Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 36

سورة الشعراء

قَالُوۡۤا اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہُ وَ ابۡعَثۡ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ ﴿ۙ۳۶﴾

They said, "Postpone [the matter of] him and his brother and send among the cities gatherers

ان سب نے کہا آپ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجئے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيمٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] درباری حضرات عموماً جی حضور کہنے اور بڑی سرکار کی ہاں میں ہاں ملانے کے عادی تھے۔ اور اسی میں ان کی عافیت ہوتی ہے۔ فوراً کہنے لگے۔ واقعی یہ بہت بڑا جادوگر ہے اور ہمیں جادو کا مقابلہ جادور ہی سے کرنا چاہئے۔ آپ یوں کیجئے کہ جلدی میں کچھ فیصلہ نہ کیجئے۔ بلکہ ملک بھر کے چوٹی کے جادوگروں کو اپنے ہاں بلا لیجئے۔ جو اس کا مقابلہ کرسکیں۔ فرعون اپنے درباریوں سے ایسا ہی جواب سننا چاہتا تھا۔ کیونکہ وہ خود اپنے درباریوں اور اپنی رعایا کو اسی چکر میں ڈالنا اور یہی کچھ ذہین نشین کرانا چاہتا تھا کہ موسیٰ اور اس کا بھائی اللہ کے رسول نہیں بلکہ محض جادوگر ہیں۔ چناچہ فرعون نے اپنے درباریوں سے مشورہ کے بعد تمام شہروں کے نامور جادوگروں کو اپنے ہاں طلب کرلیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ ۔۔ : ان آیات کی تفسیر سورة اعراف (١١١، ١١٢) میں گزر چکی ہے، فرق یہ ہے کہ وہاں ” اَرْسِلْ “ ہے اور یہاں ” ابْعث “ ہے، دونوں ہم معنی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں ” سَحَّارٍ عَلِيْمٍ “ ہے اور یہاں ” سٰحِرٍ عَلِيْمٍ “ ہے، یہاں مبالغہ کا صیغہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے : ” کہ وہ تیرے پاس ہر بڑا جادو گر لے آئیں، جو بہت ماہر فن ہو۔ “ جبکہ وہاں ترجمہ ہے ” کہ وہ تیرے پاس ہر ماہر فن جادوگر لے آئیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَابْعَثْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ۝ ٣٦ۙ رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد : إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء . اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قسم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔ مدن المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] . ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦۔ ٣٧) درباریوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی کو کچھ مہلت دیجیے اور ان کو قتل نہ کیجیے اور شہروں میں چپراسیوں کے ذریعے جادوگروں کے نام حکم نامے بھیج دیجیے کہ وہ سب ماہر جادوگروں کو لاکر حاضر کردیں تاکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح اپنا جادو دکھائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦ تا ٤٩: جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے اوصاف بیان کر کے فوعون کو باتوں سے قائل کیا اور عصا اور یدبیضاء کا معجزہ دکھا کر بھی اس کو قائل کیا تو فرعون نے اپنے سرداروں کو ابھارا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ دو شخص بڑے جادوگر معلوم ہوتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے یہ تمہاری بادشاہت تمہارا ملک چھین لیویں ان کے جادو سے بچنے کی تمہاری کیا صلاح اور مصلحت ہے بیان کرو انہوں نے فرعون کی عملداری کی سب بستیوں کے بڑے بڑے جادوگروں کو بلوانے کی صلاح دی اور وہ جادوگر آئے اور مقابلہ ہو کر آخر کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غالب رہے یہاں بعضے مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ فرعون نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس پر اس کے سرداروں نے اس کو قتل سے منع کیا اور کہا قتل سے لوگوں کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوجاوے گا کہ ان جادوگروں میں بادشاہ نے کوئی ایسی ہی زبردست غلبہ کی بات دیکھی تھی جو ان دونوں جادوگروں کو زندہ رکھنا بادشاہ نے مناسب نہیں خیال کیا اس لیے ان دونوں جادوگروں کا یہاں کے بڑے بڑے جادوگروں سے مقابلہ کرانا اور سب کے سامنے ان دونوں کو ہرانا مناسب ہے ان کے قتل کا ارادہ مناسب نہیں ہے یہ قول کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے یہ قول قرآن کے مضمون کے مخالف ہے کیونکہ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے جانے سے اپنا یہ ڈر ظاہر کیا کہ وہ اس کو دیکھے گا تو قبطی کے خون کے معاوضہ میں قتل کر ڈالے گا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے قتل کا ارادہ بھی نہ آنے دیا ہوگا ‘ ان آیتوں میں موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں کے مقابلہ کا جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ فرعون کے نقیب بڑے بڑے جادوگروں کو جگہ جگہ سے بلا کر مصر میں لائے۔ تفسیر مقاتل اور تفسیر سدی میں روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جادوگر اسی کے قریب تھے اور کئی سو اونٹ جادو کے اثر کی لکڑیوں اور رسیوں سے لدے ہوئے ان کے ساتھ تھے ‘ پہلے ان جادوگروں نے فرعون سے پوچھا کہ اگر ہم غالب آویں گے تو ہم کو کچھ انعام ملے گا فرعون نے جواب دیا اگر تم غالب آئے تو تمہیں نقد انعام بھی ملے گا اور تم فرعونی دربار کے مصاحب مقرر ہوجاؤگے غرض فرعون مصر کی رعایا کے بڑی بھیڑ جادوگر اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) یہ سب میدان میں آئے اور جادوگروں نے فرعون کے اقبال کو اپنا حمایتی ٹھہرا کر اپنی وہ لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈالیں سب طرح طرح کے سانپ ہوگئے جن سے تمام میدان بھر گیا موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی عصا ڈالا جب وہ بہت بڑا سانپ بن کر جادوگروں کے سب سانپوں کو نگل گیا۔ جادوگر تو اپنے فن کے استاد تھے فورا سمجھ گئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا کارخانہ جادو کا نہیں ہے کیونکہ ہم سے بڑا جادوگر یہی کرسکتا تھا کہ ہمارے جادو کے اٹر کو مٹا دیتا جس سے اصل لکڑیاں اور رسیاں باقی رہ جاتیں جب موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا سانپ اصل لکڑیوں اور رسیوں کو بھی نگل گیا تو یہ جادو نہیں بلکہ تائید آسمانی ہے اس بھید کو سمجھ کر سب جادوگر شریعت موسوی کے تابع ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مان کر سجدہ میں گر پڑے یہ حال دیکھ کر فرعون نے جادوگروں کو دھمکایا کہ بغیر میرے حکم کے تم نے جو یہ کام کیا ہے اس کی سزا جو کچھ ہوگی اس کا حال تمہیں معلوم ہوجائے گا اور یہ بھی کہا کہ موسیٰ گویا تمہارے استاد ہیں جن کے جادو کو تم نے اپنے جادو سے بڑا جان لیا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی کی حدیث جو اوپر گذر چکی ١ ؎ ہے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب جادوگر جو اس فن کے استاد ہو کر اس بات کے قائل ہوگئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا کارخانہ جادو کا نہیں ہے بلکہ یہ کارخانہ تائید آسمانی ہے تو فرعون اور اس کے ساتھیوں کو بھی اسی طرح قائل ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ لوگ علم الٰہی میں دوزخی قرار پاچکے تھے اس لیے اتنی ظاہر بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی اس قصہ سے جادو اور معجزہ کا یہ فرق اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ جادو کے ہزاروں سانپ معجزے کے ایک سانپ کے مقابلے میں بالکل پست ہوگئے اس قصے سے قریش کو یہ جتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب سے اپنے رسولوں کی اس طرح مدد کر کے مخالفوں پر ان کو یوں غلبہ دیتا ہے “ (١ ؎ یعنی جلد ہذا کے صفحہ ١٨ پر )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:36) ارجہ : ارج فعل امر واحد مذکر حاضر۔ ارجی یرجی ارجاء (افعال) ۔ الامر۔ کام کو مؤخر کرنا۔ کام کو ٹال دینا۔ ڈھیل دینا۔ رجی مادہ رجاء رجو ورجاۃ ورجاء ۃ مصدر ہیں۔ ثلاثی مجرد سے رجا یرجوا (باب نصر) بمعنی امید رکھنا ، امید کرنا۔ خوف کرنا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب ارجہ تو اس کو ڈھیل دے۔ اس ضمیر کا مرجع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ ابعث امر واحد مذکر حاضر تو بھیج، تو روانہ کر، بعث یبعث (فتح) بعث سے جس کے معنی کسی چیز کا اٹھا کھڑا کرنے اور روانہ کرنے ہے ہیں ۔ قرآن مجید میں روانہ کرنا اور اٹھا کھڑا کرنے ہر دو معنی میں آیا ہے۔ مثلاً فبعث اللہ غرابا (5:31) اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیجا۔ اور یوم ابعث حیا (19:33) اور جس روز میں زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔ المدائن : مدینۃ کی جمع ۔ شہر۔ بستیاں۔ حشرین۔ اکٹھے کرنے والے۔ حشر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر، ہر کارے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ یعنی ہر کارے یا پولیس کے سپاہی جو جادوگروں کو اکٹھا کر لائیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوآ ارجہ واخاہ وابعث فی المدآئن حشیرین (٣٦) یاتوک بکل سحار علیم (٧) ٣ یعنی ان کو اور ان کے بھائی کو روک لیں اور مصر کے بڑے بڑے شہروں میں ہر کارے بھیج دیں۔ ماہر ترین جادوگروں کو جمع کرلیں اور حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان کھلا مقابلہ ہو۔ یہاں وہ گرتا ہے اور پھر جادوگروں کے گروہ نمودار ہوتے ہیں اور عوام الناس مقابلے کے لئے دوڑے آ رہے ہیں ۔ بادشاہ اور بادشاہ کے حامی عوام جادوگروں کے حق میں نعرے لگاتے آ رہے ہیں۔ اب حق و باطل کے درمیان کھلا مقابلہ ہے۔ ایمان اور کفر کے درمیان رسہ کشی شروع ہوتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ مقربین دربار نے مشورہ دیا کہ موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو قتل کرنے میں جلدی نہ کرو کیونکہ اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ بلکہ فی الحال ان کو مہلت دو اور ان کے مقابلے کے لیے ملک کے کونے کونے سے ماہر جادوگروں اور ان کے استادوں کو جمع کرو جن کے مقابلے میں یہ مات کھا کر خود بخود رسوا ہوجائیں گے اور اپنی نبوت و رسالت کا نام بھی نہ لیں گے۔ ” فجمع السحرۃ الخ “ چناچہ مقابلے کے لیے ایک دن مقرر کردیا گیا اور ملک بھر سے جادوگروں کو اکٹھا کرلیا گیا اور لوگوں کو بھی ترغیب دی گئی کہ وہ بھی مقررہ وقت پر جائے معہود میں پہنچ جائیں تاکہ وہ بھی یہ دلچسپ مقابلہ دیکھ سکیں۔ ” ھل انتم مجتمعون الاستفہام مجاز عن الحث والاستعجال “ (روح ج 19 ص 77) ۔ ” لعلنا نتبع السحرۃ الخ “ یہ مقابلہ نہایت اہم ہوگا کیونکہ ہم اپنے دین پر اطمینان قلب کے ساتھ صرف اسی صورت میں قائم رہ سکیں گے جب کہ ہمارے جادوگر غالب آجائیں۔ اس لیے سب لوگوں کو وہاں پہنچ کر جادوگروں کی ہمت افزائی کرنی چاہئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) سرداروں نے جواب دیا کہ تو موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کو اس وقت کچھ مہلت دے دے اور تو مختلف شہروں میں اپنے ہر کارے اور چوبدار بھیجدے۔