Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 46
سورة الشعراء
فَاُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾
So the magicians fell down in prostration [to Allah ].
یہ دیکھتے ہی جادوگر بے اختیار سجدے میں گر گئے ۔
فَاُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾
So the magicians fell down in prostration [to Allah ].
یہ دیکھتے ہی جادوگر بے اختیار سجدے میں گر گئے ۔
[٣٦] فرعون کے جے پکارنے والے جادوگروں نے جب دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا سے بنا ہوا سانپ ان کے سانپ کو ہڑپ کر رہا ہے تو انھیں یقین ہوگیا تھا کہ یہ جادو کے فن سے ماورا کوئی اور چیز ہے۔ وہ کوئی معمولی قسم کے جادوگر نہ تھے۔ بلکہ ملک بھر کے چوٹی کے ماہر اور نامور جادوگر تھے۔ لہذا جب ان کے بنائے ہوئے سب سانپ میدان مقابلہ سے ختم ہوگئے تو انہوں نے اپنی شکست کا برملا اعتراف کرلیا پھر اسی پر اکتفا نہ کیا۔ بلکہ اسی بھرے مجمع میں رب العالمین پر ایمان لانے کا اقرار کیا اور یہ بھی ساتھ ہی وضاحت کردی کہ رب سے مراد ہماری مراد فرعون نہیں بلکہ رب العالمین سے ہماری مراد وہ پروردگار ہے جو ہر چیز کا پرورش کنندہ ہے اور جس کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) دعوت دے رہے ہیں۔
فَاُلْقِيَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِيْنَ ٤٦ۙ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )
(٤٦ تا ٤٨) یہ دیکھتے ہی تمام جادوگر سجدہ میں گرگئے ان کے تیزی کے ساتھ سجدہ کرنے کو گرنے سے تعبیر فرمایا اور جب تمام ان کی رسیوں اور لکڑیوں کا حال ختم ہوگیا تو جادوگر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ معجزہ ہے اور پکار پکار کر کہنے لگے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے۔
آیت ٤٦ (فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ ) ” اُلْقِیَصیغۂ مجہول ہے ‘ یعنی وہ سجدے میں خود نہیں گرے بلکہ گرا دیے گئے۔ مطلب یہ کہ اپنے جادو کے زائل ہونے کا منظر دیکھ کر وہ لوگ اس طرح بےاختیار سجدوں میں گرگئے جیسے کسی نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہو ۔
12: یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے ان کے لیے ’’ سجدے میں گر گئے‘‘ کے بجائے ’’ سجدے میں گرا دئیے گئے‘‘ فرمایا ہے۔ اس میں اشارہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو معجزہ دکھلایا، وہ اس درجہ موؤثر تھا کہ اس نے انہیں بے ساختہ سجدے میں گرا دیا۔
(26:46) فالقی السحرۃ سجدین۔ سو جادو گر سجدہ میں گرپڑے۔ یہاں صیغہ فعل مجہول لایا گیا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) جب جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں یہ معجزہ دیکھا تو ان کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہ رہا سوائے سرتسلیم خإ کرلینے کے اور وہ سجدہ کے لئے مجبور ہوگئے۔ (2) معجزہ کو دیکھ کر جب حقیقت ان پر عیاں ہوگئی اور ان کے دلوں پر سے جہالت و ضلالت کے پردے ہٹ گئے تو وفور شوق سے وہ جھٹ سجدہ میں گرپڑے۔ ان کی اندرنی کیفیت کی شدت کے اظہار کے لئے فعل مجہول لایا گیا ہے اس کی مثال سورة ھود میں ہے وجاء ہ قومہ یہرعون الیہ (11:78) اور اس کے پاس اس کی قوم کے لوگ کھچے چلے آئے۔
1 ۔ ” القی “ (گرا دیئے گئے) یعنی وہ جادوگر اس طرح بےاختیار ہو کر سجدہ میں گرپڑے گویا اندر سے کسی چیز سے انہیں گرا دیا ہے۔
فالقی السحرۃ سجدین (٢٦ : ٣٦) ” قالوا امنا برب العلمین (٢٦ : ٣٨) رب موسیٰ وھرون (٢٦ : ٣٨) ” ، ۔ “ ایک ہی لمحہ قبل وہ کرایہ کے لوگ تھے اور فرعون کے ساتھ وہ اپنی مہارت اور اجرت کا مول تول کر رہے تھے۔ نہ وہ کوئی نظریہ رکھتے تھے اور نہ ان کے پیش نظر کوئی نصب العین تھا۔ لیکن اب ان کے دلوں تک جو سچئای پہنچ گئی اس نے ان کو پوری طرح بدل دیا۔ اس واقعہ نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی دینی دنیا میں ایک زلزلہ پیدا ہوگیا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے جو سچائی دیکھی وہ ان کے دلوں کے تہہ تک پہنچ گئی۔ اس نے ان کے دل پر تمام پردے زائل کردیئے اور گمراہی کی جو تہیں ان کے دلوں پر جمی ہوئی تھیں ، وہ صاف ہوگئیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسویٰ صرف جادوگر ہوتے تو ان کی رسیاں اور انڈے کہیں بھی نہ جاتے ان چیزوں کے اندر ان کے جادو سے ہلچل تو پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ غائب نہیں ہو سکتیں۔ چناچہ ان کا دل صاف ہوگیا اور ان کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ بغیر ارادہ کے سجدے میں گر جائیں۔ ایمان کا اظہار کردیں اور صاف صاف اختیار کردیں۔ امنا برب العلمین (٢٦ : ٣٨) رب موسیٰ وھرون (٢٦ : ٣٨) ” مان گئے ہم رب العالمین کو جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔ “ انسانی دل کو دنیا بھی عجیب ہے۔ ایک لمحے میں اس کی دنیا بدل سکتی ہے ۔ ایک نظر میں اس میں انقلاب آ جات ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت ہی سچ فرمایا۔ ” جو دل بھی ہے وہ رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے ، اگر اللہ چاہے تو اسے سیدھا رکھے اور اگر چاہے تو گمراہ کر دے (ٹیڑھا) کر دے۔ “ یوں جادوگر جو اجر کے طلبگار اور کرایہ کے لوگ تھے وہ برگزیدہ مومن بن گئے اور یہ فرعون اور اس کے جبار وقہار کے ساتھیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے اور فرعون کے جمع کردہ عوام الناس کے جم کا بھی انہوں نے کوئی لحاظ نہ رکھا۔ وہ ان نتائج کی رپواہ کئے بغیر ہی مسلمان ہوگئے جن کی توقع ان کو جابر و ظالم فرعون سے تھی۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ پر ایمان لانا اور اس طرح علی الاعلان لانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اب ان کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کون کیا کہتا ہے۔ حالات نے اچھا جو پلٹا کھایا ، ظاہر ہے کہ فرعون اور اس کے سرداروں پر تو بجلی گر گئی۔ کیونکہ لوگ سب جمع تھے۔ ان کو خود فرعون اور اس کے اہلکاروں نے جمع کیا تھا کہ تا کہ وہ موسیٰ اور جادوگروں کا بھی مقابلہ دیکھ لیں۔ انہوں نے عوام کے اندر یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ موسیٰ اسرائیلی ایک بہت بڑا جادو لے کر آیا ہے اور وہ جادو کے زور پر ہماری حکومت کو ختم کر کے اپنی قوم کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہ حکومت نے بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کر کے اس کے مقابلے کا انتظام کیا ہے۔ ہمارے جادوگر اس پر غالب ہوں گے اور اس کا قلع قمع کردیں گے۔ یہ لوگ جمع ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ موسیٰ اللہ کا نام لے کر آتا ہیں۔ وہ فوراً حضرت موسیٰ کی رسالت کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے سچے نبی ہیں۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب کو مانتے ہیں۔ یہ فرعون کی بندگی کا جوا اپنی گردنوں سے اتار پھینکتے ہیں جبکہ ایک لمحہ قبل وہ فرعون کے سپاہی اور خدمت گار تھے اور اس کی جانب سے انعام کے طلبگار تھے اور اپنا کام انہوں نے عزت فرعون کے عنوان سے شروع کیا تھا۔ حالات کے اندر یہ اچانک انقلاب فرعون کے اقتدار کے لئے خطرہ تھا کیونکہ اب وہ افسانہ ہی ختم ہوگیا جس کی اساس پر فرعون کا اقتدار قائم تھا یہ کہ فرعون الہہ ہے بایں معنی کہ وہ خدا کی اولاد میں سے ہے اور یہ جادوگر دین فرعون کے مذہبی راہنما تھے کیونکہ اس دور میں تمام کاہن جادوگر ہوتے تھے اور یہ تمام جادوگر اسی رب العالمین پر ایمان لے آئے ہیں جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے ، جہاں تک جمہور عوام کا تعلق ہے وہ ہمیشہ مذبہی راہنمائوں کی اطاعت کرتے ہیں۔ وہ عقائد انہی مذہبی راہنمائوں سے لیتے ہیں۔ اب فرعون کے اقتدار کے لئے وجہ جواز اور سہارا صرف قوت رہ گئی اور یہ دنیا کا قاعدہ ہے کہ محض قوت کے بل بوتے پر سکی اقتدار کو قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ذرا اچھی طرح اندازہ کرلیں کہ اس صورتحال سے فرعون کس قدر بوکھلایا ہوگا اور اس کے اردگرد بیٹھے ہوئے حاشیہ نشینوں کی حالت کیا ہوگی کہ جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ جادوگر ایمان لے آئے اور ایسا ایمان کہ ایمان لاتے ہی وہ رب العالمین کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اعتراف حق کر کے اللہ کی طرف یکسو ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کو دیکھ کر فرعون پاگل ہوجاتا ہے۔ وہ بوکھلاہٹ میں اعلان کردیتا ہے کہ تم سازشی ہو ، تمہیں سخت ترین سزا دی جائے گی۔ پہلے تو اس نے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے لئے حصول اقتدار کی سازش کر رہے ہیں۔
24:۔ جب انہوں نے اس معجزے کا مشاہدہ کیا تو فوراً سمجھ گئے یہ جادو نہیں بلکہ یہ امر الٰہی ہے اس لیے بلا توقف اور بلا تامل اس طرح سجدے میں گر پڑے گویا کسی نے ان کو پکڑ کر گرا دیا ہو۔ اور زبان سے اعلان کردیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے جو موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کا رب ہے۔ ای خروا ساجدین اثر ما شاھدوا ذلک من غیر تلعثم و تردد لعلمھم بان مثل ذلک خارج عن حدود السحر وانہ امر الہی قد ظھر علی یدہ (علیہ السلام) لتصدیقہ (روح ج 19 ص 87) ۔