143 That is, they follow no fixed pattern for their thought and speech. but wander aimlessly in every valley. Every new impulse makes them take up a new theme regardless as to whether it has any truth in it or not. Under one momentary impulse they would start uttering wise things; under another they would give expression to filthy and base feelings. If they felt pleased with somebody, they would exaggerate his praises, and if they felt offended by him, they would condemn him and run him down to hell. If they had a selfish motive, attached with somebody, they would feel no hesitation in giving preference to a miserly person over a generous person and to a cowardly person over a gallant person. On the contrary, if they felt displeased with somebody, they would not feel any shame in blotting his character and ridiculing him and his ancestors. That is why, one can tied God-worship and atheism, materialism and spiritualism, morality and immorality, piety and filthiness, seriousness and jesting, eulogy and satire expressed side by side in the poetry of one and the same poet. A person who is aware of these well known characteristics of the poets cannot reconcile himself to charging the recipient of the Qur'an with poetry, whose every discourse and word is clear and precise, whose objective is clearly defined, and who has never in his life uttered a word deviating in any way from the path of truth, righteousness and virtue.
At another place in the Qur'an, it has been stated that poetry is not suited to the temperament of the Holy Prophet: "We have not taught him poetry, nor dces it suit him." (Ya Sin: 69). And this fact was fully known to the people wao had any personal acquaintance with the Holy Prophet. Authentic Traditions show that he could not recite a complete verse from memory. If ever during conversation he remembered of a good verse of some poet, he would recite it without much care and regard for its metre and order of words.
Once Hadrat `A'ishah was asked whether the Holy Prophet ever made use of poetic verses in his discourses. She replied that he hated poetic verses the most, though sometimes he would recite a verse of a poet of Bani Quais, but in so doing he would unconsciously change the order of its words. When Hadrat Abu Bakr corrected him, he would say, "Brother, I am not a poet, nor composing poetry is my object. " Arabic poetry abounded in themes of sex and love romances, winedrinking, tribal hatreds and feuds, ancestry pride and vanity and made little or no mention of pure and noble themes. It was so saturated with falsehood, exaggeration, false accusations, undue praise , vanity, satiric invectives, jesting and polytheistic obscenities that the Holy Prophet once remarked: "It is better that the interior of one of you be filled with pus than with poetic verses" However, if there was something good in a verse, he would appreciate it, and say, "Some verses are based on wisdom." When he heard the verses of Umayyah bin Abi-Salt, he said, "His verse is a believer but his heart a disbeliever." Once a Companion recited a hundred or so good verses before him, and he went on urging him to recite more.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :143
یعنی کوئی ایک متعین راہ نہیں ہے جس پر وہ سوچتے اور اپنی قوت گویائی صرف کرتے ہوں ، بلکہ ان کا تو سَنِ فکر ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے اور جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رَو ان کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے جسے سوچنے اور بیان کرنے میں اس بات کا کوئی لحاظ سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ یہ بات حق اور صدق بھی ہے ۔ کبھی ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں اور کبھی دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہو گیا ۔ کبھی کسی سے خوش ہوئے تو اسے آسمان پر چڑھا دیا اور کبھی بگڑ بیٹھے تو اسی کو تحت الثریٰ میں جا گرایا ۔ ایک بخیل کو حاتم اور ایک بزدل کو رستم و اسفندیار پر فضیلت دینے میں انہیں ذرا تامل نہیں ہوتا اگر اس سے کوئی غرض وابستہ ہو ۔ اس کے برعکس کسی سے رنج پہنچ جائے تو اس کی پاک زندگی پر دھبہ لگانے اور اس کی عزت پر خاک پھینکنے میں ، بلکہ اس کے نسب پر طعن کرنے میں بھی ان کو شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ خدا پرستی اور دہریت ، مادہ پرستی اور روحانیت ، حسن اخلاق اور بد اخلاقی ، پاکیزگی اور گندگی ، سنجیدگی اور ہزل ، قصیدہ اور ہجو سب کچھ ایک ہی شاعر کے کلام میں آپ کو پہلو بہ پہلو مل جائے گا ۔ شعراء کی ان معروف خصوصیات سے جو شخص واقف ہو اس کے دماغ میں آخر یہ بے تکی بات کیسے اتر سکتی ہے کہ اس قرآن کے لانے والے پر شاعری کی تہمت رکھی جائے جس کی تقریر جچی تلی ، جس کی بات دو ٹوک ، جس کی راہ بالکل واضح اور متعین ہے اور جس نے حق اور راستی اور بھلائی کی دعوت سے ہٹ کر کبھی ایک کلمہ بھی زبان سے نہیں نکالا ہے ۔
قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ آپ کے مزاج کو تو شاعری کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے : وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ، ( یٰسٓ ۔ آیت 69 ) ہم نے اس کو شعر نہیں سکھایا ہے نہ یہ اس کے کرنے کا کام ہے ۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت تھی کہ جو لوگ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذاتی واقفیت رکھتے تھے وہ سب اسے جانتے تھے ۔ معتبر روایات میں آیا ہے کہ کوئی شعر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا یاد نہ تھا ۔ دوران گفتگو میں کبھی کسی شاعر کا کوئی اچھا شعر زبان مبارک پر آتا بھی تو غیر موزوں پڑھ جاتے تھے ، یا اس میں الفاظ کا الٹ پھیر ہو جاتا تھا ۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوران تقریر میں آپ نے شاعر کا مصرعہ یوں نقل کیا :
کفی بالا سلام و الشیب للمرء ناھیا
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ اصل مصرع یوں ہے :
کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا
ایک مرتبہ عباس بن مرداس سُلَمی سے آپ نے پوچھا ، کیا تم ہی نے یہ شعر کہا ہے :
اتجعل نھبی و نھب العبید و بین الاقرع و عیینہ
انہوں نے عرض کیا آخری فقرہ یوں نہیں ہے بلکہ یوں ہے بین عُیَیْنَۃَ والاقرء ۔ آپ نے فرمایا معنی میں تو دونوں یکساں ہیں ۔
حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اشعار بھی اپنی تقریروں میں استعمال فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا شعر سے بڑھ کر آپ کو کسی چیز سے نفرت نہ تھی ۔ البتہ کبھی کبھار بنی قیس کے شاعر کا ایک شعر پڑھتے تھے مگر اول کو آخر اور آخر کو اول پڑھ جاتے تھے ۔ حضرت ابو بکر عرض کرتے یا رسول اللہ یوں نہیں بلکہ یوں ہے ، تو آپ فرماتے کہ بھائی میں شاعر نہیں ہوں اور نہ شعر گوئی میرے کرنے کا کام ہے جس قسم کے مضامین سے عرب کی شاعری لبریز تھی وہ یا تو شہوانیت اور عشق بازی کے مضامین تھے ، یا شراب نوشی کے ، یا قبائلی منافرت اور جنگ و جدل کے ، یا نسلی فخر و غرور کے ۔ نیکی اور بھلائی کی باتیں ان میں بہت ہی کم پائی جاتی تھیں ۔ پھر جھوٹ ، مبالغہ ، بہتان ، ہجو ، بے جا تعریف ، ڈینگیں ، طعن ، پھبتیاں ، اور مشرکانہ خرافات تو اس شاعری کی رگ رگ میں پیوست تھیں ۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اس شاعری کے متعلق یہ تھی کہ : لان یمتلئ جوف احد کم قیحا خیر لہ من ان یمتلئ شعراً ، تم میں سے کسی شخص کا خول پیپ سے بھر جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے ۔ تا ہم جس شعر میں کوئی اچھی بات ہوتی تھی آپ اس کی داد بھی دیتے تھے اور آپ کا ارشاد تھا کہ : ان من الشعر لحکمۃ ۔ بعض اشعار حکیمانہ ہوتے ہیں ۔ امیہ ین ابی الصَّلْت کا کلام سن کر آپ نے فرمایا : اٰمن شعرہ و کفر قلبہ ۔ اس کا شعر مومن ہے مگر اس کا دل کافر ہے ۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سو ( 100 ) کے قریب عمدہ عمدہ اشعار آپ کو سنائے اور آپ فرماتے گئے اور سناؤ ۔