Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 44

سورة الشعراء

فَاَلۡقَوۡا حِبَالَہُمۡ وَ عِصِیَّہُمۡ وَ قَالُوۡا بِعِزَّۃِ فِرۡعَوۡنَ اِنَّا لَنَحۡنُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿۴۴﴾

So they threw their ropes and their staffs and said, "By the might of Pharaoh, indeed it is we who are predominant."

انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے عزت فرعون کی قسم! ہم یقیناً غالب ہی رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"Throw what you are going to throw!" So, they threw their ropes and their sticks, and said: "By the might of Fir`awn, it is we who will certainly win!" This is what the ignorant masses say when they do something: `this is by the virtue of So-and-so!' In Surah Al-A`raf Allah mentioned that: سَحَرُواْ أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَأءُو بِسِحْرٍ عَظِيمٍ They bewitched the eyes of the people, and struck terror into them, and they displayed a great magic. (7:116) And in Surah Ta Ha He said: فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَى قُلْنَا لاَ تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الاَْعْلَى وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلاَأ يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى Then behold! their ropes and their sticks, by their magic, appeared to him as though they moved fast. So Musa conceived fear in himself. We (Allah) said: "Fear not! Surely, you will have the upper hand. And throw that which is in your right hand! It will swallow up that which they have made. That which they have made is only a magician's trick, and the magician will never be successful, to whatever amount (of skill) he may attain." (20:66-69) And here Allah says: فَأَلْقَى مُوسَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

441جیسا کہ سورة اعراف اور طٰہٰ میں گزرا کہ ان جادوگروں نے اپنے خیال میں بہت بڑا جادو پیش کیا،۔ سحروا أعین الناس واسترھبوھم وجاؤا بسحر عظیم۔ سورة الاعراف۔ حتٰی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنے دل میں خوف محسوس کیا،۔ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔ طہ۔ چناچہ ان جادوگروں کو اپنی کامیابی اور برتری کا بڑا یقین تھا، جیسا کہ یہاں ان الفاظ سے ظاہر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ذرا اپنی لاٹھی زمین پر پھینکو اور پھر دیکھو۔ چناچہ لاٹھی کا زمین پر پھینکنا تھا کہ اس نے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کرلی اور ایک ایک کر کے ان سارے کرتبوں کو نگل گیا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] جادوگروں کو فرعون کے اہل کاروں کی طرف سے صرف یہ بتلایا گیا کہ دارالخلافہ میں بادشاہ سلامت کے ہاں دو جادوگر آئے ہیں۔ ان میں سے ایک اپنی لاٹھی پھینکتا ہے تو وہ سانپ بن جاتا ہے اور یہی ان کے پاس سب سے بڑا شعبدہ ہے اور تم لوگوں کو بادشاہ سلامت نے ان کے مقابلہ کے لئے بلایا ہے۔ لہذا ان لوگوں نے اسی خاص پہلو میں اپنی تیاریاں کی تھیں۔ انہوں نے کچھ اپنی لاٹھیاں پھینکیں اور کچھ رسیاں پھینکیں جو لوگوں کو جیتے جاگتے متحرک سانپ نظر آنے لگے۔ اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھا کہ سارا میدان مقابلہ ایسے سانپوں سے بھر گیا تھا سارا مجمع اس منظر سے دہشت زدہ ہونے لگا۔ حتیٰ کہ حضرت موسیٰ بھی دل ہی دل میں ڈرنے لگے۔ یہ منظر جادوگروں کے لئے بڑا خوش کن تھا۔ اور انھیں یقین تھا کہ ان کے اس کرشمہ کا کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ چناچہ اسی خوشی میں انہوں نے زور سے نعرہ مارہ && فرعون کی جے، یقیناً ہم ہی جیتیں گے &&۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ ۔۔ : فرعون کی تعظیم کے لیے اس کی عزت کی قسم کھائی کہ ہم ضرور ہی جیتیں گے۔ اس سے جادوگروں کا مقصد فرعون کو خوش اور موسیٰ (علیہ السلام) کو مرعوب کرنا تھا۔ جاہلیت میں لوگ اس قسم کی قسمیں کھایا کرتے تھے، اسلام میں اس سے منع کردیا گیا۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلاَ إِنَّ اللّٰہَ یَنْھَاکُمْ أَنْ تَحْلِفُوْا بآبَاءِکُمْ مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ باللّٰہِ أَوْ لِیَصْمُتْ ) [ بخاری، الأیمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائکم : ٦٦٤٦ ] ” خبر دار ! اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جسے قسم کھانی ہو وہ اللہ کی قسم کھائے، یا خاموش رہے۔ “ اس کے باوجود آج کل بعض مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات کی قسم کھانے پر مطمئن نہیں ہوتے، بلکہ اپنے پیر و مرشد یا کسی بزرگ کی قبر کی قسم کھاتے ہیں، یا عام رواج کے مطابق کہہ دیتے ہیں مجھے تیری قسم یا تیرے سر کی قسم وغیرہ، اس طرح وہ دوسروں کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں، تو جس طرح اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے مخلوق کی سچی قسم کھانا اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

بِعِزَّةِ فِرْ‌عَوْنَ (By the majesty of the Pharaoh - 26:44). This was an expression of pledge from the magicians, which was in vogue in the olden times. It is unfortunate that similar oaths have now become common among the Muslims as well, which are even more evil and vile, for instance, &by the king,& &by the head of yours,& &by the beard of yours,& &by the grave of your father& etc. It is not permitted to make an oath of this nature under the Islamic law (because swearing in the name of someone other than Allah is a sin). Rather, it will not be wrong to say that swearing a true oath in this way is as much sinful as swearing a false oath in the name of Allah. (Ruh)

بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ ، یہ کلمہ ان جادوگروں کے لئے بمنزلہ قسم ہے جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھی۔ افسوس کہ مسلمانوں میں بھی اب ایسی قسمیں رائج ہوگئی ہیں جو اس سے زیادہ شنیع اور قبیح ہیں مثلاً بادشاہ کی قسم، تیرے سر کی قسم، تیری ڈاڑھی کی قسم یا تیرے باپ کی قبر کی قسم، اس قسم کی قسمیں کھانا شرعاً جائز نہیں، بلکہ ان کے متعلق یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خدا کے نام کی جھوٹی قسم کھانے میں جو گناہ عظیم ہے ان ناموں کی سچی قسم بھی گناہ میں اس سے کم نہیں (کما فی الروح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَلْـقَوْا حِبَالَہُمْ وَعِصِيَّہُمْ وَقَالُوْا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ۝ ٤٤ حبل الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين : - عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» . والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة . ( ج ب ل ) الحبل ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ عز العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] ( ع ز ز ) العزۃ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔ غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤) چناچہ انہوں نے ستر لکڑیاں اور ستر رسیاں میدان میں ڈالیں اور کہنے لگے فرعون کے اقبال کی قسم ہم ہی موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 As soon as they cast down their cords and staffs, these started moving like so many snakes- towards Moses. This has been described in greater detail at other places in the Qur'an. According to Al-A`raf: 116: "When they threw down their devices, they bewitched the eyes of the people and terrified their hearts: for they had indeed produced a great magic." And according to Ta Ha: 66, 67: "Suddenly it so appeared to Moses that their cords and staffs were running about by the power of their magic, and Moses' heart was filled with fear."

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :36 یہاں یہ ذکر چھوڑ دیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی زبان سے یہ فقرہ سنتے ہی جب جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو یکایک وہ بہت سے سانپوں کی شکل میں حضرت موسیٰ کی طرف لپکتی نظر آئیں ۔ اس کی تفصیل قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہو چکی ہے ۔ سورہ اعراف میں ہے : فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ وَجَآءُوْا بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ ، جب انہوں نے اپنے اَنچھرے پھینکے تو لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کر دیا ، سب کو دہشت زدہ کر کے رکھ دیا ، اور بڑا بھاری جادو بنا لائے ۔ سورہ طٰہٰ میں اس وقت کا نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ :فَاِذا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعیٰ ہ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہ خِیْفَۃً مُّوْ سیٰ O یکایک ان کے سحر سے حضرت موسیٰ کو یوں محسوس ہوا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑی چلی آ رہی ہیں ، اس سے موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں ڈر سے گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: سورۂ طٰہٰ (۲۰:۶۶) میں گذر چکا ہے کہ اچانک ان کی ڈالی ہوئی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے نتیجے میں ایسی محسوس ہونے لگیں جیسے دوڑ رہی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:44) حبالہم مضاف مضاف الیہ۔ ان کی لاٹھیاں۔ ان کے عصا۔ عصی عصا کی جمع ہے۔ بعزۃ۔ باء قسم کے لئے ہے فرعون کے اقبال کی قسم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

12 ۔ فرعون کی تعظیم کے لئے اس کی عزت کی قسم کھائی کہ ہم ضرور ہی جیتیں گے۔ اس سے جادوگروں کا مقصد فرعون کو خوش اور موسیٰ (علیہ السلام) کو مرعوب کرنا تھا…جاہلیت میں لوگ اس قسم کی قسمیں کھایا کرتے جیسا کہ آج کل بھی مسلمان اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات کی قسم کھانے پر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ اپنے پیرومرشد یا کسی بزرگ کے روضہ کی قسم کھاتے ہیں۔ یا عام رواج کے مطابق کہہ دیتے ہیں : مجھے تیری قسم یا تیرے سر کی قسم وغیرہ۔ “ اس طرح دوسروں کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھانے پر اتنا گناہ نہ ہوتا ہو جتنا کہ ان چیزوں کی سچی قسم کھانے پر ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھے۔ (روح المعانی) مزید تفصیل کے لئے سورة طہ (آیت 66 ۔ 67) اور سورة اعراف (آیت 116) دیکھ لی جائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ جو جادو کے اثر سے سانپ معلوم ہوتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جادوگروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا میدان میں پھینکنا۔ جو نہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نگلنا شروع کیا چند لمحوں میں عصا نے میدان اس طرح صاف کردیا کہ کوئی رسی اور لاٹھی باقی نہ تھی۔ اژدھا اس قدر، پھرتیلا اور بڑا تھا کہ جدھر منہ کرتا یوں دکھائی دیتا تھا جیسے رسیاں اور لاٹھیاں خود بخود اس کے منہ میں پڑرہی ہیں۔ جادوگروں نے یہ حیرت ناک منظر دیکھا تو یہ کہتے ہوئے سجدے میں گرپڑے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لاتے ہیں۔ قرآن مجید نے جادوگروں کے سجدہ میں گرنے کے بارے میں فرمایا کہ انہیں گرادیا گیا یعنی سجدہ ریز ہونے اور ایمان لانے کے سوا ان کے لیے کوئی چارہ کار نہ تھا۔ انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ہم موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لا رہے ہیں۔ گویا کہ جادوگروں نے اپنی شکست کا اعتراف اور اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے بیک وقت تین کام کیے۔ ١۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کیا۔ ٢۔ انھوں نے فرعون کی بجائے رب العالمین کہہ کر اپنے ایمان کا اظہار کیا۔ ٣۔ مزید وضاحت کے لیے انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے رب کا نام لیا۔ تاکہ ان کے ایمان پر کسی قسم کا شک نہ رہے اور فرعون عوام کو کسی قسم کا مغالطہ نہ دے سکے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

44۔ اس پر ان جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور یوں کہنے لگے کہ فرعون کے اقبال کی قسم بلاشبہ ہم ہی غالب رہیں گے فرعون کی عزت و آبرو کی قسم کھا کر اپنے غالب ہونے کا دعویٰ کیا۔