Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 225

سورة الشعراء

اَلَمۡ تَرَ اَنَّہُمۡ فِیۡ کُلِّ وَادٍ یَّہِیۡمُوۡنَ ﴿۲۲۵﴾ۙ

Do you not see that in every valley they roam

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

See you not that they speak about every subject in their poetry! Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas that this means: "They indulge in every kind of nonsense." Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas said, "They engage in every kind of verbal art." This was also the view of Mujahid and others. وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لاَأ يَفْعَلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٥] ان دو آیات میں شاعروں کی دو خصلتیں بیان فرمائیں ایک یہ کہ ان کے کلام میں تخیل ہی تخیل اور غلو کی حد تک پہنچائیں مبالغہ ہوتا ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔ مثلاً کسی کی تعریف کرنے بیٹھے تو اسے آسمان پر چرھا دیا کسی کی ہجو پر آئے تو اسے دنیا کی بدترین مخلوق بنا کر پیش کردیا۔ پھر اگر کسی سے کچھ انعام و اکرام مل گیا تو اس کی مدح سرائی شروع کردی۔ کسی کی پگڑی اچھالی۔ کہیں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائی اور عشق لگائے بغیر تو کسی شاعر کی شاعری مکمل ہی نہیں ہوتی۔ کہیں محبوبہ سے شکایتیں ہیں، تو کہیں رقبیوں پر برس رہے ہیں، دور اذکار استعاروں اور تشبیہات کا استعمال اور اپنی ثناخوانیاں جن میں حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی میدان ایسا نہیں جن میں یہ اپنے تخیل کے گھوڑے نہ دوڑاتے ہوں اور سر نہ پھٹکتے پھرتے ہوں۔ ان کی زندگی کا نہ کوئی متعین مقصد ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی اصول کے پابند ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ : یہ شاعروں کی دوسری خصوصیت ہے جو یہاں بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب انھیں کوئی خیال آتا ہے اسے اچھوتے انداز میں شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں، انھیں اس سے غرض نہیں کہ وہ رحمانی ہے یا شیطانی، روحانی ہے یا نفسانی، اس سے خیر کے جذبات پیدا ہوں گے یا شر کے۔ کبھی کسی کی تعریف کرکے اسے آسمان پر چڑھا دیتے ہیں اور کبھی کسی کی ہجو اور مذمت کرکے اسے آسمان سے زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ ایک شعر سے معلوم ہوگا کہ شاعر ولی ہے جب کہ دوسرے شعر سے پتا چلے گا کہ وہ شیطان ہے۔ ایک ہی سانس میں وہ نیکی اور بدی دونوں کی باتیں بےتکلف کہہ دے گا، لیکن کہے گا ایسے مؤثر اور دلکش انداز میں کہ سننے والے ان دونوں سے متاثر ہوجائیں گے، لیکن نفس انسانی کو چونکہ نیکی کے بجائے بدی کی باتیں ہی عموماً مرغوب ہوتی ہیں، اس لیے شاعر کے چھوڑے ہوئے بدی والے اثرات و نقوش تو قائم رہتے ہیں، مگر نیکی کے اثرات غائب ہوجاتے ہیں اور اس طرح ان کا کلام ” وَاِثْمُھَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا “ کا مصداق بن جاتا ہے۔ (تفسیر مدنی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ ٢٢٥؀ۙ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ وادي قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه/ 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء/ 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد/ 17] أي : بقَدْرِ مياهها . ( و د ی ) الوادی ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه/ 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔ هيم يقال : رجل هَيْمَانُ ، وهَائِمٌ: شدید العطش، وهَامَ علی وجهه : ذهب، وجمعه : هِيمٌ ، قال تعالی: فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] والْهُيَامُ : داء يأخذ الإبل من العطش، ويضرب به المثل فيمن اشتدّ به العشق، قال : أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء/ 225] أي : في كلّ نوع من الکلام يغلون في المدح والذّمّ ، وسائر الأنواع المختلفات، ومنه : الْهَائِمُ علی وجهه المخالف للقصد الذاهب علی وجهه، وهَامَ : ذهب في الأرض، واشتدّ عشقه، وعطش، والْهِيمُ : الإبل العطاش، وکذلک الرّمال تبتلع الماء، والْهِيَامُ من الرمل : الیابس، كأنّ به عطشا . ( ھ ی م ) رجل ھیمان وھائم سخت پیاسا آدمی ھائم کی جمع ھیم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیوگے بھی تو اس طرح جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الھیام اونٹ کی ازیک بیماری ہے جس کی وجہ سے اسے پیاس اتنی پیاس لگتی ہے کہ سیر نہیں ہوتا ۔ اور شوریدگیعشق کے لئے یہ کلمہ ضرب المثل ہے ۔ ھام علیٰ وجھتہ سر گردان پھرنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء/ 225] کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سرمارتے پھرتے ہیں ۔ یعنی مدح مذم وغیرہ ہر قسم کے موضوع سخن میں وہ مبالغہ آمیز ی سے کام لیتے ہیں اور اسی سے الھائم علٰی وجھہ ہے جس کے معنی سر گردان پھرنے کے بھی آتے ہیں ۔ اور شوریدہ عشق اور پیاسا ہونے کے بھی اور ھیم کے معنی پیاسا اونٹوں کے ہیں اور خشک ریت بھی چونکہ پیاسے اونٹوں کی طرح پانی نگل لیتی ہے اسلئے خشک ریت کو الھیام کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢٥۔ ٢٢٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ شاعر لوگ خیالی مضامین کے ہر میدان میں حیران ٹکریں مارتے ہوئے مضامین کی تلاش میں پھرا کرتے ہیں کہ کسی کی تعریف کردی تو کسی کی برائی کردی اور وہ زبان سے ایسی باتیں کرتے اور آسمان کے قلابے ملاتے اور شیخیاں بگھارتے ہیں کہ جن کو وہ کر بھی نہیں سکتے اور ایسا شاعر اور اس کی راہ پر چلنے والا دونوں گمراہ ہیں۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ والشعرآء یتبعھم الغاون “۔ (الخ) نیز ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے عوفی کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں دو شخصوں نے ایک دوسرے کی برائی کی ایک تو ان میں سے انصاری تھا اور دوسرا دوسری قوم کا تھا اور ہر ایک کے ساتھ اس کی قوم کے بیوقوفوں کی جماعت تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، نیز ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے اور عروہ (رح) سے روایت کیا گیا ہے کہ جب ( آیت) ” والشعرآء “۔ مالا یفعلون “۔ تک یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز بتادی کہ میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ہوں، اس پر ( آیت) ” الا الذین امنوا “۔ سے آخری سورت تک یہ آیات نازل ہوئیں۔ اور ابن جریر (رح) اور حاکم نے ابو حسن براد سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت ”۔ والشعرآء “۔ نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) ، حضرت کعب بن مالک (رض) اور حضرت حسان بن ثابت (رض) حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم شاعر ہیں تو ہم تو ہلاک ہوگئے اس پر اللہ تعالیٰ نے ( آیت) ” الا الذین امنوا “۔ والی آیت نازل فرمائی چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر ان لوگوں کو بلا کر ان کو یہ آیت سنا دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٥ (اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ ) ” غزل کے ایک شعر میں شاعر لوگ مشرق کی بات کرتے ہیں تو دوسرے میں مغرب کی۔ ایک مصرعے میں اپنی آسمان کی سیر کا ذکر کرتے ہیں تو دوسرے میں زمین پر آکر صحرا نوردی کرتے نظر آتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

143 That is, they follow no fixed pattern for their thought and speech. but wander aimlessly in every valley. Every new impulse makes them take up a new theme regardless as to whether it has any truth in it or not. Under one momentary impulse they would start uttering wise things; under another they would give expression to filthy and base feelings. If they felt pleased with somebody, they would exaggerate his praises, and if they felt offended by him, they would condemn him and run him down to hell. If they had a selfish motive, attached with somebody, they would feel no hesitation in giving preference to a miserly person over a generous person and to a cowardly person over a gallant person. On the contrary, if they felt displeased with somebody, they would not feel any shame in blotting his character and ridiculing him and his ancestors. That is why, one can tied God-worship and atheism, materialism and spiritualism, morality and immorality, piety and filthiness, seriousness and jesting, eulogy and satire expressed side by side in the poetry of one and the same poet. A person who is aware of these well known characteristics of the poets cannot reconcile himself to charging the recipient of the Qur'an with poetry, whose every discourse and word is clear and precise, whose objective is clearly defined, and who has never in his life uttered a word deviating in any way from the path of truth, righteousness and virtue. At another place in the Qur'an, it has been stated that poetry is not suited to the temperament of the Holy Prophet: "We have not taught him poetry, nor dces it suit him." (Ya Sin: 69). And this fact was fully known to the people wao had any personal acquaintance with the Holy Prophet. Authentic Traditions show that he could not recite a complete verse from memory. If ever during conversation he remembered of a good verse of some poet, he would recite it without much care and regard for its metre and order of words. Once Hadrat `A'ishah was asked whether the Holy Prophet ever made use of poetic verses in his discourses. She replied that he hated poetic verses the most, though sometimes he would recite a verse of a poet of Bani Quais, but in so doing he would unconsciously change the order of its words. When Hadrat Abu Bakr corrected him, he would say, "Brother, I am not a poet, nor composing poetry is my object. " Arabic poetry abounded in themes of sex and love romances, winedrinking, tribal hatreds and feuds, ancestry pride and vanity and made little or no mention of pure and noble themes. It was so saturated with falsehood, exaggeration, false accusations, undue praise , vanity, satiric invectives, jesting and polytheistic obscenities that the Holy Prophet once remarked: "It is better that the interior of one of you be filled with pus than with poetic verses" However, if there was something good in a verse, he would appreciate it, and say, "Some verses are based on wisdom." When he heard the verses of Umayyah bin Abi-Salt, he said, "His verse is a believer but his heart a disbeliever." Once a Companion recited a hundred or so good verses before him, and he went on urging him to recite more.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :143 یعنی کوئی ایک متعین راہ نہیں ہے جس پر وہ سوچتے اور اپنی قوت گویائی صرف کرتے ہوں ، بلکہ ان کا تو سَنِ فکر ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے اور جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رَو ان کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے جسے سوچنے اور بیان کرنے میں اس بات کا کوئی لحاظ سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ یہ بات حق اور صدق بھی ہے ۔ کبھی ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں اور کبھی دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہو گیا ۔ کبھی کسی سے خوش ہوئے تو اسے آسمان پر چڑھا دیا اور کبھی بگڑ بیٹھے تو اسی کو تحت الثریٰ میں جا گرایا ۔ ایک بخیل کو حاتم اور ایک بزدل کو رستم و اسفندیار پر فضیلت دینے میں انہیں ذرا تامل نہیں ہوتا اگر اس سے کوئی غرض وابستہ ہو ۔ اس کے برعکس کسی سے رنج پہنچ جائے تو اس کی پاک زندگی پر دھبہ لگانے اور اس کی عزت پر خاک پھینکنے میں ، بلکہ اس کے نسب پر طعن کرنے میں بھی ان کو شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ خدا پرستی اور دہریت ، مادہ پرستی اور روحانیت ، حسن اخلاق اور بد اخلاقی ، پاکیزگی اور گندگی ، سنجیدگی اور ہزل ، قصیدہ اور ہجو سب کچھ ایک ہی شاعر کے کلام میں آپ کو پہلو بہ پہلو مل جائے گا ۔ شعراء کی ان معروف خصوصیات سے جو شخص واقف ہو اس کے دماغ میں آخر یہ بے تکی بات کیسے اتر سکتی ہے کہ اس قرآن کے لانے والے پر شاعری کی تہمت رکھی جائے جس کی تقریر جچی تلی ، جس کی بات دو ٹوک ، جس کی راہ بالکل واضح اور متعین ہے اور جس نے حق اور راستی اور بھلائی کی دعوت سے ہٹ کر کبھی ایک کلمہ بھی زبان سے نہیں نکالا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ آپ کے مزاج کو تو شاعری کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے : وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ، ( یٰسٓ ۔ آیت 69 ) ہم نے اس کو شعر نہیں سکھایا ہے نہ یہ اس کے کرنے کا کام ہے ۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت تھی کہ جو لوگ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذاتی واقفیت رکھتے تھے وہ سب اسے جانتے تھے ۔ معتبر روایات میں آیا ہے کہ کوئی شعر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا یاد نہ تھا ۔ دوران گفتگو میں کبھی کسی شاعر کا کوئی اچھا شعر زبان مبارک پر آتا بھی تو غیر موزوں پڑھ جاتے تھے ، یا اس میں الفاظ کا الٹ پھیر ہو جاتا تھا ۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوران تقریر میں آپ نے شاعر کا مصرعہ یوں نقل کیا : کفی بالا سلام و الشیب للمرء ناھیا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ اصل مصرع یوں ہے : کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا ایک مرتبہ عباس بن مرداس سُلَمی سے آپ نے پوچھا ، کیا تم ہی نے یہ شعر کہا ہے : اتجعل نھبی و نھب العبید و بین الاقرع و عیینہ انہوں نے عرض کیا آخری فقرہ یوں نہیں ہے بلکہ یوں ہے بین عُیَیْنَۃَ والاقرء ۔ آپ نے فرمایا معنی میں تو دونوں یکساں ہیں ۔ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اشعار بھی اپنی تقریروں میں استعمال فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا شعر سے بڑھ کر آپ کو کسی چیز سے نفرت نہ تھی ۔ البتہ کبھی کبھار بنی قیس کے شاعر کا ایک شعر پڑھتے تھے مگر اول کو آخر اور آخر کو اول پڑھ جاتے تھے ۔ حضرت ابو بکر عرض کرتے یا رسول اللہ یوں نہیں بلکہ یوں ہے ، تو آپ فرماتے کہ بھائی میں شاعر نہیں ہوں اور نہ شعر گوئی میرے کرنے کا کام ہے جس قسم کے مضامین سے عرب کی شاعری لبریز تھی وہ یا تو شہوانیت اور عشق بازی کے مضامین تھے ، یا شراب نوشی کے ، یا قبائلی منافرت اور جنگ و جدل کے ، یا نسلی فخر و غرور کے ۔ نیکی اور بھلائی کی باتیں ان میں بہت ہی کم پائی جاتی تھیں ۔ پھر جھوٹ ، مبالغہ ، بہتان ، ہجو ، بے جا تعریف ، ڈینگیں ، طعن ، پھبتیاں ، اور مشرکانہ خرافات تو اس شاعری کی رگ رگ میں پیوست تھیں ۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اس شاعری کے متعلق یہ تھی کہ : لان یمتلئ جوف احد کم قیحا خیر لہ من ان یمتلئ شعراً ، تم میں سے کسی شخص کا خول پیپ سے بھر جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے ۔ تا ہم جس شعر میں کوئی اچھی بات ہوتی تھی آپ اس کی داد بھی دیتے تھے اور آپ کا ارشاد تھا کہ : ان من الشعر لحکمۃ ۔ بعض اشعار حکیمانہ ہوتے ہیں ۔ امیہ ین ابی الصَّلْت کا کلام سن کر آپ نے فرمایا : اٰمن شعرہ و کفر قلبہ ۔ اس کا شعر مومن ہے مگر اس کا دل کافر ہے ۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سو ( 100 ) کے قریب عمدہ عمدہ اشعار آپ کو سنائے اور آپ فرماتے گئے اور سناؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

52: یہ کفار کی دوسری بات کی تردید ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاذاللہ شاعر ہیں اور قرآن کریم شاعری کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شاعری تو ایک تخیلاتی چیز ہے جس کا بسا اوقات حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا، چنانچہ وہ اپنی خیالی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں، طرح طرح کے مبالغے کرتے ہیں اور تشبیہات اور استعاروں میں حد سے گزر جاتے ہیں، اس لئے جو لوگ شاعری ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں، ان کو کوئی بھی اپنا دینی پیشوا نہیں بناتا، اور اگر کوئی ان کو اپنا مقتدا بناتا بھی ہے تو وہ جو خود گمراہ ہو، اور حقیقت کے بجائے خیالی دنیا میں رہنا چاہتا ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢٥ تا ٢٢٦۔ معتبر سند سے ادت مضرد بخاری مستدرک حاکم تفسیر ابن ابی حاتم میں جو شان نزول ان آیتوں کو حضرت عبداللہ بن عباس وغیرہ کی روایت ٢ ؎ سے بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ عرب میں دو قبیلوں کے لوگوں میں کچھ مخالفت ہوجاتی تھی تو ایک شاعر ایک قبیلہ کی طرف ہوجاتا تھا اور دوسرا شاعر دوسرے قبیلہ کی طرف اور ہجو کے قصیدے دونوں طرف سے ہوا کرتے تھے اور جس طرح اس زمانہ کے شاعر فارسی اور اردو میں فرضی اور جھوٹے مضمون باندھتے ہیں اسی طرح ایک طرف کا شاعر دوسری طرف کے لوگوں کی صحیح اور غلط ہجو کیا کرتا تھا اور قبیلہ کے لوگ اپنی طرف والے شاعر کے ساتھ بن جایا کرتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے شاعروں کی مذمت نازل فرمائی تو حسان بن ثابت اور عبداللہ بن رواحہ اور کعب بن مالک (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس روتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ حضرت ہم لوگ بھی شاعر ہیں ہم سے بھی اللہ تعالیٰ ناخوش ہوگا اس پر اللہ تعالیٰ نے آخر کا حصہ ان آیتوں کا نازل فرمایا اور مستثنے کے طور پر فرماد یا کہ مسلمانوں میں کے یہ شاعر لوگ جو اسلام کی ہجو کا جواب دیتے ہیں اور اسلام کی مدح میں سچے مضمون باندھتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ ناخوش نہیں ہے شعر کا شریعت میں اب بھی یہی حکم ہے جھوٹے مضمون کے شعروں کو جس طرح شاعر لوگ خال وخط کی جھوٹی تعریفوں میں دفتر کے دفتر سیاہ کرتے ہیں اور ہر طرح کے مضمون اور قافیہ کی تلاش میں ایسے سرگرداں رہتے ہیں جیسے جنگل میں کوئی راستہ بھولا ہوا آدمی بھٹکتا پھرتا ہے اسی طرح کے شعروں کو آپ نے صحیحین کی ابوہریرہ (رض) ایک روایت ١ ؎ میں یہ فرمایا ہے کہ اس طرح کے مضمون دل میں رکھنے سے پیپ لہو پیٹ میں بھرنا بہتر ہے اور سچے مضمون حمد وثنا اور نصیحت دینی کے شعروں کو صحیح بخاری کی ابو بن کعب (رض) ٢ ؎ اور ابوداؤد (رح) کی حضرت ابن عباس (رض) کی روایت ٣ ؎ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اور ابوداؤد (رح) کی حضرت ابن عباس (رض) کی روایت ٣ ؎ ہیں یہ حکمت آمیز کلام ہے وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا کی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اہل سلام کے ہجو کے جواب کی فرمائی ہے صحیح بخاری ومسلم میں براء بن العازب (رض) کی جو حدیث ٤ ؎ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسان بن ثابت (رض) سے فرمایا کہ تم مشرکوں کے شعروں کا جواب دو جبرئیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے تمہاری مدد کو موجود ہیں اس حدیث سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ “ (٢ ؎ پوری تفصیل تفسیرا بن کثیر اور تفسیر الدر المنثور میں ملاحظہ فرمایے زیر تفسیر آیت ہذا۔ ) (١ ؎ مشکوۃ باب البیان والشعر ‘ ) ہے (٢ ؎ ایضا مشکوۃ ‘ ) ٣ ؎ مشکوٰۃ ایضا لیکن روایت عبداللہ بن بریدہ ) (٤ ؎ مشکوۃ باب البیان والشعر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:225) واد اصل میں وادی تھا۔ (ودی مادہ) الوادی اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے وہ پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے اس کی جمع اور یۃ ہے۔ جیسے ناد کی جمع اندیۃ ہے اور ناج کی جمع انجیۃ ہے۔ استعارہ کے طور پر مذہب، طریقہ اور اسلوب بیان کو وادی کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے فلان فی واد غیر وادیک۔ کہ فلاں کا مسلک تجھ سے جدا گانہ ہے۔ یہاں اس آیت میں بھی فی کل واد سے مختلف اسالیب سخن مراد ہیں َ جیسے مدح۔ ہجو۔ جدل۔ غزل وغیرہ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے :۔ اذاما قطعنا وادیا من حدیثنا الی غیرہ زدنا الاحادیث وادیا جب ہم موضوع سخن کی ایک وادی کو قطع کرلیتے ہیں تو دوسری وادی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہیمون۔ مضارع جمع مذکر غائب ھیم وھیمان (باب ضرب) مصدر۔ سرگشتہ۔ مستھام۔ عشق کی وجہ سے جران و سرگردان۔ بیمار عشق۔ وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

14 ۔ یعنی کوئی نیک متعین راہ نہیں جس پر وہ سوچتے اور اپنا کلام کہتے ہوں بلکہ ایک بےلگام گھوڑے کی طرح مضمون کی جس وادی کی طرف ان کا منہ اٹھ جاتا ہے اس میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لوگوں کی تعریف و مذمت کے قصیدے گاتے رہتے ہیں۔ نرے سر پھرے اور بندہ شکم ہوتے ہیں نہ ان کے کسی قول کا اعتبار ہوتا ہے اور نہ فعل کا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد شاعروں کی بد حالی اور کذب بیانی کا حال بتایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ ) (اے مخاطب کیا تو نے نہیں دیکھا کہ شاعر ہر وادی میں یعنی ہر میدان میں حیران پھرا کرتے ہیں) جھوٹی باتیں تلاش کرنے کے لیے ٹکریں مارتے ہیں اور ایسی چیز نکال کر لاتے ہیں جو ان کے متبعین کو پسند ہوں (وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لاَ یَفْعَلُوْنَ ) (اور وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جن پر عمل نہیں کرتے) روح المعانی ص ١٤٦ ج ١٩ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ آیت کریمہ شعراء مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے کہا کہ محمد جس طرح باتیں بیان کرتے ہیں ہم بھی اسی طرح کہہ سکتے ہیں یہ لوگ فخر دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو میں دیہاتیوں کے سامنے اشعار کہتے تھے وہ لوگ خوش ہوتے تھے۔ ان دیہاتیوں کو الغاؤن بتایا ہے۔ شاعر کی بےتکی باتیں، جھوٹی تعریفیں اور غلط تشبیہات اور مدح وذم میں کذب بیانی تو معروف ہی ہے، عارف گنجوی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کیا ہی اچھی بات کہی کہ اکذب اواحسن اوست بعض اہل علم نے اردو میں اس کا مفہوم یوں ادا کیا ہے۔ حسن شعر کا گرسن لو یہ آج جتنا ہو جھوٹ اس میں اتنا ہی بہترین ہے عربی کا یہ شعر بھی سنا ہی ہوگا لا تعجبوا من بلی علالتہ قذروا زارہ علی القمر فارسی کے اشعار بھی سنئے اے آنکہ جزو لا یتجزی دہان تو طولے کہ بیج عرض نہ دارد میان تو بنطق کردہ نقطہء موہوم رادو نیم اے آنکہ بودہ اس معجزنما بیان تو

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

78:۔ یہ شاعروں کے گمراہ ہونے کی پہلی دلیل ہے۔ یہ بات مشاہدے میں آچکی ہے کہ شعراء ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ وہ حق و باطل ایک ہی چیز کی مدح و ہجاد اور افراط وتفریط غرضیکہ ہر میدان میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ” وانھم یقولون الخ “ یہ ان کے غاوی (گمراہ) ہونے کی دوسری دلیل ہے کہ ان کے قول اور عمل میں موافقت نہیں ہوتی وہ زبان سے کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ان دونوں گمراہیوں سے پاک ہے۔ آپ کی زبان سے صرف حق ہی نکلتا ہے اور آپ جو کچھ زبان سے فرماتے ہیں اس کے موافق عمل بھی کرتے ہیں۔ فقد ظھر بہذا ان حال محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ما کان یشبہ حال شعراء (کبیر ج 6 ص 594) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(225) اے مخاطب تجھ کو معلوم کہ یہ شاعر ہر میدان میں حیران و سرگرداں ٹکریں مارتے پھر ا کرتے ہیں۔