Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 22

سورة الشعراء

وَ تِلۡکَ نِعۡمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنۡ عَبَّدۡتَّ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۲۲﴾

And is this a favor of which you remind me - that you have enslaved the Children of Israel?"

مجھ پر تیرا کیا یہی وہ احسان ہے؟ جسے تو جتا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And this is the past favor with which you reproach me, -- that you have enslaved the Children of Israel. meaning, `whatever favors you did in bringing me up are offset by the evil you did by enslaving the Children of Israel and using them to do your hard labor. Is there any comparison between your favors to one man among them and the evil you have done to all of them What you have me... ntioned about me is nothing compared to what you have done to them.'   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221یعنی یہ اچھا احسان ہے جو تو مجھے جتلا رہا ہے کہ مجھے تو یقینا تو نے غلام نہیں بنایا اور آزاد چھوڑے رکھا لیکن میری پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس ظلم عظیم کے مقابلے میں اس احسان کی آخر حیثیت کیا ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] اور تمہاری ہلی بات کا جواب یہ ہے کہ میرے تمہارے ہاں پرورش پانے کا سبب تو یہی چیز بنی تھی کہ تم لوگ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو زندہ نہیں رہنے دیتے تھے۔ اور انھیں ذبح کر ڈالے تھے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو میری ماں کیوں مجھے تابوت میں بند کرکے سمندر میں ڈال دیتی۔ پھر وہی تابوت اللہ کی قدرت سے تمہارے پ... اس پہنچ گیا۔ اگر تم نے بنی اسرائیل پر ایسے مظالم نہ ڈھائے ہوتے تو کیا میرے والدین میری پرورش نہ کرسکتے تھے ؟ میری پرورش کے احسان کی آڑ میں اپنے سال ہا سال کے مظالم کو چھپانا چاہتے ہو ؟ بنی اسرائیل کو انھیں مظالم اور تمہاری غلامی سے نجات دلانے کے لئے اللہ رب العالمی نے تو مجھے پیغمبر بنا کر تمہارے ہاں بھیجا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ ۔۔ : یہ اس کے پہلے طعن کا جواب ہے، یعنی آج تو مجھ پر یہ احسان کیسے جتلا سکتا ہے کہ تو نے اپنے گھر میں رکھ کر میری پرورش کی، حالانکہ اس کا سبب تیرا ظلم و ستم تھا۔ اگر تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر ان کے بیٹوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع نہ کر رکھا ہوتا تو میں اپن... ے گھر میں پرورش پاتا، میری والدہ کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ مجھے صندوق میں بند کرکے دریا میں بہاتی اور اس طرح میں تیرے گھر پہنچ جاتا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتِلْكَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَيَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝ ٢٢ ۭ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والن... ِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ منن والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] والثاني : أن يكون ذلک بالقول، وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، ( م ن ن ) المن المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔ اور دوسرے معنی منۃ بالقول یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔ عبد ( غلام) والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» «1» ، وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى «2» ، وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ قسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) اے فرعون یہ وہ نعمت ہے جس کا تو احسان جتا رہا ہے اور میرے اوپر جو تم نے زیادتی کی ہے اس کو یاد نہیں کرتے کہ تم نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت میں ڈال رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ) ” ان الفاظ کے تیور بتا رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کو ترکی بہ ترکی جواب دے رہے تھے کہ اپنے محل میں ایک اسرائیلی بچے کی پرورش کرنے کا تمہارا احسان کیا تمہیں یہ جواز فراہم کرتا ہے کہ تم پوری بنی اسرائ... یل قوم کو اپنا غلام بنائے رکھو ؟ میری پرورش کرنے کا کارنامہ تو تمہیں بر وقت یاد آگیا لیکن میری قوم کو جو تم نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑرکھا ہے ‘ اس کا کوئی تذکرہ تم نے نہیں کیا۔ یہاں عَبَّدْتَّٰکا لفظ لائق توجہ ہے۔ ” تَعْبِید “ کے معنی کسی کو غلام اور فرمانبردار بنا لینے کے ہیں۔ اسی سیاق وسباق میں ایک دوسری جگہ فرعون کا یہ فقرہ اس لفظ ‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتا ہے : (وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ) (المؤمنون) ” اور ان دونوں کی قوم تو ہماری غلام ہے ! “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 That is, "If you had not been unjust and cruel to the Israelites. I should not have been brought to your house for upbringing. It was only on account of your barbarism that my mother put me in a basket and cast it into the river. Had it not been so, I should have been happily brought up in my own house. Therefore, it dces not behove you to remind me of your favour of bri nging me up in your hou... se."  Show more

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :18 یعنی تیرے گھر میں پرورش پانے کے لیے میں کیوں آتا اگر تو نے بنی اسرائیل پر ظلم نہ ڈھایا ہوتا ۔ تیرے ہی ظلم کی وجہ سے تو میری ماں نے مجھے ٹوکری میں ڈال کر دریا میں بہایا تھا ۔ ورنہ کیا میری پرورش کے لیے میرا اپنا گھر موجود نہ تھا ؟ اس لیے اس پرورش کا احسان جتانا تجھے...  زیب نہیں دیتا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

ّ (26:22) تمنھا : من یمن منا (نصر) سے صیغہ واحد مذکر حاضر ہے علی کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ہیں کسی کو کوئی احسان جتلانا ھا ضمیر واحد مؤنث غائب نعمۃ کی طرف راجع ہے۔ ان بمعنی لان ہے ۔ ای انما صارت نعمۃ علی لان عبدت بنی اسرائیل لولم تفعل ذلک لکفلنی اہلی ولم یلقونی فی الیم یہ جو احسان تم مجھے جتلاتے ... ہو یہ سبب اس امر کے ہیں کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے اگر تو ایسا نہ کرتا تو میرے اہل خانہ میری کفالت خود کرتے اور مجھے دریا میں نہ ڈالتے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جو تو مجھ پر احسان جتلا رہا ہے یہ سب بوجہ تمہارے بنی اسرائیل کو غلامی کی سخت بندھنوں میں جکڑنے اور ان پر مظالم ڈھانے کے ہے اگر تو اسرائیل کے معصوم بچوں کو قتل کرنے کا سفاکانہ قانون نافذ کرتا تو میری ماں مجھے دریا میں کیوں ڈالتی اور مجھے تیرے گھر میں پرورش پانے کی ضرورت کہاں آتی اور پھر تیرے اس بزعم خود احسان کا کیا موقع تھا۔ فائدہ : پچھلی آیت میں ففررت منکم اور لما خفتکم میں جمع مذکر حاضر کا صیغہ استعمال ہوا ہے کیونکہ فرار اور خوف صرف فرعون ہی سے نہ تھا بلکہ اس سے اور اس کے سرداروں سے تھا جس کے متعلق خبر دینے والے نے بتایا تھا قال یموسی ان الملا یاتمرون بل لیقتلون 280:20) اس نے بتایا اے موسیٰ سردار لوگ سازش کر رہے ہیں آپ کے بارے میں کہ آپ کو قتل کر ڈالیں۔ آیت 22 میں تمنھا اور عبدت کا عمل فرعون کی ذات سے مختص ہے اس لئے یہاں واحد مذکر حاضر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یعنی آج تو مجھ پر یہ احسان کیسے جتلا سکتا ہے کہ تو نے اپنے گھر میں رکھ کر میری پرورش کی حالانکہ اس کا سبب خود تیرا ظلم و ستم تھا۔ اگر تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر ان کے بیٹوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع نہ کر رکھا ہوتا تو میں اپنے گھر میں پرورش پاتا۔ میری والدہ کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ مجھے صن... دوق میں بند کر کے دریا میں بہاتی اور اس طرح میں تیرے گھر پہنچ جاتا۔ علمائے تفسیر (رح) نے اس آیت کی اور بھی بہت سی تشریحات بیان کی ہیں۔ (قرطبی۔ شوکانی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ کہ ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا جس کے خوف سے میں صندوق میں رکھ کردیا میں ڈالا گیا اور تیرے ہاتھ لگ گیا، اور تیری پرورش میں رہا، تو اس پرورش کی اصلی وجہ تو تیرا ظلم ہی ہے، تو ایسی پرورش کا کیا احسان جتلایا اجتا ہے بلکہ اس سے تو اپنی ناشائستہ حرکات کو یاد کر کے شرمانا چاہئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ یہ پہلے اعتراض کا جواب ہے . ای عبدت ای بان عبدت یہ ماقبل کا سبب ہے یعنی یہ تیرا کوئی احسان نہیں، اس لیے کہ تو نے میری قوم کو ذلیل و رسواکر رکھا تھا، تو ان پر ظلم وستم کرتا تھا۔ تو میری قوم کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کردیتا تھا اس لیے تو نے ظلم وعدوان سے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ میرے والدین میری ت... ربیت نہ کرسکے اگر تیرا یہ ظلم وجور نہ ہوتا تو میری پرورش میرے ماں باپ ہی کرتے۔ بین ان حقیقۃ انعامہ علیہ تعبید بنی اسرائیل لان تعبیدھم وقصدھم بذبح ابناءھم ھو السبب فی حصولہ عندہ و تربیتہ ولو ترکھم لرباہ ابواہ (مدارک ج 3 ص 138) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) اور وہ احسان جو تو مجھ پر رکھ رہا ہے اور مجھ کو جتا رہا ہے وہ یہی ہے کہ تو نے تمام بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے یعنی بظاہر احسان بتارہا ہے حالانکہ تو نے تمام بنی اسرائیل کو اتنہائی ذلت اور مظالم میں گرفتار کر رکھا ہے۔