Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 185

سورة الشعراء

قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَ الۡمُسَحَّرِیۡنَ ﴿۱۸۵﴾ۙ

They said, "You are only of those affected by magic.

انہوں نے کہا تو تُو ان میں سے ہے جن پر جادو کر دیا جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Response of Shu`ayb's People, Their Disbelief in Him and the coming of the Punishment upon Them Allah tells us how his people responded and how it was like the response of Thamud to their Messenger -- for they were of like mind -- when: قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ They said: You are only one of those bewitched! meaning, `you are one of those who are affected by witchcraft.' وَمَا أَنتَ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ

مشرکین کی وہی حماقتیں ثمودیوں نے جو جواب اپنے نبی کو دیا تھا وہی جواب ان لوگوں نے بھی اپنے رسولوں کو دیا کہ تجھ پر تو کسی نے جادو کر دیا ہے تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی ۔ تو ہم جیسا ہی انسان ہے اور ہمیں تو یقین ہے کہ تو جھوٹا آدمی ہے ۔ اللہ نے تجھے نہیں بھیجا ۔ اچھا تو اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے ۔ آسمانی عذاب ہم پر لے آ جیسے قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہم تجھ پر ایمان لانے کے نہیں جب تک کہ تو عرب کے اس ریتلی زمین میں دریا نہ بہادے یہاں تک کہا کہ یا تو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گردے جیسے کہ تیرا خیال ہے یا تو اللہ تعالیٰ کو یا فرشتوں کو کھلم کھلا لے آ ۔ اور آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا اے اللہ اگر یہ تیرے پاس ہے اور حق ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے اسی طرح ان جاہل کافروں نے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرادے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اللہ کو تمہارے اعمال بخوبی معلوم ہیں جس لائق تم ہو وہ خود کردے گا ۔ اگر تم اس کے نزدیک آسمانی عذاب کے قابل ہو تو بلا تاخیر تم پر آسمانی عذاب آجائے گا اللہ ظالم نہیں کہ بیگناہوں کو سزادے ۔ بالآخر جس قسم کا عذاب یہ مانگ رہے تھے اسی قسم کا عذاب ان پر آیا ۔ انہیں سخت گرمی محسوس ہوئی سات دن تک گویا زمین ابلتی رہی ۔ کسی جگہ کسی سایہ میں ٹھنڈک یا راحت میسر نہ ہوئی ۔ تڑپ اٹھے بےقرار ہوگئے سات دن کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ایک سیاہ بادل ان کی طرف آرہا ہے وہ آکر ان کے سروں پر چھا گیا یہ سب گرمی اور حرارت سے زچ ہوگئے تھے اسکے نیچے جابیٹھے ۔ جب سارے کے سارے اس کے سائے میں پہنچ گئے وہیں بادل میں سے آگ برسنے لگی ساتھ ہی زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگی اور اس زور کی ایک آواز آئی جس سے ان کے دل پھٹ گئے جان نکل گئی اور سارے بہ یک آن تباہ ویران ہوگئے ۔ اس دن کے سائبان والے سخت عذاب نے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑا ۔ سورۃ اعراف میں تو فرمایا گیا ہے کہ ایک زلزلے کے ساتھ ہی یہ سب ہلاک ہوگئے ۔ سورۃ ہود میں بیان ہوا ہے کہ ان کی تباہی کا باعث ایک خطرناک منظر دل شکن چیخ تھی اور یہاں بیان ہوا کہ انہیں سائبان کے دن عذاب نے قابو کرلیا تو تینوں مقامات پر تینوں کا ایک ایک کرکے ذکر اس مقام کی عبارت کی مناسبت کی وجہ سے ہوا ہے ۔ سورۃ اعراف میں ان کی اس خباثت کا ذکر ہے کہ انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو دھمکایا تھا کہ اگر تم ہمارے دین میں نہ آئیں تو ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو شہر بدر کردیں گے ۔ چونکہ وہاں نبی کے دل کو ہلانے کا ذکر تھا اس لئے عذاب بھی ان کے جسموں کو مع دلوں کو ہلادینے والے یعنی زلزلے اور جھٹکے کا ذکر ہوا ۔ سورۃ ہود میں ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے نبی کو بطور مذاق کے کہا تھا کہ آپ تو بڑے بردبار اور بھلے آدمی ہیں ۔ مطلب یہ تھا کہ بڑے بکی بکواسی اور برے آدمی ہیں تو وہاں عذاب میں چیخ اور چنگھاڑ کا بیان ہوا ۔ یہاں چونکہ ان کی آرزو آسمان کے ٹکڑے کے گرنے کی تھی تو عذاب کا ذکر بھی سائبان نما ابر کے ٹکڑے سے ہوا ۔ فسبحانہ ما اعظم شانہ ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سات دن تک وہ گرمی پڑی کہ الامان والحفیظ کہیں ٹھنڈک کا نام نہیں تھا تلملا اٹھے اس کے بعد ایک ابر اٹھا اور امڈھا ۔ اس کے سائے میں ایک شخص پہنچا اور وہاں راحت اور ٹھنڈک پاکر اس نے دوسروں کو بلایا جب سب جمع ہوگئے تو ابر پھٹا اور اس میں سے آگ برسی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ابر جو بطور سائبان کے تھا ان کے جمع ہوتے ہی ہٹ گیا اور سورج سے ان پر آگ برسی جس نے ان سب کا بھرتا بنادیا ۔ محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل مدین پر تینوں عذاب آئے شہروں میں زلزلہ آیا جس سے خائف ہو کر حدود شہر سے باہر آگئے ۔ باہر جمع ہوتے ہی گھبراہٹ پریشانی اور بےکلی شروع ہوگئی تو وہاں سے بھگدڑ مچی لیکن شہر میں جانے سے ڈرے وہیں دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا ایک جگہ ہے ایک اس کے نیچے گیا اور اس کی ٹھنڈک محسوس کرکے سب کو آواز دی کہ یہاں آجاؤ یہاں جیسی ٹھنڈک اور تسکین تو کبھی دیکھی ہی نہیں یہ سنتے سب اس کے نیچے جمع ہوگئے کہ اچانک ایک چیخ کی آواز آئی جس سے کلیجے پھٹ گئے سب کے سب مرگئے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سخت گرج کڑک اور گرمی شروع ہوئی جس سے سانس گھٹنے لگے اور بےچینی حد کو پہنچ گئی ۔ گھبراکر شہر چھوڑ کر میدان میں جمع ہوگئے ۔ یہاں بادل آیا جس کے نیچے ٹھنڈک اور راحت حاصل کرنے کے لئے سب جمع ہوئے ۔ وہیں آگ برسی جل بھن گئے ۔ یہ تھا سائبان والے بڑے بھاری دن کا عذاب جس نے ان کا نام ونشان مٹادیا ۔ یقینا یہ واقعہ سراسر عبرت اور قدرت الٰہی کی ایک زبردست نشانی ہے ۔ ان میں اکثر بے ایمان تھے اللہ تعالیٰ اپنے بد بندوں سے انتقام لینے میں غالب ہے ۔ کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکتا وہ اپنے نیک بندوں پر مہربان ہے انہیں بچالیا کرتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] اس کے جواب میں قوم نے کہا۔ تمہاری عقل ٹھیک کام نہیں کرتی۔ تم تجارت کے گر اور راز کیا جانو۔ اگر ہم تمہاری باتوں پر لگ جائیں تو چند ہی دنوں میں اس میدان میں مات کھا جائیں اور سرمایہ بھی ہاتھ سے گنوا بیٹھیں کیونکہ مقابلہ بڑا سخت ہے۔ اور ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تمہارا یہ نبوت کا دعویٰ بھی بس ایک فریب ہی ہے۔ تم ہی ہمارے جیسے ایک محتاج انسان ہی ہو۔ تم میں ہم سے زائد کونسی خصوصیت ہے کہ ہم تمہیں ہی سمجھ لیں۔ اور تم اپنے آپ کو اپنے اس دعویٰ نبوت میں سچا سمجھتے ہو کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے دھمکاتے رہتے ہو وہ عذاب ہم پر لے آؤ۔ اور آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی ہم پر گرا دو ۔ واضح رہے کہ قریش مکہ نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کے عذاب کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٩٢ میں گزر چکا ہے۔ اور کفار مکہ کو بتلایا جارہا ہے کہ تم سے پہلے بھی ایک قوم ایسے عذاب کا مطالبہ کرچکی ہے۔ پھر جو حشر اس قوم کا ہوا تھا وہی یا اس سے ملتا جلتا تمہارا بھی ہونے والا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ ۔۔ : یہ وہی جواب ہے جو قوم ثمود نے صالح (علیہ السلام) کو دیا تھا۔ وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ : یہ ” اِنْ “ اصل میں ”إِنَّ “ ہے جس کا اسم ” نَا “ محذوف ہے : ” أَيْ وَ إِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ “ یعنی ہمارا گمان تمہارے جھوٹے ہونے کے سوا کہیں جاتا ہی نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ۝ ١ ٨٥ۙ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٥۔ ١٨٦) وہ لوگ کہنے لگے بس تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کردیا ہے اور تم ہمارے جیسے ایک معمولی آدمی ہو کوئی نبی اور فرشتے نہیں ہو جیسا کہ ہم کھاتے پیتے ہیں ایسے ہی تم بھی کھاتے پیتے ہو اور ہم تو تمہیں تمہاری ان باتوں میں جھوٹا سمجھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٥ (قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ ) ” ہم تمہارے بارے میں یہی گمان کرتے ہیں کہ تم محض ایک سحر زدہ شخص ہو۔ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے جس کے زیر اثر ہمیں نصیحتیں کرتے رہتے ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:185) المسحرین : جادوزدہ۔ ملاحظہ ہو 26:153

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ اس لئے تیری عقل ماری گئی ہے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم کا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جواب اور عذاب کا مطالبہ۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے وہی زبان اور انداز اختیار کیا جو قوم نوح، قوم ثمود نے اختیار کیا تھا۔ انھوں نے بھی اپنے انبیاء کو سحر زدہ قرار دیا اور عذاب لانے کا مطالبہ کیا یہی انداز قوم شعیب نے اختیار کیا اور کہا اے شعیب (علیہ السلام) ! تجھ پر جادو ہوگیا ہے اس وجہ سے بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ جہاں تک تیرے نبی ہونے کا دعویٰ ہے تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ تجھ میں کوئی ایسی خوبی نہیں دکھائی دیتی جس بنیاد پر تجھے نبی تسلیم کرلیا جائے ہم تجھے کذّاب انسان سمجھتے ہیں۔ قوم شعیب سمجھتی تھی کہ نبی بشر نہیں ہوسکتا نبی تو کوئی نورانی مخلوق ہونا چاہیے تھا انھوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے یہ بھی مطالبہ کیا اگر تو دعویٰ نبوت میں سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا یہ تو میرا رب جانتا ہے کہ اس نے کس وقت تک تمہیں ڈھیل دینا ہے اگر اس نے تمہیں عذاب میں گرفتار کرنا ہے تو وہ کس قسم کا عذاب ہوگا۔ قوم شعیب پر اللہ تعالیٰ کا عذاب : قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو ان پر بلاشبہ عذاب عظیم نازل ہوا۔ ( الشعراء : ١٨٩) ظالموں کو ایک کڑک نے آلیا وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ ان کے گھر ایسے ویران ہوئے جیسے ان میں کوئی بسا ہی نہ ہو۔ یاد رکھو اہل مدین پر ایسی ہی پھٹکار ہوئی جس طرح قوم ثمود پر پھٹکار کی گئی تھی۔ مفسرین نے لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود پر سات راتیں اور آٹھ دن گرمی اور حبس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ وہ نہ تہہ خانوں میں آرام کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی درخت کے سائے تلے ٹھہر سکتے تھے۔ انتہائی کرب کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلے تو ایک بادل ان پر سایہ افگن ہوا۔ جب سب کے سب بادل تلے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے برسنے لگے۔ زمین زلزلہ سے لرزنے لگی اور پھر ایسی دھماکہ خیز چنگھاڑ گونجی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اوندھے منہ تڑپ تڑپ کر ذلیل ہو کر مرے۔ یہاں قوم شعیب کے واقعہ کا اختتام بھی انہی الفاظ سے ہو رہا ہے جن الفاظ سے پہلی چھ قوموں کا ہوا ہے۔ گویا کہ سات انبیاء ( علیہ السلام) کی جدوجہد اور ان کی اقوام کا ردِّ عمل اور انجام کا ذکر کرنے کے بعد یہ ارشاد ہوا کہ اے پیغمبر ! آپ کا رب ہر بات پر غالب اور بڑارحم کرنے والا ہے۔ سمجھانا مقصود یہ ہے کہ پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ بھی ان کی اقوام نے معاندانہ رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے انھیں نیست و نابود کردیا گیا۔ مال، افرادی قوت، صنعت و حرفت، چوپائے اور بھیڑبکریاں بڑے بڑے محلات اور سیاسی اقتدار، دنیا کی شان و شوکت اللہ کے غضب کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ ا نھیں بھی اللہ تعالیٰ نے وقت معین تک مہلت دے رکھی اگر آپ کی قوم کو ان کے جرائم کے باوجود مہلت دی جارہی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ آپ کا رب نہایت ہی رحیم و کریم ہے جس وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو بار بار موقعہ دیا جائے تاکہ توبہ و استغفار کرسکیں۔ قوم شعیب کے جرائم : ١۔ اہل مدین بھی اپنے پیش رو اقوام کی طرح شک جیسے غلیظ اور بدترین عقیدہ میں مبتلا تھے۔ شرک وہ بیماری ہے ام الامراض کہنا چاہیے۔ قوم مدین میں وہ تمام اخلاقی اور اعتقادی بیماریوں نے جنم لیا، جن میں قوم نوح سے لے کر قوم لوظ کے لوگ ملوث چلے آرہے تھے۔ ام الامراض یعنی شرک کی جڑ کاٹنے کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز دعوت توحید سے کرتے ہیں۔ ( الاعراف : ٨٥) ٢۔ قوم مدین نہ صرف عقیدہ کی خیانت میں مرتکب ہوئی بلکہ گاہک سے پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود ماپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے۔ ادائیگی کے وقت چیز مقررہ وزن اور پیمائش سے کم دیتے لیتے ہوئے طے شدہ وزن سے زیادہ لینے کی مجرمانہ کوشش کرتے۔ ( الاعراف : ٨٥) ٣۔ یہ لوگ پیشہ ور ڈاکو تھے ان کے علاقے سے گزرنے والے مسافروں کی عزت وآبرو اور مال وجان محفوظ نہیں تھے۔ ( الاعراف : ٨٦، ہود : ٨٥) ٤۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی زبردست مخالفت اور نافرمانی کرنے والے تھے۔ ( ہود : ٨٩) مسائل ١۔ قوم شعیب نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو سحرزدہ شخص قرار دیا۔ ٢۔ قوم شعیب نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بشر ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت کا انکار کیا۔ ٣۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) سے قوم نے آسمان کا ٹکڑا گرادینے کا مطالبہ کیا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ان کی اقوام کے الزامات : ١۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں سے چڑھ جائیں تو کہیں گے ہماری آنکھیں بند کردی گئی ہیں۔ بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (الحجر : ١٤۔ ١٥) ٢۔ آل فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٣۔ کفار تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیتے تھے۔ (الذاریات : ٥٢) ٤۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر قرار دیا۔ (الصف : ٦) ٥۔ کفار نے قرآن کو جادو قرار دیا۔ (سبا : ٤٣) ٦۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سحر زدہ یعنی جس پر جادو کردیا گیا ہو بھی قرار دیا۔ (الفرقان : ٨) ٧۔ حضرت نوح کو ان کی قوم نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (ہود : ٢٧) ٨۔ کفار آپ کو شاعر قرار دیتے تھے۔ (الطور : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوآ انما انت من المسخرین (١٨٥) اور اگر آپ سحر زدہ نہیں ہیں تو پھر بھی ہم تیری رسالت کو نہیں مانتے اس لئے کہ تو تو ہماری طرح کا ایک آدمی ہے۔ رسول کوئی بشر نہیں ہو سکتا ، لہٰذا تو جھوٹا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65:۔ قوم نے جواب میں کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تجھ پر کسی نے جادو کردیا ہے جس سے (عیاذا باللہ) تیرا دماغ متاثر ہوگیا ہے اور تو نبوت کا دعوی کر بیٹھا ہے کیونکہ تو ہماری مانند بشر ہے بھلا بشر بھی نبی ہوسکتا ہے ؟ اس لیے تو تجھے اس دعوے میں جھوٹا سمجھتے ہیں۔ اس پر مزید کلام حاشیہ 57 میں گذر چکا ہے۔ ” فاسقط علینا الخ “ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو آسمان ہم پر گرا کر ہمیں ہلاک کردے ” قال ربی اعلم الخ “ فرمایا عذاب لانا میرے اختیار میں نہیں، میرا رب تمہاری تمام بد اعمالیوں کو جانتا ہے وہ جب چاہے گا تمہیں پکڑ لے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

185۔ بن کے باشندوں نے جواب دیا سوائے اس کے نہیں کہ تو تو سحر زدہ اور جادو کے مارے ہوئے لوگوں میں سے ہے۔