Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 189

سورة الشعراء

فَکَذَّبُوۡہُ فَاَخَذَہُمۡ عَذَابُ یَوۡمِ الظُّلَّۃِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۸۹﴾

And they denied him, so the punishment of the day of the black cloud seized them. Indeed, it was the punishment of a terrible day.

چونکہ انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا وہ بڑے بھاری دن کا عذاب تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But they denied him, so the torment of the Day of Shadow seized them. Indeed that was the torment of a Great Day. This is what they asked for, when they asked for a part of the heaven to fall upon them. Allah made their punishment in the form of intense heat which overwhelmed them for seven days, and nothing could protect them from it. Then He sent a cloud to shade them, so they ran towards it to seek its shade from the heat. When all of them had gathered underneath it, Allah sent sparks of fire and flames and intense heat upon them, and caused the earth to convulse beneath them, and He sent against them a mighty Sayhah which destroyed their souls. Allah says: ... إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ...Indeed that was the torment of a Great Day. Allah has mentioned how they were destroyed in three places in the Qur'an, in each of which it is described in a manner which fits the context. In Surah Al-A`rafHe says that: the earthquake seized them, and they lay (dead), prostrate in their homes. This was because they said: لَنُخْرِجَنَّكَ يـشُعَيْبُ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَأ أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا "We shall certainly drive you out, O Shu`ayb, and those who have believed with you from our town, or else you (all) shall return to our religion." (7:88) They had sought to scare the Prophet of Allah and those who followed him, so they were seized by the earthquake. In Surah Hud, Allah says: وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ الصَّيْحَةُ And As-Sayhah seized the wrongdoers. (11:94) This was because they mocked the Allah's Prophet when they said: أَصَلَوَتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ ءابَاوُنَأ أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِى أَمْوَالِنَا مَا نَشَوُا إِنَّكَ لاّنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ "Does your Salah command that we give up what our fathers used to worship, or that we give up doing what we like with our property Verily, you are the forbearer, right-minded!" (11:87) They had said this in a mocking, sarcastic tone, so it was befitting that the Sayhah should come and silence them, as Allah says: فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ So As-Saihah overtook them. (15:73) وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ الصَّيْحَةُ And As-Saihah seized the wrongdoers. (11:94) And here, they said: فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاء ... So, cause a piece of the heaven to fall on us, in a stubborn and obstinate manner. So, it was fitting that something they never thought would happen should befall them: ... فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ so the torment of the Day of Shadow seized them. Indeed that was the torment of a Great Day. Muhammad bin Jarir narrated from Yazid Al-Bahili: "I asked Ibn Abbas about this Ayah: فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ (so the torment of the Day of Shadow seized them). He said: `Allah sent upon them thunder and intense heat, and it terrified them (so they entered their houses and it pursued them to the innermost parts of their houses and terrified them further), and they ran fleeing from their houses into the fields. Then Allah sent upon them clouds which shaded them from the sun, and they found it cool and pleasant, so they called out to one another until they had all gathered beneath the cloud, then Allah sent fire upon them.' Ibn Abbas said, `That was the torment of the Day of Shadow, indeed that was the torment of a Great Day."' إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّوْمِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1891انہوں نے بھی کفار مکہ کی طرح آسمانی عذاب مانگا تھا، اللہ نے اس کے مطابق ان پر عذاب نازل فرما دیا اور وہ اس طرح کے بعض روایات کے مطابق سات دن تک ان پر سخت گرمی اور دھوپ مسلط کردی، اس کے بعد بادلوں کا ایک سایہ آیا اور یہ سب گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے اس سائے تلے جمع ہوگئے اور کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن چند لمحے بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنے شروع ہوگئے، زمین زلزلے سے لرز اٹھی اور ایک سخت چنگھاڑ نے انھیں ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا یوں تین قسم کا عذاب ان پر آیا اور یہ اس دن آیا جس دن ان پر بادل سایہ فگن ہوا، اس لئے فرمایا کہ سائے والے دن کے عذاب نے انھیں پکڑ لیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٠] اس آیت سے چند باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ اصحاب مرین اور اصحاب الایکہ دو الگ الگ قومیں تھیں۔ اصحاب مرین پر زلزلہ اور اسی سے پیدا ہونے والی ہولناک آواز کا عذاب چند آیا تھا (٧: ٩١، ١١: ٩٤) جبکہ اصحاب الایکہ پر سائے کے دن کا عذاب آیا تھا اگرچہ اس عذاب کی تفصیل کتاب و سنت میں کہیں مذکور نہیں تاہم اتنا ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ عذاب کی الگ نوع ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سخت گہرے اور گاڑھے بادل ان پر چھتری کی صورت میں محیط ہوگئے تھے۔ اور اسی کے تادیر ان پر سایہ کئے رکھنے اور اس کی دہشت سے ان کی تبہی ہوئی تھی۔ اور ایسے ہی عذاب کا ان لوگوں نے مطالبہ کیا تھا۔ اور دوسرے یہ کہ ان قوموں کی طرف شعیب (علیہ السلام) ہی مبعوث ہوئے تھے اور یہ دونوں اقوام ایک دوسرے سے تھوڑے سے فاصلہ پر آباد تھیں اور یہ دونوں ہی تجارتی بددیانتیاں کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۔۔ : اس عذاب کی کوئی تفصیل قرآن مجید یا کسی صحیح حدیث میں نہیں آئی۔ ظاہر الفاظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کچھ ٹکڑے گرانے کے مطالبے کے جواب میں ان پر بادل کا ایک سائبان بھیج دیا، جس سے ایسا عذاب برسا کہ وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ اس عذاب کی حقیقت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، مگر خود اللہ تعالیٰ نے اس سوال کا جواب دیا کہ وہ کس قسم کا عذاب تھا، فرمایا یقیناً وہ ایک عظیم دن کا عذاب تھا۔ جب وہ دن عظیم تھا تو اس میں اترنے والے عذاب کی عظمت کا خود اندازہ کرلو۔ 3 یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ” اصحاب مدین “ اور ” اصحاب الایکہ “ الگ الگ قومیں تھیں، کیونکہ اصحاب الایکہ پر ” يَوْمِ الظُّلَّةِ “ کا عذاب آیا، جب کہ اصحاب مدین پر زلزلے اور صیحہ (چیخ) کا عذاب آیا تھا، جیسا کہ فرمایا : (فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ ) [ الأعراف : ٧٨ ] ” تو انھیں زلزلے نے پکڑ لیا تو انھوں نے اپنے گھر میں اس حال میں صبح کی کہ گرے پڑے تھے۔ “ اور فرمایا : (وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ ) [ ھود : ٦٧] ” اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا انھیں چیخ نے پکڑ لیا، تو انھوں نے اپنے گھروں میں اس حال میں صبح کی کہ گرے پڑے تھے۔ “ بعض مفسرین نے سائبان کے عذاب کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ ” اصحاب الایکہ “ پر پہلے سات دن تک سخت لو چلتی رہی، جس سے ان کے بدن پک گئے، چشموں اور کنووں کا پانی سوکھ گیا۔ وہ گھبرا کر جنگل کی طرف نکلے، وہاں دھوپ کی شدت اور نیچے سے گرم زمین نے ان کے پاؤں کی کھال اتار دی، پھر ایک سیاہ بادل سائبان کی شکل میں نمودار ہوا، وہ سارے کے سارے خوشی کے مارے اس کے سائے میں جمع ہوگئے، اس وقت اچانک بادل سے آگ برسنا شروع ہوئی جس سے سب ہلاک ہوگئے۔ مگر ہم مفسرین کی اس تفصیل کو نہ سچا کہتے ہیں نہ جھوٹا، کیونکہ یہ نہ قرآن مجید سے ثابت ہے نہ صحیح حدیث سے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ so they were seized by the torment of the Day of Canopy. - 26:189 عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ (the Torment of the Canopy), mentioned in this verse refers to an incident, which is this: Allah Ta’ ala sent down such an extreme heat on a people that they could not find comfort either inside the houses or outside. Then He sent down a mass of dark cloud over a nearby forest, under which there was a cool breeze. As the entire people were distressed due to excessive heat, they ran to take shelter under the cloud. When all of them assembled under the cover of the cloud, it rained fire instead of water. Thus the whole nation was burnt to ashes. (Ruh al-Ma’ ani)

خدا کا مجرم اپنے پاؤں چل کر آتا ہے اسے وارنٹ کی ضرورت نہیں : فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ، عذاب یوم الظلہ، جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے اس کا واقعہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کی قوم پر سخت گرمی مسلط فرمائی کہ نہ مکان کے اندر چین آتا نہ باہر، پھر ان کے قریب جنگل میں ایک گہرا بادل بھیج دیا جس کے نیچے ٹھنڈی ہوا تھی، ساری قوم گرمی سے پریشان تھی سب دوڑ دوڑ کر اس بال کے نیچے جمع ہوگئے جب ساری قوم بادل کے نیچے آگئی تو اس بادل نے ان پر پانی کے بجائے آگ برسا دی جس سے سب بھسم ہو کر رہ گئے۔ (کذا روی عن ابن عباس۔ روح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّۃِ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝ ١٨٩ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ ظلل الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] ، أي : في عزّة ومناع، ( ظ ل ل ) الظل ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے خت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٩) چناچہ انہوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور ان کو سائبان کے عذاب نے آپکڑا بادل کی مانند عذاب ان کے اوپر آگیا اور اس میں سے آگ برسنا شروع ہوئی جس نے ان سب کو جلا دیا بیشک یہ ان لوگوں کے حق میں بڑے سخت دن کا عذاب تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٩ (فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ ط) ” یوں لگتا ہے جیسے اس قوم پر پہلے اوپر سے کوئی عذاب آیا تھا اور ان پر سائبان کی طرح چھا گیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

117 The details of this torment are neither found in the Qur'an nor in any authentic Tradition. What one can learn from the Text is this: As these people had demanded a torment from the sky. Allah sent upon them a cloud which hung over them like a canopy and kept hanging until they were completely destroyed by the torment of continuous rain. The Qur'an clearly points out that the nature of the torment sent upon the Midianites was different from that sent upon the people of Aiykah The people of Aiykah, as mentioned here, were destroyed by the torment of the Canopy, while the torment visiting the Midianites was in the form of a terrible earthquake: "It so happened that a shocking catastrophe overtook them and they remained lying prostrate in their dwellings." (Al-A'raf: 91). And: "A dreadful shuck overtook them and they lay lifeless and prostrate in their homes." (Hud: 94). Therefore, it is wrong to regard the two torments as identical. Some commentators have given a few explanations of "the torment of the Day of Canopy", but we do not know the source of their information. Ibn Jarir has quoted Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas as saying: "If somebody from among the scholars gives you an explanation of the torment of the Day of Canopy, do not consider it as correct.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :117 اس عذاب کی کوئی تفصیل قرآن مجید میں یا کسی صحیح حدیث میں مذکور نہیں ہے ۔ ظاہر الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے چونکہ آسمانی عذاب مانگا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک بادل بھیج دیا اور وہ چھتری کی طرح ان پر اس وقت تک چھایا رہا جب تک باران عذاب نے ان کو بالکل تباہ نہ کر دیا ۔ قرآن سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اصحاب مدین کے عذاب کی کیفیت اصحاب الایکہ کے عذاب سے مختلف تھی ۔ یہ جیسا کہ یہاں بتایا گیا ہے ، چھتری والے عذاب سے ہلاک ہوئے ، اور ان پر عذاب ایک دھماکے اور زلزلے کی شکل میں آیا ( فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْ فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ، اور وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ O ) ۔ اس لیے ان دونوں کو ملا کر ایک داستاں بنانے کی کوشش درست نہیں ہے ۔ بعض مفسرین نے عذاب یوم الظُّلہ کی کچھ تشریحات بیان کی ہیں ، مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی معلومات کا ماخذ کیا ہے ۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ من حدثک من العلماء ما عذاب یوم الظلۃ فکذبہ ، علماء میں سے جو کوئی تم سے بیان کرے کہ یوم الظُّلہ کا عذاب کیا تھا اس کو درست نہ سمجھو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: کئی دن تک سخت گرمی پڑنے کے بعد ایک بادل ان کی بستی کے قریب آیا جس کے نیچے بظاہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی بستی کے سب لوگ اس بادل کے نیچے جمع ہوگئے تو اس بادل نے ان پر انگارے برسائے جس سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:189) یوم الظلۃ مضاف مضاف الیہ۔ سائبان والا دن ظلۃ سائبان ظلل جمع ظللۃ وہ بدلی ہے جو سایہ فگن ہو اور اکثر اس کا استعمال بری اور ناپسند صورت حال میں ہوتا ہے جیسے دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے واذ نتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ (7:171) اور جس وقت اٹھایا ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر جیسے کہ سائبان۔ فاخذھم عذاب یوم الظلۃ پھر آن پکڑا ان گو سائبان والے دن کے عذاب نے۔ کہتے ہیں کہ ایک بدلی ان کے سر پر سایہ فگن ہوگئی۔ جب لوگ اس کے نیچے تیش سے پناہ لینے کے لئے جمع ہوئے تو وہ یکایک ان پر آکرگر پڑی اور سب وہیں ڈھیر ہوگئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ قرآن کی کسی آیت یا حدیث سے اس عذاب کی تفصیل معلوم نہیں ہوئی۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : سات دن تک سخت لو چلتی رہی جس سے ان کے بدن پک گئے اور کنوئوں اور چشموں کا پانی سوکھ گیا۔ وہ گھبرا کر جنگل کی طرف نکلے، وہاں دھوپ کی شدت اور نیچے سے گرم زمین نے ان کے پائوں کی کھال ادھیڑدی۔ پھر ایک سیاہ بادل سائبان کی شکل میں نمودار ہوا وہ سارے کے سارے خوشی کے مارے اس کے سائے میں جمع ہوگئے اس وقت ناگہاں بادل سے آگ برسنا شروع ہوئی جس سے سب ہلاک ہوگئے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) یہ بھی فرماتے ہیں کہ ” یوم الظلہ “ کے عذاب کے بارے میں جو کوئی اور تفسیر بیان کرے اسے جھوٹا سمجھو۔ ممکن ہے حضرت ابن عباس (رض) نے یہ تفسیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہ اور ان کے علاوہ اور کسی کو معلوم نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ (شوکانی بتصرف) امام رازی اس تفصیل کو بصیغہ تمریض بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ” اور یہ بھی مروی ہے کہ ” اصحاب مدین “ اور ” اصحاب ایکہ “ دو قومیں تھیں اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) دونوں کی طرف مبعوث تھے، دونوں ایک ہی نوع کے جرائم میں مبتلا تھیں اس لئے دونوں کو تبلیغ بھی ایک ہی طرح کی ہے۔ ان میں سے پہلی قوم تو ” صیحۃ “ سے ہلاک ہوئی۔ (دیکھئے سورة ہود آیت 94) اور دوسری قوم پر ” یوم الظلہ “ کا عذاب آیا۔ واللہ اعلم۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ عذاب سائبان کا یہ تھا کہ اول ان لوگوں پر گرمی مسلط ہوئی، پھر ایک ابر نمودار ہوا جس میں سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی، سب لوگ اس کے نیچے جمع ہوگئے، اس میں سے آگ برسنا شروع ہوئی، اور سب جل گئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فکذبوہ فاخذھم ……یوم عظیم (١٨٩) ’ ان کے بعد عذاب کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض روایات میں یہ آیا ہے کہ اس قدر گری ہوئی کہ دم گھٹ کر مرنے لگے۔ اس کے بعد انہیں ایک بادل سا نظر آیا۔ اس کی طرف لپکے کہ سایہ لیں تو وہ اس قدر ٹھنڈا تھا جس طرح برف ۔ پھر یہ بادل ایک کڑک کی شکل اختیار کر گیا اور ان کو ہلاک کر کے رکھ دیا ۔ اس حوال ی سے ان کے عذاب کو بادل کے ٹکڑے کے دن سے تعبیر کیا گیا۔ اور اب وہی تبصرہ اور سبق آتا ہے جو تمام قصص کے بعد اس پوری سورت میں دہرایا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:۔ آخر جب قوم تکذیب پر قائم رہی تو اللہ نے ان کو عذاب ظلہ سے ہلاک کردیا جو بڑا ہی دردناک عذاب تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے اللہ نے اصحاب الایکہ پر شدید گرمی مسلط کردی وہ گرمی سے بھاگ کر گھروں میں داخل ہوئے تو وہاں باہر سے بھی زیادہ گرمی تھی آخر پھر گھروں سے باہر نکل آئے۔ پھر اللہ نے ایک بادل (ظلہ) بھیج دیا سب اس کے سائے میں جمع ہونے شروع ہوگئے۔ جب سب اس کے نیچے جمع ہوگئے تو اللہ نے اس ظلہ سے آگ برسا دی جس سے سب جل کر ہلاک ہوگئے۔ ھی سحابۃ اظلہم بعد ما حبست عنھم الریح وعذبوا بالحر سبعۃ ایام فاجتمعوا تحتھا مستجیرین بھا مما نالھم من الحر فامطرت علیہم نارا فاحترقوا (مدارک ج 3 ص 149) ۔ ” ان فی ذلک لایۃ الخ “ ان دونوں سورتوں کی تفسیر پہلے گذر چکی ہے۔ اب آگے دعوی ” تبارک “ پر ایک دلیل وحی اور مزید دو نقلی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں۔ ایک کتب سابقہ سے اور ایک علماء بنی اسرائیل سے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(189) سو یہ لوگ شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کرتے رہے آخر کار ان کو سائبان والے دن کے عذاب نے آپکڑا بلاشبہ وہ ایک بڑے خوفناک دن کا عذاب تھا یعنی بادل آیا اور سائبان کی طرح ان پر چھا گیا اس بادل سے آگ برسی بھونچال آیا سخت آواز آئی اور سب مرے کے مرے رہ گئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سائبان کے دن ابر آیا اس میں سے آگ برسی سب قوم جل گئی 12