے اس غرض کے لیے چھانٹ لیا ہے کہ ان سے خواہش نفس پوری کرو حالانکہ دنیا میں بکثرت عورتیں موجود ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک تم ہی ایسے لوگ ہو جو شہوت رانی کے لیے مردوں کے پاس جاتے ہو ، ورنہ انسانوں میں کوئی دوسری قوم ایسی نہیں ہے ، بلکہ حیوانات میں سے بھی کوئی جانور یہ کام نہیں کرتا ۔ اس دوسرے مفہوم کی صراحت سورہ اعراف اور سورہ عنکبوت میں یوں کی گئی ہے : اَتَاْتَوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ O کیا تم وہ بے حیائی کا کام کرتے ہو جو دنیا کی مخلوق میں سے کسی نے تم سے پہلے نہیں کیا ؟
(26:165) اتاتون الذکران۔ الف استفہام کے لئے ہے۔ تاتون مضارع جمع مذکر حاضر تم آتے ہو۔ الذکران۔ ذکر کی جمع۔ مرد اتاتون الذکران کیا تم (بدفعلی کے لئے) مردوں کے پاس جاتے ہو۔ من العلمین۔ ساری مخلوق میں سے۔
11 ۔ یا سارے جہاں میں تم ہی ایسے لوگ ہو جو اس برے کام کا ارتکاب کرتے ہو۔
1۔ یعنی اور کوئی آدمی تمہارے سوا یہ حرکت نہیں کرتا، اور یہ نہیں کہ اس کے قبیح ہونے میں کچھ خفا ہے۔
اتاتون الذکران ……قوم عدون (١٦٠) قوم لوط وادی اردن کی کئی بستیوں میں آباد تھی۔ یہ لوگ جس جرم کے عادی تھے وہ عمل قوم لوط کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی مردوں کی ہم جنس پرستی اور عورتوں سے جنسی تعلق کو ترک کرنا۔ یہ نہایت ہی مکروہ فطری بےراہ روی تھی کیونکہ مرد اور عورتوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور ہر ایک کے اندر ایک دوسرے کے لئے جابیت رکھی ہے۔ یہ اللہ کا ایک تخلیقی راز ہے۔ اس طرح اللہ نے انسانی زندگی کے تسلسل کا انتظام کیا۔ نسل کشی کا یہ انتظام اللہ نے مرد اور عورت کے درمیان ملاپ کے ذریعہ سے جاری کیا۔ یہ نظام بھی اللہ کے اس نظام کا ایک حصہ ہے جو اس نے اس پوری کائنات میں جاری فرمایا ہے۔ جس نے اس کائنات کے ہر شخص اور ہر چیز کو باہم مربوط کردیا ہے اور اس طرح اس کائنات میں جاری فرمایا ہے ۔ جس نے اس کائنات کے ہر شخص اور ہر چیز کو باہم مربوط کردیا ہے اور اس طرح اس کائنات کا ہر شخص اور ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ حالت تعاون میں ہے۔ رہی یہ حرکت کہ مرد ، مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کریں تو یہ تعلق بےتعلق بےمقصد اور غیر پیداواری ہوگا اور اس سے کوء قمصد پورا نہ ہوگا اور یہ عمل فطرت کے قانون اور فطرت کے نظام دونوں کے خلاف ہوگا جن کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ بعض بےذوق لوگوں کو اس عمل میں لذت ملتی ہے حالانکہ حقیقی لذت وہ ہوتی ہے جس میں مرد اور عورت کا القاء ہو اور اس کے نتیجے میں مقاصد فطرت بھی پورے ہوں۔ لہٰذا عمل قوم لوط فطرت سے کھلا انحراف ہے۔ لہٰذا اس قوم کی سزا یہی تھی کہ یا تو دوبارہ آجائیں یا ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ کیونکہ ایسے لوگ قافلہ انسانیت اور گروہ انسانیت سے نکل گئے ہیں اور اب انہوں نے وہ مقصد پورا کرنا چھوڑ دیا ہے جس کے لئے اللہ نے ان کو پیدا کیا تھا۔ یہ کہ سابقہ لوگوں کے فطری عمل سے یہ پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنے فطری عمل سے آنے والی اقوام کو پیدا کرنا تھا۔ جب حضرت لوط نے ان کو دعوت دی کہ وہ اس غیر فطری بےراہ روی کو ترک کردیں اور اس بات پر انہوں نے ان کی سرزنش کی کہ انہوں نے اس کو راہ کو ترک کردیا جو رب نے ان کے لئے پیدا کیا ہے۔ انہوں نے فطرت کے خلاف بغاوت کردی ہے اور اللہ کی تخلیق فطرت کو رد کردیا ہے اور یہ معلوم ہوا کہ وہ اپنی اس روش کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اللہ کی سنت اور فطرت کی طرف لوٹنے کو تیار نہیں ہیں۔