Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 205

سورة الشعراء

اَفَرَءَیۡتَ اِنۡ مَّتَّعۡنٰہُمۡ سِنِیۡنَ ﴿۲۰۵﴾ۙ

Then have you considered if We gave them enjoyment for years

اچھا یہ بھی بتاؤ کہ اگر ہم نے انہیں کئی سال بھی فائدہ اُٹھانے دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ جَاءهُم مَّا كَانُوا يُوعَدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ ۔۔ : ان کا عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرنے سے ظاہر ہے کہ وہ اس کے آنے پر ایمان نہیں رکھتے اور بہت دیر تک زندہ رہنے کی امید رکھتے ہیں، اسی لیے وہ اسے جلدی طلب کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ فرمایا، یہ بتاؤ کہ اگر ہم ان کی توقع کے مطابق کچھ سال انھیں زندہ رہنے اور فائدہ اٹھانے کا موقع دے دیں، پھر ان پر عذاب آئے یا موت ہی آجائے جس کے بعد عذاب ہی عذاب ہے، تو جتنے سال انھیں زندہ رہنے کا اور زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جاتا رہا وہ عذاب سے بچانے میں ان کے کس کام آئے گا ؟ (دیکھیے بقرہ : ٩٦) وہ گزرا ہوا سارا عرصہ تو ایک ساعت سے زیادہ معلوم نہیں ہوگا۔ (دیکھیے روم : ٥٥) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق دنیا کے سب سے خوش حال کافر کو جہنم کا ایک غوطہ دلانے کے بعد پوچھا جائے گا کہ تو نے کبھی خیر دیکھی ہے تو وہ قسم اٹھا کر کہے گا کہ نہیں۔ [ دیکھیے مسلم، صفات المنافقین، باب صبغ أنعم أھل الدنیا في النار : ٢٨٠٧، عن أنس ] تفسیر کبیر میں ہے کہ میمون بن مہران طواف میں حسن بصری سے ملے اور نصیحت کی درخواست کی تو انھوں نے صرف اس آیت کی تلاوت کردی، تو میمون نے کہا، آپ نے نصیحت کی اور کمال کی نصیحت کی۔ ” سِـنِيْنَ “ جمع مذکر سالم نکرہ قلت کے لیے استعمال ہوا ہے، یعنی جتنی لمبی زندگی بھی مل جائے وہ چند سال ہی ہیں، کیونکہ گزر جانے والی چیز قلیل ہی ہوتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَفَرَ‌أَيْتَ إِن مَّتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ ﴿٢٠٥﴾ So tell me, If We give them enjoyment for years, - 26:205. There is a hint in this verse that those who are bestowed with long life in this world by Allah Ta’ ala, it is His grace on them. But those who show ingratitude for this grace and do not submit to Islam, to them this respite and grace will not be of any avail. Imam Zuhri (رح) has related that Sayyidna ` Umar ibn ` Abdul Aziz (رح) used to recite this verse every morning by holding his beard and addressing his Self: نھارک یا مغرور سھو و غفلۃ ولیلک نوم والرّدیٰ لک لازم فلا انت فی الایقاظ یقظان حازم ولا انت فی النّوّام ناجِ و سالم وتعٰی الٰی ما سوف تکرہ غبّہ کذٰلک فی الدّنیا تعیش البھایٔم ` O the duped one! Your whole day is spent in negligence and the night in sleep, while death is inevitable for you. Neither you are awake among the alert and woken nor are you the one who will get salvation from among the sleepers. You keep endeavoring for things which will soon bring you unpleasant results. Cattle and animals live like this in the world&.

اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِـنِيْنَ ، اس آیت میں اشارہ ہے کہ دنیا میں کسی کو عمر دراز ملنا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے لیکن جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں ایمان نہ لائیں ان کو عمر دراز کی عافیت و مہلت کچھ کام نہ آئے گی۔ امام زہری نے نقل فرمایا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز روز صبح کو اپنی داڑھی پکڑ کر اپنے نفس کو خطاب کر کے یہ آیت پڑھا کرتے تھے اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ الآیتہ اس کے بعد ان پر گریہ طاری ہوجاتا اور یہ اشعار پڑھتے تھے، نھارک یا مغرور سھود غفلۃ، ولیلک نوم والروی لک لازم۔ فلا انت فی الایقاظ یقظان حازم، ولا انت فی النوم ناج وسالم۔ وتسعی الی ماسوف تکرہ غبہ، کذلک فی الدنیا تعیش البھائم (ترجمہ) اے فریب خوردہ تیرا سارا دن غفلت میں اور رات نیند میں صرف ہوتی ہے حالانکہ موت تیرے لئے لازمی ہے۔ نہ تو بیدار لوگوں میں ہوشیار و بیدار ہے اور نہ سونے والوں میں اپنی نجات پر مطمئن ہے۔ تیری کوشش ایسے کاموں میں رہتی ہے جس کا انجام عنقریب ناگوار صورت میں سامنے آئے گا۔ دنیا میں چوپائے جانور ایسے ہی جیا کرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰہُمْ سِـنِيْنَ۝ ٢٠٥ۙ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ سنین : سنۃ کی جمع ۔ کئی سال۔ بھلا بتاؤ تو اگر ہم سالوں ان کو دنیاوی عیش و عشرت کا مزہ اٹھانے دیں پھر جس عذاب کا وعدہ ان سے کیا تھا۔ وہ ان پر آجائے تو وہ عیش و عشرت ان کے کس کام کا ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:205) افرأیت۔ کیا تو نے دیکھا۔ بھل اتو نے دیکھا۔ کیا تو نے غور کیا۔ ہمزہ اولیٰ بلفظ استفہام تقریر و تنبیہ کے لئے ہے محض استفہام کے لئے نہیں۔ امام راغب (رح) لکھتے ہیں کہ ارأیت عربی میں اخبرنی (تو مجھے بتا) کے قائم مقام ہے اور اس پر ک داخل ہوتا ہے اور تاء کو تثنیہ جمع اور تانیث میں اسی کی حالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور تغیر و تبدل کاف پر ہوتا ہے تاء پر نہیں ۔ مثلا ارایتک ھذا الذی (17:62) قل ارایتکم (6:40) متعنھم ماضی جمع متکلم ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ متع یمتع تمیع (تفعیل) ہم نے دنیاوی سازوسامان دے کر بہرہ مند کیا سنین : سنۃ کی جمع ۔ کئی سال۔ بھلا بتاؤ تو اگر ہم سالوں ان کو دنیاوی عیش و عشرت کا مزہ اٹھانے دیں پھر جس عذاب کا وعدہ ان سے کیا تھا۔ وہ ان پر آجائے تو وہ عیش و عشرت ان کے کس کام کا ؟ آیت 202 میں ان کے جواب میں یہ کہا گیا کہ اب نہ مہلت ملنے کا وقت ہے اور نہ قبول ایمان کا ۔ آیت نمبر 205، 206، 207 ۔ تم نے دیکھ لیا کہ دنیاوی عیش و عشرت تمہارے کسی کام نہ آیا۔ آیت نمبر 204 جملہ معترضہ ہے اور ارشاد من جانب اللہ تعالیٰ ہے آیت نمبر 205 سے پھر وہی سلسلہ کلام ہے جو کہ آیت 202 میں تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کو فرمایا (اَفَرَاَیْتَ اِِنْ مَّتَّعْنَاھُمْ سِنِیْنَ ثُمَّ جَاءَ ھُمْ مَا کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ مَا اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ ) (اے مخاطب تو بتا کہ اگر ہم ان کو چند سال تک عیش میں رہنے دیں پھر جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ان کے سر آپڑے تو ان کا عیش کیا کام دے سکتا ہے، یعنی یہ جو عیش کی مہلت دی گئی ہے اس سے آنے والا عذاب تو کیا ٹلتا اس کی وجہ سے اس میں کوئی کمی تخفیف بھی نہ ہوگی) قال صاحب الروح ص ١٣١ ج ١٠ قال سبحان ان ھذا العذاب الموعود وان تاخر ایاما قلائل فھم لاحق بھم لا محالۃ و ھنالک لا ینفعھم ما کانوا فیہ من الاغترار المثمر لعدم الایمان۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(205) اے مخاطب بھلا دیکھ تو سہی اگر ہم ان کو چند سال تک عیش کرنے اور یہاں کے سازو سامان سے فائدہ اٹھانے کا اور موقعہ دے دیں۔