Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 204

سورة الشعراء

اَفَبِعَذَابِنَا یَسۡتَعۡجِلُوۡنَ ﴿۲۰۴﴾

So for Our punishment are they impatient?

پس کیا یہ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Would they then wish for Our torment to be hastened on! This is a denunciation and a threat, because they used to say to the Messenger, by way of denial, thinking it unlikely ever to happen: ايْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ Bring Allah's torment upon us. (29:29) This is as Allah said: وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ... And they ask you to hasten on the torment... (29:53-55) Then Allah says: أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2041یہ اشارہ ہے ان کے مطالبے کی طرف جو اپنے پیغمبر سے کرتے رہے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو عذاب لے آ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٠] یعنی آج انھیں مہلت ملی ہوئی ہے تو عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پھر جب عذاب دیکھ لیں گے تو اس وقت مہلت کا مطالبہ کریں گے۔ حالانکہ نہ ان کا پہلا مطالبہ درست تھا اور نہ دوسرا درست ہوگا اس لئے کہ عذاب الٰہی کے لئے بھی ایک ضابطہ مقرر ہے اس کا دارو مدار کسی کے مطالبہ کرنے یا نہ کرنے پر نہیں ہے۔ پھر جب معین وقت پر عذاب آجاتا ہے تو پھر اس میں تاخیر نہیں ہوسکتی۔ نہ کسی کے مطالبہ پر مزید مہلت مل سکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُوْنَ : یعنی عذاب آئے گا تو مہلت کا مطالبہ کریں گے اور آج مہلت ملی ہوئی ہے تو عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں : (فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ “ کبھی کہتے ہیں : (فَاَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ ) [ الشعراء : ١٨٧ ] ” سو ہم پر آسمان سے کچھ ٹکڑے گرا دے۔ “ کبھی کہتے ہیں : (اَوْ تَاْتِيَ باللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا) [ بني إسرائیل : ٩٢ ] ” یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ “ کبھی کہتے ہیں : (وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ یونس : ٤٨ ] ” یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُوْنَ۝ ٢٠٤ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٤ (اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ ) ” اِس وقت تو یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ لے آئیں ہم پر وہ عذاب جس سے ہمیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈراتے ہیں۔ ہم تو آپ کی روز روز کی تنبیہات سے تنگ آگئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

47: اوپر عذاب کا جو ذکر آیا، اس کو سن کر کافر لوگ مذاق اڑانے کے انداز میں یہ کہتے تھے کہ اگر ہم پر عذاب ہونا ہے تو ابھی جلدی ہوجائے۔ یہ آیات اس کا جواب ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے فوراً کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا، بلکہ اس کے پاس ایسے رہنما بھیجتا ہے جو اسے خبر دار کریں، اور پھر اسے مہلت دیتا ہے کہ وہ اگر حق کو قبول کرنا چاہے تو کرلے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(٢٠٤ تا ٢٠٧) جس طرح اور امتوں کے لوگوں نے اپنے انبیاء سے یہ کہا تھا کہ اگر تم سچے نبی ہو تو ہم پر عذاب لے آؤاسی طرح قریش نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ اگر یہ قرآن سچ ہو اور ہم اس پر ایمان نہ لانے ہوں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسیں یا اور کوئی عذاب آجاوے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں پچھلی امتوں کے سرکش لوگوں پر طرح طرح کے عذاب آجانے اور ان کے ہلاک ہوجانے کا ذکر فرما کر اس آیت میں قریش میں نضربن حارث اور ابوجہل کی عذاب کی دعا کا یہ جواب دیا ہے کہ اب تو دنیا کی فارغ البالی کے سبب سے اترا کے ان لوگوں کو یہ سرکشی سوجھی ہے کہ خواہشیں کر کے عذاب کے دعائیں مانگتے ہیں پہلی امتوں کی طرح دنیا میں ہی یا اگر دنیا میں ہی یا اگر دنیا چند روزہ گزر گئی تو آخرت میں جس وقت عذاب الٰہی کی مصیبت ان کے سر پر آن پڑے گی تو وہ ایسی مصیبت ہے کہ یہ دنیا کا چند روزہ عیش و آرام جس کے سبب سے آج یہ لوگ اترار ہے ہیں ان کو ذرا یاد بھی نہ رہے گا مصیبت ہی مصیبت پھر پکاریں گے مسلم کی روایت سے حضرت انس (رض) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بڑے بڑے عیش و آرام میں دنیا بسر کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالتے ہی جب ان سے فرشتے پوچھیں گے کہ کبھی دنیا میں تم نے کچھ راحت دیکھی تھی تو اس تکلیف کے آگے دنیا کی سب راحت بھول کردہ قسم کھا کر یہی جواب دیں گے کہ ہم نے کبھی راحت کی صورت بھی نہیں دیکھی یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اب تو دنیا کی فارغ البالی کے نشہ میں یہ لوگ عذاب کے خواہش کرتے ہیں لیکن جب عذاب میں گرفتار ہوجاویں گے تو دنیا کی یہ چند روزہ فارغ البالی ان کو یاد بھی نہ رہے گی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:204) افبعذابنا یستعجلون۔ ہمزہ استفہامیہ ہے استعجال (استفعال) سے مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے وہ جلدی مانگتے ہیں ۔ یعنی اب جو ان کو کفر وشرک پر عذاب الیم سے ڈرایا جا رہا ہے تو کبھی کہتے ہیں کہ یہ یوں ہی پچھلوں کی سی باتیں اور ڈراوے ہیں ان میں حقیقت نہیں اور بار بار اپنے رسولوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہارا یہ ڈراوا صحیح ہے تو وہ عذاب ابھی کیوں نہیں لے آتے (اس کا قرآن حکیم میں اور اسی سورة میں بار بار ذکر ہے) اب ان کا یہ حال ہو رہا ہے کہ عذاب کو دیکھتے ہی پکار اٹھے ہیں کہ کیا کوئی مہلت کی صورت نکل سکتی ہے ؟

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ حالانکہ جب وہ آئے گا تو مہلت کے طلب گارہوں گے اور اپنی کوتاہیوں کا تدارک کرنے کے لئے دنیا کی طرف مراجعت کی تمنا کریں گے۔ (شوکانی) حاشیہ صفحہ ہذا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی باوجود قیام دلائل صدق کے پھر بھی انکار کرتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افبعذابنا ……یمتعون (٢٠٨) ایک طرف ان کی طرف سے عذاب کا مطالبہ اور اس میں شتابی ہے اور دوسری جانب عذاب کا نزول ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ عیش و عشرت کی جو طویل زندگی وہ بسر کر رہے تھے وہ گویا تھی ہی نہیں۔ اس پوری زندگی میں انکے لئے کوء فائدہ نہ ہوگا اور نہ اس میں کوئی ایسا عمل ہوگا جس کی وجہ سے ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہو۔ ایک صحیح حدیث میں ہے ” کافر کو لایا جائے گا اور آگ میں اسے ایک غوطہ دیا جائے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ تم نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی بھلائی (اور آرام) دیکھا بھی ہے ؟ کیا تم نے کوئی خوشحالی دیکھی ہے ؟ وہ کہے گا نہیں خدا کی قسم پروردگار میں نے تو کچھ بھی نہیں دیکھا۔ اور پھر ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں بدترین حالات میں تھا اور اسے جنت کا ایک رنگ دکھایا جائے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا۔ کیا تو نے برے دن بھی کبھی دیکھے ہیں ؟ تو وہ کہے گا خدا کی قسم اے رب ذوالجلال ! مجھ پر تو برے دن کبھی آئے ہی نہیں۔ (ابن کثیر) اس کے بعد ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ یہ جو تمہیں خبردار کیا جا رہا ہے تو اس لئے کہ تم پر ہلاکت بڑی تیزی سے آرہی ہے اور اللہ کی رحمت کا تو یہ تقاضا ہے کہ کسی بستی کو اس وقت تک ہلاک نہ کرے جب تک رسول نہ آئے۔ یہ اللہ کی سنت ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ ) (کیا وہ ہمارے عذاب کے آنے کے لیے جلدی مچا رہے ہیں) چونکہ انہیں عذاب آجانے کا یقین نہیں ہے اس لیے ایسی باتیں کرتے ہیں اور ان کا یہ سمجھنا کہ جو ڈھیل دی جا رہی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عذاب نہ آئے گا ان کی سخت غلطی ہے دنیا کی ذرا سی چہل پہل دیکھ کر جو یوں سمجھ رہے ہیں کہ عذاب آنے والا نہیں اور اسی زندگی کو سب کچھ سمجھ رہے ہیں یہ بہت بڑی ناسمجھی ہے۔ جب عذاب آپہنچے گا جس سے چھٹکارا نہ ہو سکے گا اور سخت بھی ہوگا اس وقت یہ تھوڑی سی زندگی کا کیف اور مال و متاع کچھ بھی کام نہ دے گا۔ یہ انسانوں کی نہایت ہی حماقت کی بات ہے کہ فانی دنیا میں تھوڑے سے دن کی چہل پہل میں مشغول ہو کر موت کے بعد کی زندگی کو بھول جائیں اور وہاں کے بڑے اور دائمی عذاب کو اپنے سر لے لیں

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 71:۔ یہ مشرکین پر زجر ہے یعنی یہ ظالم ایک طرف تو مطالبہ کرتے ہیں کہ عذاب جلدی آئے اور دوسری طرف جب عذاب آجاتا ہے تو پھر مہلت مانگتے ہیں۔ ” افرایت ان متعنہم “ تا ” ما کانوا یمتعون “ یہ مشرکین کے عناد و مکابرہ کی مزید و ضاحت ہے نیز یہ بتانا مقصود ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے بغیر عمر میں اضافہ انہیں عذاب خداوندی سے ہرگز نہیں بچا سکے گا۔ یعنی اگر ہم ان کو سالہا سال مزید مہلت دیدیں اور وہ عیش و عشرت کے مزے لے لیں۔ اس کے بعد ان کے مسلسل کفر و شرک کی وجہ سے موعود عذاب آجائے تو اس مہلت سے انہیں کیا فائدہ پہنچے گا۔ نہ وہ ضد وعناد کی وجہ سے کفر و انکار سے باز آئیں گے، نہ خدا کا عذاب ان سے ٹل سکے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(204) کیا لوگ ہمارے عذاب کے وقوع کو جلدی چاہتے اور جلدی طلب کرتے یعنی چونکہ عذاب کی وعید کو جھوٹا اور غلط سمجھتے ہیں اس لئے بطور انکار کہتے ہیں فاتنا بما تعدنا جس چیز کا ڈراوا دیتا ہے اس کو لے آ آگے مہلت نہ دینے کا جواب ہے۔