Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 208

سورة الشعراء

وَ مَاۤ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا لَہَا مُنۡذِرُوۡنَ ﴿۲۰۸﴾٭ۖ ۛ

And We did not destroy any city except that it had warners

ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا ہے مگر اسی حال میں کہ اس کے لئے ڈرانے والے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذِكْرَى وَمَا كُنَّا ظَالِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَ ۔۔ : یعنی ہم نے جو بستی بھی ہلاک کی اس کی طرف خبردار کرنے اور ڈرانے والے بھیجے، تاکہ وہ انھیں نصیحت کریں اور یاد دہانی کروائیں، پھر جب انھوں نے ان کی نصیحت قبول نہیں کی، نہ یاد دہانی کی پروا کی تو ہم نے انھیں ہلاک کردیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ہماری طرف سے ان پر کوئی ظلم نہ تھا، ظلم اس وقت ہوتا جب ہم پہلے نصیحت نہ کرتے اور خبردار نہ کرتے۔ پہلی آیت کے مضمون کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٥) اور قصص (٥٩) اور دوسری آیت کے مضمون کے لیے دیکھیے سورة یونس (٤٤) اور نساء (٤٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَہْلَكْنَا مِنْ قَرْيَۃٍ اِلَّا لَہَا مُنْذِرُوْنَ۝ ٢٠٨ۤۖۛ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(٢٠٨ تا ٢١٣) یہ آیت مثل بنی اسرائیل کی آیت وَمَا کُنَّا مُعَذّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا کے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر رسول بھیجے اور سمجھائے خدا عذاب نہیں کرتا جیسا کہ سورة القصص میں فرمایا وما کان ربک مھلک القریٰ حتی یبعث فی امھا رسولا یتلو علیھم اثینا وما کنا مھل کی القریٰ الا واھلھا ظلمون جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نہیں کھپاتے بستیوں کو مگر جب رسولوں کے بھیجنے کے بعد بستی والے ظلم کرتے ہیں غرض برے عمل عذاب کا سبب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے پھر فرمایا قرآن شریف میں جو نیک باتیں ہیں وہ کام شیطان کا نہیں ہے اور شیاطین تو قرآن شریف اللہ کے ہاں سے معتبر فرشتہ کی معرفت اس بڑے انتظام کے ساتھ اترتا ہے اس کے بعد حکم کیا اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہ نہ پکار خدا کے ساتھ کسی دوسرے کو کیونکہ وہ اکیلا ہے وحدہ لاشریک کوئی اس کا ساجھی نہیں اگر کوئی خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب کرے گا اگرچہ یہ آخری آیت کا ارشاد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر اصل میں امت کے لوگوں کو اس میں شرک کی برائی جتلائی گئی ہے کہ بالفرض اگر کوئی رسول بھی شرک کر بیٹھے تو عذاب میں پکڑا جاوے پھر امت کے لوگ کس گنتی میں ہیں۔ صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ (رض) اور عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو انجانی کے عذر کا رفع کردینا بہت پسند ہے اسی واسطے اس نے ہر ایک بستی میں رسول بھیجے یہ حدیث الا لھا منذرون کی گویا تفسیر ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر ٹھہرالیا ہے۔ یہ حدیث مَاکُنَّا ظَالِمِیْنَ کی گویا تفسیر ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث ١ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے نازل ہونے کے زمانہ میں بہ نسبت پہلے کے آسمان پر حفاظت کا انتظام زیادہ ہوگیا تھا اس لیے جو جنات اس سے پہلے آسمان پر کی باتیں چوری سے سن آیا کرتے تھے اور کاہن لوگوں سے وہ باتیں کہہ کر انہیں اپنا معتقد بنایا کرتے تھے ان جنات کو اس لیے انتظام کی بڑی جستجو میں ان جنات کی ٹکڑیاں ہر طرف پھرتی تھیں ایک دفعہ ان کا ایک ٹکڑی نے مکہ اور ظائف کے درمیان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس کلام کی حفاظت کے لیے مسلمان پر چو کسی زیادہ ہوتی ہے اور اس بات کے سمجھ جانے کے بعد وہ جنات دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے سورة جن میں اس کی تفصیل زیادہ آوے گی حاصل کلام یہ ہے کہ سورة جن کی آیتیں اور یہ حدیث انھم عن السمع لمعزولون کی گویا تفسیر ہے۔ ‘ (١ ؎ بحوالہ صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة الجن۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما اھلکنا من قریۃ الا لھا مذرون ، ذکری وما کنا ظلمین (٢٠٩) اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے یہ فطری عہد لیا ہے کہ وہ صرف اس کی بندگی کریں گے اور اسے وحدہ لاشریک سمجھیں گے۔ انسان کی فطرت از خود ایک خالق کائنات کے وجود کو تسلیم کرتی ہے بشرطیکہ اس کے اندر فساد اور انحراف پیدا نہ ہوجائے۔ (پارہ ٩ ، ص ……) اور پھر اللہ نے اس کائنات میں دلائل کو ڈھیر لگا دیا۔ یہ تمام دلائل اس بات کی طرف راہنمائی کرتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق موجود ہے۔ اگر لوگ اس فطری عہد کو بھول جائیں اور دلائل ایمان پر غور نہ کریں تو پھر ان کے پاس ایک ڈرانے والا آتا ہے جو ان کو یہ فطری سبق یاد دلاتا ہے اور خواب غفلت سے ان کو جگاتا ہے۔ اس معنی میں رسالت ایک یاد دہانی اور سوئے ہئے لوگوں کو جگانے سے عبارت ہے اور یہ اللہ کا رحم و کرم ہے کہ اللہ نے اپنے اوپر پیغمبر بھیجنا لازم کردیا کہ ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک رسول نہ بھیجیں۔ جب رسول آتا ہے اور لوگ پھر بھی نہیں مانتے ، نہیں یاد کرتے اور نہیں جاگتے تو یہ ان کی ناکامی ہوتی ہے اور وہ راہ ہدایت ترک کردیتے ہیں لہٰذا عذاب حق ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم کے بارے میں ایک جدید بحث :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَمَا اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِِلَّا لَہَا مُنْذِرُوْنَ ذِکْرٰی) (اور ہم نے جتنی بھی بستیاں ہلاک کی ہیں ان سب میں نصیحت کے طور پر ڈرانے والے تھے یعنی قرآن کے مخاطبین سے پہلے بھی امتیں گزری ہیں کسی امت کو تبلیغ اور انذار کے بغیر نہیں ہلاک کیا گیا ان کی طرف ڈرانے والے بھیجے گئے انہوں نے خیر خواہی اور نصیحت کے طور پر خوب اچھی طرح توحید کی دعوت دی حق کو واضح کیا منکرین کو ڈھیل دی گئی ان پر حجت پوری ہوگئی اور ڈھیل دینے سے بھی انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو ان کو ہلاک کردیا گیا، جو لوگ قرآن مجید کے مخاطب ہیں ان لوگوں پر بھی پوری طرح حق واضح کردیا گیا ہے اور انہیں ڈھیل بھی دی جا رہی ہے لہٰذا عذاب کی طرف سے مطمئن ہو کر نہ بیٹھ جائیں (وَمَا کُنَّا ظَالِمِیْنَ ) (اور ہم ظلم کرنے والے نہیں ہیں) یعنی حقیقۃً تو اللہ تعالیٰ سے ظلم کا ظہور ہو ہی نہیں سکتا صورۃً بھی اللہ تعالیٰ سے ظلم کا صدور نہیں ہوسکتا قال صاحب الروح ای لیس شاننا ان یصدر عنا بمقتضی الحکمتہ ما ھو فی صورۃ الظلم لو صدر من غیرنا بان نھلک احدا قبل انداہ اوبان نعاقب من لم یظلم۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72:۔ تخویف دنیوی ہے۔ یعنی ہم نے اپنی حجت قائم کرنے سے پہلے کسی قوم کو ہلاک نہیں کیا۔ ہم نے ہر قوم میں دعوت توحید پیش کرنے والے اور ہمارے عذاب سے ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔ جب قوم نے مسلسل ان کی تکذیب کی تو ہم نے اس کو ہلاک کردیا۔ ہم نے کسی قوم پر ظلم نہیں کیا اور حجت قائم کرنے سے پہلے کسی قوم کو عذاب نہیں دیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(208) اور ہم نے بستیوں میں سے کسی ایسی بستی کو ہلاک نہیں کیا کہ جس میں نصیحت کی غرض سے ڈرانے والے نہ آئے ہوں۔