Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 209

سورة الشعراء

ذِکۡرٰی ۟ ۛ وَ مَا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ ﴿۲۰۹﴾

As a reminder; and never have We been unjust.

نصیحت کے طور پر اور ہم ظلم کرنے والے نہیں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And never did We destroy a township but it had its warners by way of reminder, and We have never been unjust. This is like the Ayat: وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً And We never punish until We have sent a Messenger. (17:15) وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولاً يَتْلُو عَلَيْهِمْ ايَاتِنَا وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلاَّ وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ And never will your Lord destroy the towns until He sends to their mother town a Messenger reciting to them Our Ayat. And never would We destroy the towns unless the people thereof are wrongdoers. (28:59)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2091یعنی ارسال رسل اور انزار کے بغیر اگر ہم کسی بستی کو ہلاک کردیتے تو یہ ظلم ہوتا، تاہم ہم نے ایسا ظلم نہیں کیا بلکہ عدل کے تقاضوں کے مطابق ہم نے پہلے ہر بستی میں رسول بھیجے، جنہوں نے اہل بستی کو عذاب الٰہی سے ڈرایا اور اس کے بعد جب انہوں نے پیغمبر کی بات نہیں مانی، تو ہم نے انھیں ہلاک کیا۔ یہی مضمون بنی اسرائیل۔15اور قصص۔59وغیرہ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٢] اور ہمارا ظلم یا زیادتی تو صرف اس صورت میں شمار ہوسکتا ہے جب ہم کسی قوم پر بغیر خبردار کئے یکدم عذاب نازل کردیتے جبکہ اصلی صورت حال یہ ہے کہ ہم نے ہر ہر بستی میں انبیاء بھیجے جو لوگوں کو ان کے برے انجام سے خبردار کرتے تھے اور لوگ انھیں جھٹلاتے رہے۔ اور نبیوں کو یہ کہہ کہہ کر پریشان کرتے رہے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ جلد از جلد لے کیوں نہیں آتے۔ جس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ عذاب کا وعدہ بھی سراسر جھوٹ اور فریب ہے ان باتوں کے باوجود ہم انھیں سنبھلنے کا موقع دیتے رہے۔ اور ہر ممکن طریقے سے حجت پوری کرنے کے بعد اور انھیں نصیحت کرنے کے بعد ان پر عذاب بھیجا اور اس لئے بھیجا کہ وہ ہر لحاظ سے عذاب کے مستحق ہوچکے تھے اس میں ہماری کچھ زیادتی نہیں تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذِكْرٰي۝ ٠ۣۛ وَمَا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۝ ٢٠٩ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠٩) اور ظاہرا بھی ہم ان کے ہلاک کرنے میں ظالم نہیں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٩ (ذِکْرٰیقف وَمَا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ ) ” گویا اس سلسلے میں یہ اللہ کا اٹل قانون ہے جس کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں اس طرح آیا ہے : (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ) ” اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ رسول ( علیہ السلام) نہ بھیج دیں “۔ یعنی کسی قوم پر اس وقت تک کبھی عذاب استیصال نہیں آیا جب تک انہیں خبردار کرنے کے لیے کوئی رسول ( علیہ السلام) مبعوث نہیں کردیا گیا۔ لیکن رسول ( علیہ السلام) کے اتمام حجت کرنے کے بعد بھی اگر متعلقہ قوم ایمان نہ لائی تو پھر ایسا عذاب آیا کہ صفحہ ہستی سے اس کا نام و نشان مٹا دیا گیا : (فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ط) ( الانعام : ٤٥) ” پھر ظالم قوم کی جڑ کاٹ دی گئی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

129 That is, "We could not be blamed for any injustice when they did not heed the warning and admonition of the warners and were destroyed. It would have been injustice if no effort had been made to admonish them and guide them aright prior to their destruction."

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :129 یعنی جب انہوں نے خبردار کرنے والوں کی تنبیہ اور سمجھانے والوں کی نصیحت قبول نہ کی اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا ، تو ظاہر ہے کہ یہ ہماری طرف سے ان پر کوئی ظلم نہ تھا ۔ ظلم تو اس وقت ہوتا جبکہ ہلاک کرنے سے پہلے انہیں سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوئی کوشش نہ کی گئی ہوتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:209) ذکری : ذکر یذکر کا مصدر ہے نصیحت کرنا۔ ذکر کرنا۔ یاد دلانا۔ پندو عظمت۔ ذکر سے زیادہ بلیغ ہے۔ یہ یا تو ضمیر منذرون (آیۃ 208) کا حال ہے کہ وہ پندو نصائح کرتے ہوئے انہیں (مشرکین) کو ڈراتے تھے۔ یا یہ خبر ہے جس کا مبتداء محذوف ہے ای ھذہ ذکری یہ پندو موعظت ہے بار بار ذکر کرکے متنبہ کرنا ہلاکت سے۔ اس صورت میں یہ جملہ معترضہ ہے یا منذرین کی صفت بمعنی ذو ذکری اصحاب تذکرہ و موعظت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ کہ بستی کو اس پر حجت تمام کئے بغیر تباہ کر ڈالیں بلکہ ہم اسے تباہ اس وقت کرتے ہیں جب اس پر حجت تمام ہوچکی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(209) اور ہمارا شیو ظلم کرنا نہیں ہے یعنی جس بستی پر عذاب الٰہی آیا اس سے پہلے پیغمبر آئے اور ان کو ڈرایا نصیحت کی لیکن جب نہیں مانے تو آخر کار ہلاک کردئیے گئے یعنی سمجھایا بھی گیا۔ ڈرایا بھی گیا اور سوچنے سمجھنے کا موقع بھی دیا گیا مہلت بھی ملی آخر کار عذاب بھیجا گیا کیونکہ مہلت اور عذاب میں منافات نہیں ہے جیسا کہ اوپر گذرچکا ہے اب پھر قرآن کریم کی حقانیت پر بحث ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔