Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 28

سورة الشعراء

قَالَ رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۸﴾

[Moses] said, "Lord of the east and the west and that between them, if you were to reason."

۔ ( حضرت ) موسیٰ ( علیہ السلام ) نے فرمایا ! وہ ہی مشرق و مغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے ، اگر تم عقل رکھتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ ... (Musa) said -- to those in whose hearts Fir`awn had planted doubts: ... رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ Lord of the east and the west, and all that is between them, if you did but understand! `He is the One Who made the east the place where the heavenly bodies rise, and made the west the place where they set; this is t... he system to which He has subjugated all the heavenly bodies, stationary and moving. If what Fir`awn claims is true, that he is your lord and your god, then let him turn things around so that the heavenly bodies set in the east and rise in the west.' This is similar to the Ayah, الَّذِى حَأجَّ إِبْرَهِيمَ فِى رِبِّهِ أَنْ اتَـهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَهِيمُ رَبِّيَ الَّذِى يُحْىِ وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْىِ وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِى بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ who disputed with Ibrahim about his Lord, because Allah had given him the kingdom! When Ibrahim said: "My Lord is He Who gives life and causes death." He said, "I give life and cause death." Ibrahim said, "Verily, Allah brings the sun from the east. So cause it to rise from the west." (2:258) So when Fir`awn was defeated in debate, he resorted to the use of his force and power, believing that this would be effective in dealing with Musa, peace be upon him, so he said, as Allah tells us:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

281یعنی جس نے مشرق کو مشرق بنایا، جس سے کواکب طلوع ہوتے ہیں اور مغرب کو مغرب بنایا جس میں کواکب غروب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان کے درمیان جو کچھ ہے، ان سب کا رب اور ان کا انتظام کرنے والا بھی وہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو جب یوں بوکھلایا ہوا دیکھا تو پھر سے اپنے دعویٰ پر زور دیتے ہوئے اور رب العالمین کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ روئے زمین پر جتنی بھی مخلوق آباد ہے۔ خواہ اس کا تعلق اس ملک مصر سے ہو یا مشرق سے ہو یا مغرب سے ہو یا کہیں سے بھی ہو ساری مخلوق کا پروردگار وہی رب العالم... ین ہے اب امید ہے تم لوگوں کو سمجھ آہی گئی ہوگی کہ رب العالمین کون ہے ؟ اور میں کون ہوں ؟ تم تو صرف زمین کے ایک چپہ بھر ملک کے فرمانروا ہو اور میں اس رب العالمین کا رسول ہوں جس کی فرمانروائی اس پوری زمین پر ہی نہیں پوری کائنات پر بھی ہے۔ لہذا تمہارے حق میں بہتری اسی بات میں ہے کہ تم فرمانروائے کائنات کے رسول کی بات مان لو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ۔۔ : شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” موسیٰ (علیہ السلام) ایک بات کہے جاتے تھے اللہ کی قدرتیں بتانے کو اور فرعون بیچ میں اپنے سرداروں کو ابھارتا تھا کہ ان کو یقین نہ آجائے۔ “ پاگل ہونے کے الزام کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اب وہ دلیل پیش کی جو ان کے جدّ امجد ا... براہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے پیش کی تھی کہ ” رب العالمین “ وہ ہے جو مشرق و مغرب اور ان کے مابین کا رب ہے، جو ہمیشہ سے سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے، تمہیں رب ہونے کا زعم ہے تو ذرا سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا دو ۔ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ : مجھے دیوانہ بتاتے ہو اور خود عقل مند ہونے کا دعویٰ کرتے ہو، اگر تم میں واقعی عقل ہے تو بتاؤ کہ رب وہ ہے جس کے حکم سے سورج ہمیشہ مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب ہوتا ہے، یا تم جو ایک دفعہ بھی ایسا نہیں کرسکتے۔ پہلی دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے متعلق نرم لفظ استعمال فرمائے، یعنی ”ۭاِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ “ لیکن جب اس نے مجنون ہونے کا الزام لگایا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے سخت الفاظ استعمال فرمائے ”ۭاِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ “ کہ اگر تم سمجھتے ہو۔ (ابن جزیّ )  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝ ٠ۭ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۝ ٢٨ شرق شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشار... ة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه . ( ش ر ق ) شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔ غرب الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] ، وقیل لكلّ متباعد : غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ. ( غ رب ) الغرب ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وہ پروردگار مشرق کا اور مغرب کا ہے اور جو کچھ اس کے درمیان میں ہے اس کا بھی اگر تم اس کی تصدیق کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَہُمَاط اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ) ” گویا اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پورے طور پر دربار پر چھائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف فرعون کے مکالمات اور انداز سے اس کی بےبسی صاف نظر آرہی ہے۔ آیات میں درج مکالمات کی مدد سے اس پورے منظر کو اگر ڈرامائی ا... نداز میں پیش کیا جائے تو بہت دلچسپ اور عبرت انگیز صورت حال کی تصویر سامنے آسکتی ہے۔ (میں نے میڈیکل کالج میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ان آیات کے ترجمے سے ڈرامے کا ایک سکرپٹ تیار کیا تھا : ” ایک رسول ‘ بادشاہ کے دربار میں ! “ )   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 That is, "You regard me as a mad person, but if you think you are wise people, you should yourself decide as to who is the real lord: this wretched Pharaoh who is ruling over a small piece of earth, or He Who is the Owner of the east and the west and of everything bounded by the east and the west including the land of Egynt. I believe in His sovereignty alone and have been sent to convey His me... ssage to a creature of His."  Show more

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :23 یعنی مجھے تو پاگل قرار دیا جا رہا ہے ، لیکن آپ لوگ اگر عاقل ہیں تو خود سوچیے کہ حقیقت میں رب یہ بیچارا فرعون ہے جو زمین کے ایک ذرا سے رقبے پر بادشاہ بنا بیٹھا ہے ، یا وہ جو مشرق و مغرب کا مالک اور مصر سمیت ہر اس چیز کا مالک ہے جو مشرق و مغرب سے گھری ہوئی ہے ۔ می... ں تو فرماں روائی اسی کی مانتا ہوں اور اسی کی طرف سے یہ حکم اس کے ایک بندے کو پہنچا رہا ہوں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

16 ۔ یعنی اگر تم میں سوچنے سمجھنے کی ذرا بھی صلاحیت ہے تو یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ حقیقت میں تو رب وہ ہے جو مشرق و مغرب کا اور ہر اس چیز کا مالک ہے جو مشرق و مغرب کے درمیان ہے نہ کہ تمہارا یہ فرعون جو مصر جیسی زمین کے ایک چھوٹے سے رقبے کا مالک بنا بیٹھا ہے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال رب المشرق والمغرب وما بینھما ان کنتم تعقلون (٢٨) مشرق و مغرب تو ہر دن انسانوں کو نظر آتے ہیں اور اس دنیا میں ایک خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ منظر تو بڑا عبرت آموز ہے لیکن چونکہ یہ ٢٤ گھنٹوں میں مسلسل دھرایا جاتا ہے اس لئے لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لوگ اس کے عادی ہوگئے ہیں ان الفاظ سے...  جس طرح طلوع و غروب کا مفہوم ذہن میں آتا ہے ، اسی طرح طلوع و غروب کے مقام کا مفہوم بھی ان میں ہے۔ یہ دو مناظر حضرت نے اس لئے پیش کئے کہ طلوع و غروب کے مظاہر کو اور مقامات و طلوع اور مقامات غروب کو کوئی جابر بدل نہیں سکتا۔ نہ ان دونوں مناظر کی اس خصوصیت کا کوئی انکار کرسکتا ہے کہ آغاز تخلیق سے آج تک اس نظام کے اندر کوئی تبدیلی کوئی تقدیم و تاخیر نہیں ہے۔ کند ذہن سے کند ذہن شخص بھی اگر ان حقائق پر غور کرے تو وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ غافل سے غافل دل جاگ اٹھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مکالمے میں ان کے ضمیروں کو جاگنے کی بےحد کوشش کر رہے ہیں ، دعوت دے رہے ہیں کہ غور و فکر کرو۔ ان کنتم تعقلون (٢٦ : ٢٨) ” اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں۔ “ سرکش حکمران دنیا میں کسی چیز سے نہیں ڈرتے جس قدر وہ قوم کی بیداری سے ڈرتے ہیں۔ ان کو دل و دماغ کی بیداری سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ سرکش حکمران ہمیشہ ان لوگوں کو سخت حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جو لوگوں میں بیداری کرتے ہیں۔ اس لئے ایسے حکمران ہمیشہ ایسے لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرعون کو حضرت موسیٰ پر بہت غصہ آجاتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی دعوت دل و دماغ کی پرسکون تاروں کو چھیڑ رہی ہے ، اس لئے وہ اب جوش میں آجاتا ہے۔ دھمکی دیتا ہے اور کھلے تشدد کی بات کرتا ہے اور جس وقت کسی شخص کے پاس دلائل کے ہتھیار ختم ہوجاتے ہیں تو وہ تشدد پر اتر آتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ اب بھی موسیٰ (علیہ السلام) برہم نہیں ہوئے بلکہ پوری سنجیدگی سے روز مرہ کے مشاہدات سے استدلال پیش کردیا مشرق سے طلوع شمس اور مغرب سے غروب شمس مراد ہے۔ اراد بالمشرق طلوع الشمس و ظہور النھار واراد بالمغرب غروب الشمس وزوال النھار (کبیر ج 6 ص 514) ۔ فرمایا تم روزانہ مشاہدہ کرتے ہو کہ سورج اپنے وقت پ... ر نکلتا اور اپنے وقت پر ڈوبتا ہے۔ اس نظم عجیب اور نسق غریب کے ساتھ سورج کا طلوع غروب جس کے قبضہ قدرت میں ہے وہی رب العالمین ہے۔ اگر تم عقل و خرد سے کام لو تو یہ بات کس قدر واضح اور معقول ہے۔ اس پر فرعون کا مزاج شاہانہ برہم ہوگیا اور اب موسیٰ (علیہ السلام) کو قید کی دھمکی دیدی۔ ” قال لئن التخذت الھا غیری الک “ یعنی تم ان باغیانہ باتوں سے باز آجاؤ اور میری حکومت کو تسلیم کرلو اگر تم نے میری حکومت کو تسلیم نہ کیا تو تمہیں قید کردوں گا۔ ” الٰھا “ سے مراد حاکم ہے خدا مراد نہیں کیونکہ فرعون دہریہ تھا اور خدا کا قائل ہی نہ تھا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وہی مشرق اور مغرب کا اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس سب کا وہی پروردگار ہے اگر تم کچھ عقل اور سمجھ رکھتے ہو اگر تم کو سمجھ ہو ان دلائل اور صفات سے ان کو مان لو۔