Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 49

سورة الشعراء

قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَہٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ۚ اِنَّہٗ لَکَبِیۡرُکُمُ الَّذِیۡ عَلَّمَکُمُ السِّحۡرَ ۚ فَلَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۬ ؕ لَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾

[Pharaoh] said, "You believed Moses before I gave you permission. Indeed, he is your leader who has taught you magic, but you are going to know. I will surely cut off your hands and your feet on opposite sides, and I will surely crucify you all."

فرعون نے کہا کہ میری اجازت سے پہلے تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً یہی تمہارا وہ بڑا ( سردار ) ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے سو تمہیں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا ، قسم ہے میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے طور پر کاٹ دونگا اور تم سب کو سولی پر لٹکا دونگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Between Fir`awn and the Sorcerers His threats against them resulted only in an increase in their faith and submission to Allah, for the veil of disbelief had been lifted from their hearts and the truth became clear to them because they knew something that their people did not: that what Musa had done could not have been done by any human being unless Allah helped him, making it proof and an evidence of the truth of what he had brought from his Lord. Allah tells that: قَالَ امَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ اذَنَ لَكُمْ ... He (Fir`awn) said: You have believed in him before I give you leave. meaning, `you should have asked my permission for what you did, and you did not consult with me; if I had given you permission you could have done it, and if I did not allow you, you should not have done it, for I am the ruler and the one to be obeyed.' ... إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ... Surely, he indeed is your chief, who has taught you magic! This is stubborn talk, and anyone can see that it is nonsense, for they had never met Musa before that day, so how could he have been their chief who taught them how to do magic! No rational person would say this. ... فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ لاَُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَفٍ وَلاَُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ So verily, you shall come to know. Verily, I will cut off your hands and your feet on opposite sides, and I will crucify you all." Then Fir`awn threatened to cut off their hands and feet, and crucify them.

جرات وہمت والے کامل ایمان لوگ سبحان اللہ کیسے کامل الایمان لوگ تھے حالانکہ ابھی ہی ایمان میں آئے تھے لیکن ان کی صبر وثبات کا کیا کہنا ؟ فرعون جیسا ظالم وجابر حاکم پاس کھڑا ڈرا دھمکا رہا ہے اور وہ نڈر بےخوف ہو کر اس کی منشا کے خلاف جواب دے رہے ہیں ۔ حجاب کفر دل سے دور ہوگئے ہیں اس وجہ سے سینہ ٹھونک کر مقابلہ پر آگئے ہیں اور مادی طاقتوں سے بالکل مرعوب نہیں ہوتے ۔ ان کے دلوں میں یہ بات جم گئی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس اللہ کا دیا ہوا معجزہ ہے کسب کیا ہوا جادو نہیں ۔ اسی وقت حق کو قبول کیا ۔ فرعون آگ بگولہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ تم نے مجھے کوئی چیز ہی نہ سمجھا ۔ مجھ سے باغی ہوگئے مجھ سے پوچھا ہی نہیں اور موسیٰ علیہ السلام کی مان لی؟ یہ کہہ کر پھر اس خیال سے کہ کہیں حاضرین مجلس پر ان کے ھار جانے بلکہ پھر مسلمان ہوجانے کا اثر نہ پڑے اس نے انہیں ذلیل سمجھا ۔ ایک بات بنائی اور کہنے لگا کہ ہاں تم سب اس کے شاگرد ہو اور یہ تمہارا استاد ہے تم سب خورد ہو اور یہ تمہار برزگ ہے ۔ تم سب کو اسی نے جادو سکھایا ہے اس مکابرہ کو دیکھو یہ صرف فرعون کی بے ایمانی اور دغابازی تھی ورنہ اس سے پہلے نہ تو جادوگروں نے حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو دیکھا تھا اور نہ ہی اللہ کے رسول ان کی صورت سے آشنا تھے ۔ رسول اللہ تو جادو جانتے ہی نہ تھے کسی کو کیا سکھاتے؟ عقلمندی کے خلاف یہ بات کہہ کر پھر دھمکانا شروع کردیا اور اپنی ظالمانہ روش پر اتر آیاکہنے لگا میں تمہارے سب کے ہاتھ پاؤں الٹی طرف سے کاٹ دوں گا اور تمہیں ٹنڈے منڈے بنا کر پھر سولی دونگا کسی اور ایک کو بھی اس سزا سے نہ چھوڑونگا سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ راجا جی اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ جو تم سے ہوسکے کر گزرو ۔ ہمیں مطلق پرواہ نہیں ہمیں تو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے ہمیں اسی سے صلہ لینا ہے جتنی تکلیف تو ہمیں دے گا اتنا اجر وثواب ہمارا رب ہمیں عطافرمائے گا ۔ حق پر مصیبت سہنا بالکل معمولی بات ہے جس کا ہمیں مطلق خوف نہیں ۔ ہماری تو اب یہی ایک آرزو ہے کہ ہمارا رب ہمارے اگلے گناہوں پر ہماری پکڑ نہ کرے جو مقابلہ تو نے ہم سے کروایا ہے ۔ اس کا وبال ہم پر سے ہٹ جائے اور اسکے لئے ہمارے پاس سوائے اس کے کوئی وسیلہ نہیں کہ ہم سب سے پہلے اللہ والے بن جائیں ایمان میں سبقت کریں اس جواب پر وہ اور بھی بگڑا اور ان سب کو اس نے قتل کرادایا ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

491فرعون کے لئے یہ واقعہ بڑا عجیب اور نہایت حیرت ناک تھا جن جادوگروں کے ذریعے وہ فتح و غلبہ کی آس لگائے بیٹھا تھا وہی نہ صرف مغلوب ہوگئے بلکہ موقع پر ہی وہ اس رب پر ایمان لے آئے، جس نے حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو دلائل و معجزات دے کر بھیجا تھا لیکن بجائے اس کے کہ فرعون بھی غور و فکر سے کام لیتا اور ایمان لاتا، اس نے مکابرہ اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور جادوگروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا اور کہا کہ تم سب اسی کے شاگرد لگتے ہو اور تمہارا استاد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش کے ذریعے سے تم ہمیں یہاں سے بےدخل کردو۔ (اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِي الْمَدِيْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا) 7 ۔ الاعراف :123) ۔ 492الٹے طور پر ہاتھ پاؤں کاٹنے کا مطلب دایاں ہاتھ اور بایاں پیر یا بایاں ہاتھ اور دایاں پیر ہے۔ اس پر سولی مستزاد یعنی ہاتھ پیر کاٹنے سے بھی اس کی آتش غضب ٹھنڈی نہ ہوئی مذید اس نے سولی پر لٹکانے کا اعلان کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] فرعون ایک تو بھرے مجمع میں اپنی واضح شکست دیکھ چکا تھا۔ یہ رنج ابھی تازہ ہی تھا کہ اوپر سے اس کے جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کی رسالت کا اور اپنے ایمان لانے کا اقرار کرلیا تو وہ اس دوہرے صدمہ سے سیخ پا ہوگیا۔ اسے خطرہ یہ تھا کہ اب یہ سارا مجمع اور اس کے بعد اس کی قوم بھی اس کا ساتھ چھوڑ کر ایمان لے آئیں گے۔ لہذا اب دو تشدد پر اتر آیا۔ وہ مقابلہ سے پہلے اپنے ہی اس اقرار کو بھی بھول گیا جو وہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں جادوگروں کا ہیساتھ دینا پڑے گا۔ فوراً ایک تجویز اس کے ذہن میں آئی اور اس نے جادوگروں پر یہ الزام لگا دیا کہ یہ جادوگر تو پہلے ہی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ وہ ان کا استاد تھا اور یہ اس کے چیلے تھے۔ ان دونوں نے مل کر مجھے اس انجام تک پہنچایا ہے اور اس کی دلیل یہ پیش کی کہ شکست کے بعد جادوگروں نے مجھے پوچھا تک نہیں نہ مجھ سے مشورہ کیا۔ جادوگر میرے تھے اور مل گئے) موسیٰ (علیہ السلام) ( سے اب ان کی اس فریب کاری کی میں انھیں پوری پوری سزا دوں گا اور ایسی سزا دوں گا جس سے باقی لوگوں کو ایسی حرکت کرنے کی جرات تک نہ ہوسکے۔ فرعون دراصل اس اعلان سے دوہرہ فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا وہ پہلے بھی اپنے طور پر یہ سمجھ چکا کہ موسیٰ (علیہ السلام) واقعی اللہ کا رسول ہے۔ لیکن دوسروں کو الو بنانے کی خاطر انھیں یہ یقین دلا رہا تھا کہ موسیٰ اور اس کا بھائی ہارون اللہ کے رسول نہیں۔ بلکہ یہ جادوگر ہیں۔ ہر مقابلہ میں شکست کے بعد عوام الناس میں پھر اسی تاثر کو مزید تقویت دینے کی کوشش کی اور دوسرے جادوگروں کو سولی چڑھانے کا اعلان کرکے لوگوں کو خوف زدہ کردیا تاکہ آئندہ کوئی شخص ان پر ایمان لانے کی جرات نہ کرسکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا لَا ضَيْرَ ۔۔ : ” لَا ضَيْرَ “ کوئی نقصان نہیں۔ ” ضَارَ یَضِیْرُ ضَیْرًا “ اور ” ضَرَّ یَضُرُّ ضَرًّا “ ہم معنی ہیں، یعنی بہرحال اللہ کی طرف تو لوٹنا ہی ہے، اس طرح مریں گے تو شہادت کا درجہ پائیں گے اور صبر کا اجر ملے گا۔ (وحیدی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۝ ٠ۚ اِنَّہٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ۝ ٠ ۚ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝ ٠ۥۭ لَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَ۝ ٤٩ۚ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق/ 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ رِّجْلُ : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔ صلب والصَّلَبُ والاصْطِلَابُ : استخراج الودک من العظم، والصَّلْبُ الذي هو تعلیق الإنسان للقتل، قيل : هو شدّ صُلْبِهِ علی خشب، وقیل : إنما هو من صَلْبِ الوَدَكِ. قال تعالی: وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء/ 157] ، وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء/ 49] والصَّلِيبُ : أصله الخشب الذي يُصْلَبُ عليه، والصَّلِيبُ : الذي يتقرّب به النّصاری، هو لکونه علی هيئة الخشب الّذي زعموا أنه صُلِبَ عليه عيسى عليه السلام، ( ص ل ب ) الصلب الصلب والاصطلاب کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا کے ہیں اور صلب جس کے معنی قتل کرنے کے لئے لٹکا دینا کے ہیں ۔ بقول بعض اسے صلب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اس شخص کی پیٹھ لکڑی کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صلب الودک سے ہے جس کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا گے ہیں قرآن میں ہے : وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ سول پر چڑ ھایا ۔ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء/ 49] اور کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوادوں گا ۔ ۔ الصلیب اصل میں سوئی کی لکڑی کو کہتے ہیں نیز صلیب اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جو عیسائی بطور عبادت کے گلے میں اس خیال پر باندھ لیتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر سولی لٹکایا گیا تھا ۔ اور جس کپڑے پر صلیب کے نشانات بنے ہوئے ہوں اسے مصلب کہاجاتا ہے ۔ صالب سخت بخار جو پیٹھ کو چور کردے یا پسینہ کے ذریعہ انسان کی چربی نکال لائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) فرعون نے ان سے کہا کیا رب العالمین سے معاذ اللہ میری ذات مراد ہے انہوں نے کہا نہیں بلکہ جو موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا رب ہے۔ فرعون نے کہا میرے حکم دینے سے پہلے ہی تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے، معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جادو میں تم سب کا استاد ہے ابھی تمہیں حقیقت معلوم ہوجاتی ہے جو میرا تمہارے ساتھ برتاؤ ہوگا میں تمہارا داہنا ہاتھ اور بایاں پیر کٹواؤں گا اور مصر کی نہر کے کنارے پر تم سب کو سولی پر لٹکواؤں گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ ج) ” فرعونُ پر جلال انداز میں گرجا کہ تمہاری یہ جرأت کہ مابدولت کی اجازت کے بغیر تم لوگوں نے موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لانے کا اعلان کردیا ! (اِنَّہٗ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ ج) ” کہ مجھے تمہاری سازش کا پتا چل گیا ہے۔ یقیناً یہ تمہارا استاد اور گرو گھنٹال ہے جس سے تم جادو سیکھتے رہے ہو۔ تمہارا یہاں آنا اور مقابلہ کرنا محض ایک ڈھونگ تھا اور اب اس سے یوں تمہارا ہار مان لینا تمہاری باہمی ملی بھگت اور نورا کشتی کا نتیجہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 This only shows the extreme obstinacy and obduracy of Pharaoh, who even after witnessing a clear miracle and the testimony of the magicians on it, was still insisting that it was magic. But according to Al-A`raf: 123, Pharaoh said, "Indeed it was a plot you conspired in the capital to deprive the rightful owners of their power." Thus he tried to make the people believe that the magicians had yielded to Moses not because of the miracle but due to a conspiracy with Moses before they entered the contest, so that they might seize political power and enjoy its fruits together. 39 This horrible threat was held out by Pharaoh to justify his thinking that the magicians had entered a conspiracy with Moses. He thought that the magicians, in order to save their lives, would confess the plot and thus the effect produced by their falling prostrate and believing in Moses in front of thousands of spectators would be gone.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :38 یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ دکھانا ہے کہ ایک ضدی اور ہٹ دھرم آدمی کس طرح ایک صریح معجزہ دیکھ کر ، اور اس کے معجزہ ہونے پر خود جادوگروں کی شہادت سن کر بھی اسے جادو کہے جاتا ہے ، اس لیے فرعون کا صرف اتنا ہی فقرہ نقل کر نے پر اکتفا کیا گیا ہے ، لیکن سورہ اعراف میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ فرعون نے بازی ہارتی دیکھ کر فوراً ہی ایک سیاسی سازش کا افسانہ گھڑ لیا ۔ اس نے کہا :اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْھَآ اَھْلَھَا یہ ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے مل کر اس دارالسلطنت میں تیار کی ہے تا کہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو ۔ اس طرح فرعون نے عام الناس کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ جادوگروں کا یہ ایمان معجزے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ محض ملی بھگت ہے ، یہاں آنے سے پہلے ان کے اور موسیٰ کے درمیان معاملہ طے ہو گیا تھا کہ یوں وہ موسیٰ کے مقابلے میں آ کر شکست کھائیں گے ، اور نتیجے میں جو سیاسی انقلاب ہو گا اس کے مزے وہ اور یہ مل کر لوٹیں گے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :39 یہ خوفناک دھمکی فرعون نے اپنے اس نظریے کو کامیاب کرنے کے لیے دی تھی کہ جادوگر دراصل موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سازش کر کے آئے ہیں ۔ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ اس طرح یہ لوگ جان بچانے کے لیے سازش کا اعتراف کرلیں گے اور وہ ڈرامائی اثر کافور ہو جائے گا جو شکست کھاتے ہی ان کے سجدے میں گر کر ایمان لے آنے سے ان ہزارہا ناظرین پر مترتب ہوا تھا جو خود اس کی دعوت پر یہ فیصلہ کن مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے اور جنہیں خود اس کے بھیجے ہوئے لوگوں نے یہ خیال دلایا تھا کہ مصری قوم کا دین و ایمان بس ان جادوگروں کے سہارے لٹک رہا ہے ، یہ کامیاب ہوں تو قوم اپنے دین آبائی پر قائم رہ سکے گی ورنہ موسیٰ کی دعوت کا سیلاب اسے اور اس کے ساتھ فرعون کی سلطنت کو بھی بہا لے جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(٤٩ تا ٥١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھ کر جب جادوگر لوگ سجدہ میں گر پڑے اور ایمان لے آئے اس وقت فرعون نے ان کو یوں ڈرایا تھا کہ تمہارے اس جرم کی جو سزا تجویز کی جائے گی وہ تم کو معلوم ہوجائے گی اب وہ سزا کا حکم سنایا اور کہا کہ پہلے میں تمہارا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف پیر کاٹوں گا اور پھر تم کو سولی پر چڑھاؤں گا ‘ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہ خاص ایک نئی سزا تھی جو فرعون نے نکالی تھی کہ جس پر خفا ہوتا تھا اس کا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹا کرتا تھا مفسرین سلف کا اس باب میں اختلاف ہے کہ فرعون نے جس سزا کا ڈراوا جادوگروں کو دیا تھا وہ سزا فرعون ان کو دے بھی سکا یا نہیں اگرچہ تفسیر ابن ابی حاتم میں عکرمہ کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے اپنے وعدہ کے موافق ان جادوگروں کو سزا دی کیونکہ اسی روایت میں یہ ہے کہ صبح کو وہ جادوگر تھے اور شام کو شہید ہوئے اب یہ ظاہر بات ہے کہ فرعون اگر ان کو سزا نہ دیتا تو شام کو وہ شہید کیونکر ہوجاتے لیکن سورة قصص میں آوے گا ‘ انتماو من اتبعکما الغالبون جس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے ساتھیوں پر فرعون کا کسی طرح غلبہ نہیں ہوسکا اس سے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ جادوگر شریعت موسوی کے تابع اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے ساتھی بن گئے تو اس کے بعد فرعون اپنی دھمکی پر کچھ عمل نہیں کرسکا فرعون کی دھمکی کا جواب جادوگروں نے جو دیا اس کا حاصل یہ ہے کہ جب اس میدان بھر کی بھیڑ میں سے ہم سب سے اول اللہ کی وحدانیت کے قائل ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ امید ہے کہ نادانی سے اتنے دنوں تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور قصور واری میں جو ہم نے عمر گزاری ہے اس وحدانیت کے طفیل سے وہ ہماری پچھلی تقصیریں معاف ہوجاویں گی صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت حضرت علی (رض) کی حدیث جو اوپر گزر چکی ہے اس کو ان آیتوں کی تفسیر میں یہ دخل ہے کہ جادوگر لوگ علم الٰہی میں جنتی قرار پاچکے تھے اس لیے آخری عمر میں ان کو ویسے ہی کام بھی اچھے نظر آئے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:49) قبل۔ یہاں پیشتر کے معنی میں نہیں بلکہ بدوں یا بغیر کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ اذن لکم : اذن واحد متکلم مضارع۔ نصب بوجہ ان ہے۔ اذن مصدر۔ (باب سمع) اذن یاذن اذن ۔ ل حکم دینا۔ اجازت دینا۔ قبل ان اذن لکم بغیر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں۔ انہ میں ضمیر واحد مذکر غائب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ انہ لکبیرکم الذی علمکم السحر۔ دراصل وہی تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ فلسوف تعلمون۔ میں ف تعقیب کا ہے لام تاکید کے لئے آیا ہے عبارت یوں ہے فلانتم سوف تعلمون وبال ما فعلم سو تم جلدی ہی اپنے کئے کی سزا پولو گے۔ لاقطعن لام تاکید کا اقطعن مضارع تاکید بانون ثقیلہ صیغہ واحد متکلم ۔ تقطیع (تفعیل) مصدر میں ضرور کاٹوں گا۔ قطع مادہ۔ من خلاف۔ مخالف طرفوں سے یعنی دایاں بازو اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں۔ ولا صلبنکم۔ لام تاکید کا اصلبن مضارع بانون ثقیلہ واحد متکلم ۔ تصلیب تفصیل سے۔ میں تم کو ضرور سولی پر چڑھا دوں گا کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ اور تم سب استاد اور شاگردوں نے سازش کر کے یہ کھیل کھیلا۔ یا کہ لوگوں کو دکھلانے کے لئے استاد سے ہار گئے تاکہ سب لوگ استاد کے معتقد ہوجائیں اور پھر ہماری بادشاہی چھین لو۔ (کبیر) شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” تمہارا بڑا “ کہنا رب کو۔ یعنی موسیٰ ( علیہ السلام) اور تم ایک استاد کے شاگرد ہو۔ (موضح) واللہ اعلم۔ 4 ۔ یعنی دایاں ہاتھ تو بائیں ٹانگ اور بایاں ہاتھ تو دائیں ٹانگ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جادوگروں کے ایمان لانے کا اعلان سن کر فرعون کا الزام اور اس کی دھمکیاں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے۔ لیکن فرعون نے لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے شاطرانہ انداز میں اعلان کیا کہ دراصل موسیٰ تمہارا بڑا استاد ہے۔ اسی نے تمہیں جادو سکھایا اور تمہارے ساتھ مل کر سازش کی ہے۔ جس بنا پر تم میری اجازت کے بغیر ایمان لائے ہو۔ لہٰذا تمہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں، یاد رکھو کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت پر کاٹ ڈالوں گا اور ہر صورت تمہیں سولی پر لٹکاؤں گا۔ فرعون نے یہ بھی اعلان کیا کہ میں تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھاؤں گا۔ اس وقت تمہیں معلوم ہوگا کہ کس کی سزا سخت اور دیرپا ہے۔ (طٰہٰ : ٧١) تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) اور مومنوں کو کفار کی دھمکیاں : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر دوں گا اور گھر سے نکال دوں گا۔ ( ابراہیم : ٤٦) ٢۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکی دی کہ اگر تو اس دعوت سے باز نہ آیا تو تجھے قید کروا دوں گا۔ ( الشعرآء : (٢٩) ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو تجھے رجم کردیا جائے گا۔ ( الشعرآء : ١١٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال امنتم ……اجمعین (٢٦ : ٣٩) ” ۔ “ تم میری اجازت کے بغیر میرے مشورے کے بغیر ہی موسیٰ کی بات مان کر سجدہ ریز بھی ہوگئے۔ یہاں اس نے یہ نہیں کہا امنتم بہ ” تم اس پر ایمان لائے “ بلکہ اس نے امنتم لہ کہا یعنی تم نے اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور میری اجازت کے بغیر جس طرح کوئی شخص جنگی چال چلتا ہے اپنے ارادے کا مالک ہوتا ہے ، وہ اپنے ہدف کو جانتا ہے اور اپنے انجام کا اندازہ کرتا ہے۔ ایسا شخص جو ہر کام منصوبہ بندی سے کرتا ہے وہ اس قدرتی لمحے اور اس قدر تی ٹچ کو نہیں سمجھ سکتا جس کی گرفت میں جادوگروں کے دل آگئے۔ سرکش حکمران ایسے لمحات کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ان کے دل پتھر ہوجاتے ہیں اور وہ ایسے روشن لمحات سے محروم ہوتے ہیں۔ چناچہ فرعون بڑی تیزی سے ان پر الزام لگاتا ہے اور عوام الناس کو لائن دیتا ہے کہ ان جادوگروں کے اندر کیوں اس قدر عظیم انقلاب آیا۔ انہ لکبیر کم الذی علمکم السحر (٢٦ : ٣٩) ” ضرور ، یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا۔ “ فرعون نے یہ عجیب الزام لگایا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جادوگروں کے ساتھ کیا تعلق ہو سکتا ہے ، الایہ کہ یہ جادوگر جب کاہن تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے گھر میں پل رہے تھے تو شاید اس زمانے میں کاہن موسیٰ (علیہ السلام) کو تعلیم دیتے ہوں گے۔ یا موسیٰ (علیہ السلام) ان کی عبادت گاہوں میں جاتے ہوں گے۔ اس تعلق کی بنا پر اس نے یہ الزام لگایا پھر بجائے اس کے کہ یہ ان کو کہتا کہ موسیٰ تمہارا شاگرد ہے اس نے یہ الزام لگا دیا کہ یہ تمہار باڑا استاد ہے۔ عوام الناس کے ذہن میں وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو ملک کے لئے خطرہ ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد وہ صراحت کے ساتھ ان کو شدید عذاب کی دھمکی دیتا ہے کہ اچھا انتظار کرو ، میری طرف سے سزا کا۔ فلسوف تعلمون ……اجمعین (٢٦ : ٣٩) ” اچھا ابھی تمہیں معلوم ہوجاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹوائوں گا اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا۔ “ یہ ہے وہ حماقت جس کا ارتکاب ہر سرکش ڈکٹیٹر کیا کرتا ہے اور یہ وہ اس وقت کرتا ہے جب اس کی کرسی اور اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور اس کی ذات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور اس میں وہ خود اپنے ضمیر کی ملامت کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ یہ سزا فرعون سنا رہا ہے جس کا یہ لفظ قانون ہے اور اسی وقت نافذ کردیا جاتا ہے۔ اب ذرا اس گروہ مومن کی بات بھی سن لیں جس نے روشنی کو دیکھ لیا ہے۔ یہ اس دل کی بات ہے جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور اس معرفت کے بعد اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اب کا جاتا ہے۔ یہ ایسے دل کی بات ہے جس نے اللہ تک رسائی حاصل کرلی ہے اور ایمان کا ذائقہ چکھ لیا ہے۔ اس لئے وہ ڈکٹیٹر اور سرکش حکمران کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور یہ ایسک ایسے دل کی پکار ہے جو آخرت کا طلبگار ہے اور اس لئے اسے اس دنیا کے فائدے کی کوئی پرواہ نہیں رہتی۔ خواہ قلیل ہو یا کثیر۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ فرعون جادوگروں کی ناکامی پر سخت پریشان اور پھر ان کے ایمان لانے پر بہت برہم ہوا اور اپنی خفت مٹانے اور رعیت پر اپنی خدائی کا رعب جمانے اور لوگوں کے دلوں سے اس ناکامی کا اثر زائل کرنے اور جادوگروں کو خوف زدہ کرنے کے لیے اس نے کہا۔ تم میری اجازت کے بغیر ہی موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ تم سب کا اس فن میں استاد ہے اور تم سب نے مل کر ایک منصوبہ بنا رکھا ہے اور تم جادو کے زور سے میری سلطنت پر قبضہ کرنا چاہتے ہو۔ اچھا دیکھو ابھی میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں اور میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ اب تمہارے الٹے ہاتھ پاؤں (یعنی دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں) کٹوا کر تمہیں سولی پر لٹکا دوں گا۔ اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ شاید جادوگر اس سزا کے ڈر سے ایمان لانے سے باز آجائیں نیز رعیت کو باور کرانا مقصود تھا کہ ناکامی اس لیے ہوئی ہے کہ جادوگر اندر سے موسیٰ کے ساتھ ملے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے اپنے فن کا پورا مظاہرہ کیا ہی نہیں۔ 26:۔ جادوگروں نے فرعون کی دھمکی کے جواب میں کہا ہمیں سولی پر چڑھائے جانے کی پرواہ نہیں کیونکہ آخر ایک دن مرنا تو ہے ہی اگر ہم اس طرح اللہ کی راہ میں شہید کردئیے جائیں تو ہمیں اور کیا چاہئے۔ ” انا الی ربنا منقلبون “ ما قبل کے لیے تعلیل ہے۔ تعلیل لنفی الضیر ای لا ضیر فی ذلک بل لنا فیہ نفع عظیم لما یحصل لنا من الصبر علیہ لوجہ اللہ تعالیٰ من الثواب العظیم (روح ج 19 ص 80) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49۔ فرعون یہ دیکھ کر گھبرایا اور اپنا پر سٹیج قائم کرنے کی غرض سے جادوگروں کو خطاب کرتے ہوئے کہنے لگا اس سے پیشتر کہ میں تم کو اس پر ایمان لانے کی اجازت دو تم اس پر ایمان لے آئے ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) تم سب کا بڑا استاد ہے جس تے تم کو جادو سکھایا ہے تم کو ابھی اپنی اس حرکت کا نتیجہ معلوم ہواجاتا ہے اور تم یقینا ابھی جان لوگے میں تم سب کے یقینا ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پائوں کٹوائوں گا اور تم سب کو سولی دوں گا۔ یعنی فرعون کو اندیشہ ہوا کہ کہیں عام لوگ اسلام نہ قبول کرلیں اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان نہ لے آئیں اس لئے جادوگروں کو دھمکی دی۔ یہ جادو میں تم سب کا بڑا ہے یعنی یہ تم سب کا استاد ہے اور تم سب نے باہم سازش کی ہے کہ تم لکڑی پھینکنا اور ہم ایمان کا اقرار کرلیں گے پھر سزا کا حکم سنایا اس کے ملک میں بغاوت کی یہی سزا ہوگی بہرحال شخصی اور غیر جمہوری حکومت تھی فرعون نے جو سزا دی وہ کم تھی۔ بہر حال سورة طہ میں پوری تفصیل گذر چکی ہے ایمان نے تھوڑی ہی دیر میں جادوگروں کا رنگ بدل دیا وہ نہایت ثابت قدمی اور اولو العزمی کے ساتھ باطل کے مقابل ہوگئے اور فرعون کو مردانہ وار جواب دیا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں تمہارا بڑا کہا رب کو موسیٰ اور تم ایک استاد کے شاگرد ہو 12