Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 43

سورة الشعراء

قَالَ لَہُمۡ مُّوۡسٰۤی اَلۡقُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ مُّلۡقُوۡنَ ﴿۴۳﴾

Moses said to them, "Throw whatever you will throw."

۔ ( حضرت ) موسیٰ ( علیہ السلام ) نے جادوگروں سے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے ڈال دو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ لَهُم مُّوسَى ... Musa said to them: ... أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

431حضرت موسیٰ علیہ کی طرف سے جادوگروں کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کے لئے کہنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو ان پر یہ واضح ہوجائے کہ اللہ کے پیغمبر اتنی بڑی تعداد میں نامی گرامی جادوگروں کے اجتماع اور ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیوں سے خوف زدہ نہیں ہے۔ دوسرا یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ جب اللہ کے حکم سے یہ ساری شعبدہ بازیاں آن واحد میں ختم ہوجائیں گی تو دیکھنے والوں پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہونگے اور شاید اس طرح زیادہ لوگ اللہ پر ایمان لے آئیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا، بلکہ جادوگر ہی سب سے پہلے ایمان لے آئے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] فرعون کے اس جواب پر جادوگر بہت خوش ہوگئے۔ میدان مقابلہ میں آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کے عام دستور کے مطابق پوچھا : پہلے آپ اپنا شعبدہ دکھلائیں گے، یا ہم پہل کریں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فوراً جواب دیا : نہیں پہلے تم ہی اپنا شعبدہ دکھلاؤ گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ جواب محض رسماً یا رواجاً یا ان کی عزت افزائی کے طور پر نہیں دیا بلکہ آپ چاہتے ہی یہ تھے کہ باطل پوری طرح پہلے اپنا مظاہرہ کرلے۔ اس کے بعد ہی حق کی فتح پوری طرح واضح ہوسکے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary. أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ Musa (علیہ السلام) said to them, |"Throw you down what you are to throw.|" (26:43) Sayyidna Musa (علیہ السلام) said to the magicians ` You show the magic you wish to show&. With a cursory look one might be inclined to think that Sayyidna Musa (علیہ السلام) ordered them to perform their magic. But with a little deep thinking it becomes clear that actually it was not an order from Sayyidna Musa (علیہ السلام) to &show magic, but the real intention was to demonstrate the fallacy of magic. This demonstration was not possible without the magic shown by them. Therefore, he asked them to show their tricks or magic. It is exactly like a zindiq (an extreme heretic) is asked to put forward his arguments, so that they may be countered. It is obvious that such an invitation cannot be treated as an acceptance of infidelity.

معارف و مسائل اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ ، یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں سے کہا کہ آپ جو کچھ جادو دکھانا چاہتے ہو وہ دکھاؤ۔ اس پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو جادو کا حکم دے رہے ہیں لیکن ذرا سے غور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے جادو دکھانے کا حکم نہیں تھا بلکہ جو کچھ وہ کرنے والے تھے اس کا ابطال مقصود تھا لیکن اس کا باطل ہونا بغیر اس کے ظاہر کرنے کے ناممکن تھا اس لئے آپ نے ان کو اظہار جادو کا حکم دیا جیسے کہ ایک زندیق کو کہا جائے کہ تم اپنے زندقہ اور بےدینی کے دلائل پیش کرو تاکہ میں ان کو باطل ثابت کرسکوں ظاہر ہے کہ اسے کفر پر رضامندی نہیں کہا جاسکتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰٓي اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ۝ ٤٣ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) غرض کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں سے کہا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہو ڈالو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:43) ملقون۔ اسم فاعل جمع مذکر ۔ القاء مصدر (باب افعال) اصل میں ملقیون تھا۔ ڈالنے والے۔ پیش کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ان کو حکم دیا کہ اچھا تم جادو کرو کیونکہ جادو کفر ہے اور ایک پیغمبر کفر کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ بلکہ پہلے جادوگروں نے کہا : ” اما ان تلقی واما ان تکون اول من القی “ یا تم پہلے ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں۔ (طٰہ :65) اس پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ” القوا “ فرمایا تاکہ دلیل سے مغلوب ہوجائیں اور لوگوں کو بھی پتہ چل جائے کہ ان کا معجزہ جادو کی کوئی قسم نہیں ہے (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جادوگروں اور موسیٰ (علیہ السلام) کا آپس میں آمنا سامنا۔ سورۃ طٰہٰ آیت ٦١ تا ٦٥ میں قدرے تفصیل موجود ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ جادوگروں کے سامنے تشریف لائے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ افسوس تم پر کہ تمہیں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ اگر تم اپنے مفاد کی خاطر اس بات پر ڈٹے رہے تو تمہیں اللہ کا عذاب رسوا کر دے گا۔ جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا وہ ناکام ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قدر دل سوز اور مؤثر انداز میں انھیں خطاب فرمایا کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوئے اور قریب تھا کہ ان کے درمیان موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے میں اختلاف واقعہ ہو۔ وہ آہستہ آہستہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے بالآخر وہ اس بات پر متفق ہوئے کہ موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) جادوگر ہیں۔ وہ تمہیں جادو کے ذریعے تمہارے ملک سے نکالنا چاہتے ہیں اور تمہارے مذہب کو بدلنا چاہتے ہیں۔ بس اپنی منصوبہ بندی کریں اور قطار اندر قطار کھڑے ہو کر ان کا مقابلہ کرو جو آج کامیاب ہوا وہی سربلند ہوگا۔ اس کے بعد انھوں نے کہا اے موسیٰ ! آپ اپنا عصا میدان میں پھینکیں گے یا ہم اپنی لاٹھیاں پھینکیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں فرمایا کہ جو کچھ پھینکنا چاہتے ہو وہ پھینکو۔ جوں ہی انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیں اور اس کے ساتھ ہی نفسیاتی دباؤ بڑھاتے ہوئے فرعون زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ سورة الاعراف، آیت : ١١٦ میں بیان ہوا ہے کہ انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر زبردست جادو کردیا۔ جادو کا مظاہرہ اس قدر بڑا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دل ہی دل میں گھبرا گئے۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے فورا وحی فرمائی کہ اے موسیٰ ! گھبرایے نہیں، آپ ہی سربلند رہیں گے۔ (طٰہٰ : ٦٧۔ ٦٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب ایٓئے میدان مقابلہ کی طرف فریقین تیار ہیں اور عوام جمع ہیں۔ قال لھم ……اول المئومنین (٥١) پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا۔ اس پر سارے جادوگر بےاختیار سجدے میں گر پڑے اور بول اٹھے کہ ” مان گئے ہم رب العالمین کو … موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کے رب کو۔ “ فرعون نے کہا ” تم موسیٰ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دینا ! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ اچھا ؟ ابھی تمہیں معلوم ہوتا جاتا ہے ، میں تمہارے ہاتھ پائوں مخلاف سمتوں سے کنوائوں گا اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا۔ ‘ انہوں نے جواب دیا ” کچھ پروا نہیں ، ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا ، کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں۔ “ یہ منظر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اور پروقار انداز سے شروع ہوتا ہے۔ البتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ چونکہ سچائی اور خدائی ہے اس لئے وہ بالکل گھبرائے ہوئے نہیں ہیں۔ فرعون نے پورے ملک کے ماہرین فن مکار جادوگروں ککو بلایا ہوا ہے اور ان کے ساتھ گمراہ اور سادہ لوح عوام الناس کا ایک جم غقیر بھی جمع کر رکھا ہے ، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان سرکاری تیاریوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں کر رہے۔ حضرت موسیٰ کے اطمینان کا اظہار اس امرت ہوتا ہے کہ وہ ان جادوگروں کو موقعہ دیتے ہیں کہ وہ پہلے اپنے کرتب دکھائیں۔ قال لھم مسویٰ القواما انتم ملقون (٢٦ : ٣٣) ” موسیٰ نے ان سے کہا پھینکو جو تمہیں پھینکا ہے۔ “ حضرت موسیٰ کا انداز تعبیر ہی ایسا ہے کہ وہ ان کے کرتب کو اہمیت نہیں دے رہے۔ پھینکو جو پھینکنا ہے۔ القواما انتم ملقون (٢٦ : ٢٣) آپ یہ بات لاپرواہی اور بغیر کسی اہتمام کہتے ہیں۔ چناچہ جادوگروں نے اپنی پوری مہلت ، اپنی پوری استادی اور اپنی پوری مکاری کو اکم میں لا کر اور فرعون کے نام کا ورد کر کے اپنی باری کا آغاز کیا۔ فالقوا جبالھم و عصیھم وقالوا بعزۃ فرعون انا لنحن الغلبون (٢٦ : ٣٣) ” انہوں نے فوراً اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے ، فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے۔ “ یہاں سیاق کلام میں ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔ سورة اعراف اور طہ میں تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ اس لئے کہ یہاں سیاق کلام حضرت موسیٰ کے گہرے اطمینان کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ یہاں فوراً حضرت موسیٰ کی پوری کارروائی دکھا دی جاتی ہے کیونکہ غلبہ حق اس سورت کا محور اور مضمون ہے۔ فالقی موسیٰ عصاہ فاذا ھی تلقف مایافکون (٢٦ : ٣٥) ” پھر مسویٰ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا۔ “ ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے فن کاری کی آخری صلاحیتیں صرف کی تھیں۔ انہوں نے ساری عمر اس شعبدہ بازی میں گزاری تھی اور اس میں پوری مہارت حاصل کی تھی۔ انہوں نے وہ تمام کرتب پیش کردیئے تھے جو ایک جادو گر کرسکتا ہے۔ وہ تھے بھی بڑی تعداد میں ہر طرف سے گروہ درگروہ جمع ہو کر آئے تھے۔ مسویٰ (علیہ السلام) یکہ و تنہا تھے۔ ان کے پاس صرف اپنا عصا تھا۔ یہ عصا ان کی تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو ہڑپ کر گیا۔ (الف) کا لغوی مفہوم ہے ہڑپ کرل ینا یعنی بڑی تیزی سے کسی چیز کو کھا لیتا۔ جادوگروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جادو کے ذریعے کوئی عصا کسی چیز کو نگل نہیں سکتا۔ اس میں تو صرف تخیل اور تنویم ہوتی ہے لیکن عصا نے تو درحقیقت تمام پھینکی ہوئی اشیاء کو کھالیا۔ کسی چیز کا نام و نشان میدان میں نہ تھا۔ اگر جادو ہوتا تو جادو کے اثر کے بعد تخیل کے عوام کے اختتام پر اشیاء کو موجود ہونا چاہئے تھا ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ میدان میں عملاً کچھ نہیں ہے …… ان کو یقین ہوگیا کہ حضرت موسیٰ تو ہرگز جادوگر نہیں ہیں۔ وہ پیغمبر برحق ہیں اور اس سچائی کو اس دنیا میں بہترین طور پر جاننے والے یہی جادوگر تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ مقابلے کے لیے جب موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگر آمنے سامنے ہوئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں سے فرمایا جو کچھ لائے ہو میدان میں ڈالو ” فالقوا حبالھم وعصیھم الخ “ چناچہ انہوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں میدان میں ڈالدیں تو وہ سانپوں کی طرح حرکت کرنے لگیں۔ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سارا میدان سانپوں سے بھر گیا ہے جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں پھینکتے وقت فرعون کی عزت اور اس کے غلبہ و سلطان کی قسم کھائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی مہارت فن پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنی کامیابی یقینی سمجھتے تھے۔ ” فالقی موسیٰ عصاہ “ اب موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی لاٹھی ڈالدی جو زمین پر گرتے ہی ایک بہت بڑے اژدہا کی صورت میں منقلب ہوگئی جس نے جادوگروں کے تمام سنپولوں کو ہڑپ کرلیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے لاٹھی پھینکی تھی جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” فاوحینا الی موسیٰ ان الق عصاک “۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43۔ باہمی گفتگو میں موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ طے ہوا کہ پہلے جادوگر ڈالیں گے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان جادوگروں سے فرمایا تمہیں جو کچھ ڈالنا ہے وہ ڈالو۔