Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 173

سورة الشعراء

وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ ﴿۱۷۳﴾

And We rained upon them a rain [of stones], and evil was the rain of those who were warned.

اور ہم نے ان پر ایک خاص قسم کا مینہ برسایا ، پس بہت ہی برا مینہ تھا جو ڈرائے گئے ہوئے لوگوں پر برسا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّوْمِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

۔1یعنی نشان زدہ کھنگر پتھروں کی بارش سے ہم نے ان کو ہلاک کیا اور ان کی بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا، جیسا کہ سورة ہود،8283میں بیان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] اس بدبخت قوم پر جس طرح عذاب آیا اس کی تفصیلات پہلے سورة اعراف آیت نمبر ١٨٤ سورة توبہ آیت نمبر ٧٠، سورة ہود آیت نمبر ٨٣، سورة حجر آیت نمبر ٧٣ میں گزر چکی ہیں۔ ان کے حواشی ملاحظہ کر لئے جائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَمْطَرْ‌نَا عَلَيْهِم مَّطَرً‌ا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ‌ الْمُنذَرِ‌ينَ and subjected them to a terrible rain. So evil was the rain of those who were warned. - 26:173 This verse has confirmed that if a man commits sodomy, he may be punished with throwing a wall on him or by throwing him down from a high place, as suggested by Hanafi scholars, because the people of Lut (علیہ السلام) were destroyed in a similar manner. Their township was lifted and thrown on the ground. (Shami Kitab Al-Hudud)

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًا ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ ، اس آیت سے ثابت ہوا کہ لوطی پر دیوار گرانے یا بلند مقام سے نیچے پھینکنے کی تعزیر جائز ہے جیسے حنفیہ کا مسلک ہے کیونکہ قوم لوط اسی طرح ہلاک کی گئی تھی کہ ان کی بستیوں کو اوپر اٹھا کر الٹا زمین پر پھینک دیا گیا تھا۔ (شامی کتاب الحدود)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہِمْ مَّطَرًا۝ ٠ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ۝ ١٧٣ مطر المَطَر : الماء المنسکب، ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. أي : مَمْطُورٌ ، يقال : مَطَرَتْنَا السماءُ وأَمْطَرَتْنَا، وما مطرت منه بخیر، وقیل : إنّ «مطر» يقال في الخیر، و «أمطر» في العذاب، قال تعالی: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] ( م ط ر ) المطر کے معنی بارش کے ہیں اور جس دن بارش بر سی ہوا سے ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. کہتے ہیں واد مطیر باراں رسیدہ وادی کے معنی بارش بر سنا کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مطر اچھی اور خوشگوار بارش کے لئے بولتے ہیں اور امطر عذاب کی بارش کیلئے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] اور ان پر ایک بارش بر سائی سو جو بارش ان ( لوگوں ) پر برسی جو ڈرائے گئے تھے بری تھی ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٣) اور ہم نے ان سب لوگوں پر پتھروں کا مینہ برسایا سو کیا برا مینہ تھا جو ان لوگوں پر برسا جن کو حضرت لوط (علیہ السلام) نے عذاب خداوندی سے ڈرایا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

114 This was not a rain of water but a rain of stones. According to the details given at other places in the Qur'an, when Prophet Lot had left the place along with the people of his household in the last hours of the night, there occurred a terrible explosion at dawn and a violent earthquake, which turned all their habitations upside down and rained on them stones of baked clay as a result of a volcanic eruption and a strong blast of wind. Below we give a resume of the Biblical account and of ancient Greek and Latin writings and modern geological researches and archaeological observations about the torment and the place where it occurred: The, hundreds of ruins found in the waste and uninhabited land lying to the south and east of the Dead Sea indicate that this must have been a prosperous and thickly populated area in the past. The archaeologists have estimated that the age of prosperity of this land lasted between 2300 and 1900 B.C. According to historians, Prophet Abraham lived about 2000 B C. Thus the archaeological evidence confirms that this land was destroyed in the time of Prophet Abraham and his nephew Prophet Lot. The most populous and fertile part .of the area was "the vale of Siddim" as mentioned in the Bible: "And Lot lifted up his eyes, and beheld all the plain of Jordan, that it was well watered everywhere, before the Lord destroyed Sodom and Gomorrah, even as the garden of the Lord, like the land of Egypt" (Gen. 13 :10) The presentday scholars are of the opinion that that valley is now under the Dead Sea and this opinion is supported by firm archaeological evidence. In the ancient times .the Dead Sea did not so much extend to the south as it does today. Opposite and to the west of the present Jordanian city of AI-Karak, there is a small peninsula called AI-Lisan. This was the end of the sea in ancient days. The area to the south of it, which is now under sea water (the shaded portion in the map) was a fertile valley, "the vale of Siddim", in which were situated Sodom, Gomorrah, Admah, Zeboim, Zoar, the famous cities of the people of Lot. In about 2000 B.C. this valley sank as a result of a violent earthquake and was submerged in sea water. Even today this is the most shallow part of the Sea. In the Roman period it was more so and was fordable from AI-Lisan to the western coast. One can still see submerged jungles along the southern coast and there might as well be submerged buildings. According to the Bible and the ancient Greek and Latin writings, the region abounded in pits of petroleum and asphalt and at places inflammable gas also existed. It appears from the geological observations that with the violent earthquake shocks, petroleum, gases and asphalt were thrown up and ignited, and the whole region exploded like a bomb. The Bible says that when Prophet Abraham got the news and went from Hebron to see the affected valley, he saw that "the smoke of the country went up as the smoke of a furnace." (Gen. 19: 28).

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :114 اس بارش سے مراد پانی کی بارش نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے ۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت لوط جب رات کے پچھلے پہر اپنے بال بچوں کو لے کر نکل گئے تو صبح پو پھٹتے ہی یکایک ایک زور کا دھماکا ہوا ( فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ مُشْرِقِیْنَ O ) ، ایک ہولناک زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کر کے رکھ دیا ( جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا ) ، ایک زبردست آتش فشانی اِنفجار سے ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر بر سائے گئے ( وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ O ) اور ایک طوفانی ہوا سے بھی ان پر پتھراؤ کیا گیا ( اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ حَاصِباً ) ۔ بائیبل کے بیانات ، قدیم یونانی اور لاطینی تحریروں ، جدید زمانے کی طبقات الارضی تحقیقات اور آثار قدیمہ کے مشاہدات سے اس عذاب کی تفصیلات پر جو روشنی پڑتی ہے اس کا خلاصہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں : بحیرہ مردار ( Dead Sea ) کے جنوب اور مشرق میں جو علاقہ آج انتہائی ویران اور سنسان حالت میں پڑا ہوا ہے ، اس میں بکثرت پرانی بستیوں کے کھنڈروں کی موجودگی پتہ دیتی ہے کہ یہ کسی زمانہ میں نہایت آباد علاقہ رہا تھا ۔ آج وہاں سینکڑوں برباد شدہ قریوں کے آثار ملتے ہیں ، حالانکہ اب یہ علاقہ اتنا شاداب نہیں ہے کہ اتنی آبادی کا بوجھ سہار سکے ۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس علاقے کی آبادی و خوشحالی کا دور 2400 قبل مسیح سے 1900 قبل مسیح تک رہا ہے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق مؤرخین کا اندازہ یہ ہے کہ وہ دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں گزرے ہیں ۔ اس لحاظ سے آثار کی شہادت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ علاقہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے عہد ہی میں برباد ہوا ہے ۔ اس علاقے کا سب سے زیادہ آباد اور سر سبز و شاداب حصہ وہ تھا جسے بائیبل میں سِدّیم کی وادی کہا گیا ہے ، جس کے متعلق بائیبل کا بیان ہے کہ وہ اس سے پیشتر خداوند نے سَدُوم اور عمورہ کو تباہ کیا ، خداوند کے باغ ( عدن ) اور مصر کے مانند خوب سیراب تھی ( پیدائش ، باب 13 ۔ آیت 10 ) ۔ موجودہ زمانے کے محققین کی عام رائے یہ ہے کہ وہ وادی اب بحیرہ مردار کے اندر غرق ہے ، اور یہ رائے مختلف آثار کی شہادتوں سے قائم کی گئی ہے ۔ قدیم زمانہ میں ، بحیرہ مردار جنوب کی طرف اتنا وسیع نہ تھا جتنا اب ہے ۔ شرق اُردن کے موجودہ شہر الکرک کے سامنے مغرب کی جانب اس بحیرے میں جو ایک چھوٹا سا جزیرہ نما اللّسان پایا جاتا ہے ، قدیم زمانے میں بس یہی پانی کی آخری سرحد تھی ۔ اس کے نیچے کا حصہ جہاں اب پانی پھیل گیا ہے ( جسے ملحقہ نقشے میں ہم نے آڑی لکیروں سے نمایاں کیا ہے ) پہلے ایک سر سبز وادی کی شکل میں آباد تھا اور یہی وہ وادی سدیم تھی جس میں قوم لوط علیہ السلام کے بڑے بڑے شہر سدوم ، عمورہ ، ادمہ ، ضبوئیم اور ضُغر واقع تھے ۔ دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ایک زبردست زلزلے کی وجہ سے یہ وادی پھٹ کر دب گئی اور بحیرہ مردار کا پانی اس کے اوپر چھا گیا ۔ آج بھی یہ بحیرے کا سب سے زیادہ اُتھلا حصہ ہے ، مگر رومی عہد میں یہ اتنا اُتھلا تھا کہ لوگ اللّسان سے مغربی ساحل تک چل کر پانی میں سے گزر جاتے تھے ۔ اس وقت تک جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ پانی میں ڈوبے ہوئے جنگلات صاف نظر آتے ہیں ۔ بلکہ یہ شبہہ بھی کیا جاتا ہے کہ پانی میں کچھ عمارات ڈوبی ہوئی ہیں ۔ بائیبل اور قدیم یونانی و لاطینی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں جگہ جگہ نفط ( پٹرول ) اور اسفالٹ کے گڑھے تھے اور بعض بعض زمین سے آتش گیر گیس بھی نکلتی تھی ۔ اب بھی وہاں زیر زمین پٹرول اور گیسوں کا پتہ چلتا ہے ۔ طبقات الارض مشاہدات سے اندازہ کیا گیا ہے کہ زلزلے کے شدید جھٹکوں کے ساتھ پٹرول ، گیس اور اسفالٹ زمین سے نکل کر بھڑک اٹھے اور سارا علاقہ بھک سے اڑ گیا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس تباہی کی اطلاع پاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حبرون سے اس وادی کا حال دیکھنے آئے تو زمین سے دھواں اس طرح اٹھ رہا تھا جیسے بھٹی کا دھواں ہوتا ہے ( پیدائش باب 19 ۔ آیت 28 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

37: پتھروں کی بارش سے مراد ہے جو ان لوگوں پر برسائی گئی تھی، جیسا کہ سورۃ حجر میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:173) امطرنا : امطار (افعال) سے ماضی جمع متکلم ۔ ہم نے برسایا۔ امطرنا علیہم مطرا۔ ہم نے ان پر بارش برسائی۔ فسائ۔ پس برا ہے۔ ساء یسوء (نصر) سوء ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ المنذرون ۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ لوگ جو ڈرائے گئے (سرکشی اور نافرمانی کی سزا سے) انذار (افعال) سے۔ ڈرانا۔ فساء مطر المنذرین۔ سو کیسی بری بارش تھی جو ڈرائے ہوؤں پر برسی۔ یعنی بارش کا کام تو مردہ کھیتی کو زندہ کرنا ہے لیکن کیا ہی بری تھی وہ بارش جس نے زندوں کو تہس نہس کردیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ جیسا کہ سرہ ہود میں بصراحت فرمایا : وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل منفرد۔ اور ہم نے اس پر کھڑنجے کے پتھر تہ بہ تہ (یا پے در پے) برسائے۔ (آیت 82) اولاً ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور اوپر سے مینہ بسایا۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

173۔ اور ہم نے ان پر ایک خاص قسم کا مینہ برسایا سو کیا برا مینہ تھا جو ان لوگوں پر برسا جن کو ڈرایا گیا تھا یعنی اس قوم پر پتھروں کا مینہ برسایا گیا سو کیسا برا مینہ تھا جو اس لوط (علیہ السلام) کی قوم پر برسا جس کو پہلے ہی عذاب الٰہی سے ڈرا دیا گیا تھا مگر نہیں مانے اور آخر کار ہلاک ہوئے۔