Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 21

سورة الشعراء

فَفَرَرۡتُ مِنۡکُمۡ لَمَّا خِفۡتُکُمۡ فَوَہَبَ لِیۡ رَبِّیۡ حُکۡمًا وَّ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۲۱﴾

So I fled from you when I feared you. Then my Lord granted me wisdom and prophethood and appointed me [as one] of the messengers.

پھر تم سے خوف کھا کر میں تم میں سے بھاگ گیا ، پھر مجھے میرے رب نے حکم و علم عطا فرمایا اور مجھے اپنےپیغمبروں میں سے کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So, I fled from you when I feared you. But my Lord has granted me Hukm, and made me one of the Messengers. means, `the first situation came to an end and another took its place. Now Allah has sent me to you, and if you obey Him, you will be safe, but if you oppose Him, you will be destroyed.' Then Musa said: وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَايِيلَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

211یعنی پہلے جو کچھ ہوا، اپنی جگہ، لیکن اب میں اللہ کا رسول ہوں، اگر میری اطاعت کرے گا تو بچ جائے گا، بصورت دیگر ہلاکت تیرا مقدر ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی دونوں باتوں میں سے دوسری کو زیادہ ہم سمجھ کر اس کا جواب دیا اور کہا کہ میں قبطی کے قتل کا مجرم ضرور ہوں۔ لیکن میں نے یہ قتل عمداً نہیں کیا تھا۔ بلکہ نادانستہ طور پر قتل خطا واقعہ ہوگیا تھا۔ میرا قتل کا ارادہ ہرگز نہ تھا۔ نہ میں نے کوئی ایسا آلہ استعمال کیا تھا۔ جو قتل کے لئے استعمال ہوسکتا ہے میری خطا صرف اتنی ہے۔ کہ میری قوم سبطی کے ایک آدمی پر تیری قبطی قوم کا ایک آدمی زیادتی کر رہا تھا اس نے میرے سامنے فریاد کی میں نے جب دیکھا کہ زیادتی قبطی کی ہے اور سبطی مظلوم ہے تو میں نے اس مظلوم کی حمایت کرتے ہوئے قبطی کو مکہ مارا۔ اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ وہ مرگیا میں نے کسی برے ارادے سے ہرگز یہ کام نہیں کیا تھا۔ ہاں جب معلوم ہوگیا کہ مجھے سزا دینے کی تجویزیں ہو رہی ہیں تو میں نے راہ فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی تھی۔ گویا اس واقعہ میں جتنا موسیٰ (علیہ السلام) کا قصور تھا اس کا انہوں نے فرعون کے سامنے برملا اعتراف کرلیا۔ رہی یہ بات کہ اب میں پیغمبری کا دعویٰ کر رہا ہوں۔ جب کہ پہلے کبھی میں نے ایسی بات نہیں کہی تھی کہ اس کا جواب یہ ہے۔ کہ جب میں یہاں سے بھاگ کر گیا تھا تو اس کے مدتوں بعد مجھے اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی عطا فرمائی اور حکمت بھی۔ اور ساتھ ہی مجھے تمہارے پاس پہنچ کر اپنا پیغام تجھے پہنچانے کا حکم دیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ ۔۔ : یعنی اس وقت کی بات چھوڑو جب میں خطا کاروں سے تھا، حاضر وقت کی بات کرو، جو یہ ہے کہ جب میں تمہارے خوف سے تمہارے ہاں سے بھاگ گیا تو میرے رب نے مجھے حکم عطا کیا، یعنی نبوت و علم بخشا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما لیا۔ اب میں وہ موسیٰ نہیں جو خطا کاروں سے تھا، اب میں اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہوں اور تمہارے پاس اس کا پیغام لانے والا ہوں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَہَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ٢١ فر أصل الفَرِّ : الکشف عن سنّ الدّابّة . يقال : فَرَرْتُ فِرَاراً ، ومنه : فَرَّ الدّهرُ جذعا «1» ، ومنه : الِافْتِرَارُ ، وهو ظهور السّنّ من الضّحك، وفَرَّ عن الحرب فِرَاراً. قال تعالی: فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] ، وقال : فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] ، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] ، لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] ، وأَفْرَرْتُهُ : جعلته فَارّاً ، ورجل ( ف ر ر ) الفروالفرار ۔ اس کے اصل معنی ہیں جانور کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کے دانتوں کو کھولنا اسی سے فرالدھر جذعا کا محاورہ ہے یعنی زمانہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آیا ۔ اور اسی سے افترار ہے جس کے معنی ہنسنے میں دانتوں کا کھل جانا کے ہیں ۔ فر من الحرب فرار میدان کا راز چھوڑ دینا ۔ لڑائی سے فرار ہوجانا قرآن میں ہے ۔ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] تو میں تم سے بھاگ گیا ۔ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں ۔ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] لیکن میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے ۔ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] کہ اگر تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہ دے گا ۔ فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] تو تم خدا کی طرف بھاگ چلو ۔ افررتہ کسی کو بھگا دینا ۔ رجل فر وفار ۔ بھاگنے والا ۔ المفر ( مصدر ) کے معنی بھاگنا ( ظرف مکان ) جائے ۔ فرار ( ظرف زمان ) بھاگنے کا وقت چناچہ آیت ؛ أَيْنَ الْمَفَرُّ [ القیامة/ 10] کہ ( اب ) کہاں بھاگ جاؤں کے معنی تینوں طرح ہوسکتے ہیں ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ ) ” اس واقعہ کے بعد میں تم لوگوں سے ڈر کر تمہارا یہ علاقہ چھوڑ کر چلا گیا۔ (فَوَہَبَ لِیْ رَبِّیْ حُکْمًا وَّجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ) ” اب اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا ہے اور حکمت اور قوت فیصلہ کی دولت بھی عطا کی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 The word. hukm means wisdom, knowledge or authority, which is granted by Allah to a Prophet so that he may speak with confidence and power.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :17 یعنی علم و دانش اور پروانہ نبوت ۔ حکم کے معنی حکمت و دانش کے بھی ہیں ، اور اس سند اقتدار ( Authority ) کے بھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کو عطا کی جاتی ہے ، جس کی بنا پر وہ اختیار کے ساتھ بولتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے مدین چلے گئے تھے جہاں سے واپسی میں انہیں نبوت عطا ہوئی۔ تفصیلی واقعہ سورۂ قصص میں آنے والا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:21) ففررت منکم۔ ماضی واحد متکلم فر یفر فرارا ۔ ف تعقیب کا ہے پس میں بھاگ نکلا تم سے۔ لما۔ جب، جس وقت۔ یہاں حرف شرط بھی ہوسکتا ہے اور اسم ظرف بھی۔ وھب لی۔ ماضی واحد مذکر غائب وھب یھب (فتح) وھب وھبۃ مصدر اس نے بخشش کی۔ اس نے بخشا۔ حکما۔ علم و حکمت۔ نبوت۔ بوجہ مفعول منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ خلاصہ جواب یہ کہ میں پیغمبر ہی کی حیثیت سے آیا ہوں جس میں دبنے کی کوئی وجہ نہیں، اور پیغمبری اس واقعہ قتل خطا کے منافی نہیں، کیونکہ وہ خطا تو تھا، جو قادح استعداد کے بعد فعلیت مستبعد نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ اس غیر ارادی قتل کی وجہ سے مجھے تم سے خطرہ لاحق ہوا تو میں یہاں سے بھاگ نکلا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت عطا فرمائی اور مجھے زمرہ مرسلین میں داخل فرما دیا۔ اس لیے نبوت سے پہلے اگر غیر ارادی طور پر مجھ سے قتل سرزد ہوگیا تو اس کی وجہ سے اب میری نبوت پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ” حکما “ سے نبوت یا عقل و حکمت مراد ہے۔ حکما ای حکمۃ او نبوۃ (ابو السعود ج 6 ص 520) ۔ اور یہ دلائل عقلیہ کی طرف اشارہ ہے اور ” وجعلنی من المرسلین “ یہ دلائل نقلیہ اور دلائل وحی کی طرف اشارہ ہے یعنی میں اللہ کی طرف سے جو پیغام اور دعوی لے کر آیا ہوں اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مجھے تینوں قسم کے دلائل بھی عطا فرمائے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) سو جب مجھ کو تم سے خوف وہ خطرہ محسوس ہوا تو میں تمہارے ہاں سے فرار ہوگیا پھر میرے پروردگار نے مجھ کو حکمت اور دانش مندی عطا فرمائی اور مجھ کو پیغام بروں میں سے کردیا۔