Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 24

سورة الشعراء

قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّوۡقِنِیۡنَ ﴿۲۴﴾

[Moses] said, "The Lord of the heavens and earth and that between them, if you should be convinced."

۔ ( حضرت ) موسیٰ ( علیہ السلام ) نے فرمایا وہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے ، اگر تم یقین رکھنے والے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالاْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ... (Musa) said: "The Lord of the heavens and the earth, and all that is between them..." meaning, the Creator, Sovereign and Controller of all that, their God Who has no partner or associate. He is the One Who has created all things. He knows the higher realms and the heavenly bodies that are in them, both those that are stationary and those that move and shine brightly. He knows the lower realms and what is in them; the oceans, continents, mountains, trees, animals, plants and fruits. He knows what is in between the two realms; the winds, birds, and whatever is in the air. All of them are servants to Him, submitting and humbling themselves before Him. ... إن كُنتُم مُّوقِنِينَ if you seek to be convinced with certainty. means, if you have believing hearts and clear insight.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ رب العالمین وہ ہے جو اس پوری کائنات کا خالق ومالک ہے۔ اگر تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ اس کائنات کو وجود میں لانے والی کوئی ہستی موجود ہے تو سمجھ لو کہ میں اس ہستی کی طرف سے تیرے پاس رسول بن کر آیا ہوں اور تمہیں اسی کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا، رب العالمین وہ ہے جو آسمانوں کا اور زمین کا اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا رب ہے، اگر تم میں کسی چیز پر یقین کرنے کی صلاحیت ہے تو اس بات پر یقین کے سوا تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں، تم تو زمین کے ایک نہایت چھوٹے سے قطعہ مصر پر حکومت کی وجہ سے رب اعلیٰ بن رہے ہو، حالانکہ تم نے مصر کو نہ پیدا کیا نہ اہل مصر کو روزی دے رہے ہو۔ تو وہ جس نے زمین و آسمان اور وہ سب کچھ پیدا فرمایا جو ان دونوں کے درمیان ہے اور ان کی پرورش بھی کر رہا ہے۔ غور کرو تمہیں کس بات پر یقین آتا ہے، اپنے رب ہونے پر یا اس کے رب ہونے پر جو آسمانوں کا، زمین کا اور ان دونوں کے درمیان کی ہر چیز کا خالق ومالک اور رازق ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝ ٠ۭ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ۝ ٢٤ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا ھکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 That is, "I have not been sent by any mortal king ruling in the world, but I come from Him Who is the Owner of the heavens and the earth. If you believe that, there is a Creator and Master and Ruler of this universe, it should not he difficult for you to understand who is the Lord of all Creation."

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :21 یعنی میں زمین پر بسنے والے کسی مخلوق اور فانی مدعی ملوکیت کی طرف سے نہیں آیا ہوں ، بلکہ اس کی طرف سے آیا ہوں جو آسمان و زمین کا مالک ہے ۔ اگر تم اس بات کا یقین رکھتے ہو کہ اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک و فرمانروا ہے تو تمہیں یہ سمجھنے میں کوئی زحمت نہیں ہونی چاہیے کہ سارے جہاں والوں کا رب کون ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:24) موقنین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ یقین کرنے والے۔ ایمان لانے والے۔ ایقان مصدر (باب افعال) ایقن یوقن یقین کرنا۔ یقین مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

13 ۔ یعنی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے مانے بغیر چارہ نہیں اگر تم میں ماننے کی ذرا بھی صلاحیت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مطلب یہ کہ ماہیت سے اس کی معرفت نہیں ہوسکتی، جب سوال ہوگا صفات ہی سے جواب ملے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال رب السموت والارض وما بینھما ان کنتم موقنین (٢٤) یہ جواب اس کے تجاہل عارفانہ کے انداز کے سوال کا شافی جواب ہے یعنی اے فرعون رب العالمین اس پوری کائنات مشہود و غیر مشہود کا رب ہے ۔ اور اس کی بادشاہت اور اقتدار تک تمہاری بادشاہت نہیں پہنچ سکتی۔ نہ اللہ کے علم تک تمہارا علم پہنچ سکتا ع ہے۔ فرعون کا دعویٰ تو صرف یہ تھا کہ وہ مصری قوم کا الہ اور حاکم ہے ، صرف وادی نیل کا فرمان روا ہے۔ رب العالمین کے مقابلے میں یہ کیا ربوبیت ہے۔ اس قدر حقیر جس طرح اس عظیم کائنات کے اندر ایک ذرہ ہوتا ہے۔ اس جواب کے ذریعے موسیٰ (علیہ السلام) اس کی توجہ اس عظیم کائنات کی طرف مبذول کراتے ہیں اور وہ خود جس ربوبیت کا دعویدار تھا اس کو حقیر اور باطل قرار دیتے ہیں اور اسے دعوت دیتے ہیں کہ اس کائنات میں تدبر کر کے ذرا اپنے ذہن کو کھول دیں اور رب العالمین کی حاکمت کے وسیع دائرے کو دیکھیں اور اس کے بعد مختصر تبصرہ بھی فرما دیتے ہیں کہ تدبر تم تب کرسکتے ہو جب ان کنتم مومنین (٢٦ : ٢٣) ” اگر تم یقین کرنا چاہتے ہو۔ “ اگر تم یقین کرنا چاہو تو پھر رب العالمین ہی یقین کرنے کے لائق ہے۔ اب فرعون اپنے درباریوں کی طرف متوجہ ہو کر ان سے پوچھتا ہے کہ تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ وہ پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اگر تم کو یقین حاصل کرنا ہو۔ یعنی ماہیت سے اس کی معرفت ہو نہیں سکتی جب سوال کرو گے صفات ہی سے جواب دیاجائیگا۔