Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 20

سورة الشعراء

قَالَ فَعَلۡتُہَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾

[Moses] said, "I did it, then, while I was of those astray.

۔ ( حضرت ) موسیٰ ( علیہ السلام ) نے جواب دیا کہ میں نے اس کام کو اس وقت کیا تھا جبکہ میں راہ بھولے ہوئے لوگوں میں سے تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ فَعَلْتُهَا إِذًا ... (Musa) said: "I did it then..." meaning, at that time, ... وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ when I was in error. meaning, `before revelation was sent to me and before Allah made me a Prophet and sent me with this Message.' فَفَرَرْتُ مِنكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201یعنی یہ قتل ارادتًا نہیں تھا بلکہ ایک گھونسہ ہی تھا جو اسے مارا تھا، اس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ علاوہ ازیں یہ واقعہ بھی نبوت سے قبل کا ہے جب کہ مجھ کو علم کی یہ روشنی نہیں دی گئی تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فَعَلْتُهَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ : ” اَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ “ ” میں اس وقت ضلالت والوں سے تھا۔ “ لفظ ” ضلالت “ ہر جگہ گمراہی کے معنی میں نہیں ہوتا، بلکہ عربی زبان میں اسے ناواقفیت، نادانی، خطا اور بھول وغیرہ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ قبطی کے قتل کے واقعہ کو دیکھیں تو یہاں اس کا معنی نادانی، خطا یا بھول ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ نہ ان کا ارادہ اسے قتل کرنے کا تھا اور نہ ان کے وہم و گمان میں یہ بات تھی کہ ایک گھونسے سے اس کا کام تمام ہوجائے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے اس کے اس طعن کا جواب دیا جس سے وہ انھیں مجرم ثابت کرنا چاہتا تھا، کیونکہ جرم ثابت ہونے سے وہ قصاص کے مستحق ٹھہرتے تھے۔ چناچہ انھوں نے دھمکی کا جواب کسی خوف کے بغیر نہایت دلیری سے دیا کہ ہاں، وہ کام میں نے کیا ہے، مگر میں نے اس وقت یہ کام جان بوجھ کر نہیں کیا، نہ میرا یہ ارادہ تھا کہ اسے قتل کروں، مجھے کیا خبر تھی کہ ایک گھونسے میں اس کا دم نکل جائے گا، کبھی ایک گھونسے سے بھی موت واقع ہوا کرتی ہے ؟ مجھ سے یہ کام دانستہ نہیں خطا اور بھول سے ہوا ہے اور کیا کسی قانون میں خطا سے ہونے والے کام کو جرم قرار دیا جاتا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں لفظ ضلال کا مفہوم : قَالَ فَعَلْتُهَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ فرعون کے اس سوال پر کہ تم نے اے موسیٰ ایک قبطی کو قتل کیا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواباً فرمایا کہ ہاں میں نے قتل ضرور کیا تھا لیکن وہ قتل ارادة اور قصد سے نہ تھا بلکہ اس قبطی کو اس کی خطا پر متنبہ کرنے کے لئے گھنسہ مارا جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔ خلاصہ یہ کہ نبوت کے منافی قتل عمد ہے اور یہ قتل بلا ارادہ ہوا تھا جو منافی نبوت نہیں۔ حاصل یہ ہوا کہ یہاں |" ضلال |" کا مطلب |" بیخبر ی |" ہے اور اس سے مراد قبطی کا بلا ارادہ قتل ہوجانا ہے۔ اس معنی کی تائید حضرت قتادہ اور ابن زید کی روایات سے بھی ہوتی ہے کہ دراصل عربی میں ضلال کے کئی معنی آتے ہیں اور ہر جگہ اس کا مطلب گمراہی نہیں ہوتا۔ یہاں بھی اس کا ترجمہ |" گمراہ |" کرنا درست نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَعَلْتُہَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝ ٢٠ۭ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠۔ ٢١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے واقعتا وہ حرکت کرلی تھی اور اس وقت تمہارے احسان کا خیال نہ تھا، سو جب مجھے اپنی جان کا خطرہ ہوا تو میں یہاں سے مفرور ہوگیا تو میرے پروردگار نے مجھے دانش مندی علم اور نبوت عطا فرمائی اور مجھے رسولوں میں شامل کر کے تیرے اور تیری قوم کی طرف بھیج دیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (قَالَ فَعَلْتُہَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ ) ” یعنی یہ فعل مجھ سے نادانستگی میں ہوا تھا اور اس وقت میں ابھی حقیقت سے ناآشنا بھی تھا۔ ابھی رسالت اور نبوت مجھے نہیں ملی تھی اور میں خود تلاش حقیقت میں سرگرداں تھا۔ لفظ ” الضّال “ کے دو مفاہیم کے بارے میں سورة الفاتحہ کے مطالعے کے دوران وضاحت کی جا چکی ہے۔ اس لفظ کے ایک معنی تو راستے سے بھٹک جانے والے اور غلط فہمی کی بنا پر کوئی غلط راستہ اختیار کرلینے والے کے ہیں ‘ لیکن اس کے علاوہ جو شخص ابھی درست راستے کی تلاش میں سرگرداں ہو اس پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور اسی مفہوم میں یہ لفظ سورة الضحیٰ کی اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استعمال ہوا ہے : (وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ) کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش حقیقت میں سرگرداں پایا تو راہنمائی فرما دی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 The word dalalat dces not always mean "straying away", but it is also used in the sense of ignorance, folly, error, forgetfulness, inadvertence, etc. As mentioned in Surah Al-Qasas, Prophet Moses had only given a blow to the Egyptian (Copt) when he saw him treating an Israelite cruelly. A blow dces not cause death, nor is it given with the intention of causing death. It was only an accident that the Egyptian died. As such, it was not a case of deliberate murder but of accidental murder. A murder was committed but not intentionally, nor was any weapon used, which is usually employed for murder, or which can cause murder.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :16 اصل الفاظ ہیں : وَاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ ، میں اس وقت ضلالت میں تھا ۔ یا میں نے اس وقت یہ کام ضلالت کی حالت میں کیا تھا ۔ یہ لفظ ضلالت لازماً گمراہی کا ہی ہم معنی نہیں ہے ۔ بلکہ عربی زبان میں اسے نا واقفیت ، نادانی ، خطا ، نسیان ، نادانستگی وغیرہ معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ جو واقعہ سورہ قصص میں بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے یہاں ضلالت بمعنی خطا یا نادانستگی ہی لینا زیادہ صحیح ہے ۔ حضرت موسیٰ نے اس قبطی کو ایک اسرائلی پر ظلم کرتے دیکھ کر صرف ایک گھونسا مارا تھا ۔ ظاہر ہے کہ گھونسے سے بالعموم آدمی مرتا نہیں ہے ، نہ قتل کی نیت سے گھونسا مارا جاتا ہے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس سے وہ شخص مرگیا ۔ اس لیے صحیح صورت واقعہ یہی ہے کہ یہ قتل عمد نہیں بلکہ قتل خطا تھا ۔ قتل ہوا ضرور ، مگر بالارادہ قتل کی نیت سے نہیں ہوا ، نہ کوئی ایسا آلہ یا ذریعہ استعمال کیا گیا جو قتل کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے یا جس سے قتل واقع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یعنی یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ ایک ہی مکا کھا کر مر جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:20) فعلتھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب اس فعل (فعلۃ کی طرف ہے جو آیت ماقبل میں مذکور ہے۔ اذا۔ تب۔ اس وقت۔ الضالین۔ لفظ الضلال کا اطلاق مندرجہ ذیل معانی پر ہوتا ہے :۔ (1) حقیقت الامر سے ناواقفی ۔ جب کوئی شخص کسی شے کی حقیقت سے ناواقف ہو تو عرب کہتے ہیں ضل عنہ اسی معنی میں ہے :۔ قال علمھا عند ربی فیکتاب لایضل ربی ولا ینسی (20:52) فرمایا اس کا علم میرے رب کے پاس ہے جو کتاب میں (ہرقوم) ہے میرا رب نہ کسی چیز سے لا علم ہے اور نہ بھولتا ہے۔ (2) طریق حق سے بھٹک کر باطل کی طرف جانا جیسے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ۔ (سورۃ فاتحہ) نہ (راستہ) ان لوگوں کا جن پر غضب آیا ہو اور نہ ان کا جو راہ حق سے بھٹک چکے ہوں وھذا الضلال فی الدین۔ (3) غائب اور مضمحل ہوجانا۔ کسی چیز میں غائب یا گم ہوجانا۔ نیست ہوجانا اس کی مثال ہے۔ وقالوا اذا ضللنا فی الارضء انا لفی خلق جدید (32:10) اور کہا کیا جب ہم (مرنے کے بوعد) زمین میں نیست و نابود ہوجائیں گے۔ تو کیا ہم ازسر نو پیدا کئے جائیں گے۔ (4) محبت کے معنی میں۔ جیسے قالوا تاللہ انک لفی ضللک القدیم (12:95) کہنے لگے بخدا تم (یوسف کی) قدیم محبت میں ہی (پھر ایسی باتیں کر رہے ) ہو۔ یا ووجدک ضالا فھدی (93:7) اور آپ کو ہدایت کی محبت میں (سرگرداں) پایا اور آپ کو ہدایت بخشی۔ وانا من الضالین میں واؤ حالیہ ہے جب کہ میں لاعلمی کی حالت میں تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ یعنی قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رسالت و نبوت سے نوازتا یا مجھے کیا خبر تھی کہ ایک گھونسے میں اس کا دم نکل جائے گا لہٰذا تمہارا یہ طعن بےجا ہے۔ (کذا فی القرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12: یہ دوسرے اعتراض کا جواب ہے بطور لف و نشر غیر مرتب۔ دوسرا اعتراض چونکہ عصمت میں قادح تھا اس لیے اس کا جواب مقدم کیا۔ یعنی قتل کا فعل مجھ سے بلا قصد و ارادہ سرزد ہوا تھا۔ کیونکہ میں نے قبطی کو بطور تادیب مارا لیکن وہ ضرب اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ ” وانا من الضالین ای من الجاھلین۔ واراد (علیہ السلام) بذلک علی ما روی عن قتادہ انہ فعل ذلک جاھلا بہ غیر متعمد ایاہ فانہ (علیہ السلام) انما تعمد الوکز للتادیب فادی الی ما ادی (روح ج 19 ص 69) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا وہ حرکت مجھ سے اس وقت سرزد ہوگئی تھی اور میں چوکنے اور غلطی کرنے والوں میں سے تھا یعنی میں نے عمداً قتل نہیں کیا بلکہ مجھ سے چوک ہوگئی تھی میں صرف تنبیہ کرنا چاہتا تھا لیکن وہ مرگیا۔