Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 52

سورة الشعراء

وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡۤ اِنَّکُمۡ مُّتَّبَعُوۡنَ ﴿۵۲﴾

And We inspired to Moses, "Travel by night with My servants; indeed, you will be pursued."

اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو نکال لے چل تم سب پیچھا کئے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Exodus of the Children of Israel from Egypt Allah tells: وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَايِنِ حَاشِرِينَ

فرعونیوں کا انجام موسیٰ علیہ السلام نے اپنی نبوت کا بہت سارا زمانہ ان میں گزارا ۔ اللہ کی آیتیں ان پر واضح کردیں لیکن ان کا سر نیچا نہ ہوا ان کا تکبر نہ ٹوٹا ان کی بد دماغی میں کوئی فرق نہ آیا ۔ تو اب سوا اس کے کے کوئی چیز باقی نہ رہی کہ ان پر عذاب الہٰی آجائے اور یہ غارت ہوں ۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی وحی آئی کہ راتوں رات بنی اسرائیلیوں کو لے کر میرے حکم کے مطابق چل دو ۔ بنو اسرائیل نے اس موقع پر قبطیوں سے بہت سے زیور بطور عاریت کے لئے اور چاند چڑھنے کے وقت چپ چاپ چل دئیے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات چاند گہن تھا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے راستے میں دریافت فرمایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر کہاں ہے؟ بنو اسرائیل کی ایک بڑھیا نے قبر بتلادی ۔ آپ نے تابوت یوسف اپنے ساتھ اٹھالیا ۔ کہا گیا کہ خود آپ نے ہی اسے اٹھایا تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی وصیت تھی کہ بنی اسرائیل جب یہاں سے جانے لگیں تو آپ کا تابوت اپنے ہمراہ لیتے جائیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی اعرابی کے ہاں مہمان ہوئے اس نے آپ کی بڑی خاطر تواضع کی واپسی میں آپ نے فرمایا کبھی ہم سے مدینے میں بھی مل لینا کچھ دنوں بعد اعرابی آپ کے پاس آیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ چاہئے؟ اس نے کہاں ہاں ایک تو اونٹنی دیجئے مع ہودج کے اور ایک بکری دیئجے جو دودھ دیتی ہو آپ نے فرمایا افسوس تو نے بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسا سوال نہ کیا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ۔ وہ واقعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جب حضرت کلیم اللہ بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے ہزار کوشش کی لیکن راہ نہیں ملتی ۔ آپ نے لوگوں کو جمع کرکے پوچھایہ کیا اندھیر ہے؟ تو علمائے بنی اسرائیل نے کہا بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے آخری وقت ہم سے عہد لیا تھا کہ جب ہم مصر سے چلیں تو آپ کے تابوت کو بھی یہاں سے اپنے ساتھ لیتے جائیں ۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون جانتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی تربت کہاں ہے؟ سب نے انکار کردیا ہم نہیں جانتے ہم میں سوائے ایک بڑھیا کے اور کوئی بھی آپ کی قبر سے واقف نہیں آپ نے اس بڑھیا کے پاس آدمی بھیج کر اس سے کہلوایا کہ مجھے حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر دکھا ۔ بڑھیا نے کہا ہاں دکھاؤں گی لیکن پہلے اپنے حق لے لوں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تو کیا چاہتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جنت میں آپ کا ساتھ مجھے میسر ہو ۔ آپ پر اس کا یہ سوال بھاری پڑا اسی وقت وحی آئی کہ اس کی بات مان لو اور اسکی شرط منظور کرلو اب وہ آپ کو ایک جھیل کے پاس لے گئی جس کے پانی کا رنگ بھی متغیر ہوگیا تھا کہا کہ اس کا پانی نکال ڈالو جب پانی نکال ڈالا اور زمین نظر آنے لگی تو کہا اب یہاں کھودو ۔ کھودنا شروع ہوا تو قبر ظاہر ہوگئی اسے ساتھ رکھ لیا اب جو چلنے لگے تو راستہ صاف نظر آنے لگا اور سیدھی راہ لگ گئے ۔ لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ زیادہ قریب تو یہ ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ یہ لوگ تو اپنے راستے لگ گئے ادھر فرعون اور فرعونیوں کی صبح کے وقت جو آنکھ کھلتی ہے تو چوکیدار غلام وغیرہ کوئی نہیں ۔ سخت پیچ وتاب کھانے لگے اور مارے غصے کے سرخ ہوگئے جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کو سب کے سب فرار ہوگئے ہیں تو اور بھی سناٹا چھا گیا ۔ اسی وقت اپنے لشکر جمع کرنے لگا ۔ سب کو جمع کرکے ان سے کہنے لگا ۔ کہ یہ بنی اسرائیل کا ایک چھوٹا سا گروہ ہے محض ذلیل کمین اور قلیل لوگ ہیں ہر وقت ان سے ہمیں کوفت ہوتی رہتی ہے تکلیف پہنچتی رہتی ہے ۔ اور پھر ہر وقت ہمیں ان کی طرف سے دغدغہ ہی لگا رہتا ہے یہ معنی حاذرون کی قرأت پر ہیں سلف کی ایک جماعت نے اسے حذرون بھی پڑھا ہے یعنی ہم ہتھیار بند ہیں میں ارادہ کر چکا ہوں کہ اب انہیں ان کی سرکشی کا مزہ چکھا دوں ۔ ان سب کو ایک ساتھ گھیر گھار کر گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈال دوں ۔ اللہ کی شان یہی بات اسی پر لوٹ پڑی اور وہ مع اپنی قوم اور لاؤ لشکر کے یہ یک وقت ہلاک ہوا ۔ لعنۃ اللہ علیہ وعلی من تبعہ ۔ جناب باری کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ اپنی طاقت اور اکثریت کے گھمنڈ پر بنی اسرائیل کے تعاقب میں انہیں نیست ونابود کرنے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اس بہانے ہم نے انہیں ان کے باغات چشموں نہروں خزانوں اور بارونق مکانوں سے خارج کیا اور جہنم واصل کیا ۔ وہ اپنے بلند وبالا شوکت وشان والے محلات ہرے بھرے باغات جاری نہریں خزانے سلطنت ملک تخت وتاج جاہو مال سے چھوڑ کر بنی اسرائیل کے پیچھے مصر سے نکلے ۔ اور ہم نے ان کی یہ تمام چیزیں بنی اسرائیل کو دلوادیں جو آج تک پست حال تھے ذلیل ونادار تھے ۔ چونکہ ہمار ارادہ ہوچکا تھا کہ ہم ان کمزوروں کو ابھاریں اور ان گرے پڑے لوگوں کو برسر ترقی لائیں اور انہیں پیشوا اور وارث بنادیں اور ارادہ ہم نے پورا کیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

521جب مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قیام لمبا ہوگیا اور ہر طرح سے انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں پر حجت قائم کردی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں ہوئے، تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انھیں عذاب سے دوچار کر کے سامان عبرت بنادیا جائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں، اور فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا، گھبرانا نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْٓ۔۔ : اوپر کے واقعات کے بعد بنی اسرائیل کی ہجرت کا ذکر شروع ہوتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد فوراً ہی موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل سمیت مصر سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا، بلکہ یہاں کئی سال کی تاریخ چھوڑ دی گئی ہے، جس کا ذکر سورة اعراف (١٢٧ تا ١٣٥) اور سورة یونس (٨٣ تا ٨٩) میں گزر چکا ہے اور جس کا ایک حصہ آگے سورة مؤمن (٢٣ تا ٤٦) اور سورة زخرف (٤٦ تا ٥٦) میں آ رہا ہے۔ یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جس فرعون نے صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود یہ ہٹ دھرمی دکھائی تھی اس کا انجام آخر کار کیا ہوا۔ 3 ان آیات میں ایک بہت بڑی عبرت یہ ہے کہ حق واضح ہونے کے بعد اسے تسلیم کرنے میں ایک طرف جادوگر ہیں، جنھوں نے ایمان لانے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کی اور ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی پر چڑھانے کی دھمکیاں بھی انھیں حق سے برگشتہ نہیں کرسکیں، دوسری طرف فرعون اور اس کی قوم ہے، جو سالہا سال تک ان معجزوں کے علاوہ مزید نشانیاں دیکھتے رہے اور بار بار ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا وعدہ کرتے رہے، اس کے باوجود غرق ہونے تک ایمان سے محروم رہے۔ سچ فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) نے : (اِنْ هِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَ ۭ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاۗءُ وَتَهْدِيْ مَنْ تَشَاۗءُ ) [ الأعراف : ١٥٥ ] ” یہ نہیں ہے مگر تیری آزمائش، جس کے ساتھ تو گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت بخشتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “ سورت کے آغاز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے ایمان نہ لانے پر تسلی دیتے ہوئے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ دیکھیے اسی سورت کی آیات (٣ تا ٩) ۔ 3 جب فرعون کا ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی قوم کے خلاف اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ (دیکھیے یونس : ٨٨) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میرے (مسلم) بندوں کو (بنی اسرائیلی ہوں یا کوئی اور) لے کر راتوں رات نکل جاؤ اور یاد رکھو ! تمہارا تعاقب کیا جائے گا، اس لیے اتنا فاصلہ طے کرلو کہ تعاقب کرنے والے جلدی تم تک نہ پہنچ سکیں۔ چناچہ ایسے موقع پر معروف طریقے کے مطابق پورے مصر کے بنی اسرائیل کے لیے ایک وقت اور ایک جگہ مقرر کردی گئی، جس پر وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ جلد از جلد فرعون کی سلطنت (مصر) سے نکل جانے کے لیے رات کو روانہ ہوگئے۔ بعض تفاسیر میں ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے قبطیوں سے عاریتاً زیور مانگ لیے تھے جنھیں وہ ساتھ لے کر ہی روانہ ہوگئے، مگر یہ بات درست نہیں۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٨٧) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور (جب فرعون کو اس واقعہ سے بھی ہدایت نہ ہوئی اور اس نے بنی اسرائیل کی آزار دہی نہ چھوڑی تو) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم بھیجا کہ میرے (ان) بندوں کو (یعنی بنی اسرائیل کو) شبا شب (مصر سے باہر) نکال لے جاؤ (اور فرعون کی جانب سے) تم لوگوں کا تعاقب (بھی) کیا جاوے گا (چنانچہ وہ موافق حکم کے بنی اسرائیل کو لے کر رات کو چل دیئے صبح یہ خبر مشہور ہوئی تو) فرعون نے (تعاقب کی تدبیر کرنے کے لئے جا بجا آس پاس کے) شہروں میں چپراسی دوڑا دیئے (اور یہ کہلا بھیجا) کہ یہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل ہماری نسبت) تھوڑی سی جماعت ہے (ان کے مقابلہ سے کوئی اندیشہ نہ کرے) اور انہوں نے (اپنی کارروائی سے) ہم کو بہت غصہ دلایا ہے (وہ کارروائی یہ ہے کہ خفیہ چالاکی سے نکل گئے یا یہ کہ زیور بھی ہمارا بہت سا عاریت کے بہانے سے لے گئے غرض ہم کو احمق بنا کر گئے ضرور ان کا تدارک کرنا چاہئے) اور ہم سب ایک مسلح جماعت (اور باقاعدہ فوج) ہیں، غرض (دو چار روز میں جب سامان اور فوج سے درست ہوگیا تو لاؤ لشکر لے کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں چلا اور یہ خبر نہ تھی کہ اب لوٹنا نصیب نہ ہوگا تو اس حساب سے گویا) ہم نے ان کو باغوں سے اور چشموں سے اور خزانوں سے اور عمدہ مکانات سے نکال باہر کیا (ہم نے ان کے ساتھ تو) یوں کیا اور ان کے بعد بنی اسرائیل کو ان کا مالک بنادیا (یہ جملہ معترضہ تھا آگے قصہ ہے ( غرض ایک روز) سورج نکلنے کے وقت ان کو پیچھے سے جا لیا (یعنی قریب پہنچ گئے اس وقت بنی اسرائیل دریائے قلزم سے اترنے کی فکر میں تھے کہ کیا سامان کریں) پھر جب دونوں جماعتیں (باہم ایسی قریب ہوئیں کہ) ایک دسرے کو دیکھنے لگیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہی (گھبرا کر) کہنے لگے کہ (اے موسی) بس ہم تو ان کے ہاتھ آگئے، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہرگز نہیں کیونکہ میرے ہمراہ میرا پروردگار ہے وہ مجھ کو ابھی (دریا سے نکلنے کا) رستہ بتلا دے گا (کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو روانگی کے وقت ہی کہہ ددیا گیا تھا کہ سمندر میں خشک راستہ پیدا ہوجائے گا۔ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى گو خشک ہونے کی کیفیت اس وقت نہ بتلائی تھی، پس موسیٰ (علیہ السلام) اس وعدہ پر مطمئن تھے اور بنی اسرائیل کیفیت معلوم نہ ہونے سے مضطرب تھے) پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی عصا کو دریا پر مارو چناچہ (انہوں نے اس پر عصا مارا جس سے) وہ (دریا) پھٹ (کر کئی حصے ہو) گیا (یعنی پانی کئی جگہ سے ادھر ادھر ہٹ کر بیچ میں متعدد سڑکیں کھل گئیں) اور ہر حصہ اتنا (بڑا) تھا جیسا بڑا پہاڑ (یہ لوگ دربار میں امن و اطمینان سے پار ہوگئے، اور ہم نے دوسرے فریق کو بھی اس موقع کے قریب پہنچا دیا (یعنی فرعون اور فرعونی بھی دریا کے نزدیک پہنچے اور موافق پیشنگوئی سابق واتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا دریا اس وقت تک اسی حال پر ٹھہرا ہوا تھا، اس لئے کھلے رستہ کو غنیمت سمجھا اور آگا پیچھا کچھ سوچا نہیں، سارا لشکر اندر گھس گیا اور چاروں طرف سے پانی سمٹنا شروع ہوا اور سارے لشکر کا کام تمام ہوا) اور (انجام قصہ کا یہ ہوا کہ) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اور ان کے ساتھ والوں سب کو (غرق ہونے سے) بچا لیا، پھر دوسروں کو (یعنی ان کے مخالفوں کو) غرق کردیا (اور) اس واقعہ میں بھی بڑی عبرت ہے (یعنی اس قابل ہے کہ کفار اس سے استدلال کریں کہ مخالفت احکام و رسول موجب عذاب خداوندی ہے اور اس کو سمجھ کر مخالفت سے بچیں) اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور آپ کا رب بڑا زبردست ہی (اگر چاہتا دنیا میں ہی ان کو عذاب دیتا لیکن) بڑا مہربان (بھی) ہے (اس لئے اپنی رحمت عامہ سے عذاب کی مہلت مقرر کردی ہے، پس تعجیل عذاب سے بےفکر نہ ہونا چاہئے۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْٓ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ۝ ٥٢ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . سری السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] 232- بسرو حمیر أبوال البغال به «1» فأسری نحو أجبل وأتهم، وقوله تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] ، أي : ذهب به في سراة من الأرض، وسَرَاةُ كلّ شيء : أعلاه، ومنه : سَرَاةُ النهار، أي : ارتفاعه، وقوله تعالی: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا[ مریم/ 24] أي : نهرا يسري «2» ، وقیل : بل ذلک من السّرو، أي : الرّفعة . يقال، رجل سَرْوٌ. قال : وأشار بذلک إلى عيسى عليه السلام وما خصّه به من سروه، يقال : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي، أي : نزعته، وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس «3» ، وقیل : ومنه : رجل سَرِيٌّ ، كأنه سَرَى ثوبه بخلاف المتدثّر، والمتزمّل، والزّمّيل «4» ، وقوله : وأَسَرُّوهُ بِضاعَةً [يوسف/ 19] ، أي : خمّنوا في أنفسهم أن يحصّلوا من بيعه بضاعة، والسَّارِيَةُ يقال للقوم الذین يَسْرُونَ باللیل، وللسّحابة التي تسري، وللأسطوانة . ( س ر ی و ) السریٰ کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اسریٰ ( باب افعال ) سریٰ یسری سے نہیں ہے ۔ جس کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں بلکہ یہ سراۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں ۔ اور اصل میں اس کے لام کلمہ میں واو ہے اور اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط ) بسرو حمیر أبوال البغال بهحمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب یعنی کہ سراب نظر آتے ہیں ۔ پس اسری کے معنی کشادہ زمین چلے جانا ہیں ۔ جیسے اجبل کے معنی ہیں وہ پہاڑ پر چلا گیا اور اتھم کے معنی ، وہ تہامہ میں چلا گیا ۔ لہذا آیت ؛۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وسیع اور کشادہ سر زمین میں لے گیا ۔ نیز سراۃ ہر چیز کے افضل اور اعلیٰ حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی سے سراۃ النھار ہے جس کے معنی دن کی بلندی کے ہیں ۔ اور آیت : قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا [ مریم/ 24] تمہارے پروردگار نے تمہارے سے نیچے ایک چشمہ پیدا کردیا ہے میں سری سے نہر جاری مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ سرو سے مشتق ہے جس کے معنی رفعت کے ہیں اور بلند قدر آدمی کو رجل سرو ۔ کہا جاتا ہے تو لفظ سری سے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اس شرف کی طرف اشارہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص طور پر نوازا تھا ۔ محاورہ ہے : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي : میں نے اپنے اوپر سے کپڑا اتار دیا ۔ وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس : میں گھوڑے سے جھول اتار دیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسی سے رجل سری ۔ ہے کیونکہ بلند قدر آدمی ہوشیار رہتا ہے گویا وہ کپڑے اتارے ہوئے ہے اسکے برعکس کاہل سست اور ناتوان آدمی کو متدثر متزمل اور زمیل وغیرہ کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے کپڑوں میں لپٹا پڑا ہے اور الساریۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جو رات کو سفر کرتی ہو اور اس کے معنی رات کے بادل اور ستون بھی آتے ہیں ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٢) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم بھیجا کہ بنی اسرائیل میں سے میرے ان بندوں کو جو کہ آپ پر ایمان لائے ہیں، شباشب (مصر) سے باہر لے جاؤ تم لوگوں کا فرعون اور ان کی قوم تعاقب کرے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 The mention of migration here does not mean that Prophet Moses and the Israelites were immediately ordered to leave Egypt. The history of the intervening period has been related in Al-A`raf: 127-135 and Yunus: 83-89, and a part of it has been mentioned in Al-Mu`min: 23-46 and Az-Zukhruf: 46-56. Here the story is being cut short and only the final phase of the conflict between Pharaoh and Prophet Moses is given to show the tragic end of Pharaoh who had remained obdurate even after witnessing clear Signs and the ultimate success of Moses who had Divine support behind his message. 42 The warning that "you will be pursued" shows the wisdom of the instruction to set off during the night. The idea was that before Pharaoh came out with his hosts to pursue them, they should have gone far enough so as to be out of reach of him. It should be borne in mind that the Israelites were not settled in one place in Egypt but were scattered in cities and habitations all over the country and lived in large numbers especially in the land between Memphis and Rameses called Goshen. (See map in Vol . III, p. 31, on the Exodus of the Israelites). It appears that when Prophet Moses was commanded to leave Egypt, he must have sent instructions to the Israelite habitations telling the people to make necessary preparations' for migration and he must have also fixed a night for them to leave their homes for the exodus.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :41 اوپر کے واقعات کے بعد ہجرت کا ذکر شروع ہو جانے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس کے بعد بس فوراً ہی حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل سمیت مصر سے نکل جانے کے احکام دے دیے گئے ۔ دراصل یہاں کئی سال کی تاریخ بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے جسے سورہ عراف رکوع 15 ۔ 16 ، اور سورہ یونس رکوع 9 میں بیان کیا جا چکا ہے ، اور جس کا ایک حصہ آگے سورہ مومن رکوع 2 ۔ 5 اور الزُّخرف رکوع 5 میں آ رہا ہے ۔ یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جس فرعون نے صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود یہ ہٹ دھرمی دکھائی تھی اس کا انجام آخر کار کیا ہوا ۔ اور جس دعوت کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی طاقت تھی وہ کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئی ، اس لیے فرعون اور حضرت موسیٰ کی کشمکش کے ابتدائی مرحلے کا ذکر کرنے کے بعد اب قصہ مختصر کر کے اس کا آخری منظر دکھایا جا رہا ہے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :42 واضح رہے کہ بنی اسرائیل کی آبادی مصر میں کسی ایک جگہ مجتمع نہ تھی بلکہ ملک کے تمام شہروں اور بستیوں میں بٹی ہوئی تھی اور خصوصیت کے ساتھ منف ( Memphis ) سے رَعْمَسِیْس تک اس علاقے میں ان کی بڑی تعداد آباد تھی جسے جُشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا ( ملاحظہ ہو نقشہ خروج بنی اسرائیل ، تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ 76 ) ۔ لہٰذا حضرت موسیٰ کو جب حکم دیا گیا ہو گا کہ اب تمہیں بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جانا ہے تو انہوں نے بنی اسرائیل کی تمام بستیوں میں ہدایات بھیج دی ہوں گی کہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ ہجرت کے لیے تیار ہو جائیں ، اور ایک خاص رات مقرر کر دی ہو گی کہ اس رات ہر بستی کے مہاجرین نکل کھڑے ہوں ۔ یہ ارشاد کہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہجرت کے لیے رات کو نکلنے کی ہدایت کیوں کی گئی تھی ۔ یعنی قبل اس کے کہ فرعون لشکر لے کر تمہارے تعاقب میں نکلے تم راتوں رات اپنا راستہ اس حد تک طے کر لو کہ اس سے بہت آگے نکل چکے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(٥٢ تا ٦٨) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے اہل دربار پر خدا کی وحدانیت قائم کرچکے اور وہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو اب سوائے عذاب الٰہی کے اور کچھ باقی نہ رہا اس لیے خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم کیا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے ایک رات اپنے ساتھ لے کر چلے جاؤ اس وقت بنی اسرائیل نے فرعون کی قوم سے بہت سا زیور اس حیلہ سے مانگ لیا تھا کہ آج ان کے ہاں ایک شادی ہے اکثر مفسروں ١ ؎ نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مصر سے چاند کے طلوع ہونے کے وقت باہر نکلے تھے اور یوسف (علیہ السلام) کی یہ وصیت تھی کہ بنی اسرائیل جب مصر سے جاویں تو یوسف (علیہ السلام) کی لاش کا صندوق ساتھ لے جائیں اس واسطے اس رات کو موسیٰ (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کی قبر کا حال دریافت کیا تو قوم بنی اسرائیل میں سے ایک بڑھیا عورت نے قبر بتلائی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کا صندوق ٢ ؎ اٹھا لیا اور اپنے ساتھ رکھا اس باب میں ایک حدیث بھی ہے جس کو ابن ابی حاتم نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کیا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گنوار کے ہاں مہمان ہوئے تو اس نے آپ کی عزت کی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمارے پاس آتے جاتے رہا کرو جب وہ پھر آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد کیا تجھ کو کس شے کی حاجت ہے اس نے عرض کیا کہ ایک اونٹنی کی مع پالان کے مجھ کو ضرورت ہے اور ایک بکری کی جس کا دودھ میرے گھر کے لوگ پیا کریں آپ نے فرمایا تجھ سے اس قدر نہ ہوسکا کہ تو جنت کی خواہش میں بنی اسرائیل کی ایک بڑھیا عورت کی طرح ہوتا اصحاب نے عرض کیا وہ بڑھیا عورت کیسی تھی آپ نے فرمایا جب موسیٰ ( علیہ السلام) نے مصر سے بنی اسرائیل کو باہر لے جانا چاہا تو راستہ بھول گئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ کیا ہوا تو بنی اسرائیل میں جو عالم تھے انہوں نے کہا کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے ہم سے عہد کیا تھا کہ ہم مصر سے باہر نہ نکلیں گے جب تک ان کے تابوت کو ہمراہ اپنے نہ اٹھاویں گے اس پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا تم میں سے کسی کو یوسف (علیہ السلام) کی قبر معلوم ہے انہوں نے کہا ان کی قبر کو کوئی نہیں جانتا سوا ایک بڑھیا عورت کے تو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اس بڑھیا سے کہلا بھیجا کہ یوسف (علیہ السلام) کی قبر بتلاؤ وہ بولی قسم خدا کی میں نہ بتلاؤں گی جب تک مجھ کو میرا مدعا نہ حاصل ہوگا موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا تیرا کیا مدعا ہے اس نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ جنت میں رہوں اس پر موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم خدا ہوا کہ دیدے اس عورت کو اس عورت کا مدعا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر وہ بڑھیا گئی ان کے ہمراہ ایک گڑھے کی طرف جہاں پانی تھا اس نے کہا اس پانی کو ہٹاؤ جب وہ پانی سنچا گیا تو بڑھیا نے کہا اب کھودو جب کھودا تو یوسف (علیہ السلام) کی قبر نکلی اور موسیٰ (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کے تابوت کو اپنے ساتھ لیا اور اس کے بعد پھر راستہ دکھائی دینے لگا اس حدیث کو حافظ ابن کثیر (رح) نے موقوف ١ ؎ کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ابو موسیٰ اشعری (رض) کا قول ہے حدیث نبوی نہیں ہے مگر حاکم ٢ ؎ نے اس حدیث کو صحیح اور حدیث نبوی قرار دیا ہے جب صبح ہوئی تو فرعون نے ایک آدمی بھی بنی اسرائیل کا مصر میں نہ دیکھا اس پر فرعون کو جوش آیا اور بہت غضبناک ہو کر فرعون نے ساتھ لیا اور بنی اسرائیل کے پکڑنے کو چلا اسی کو فرمایا نکالا ہم نے ان کو باغ اور چشموں اور گھروں سے طرف جہنم کے کیونکہ یہ بات اسی طرح مقدر تھی اور وارث بنایا ہم نے ان مکانوں کا اور باغوں کا اور نہروں کا بنی اسرئیل کو اکثر مفسروں ٣ ؎ کا قول ہے کہ شرذمہ جس کو فرعون نے تھوڑا ٹھہرایا چھ لاکھ آدمی تھے اور فرعون کے لشکر میں سولہ لاکھ آدمی تھے پھر فرعون اور اس کے لشکر کے لوگ سورج کے نکلتے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور قوم بنی اسرائیل کے پیچھے پڑے جب دونوں فوجیں مقابل ہوئیں تو بنی اسرائیل گھبرا کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہم کو تو فوج نے آپکڑا کس لیے کہ دریا قلزم ہمارے آگے آگیا اور ہمارے راستہ میں حائل ہوگیا اب ہم آگے نہیں جاسکتے اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ڈرو نہیں میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھ کو راستہ بتاوے گا اس کا وعدہ خلاف نہیں ہوتا غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اپنے رسول کو سچا کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم کیا کہ مار لاٹھی اپنی دریا میں عصا کے مارتے ہی دریا میں بارہ راستے ہوگئے قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات دریا کو حکم کیا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تجھ کو اپنی لاٹھی ماریں تو تو اس کا حکم سن اور فرما نبرداری کر اس لیے دریا نے اس انتظار میں وہ رات بیقراری سے بسر کی کیونکہ دریا کو یہ خبر نہ تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کس طرف عصا ماریں گے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اس واسطے دریا میں بارہ راستے ہوگئے سدی کا قول ہے کہ ان پانی کا دیواروں میں جھروکے ہوگئے جن میں سے ایک ایک کو دیکھتا تھا حضرت ابن عباس (رض) قتادہ اور سدی نے وَاَزلَفنَا ثَمَّ اْلٓاخَرِیْنَ کی تفسیر میں کہا ہے کہ ہم نے نزدیک کیا دریا کے فرعون اور اس کے لشکر کو اب موسیٰ (علیہ السلام) کے لشکر کو بچا دینے اور فرعون کے لشکر کو غرق کردینے کا ذکر فرما کر پھر فرمایا البتہ یہ اللہ کی قدرت کی نشانی ہے لیکن اکثر لوگ اس سے بیخبر ہیں اور بیشک تیرا رب وہی ہے زبردست رحم کرنے والا صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے ١ ؎، جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور دریافت سے معلوم ہوا کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون کی قید سے نجات ہوئی فرعون معہ اپنے لشکر کے دریائے قلزم میں غرق ہو کر ہلاک ہوا ‘ اس کے شکریہ میں موسیٰ (علیہ السلام) نے روزہ رکھا تھا اس لیے یہود بھی آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ یہ قصہ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ظالم لوگوں کو اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے اپنی رحمت سے مہلت دیتا ہے پھر جب وہ لوگ مہلت پر بھی اپنی سرکشی سے باز نہیں آتے تو ان کی ایسی گرفت فرماتا ہے اور ان کو بالکل ہلاک کردیتا ہے ‘ ان حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل ہے کہ فرعون کو اللہ تعالیٰ نے ایک عرصہ تک مہلت دی اور جب وہ مہلت کے زمانہ میں اپنی سرکشی سے باز نہ آیا تو عاشورہ کے دن اس کو مع لشکر کے دریائے قلزم میں ڈبو کر ہلاک کردیا۔ اس قصہ میں قریش کو رسول وقت کی مخالفت سے ڈرایا گیا ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٣٥ ج ٣۔ ) (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٨٦ ج ٥ میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی ہڈیاں چادر میں ڈال کر اٹھائی تھیں فَجََعَلَ عِظَامَ یُوْسَف فی کسآمذ الخ) (ع ‘ ح ) (١ ؎ حافظ ابن کثیر (رح) کے الفاظ یہ ہیں ہذا حدیث غریب جدا والا قرب انہ موقوف یعنی مرفوع بہت ہی عجیب سی روایت ہے۔ (ع ‘ ح ) (٢ ؎ مستدرک حاکم ص ٤٠٤ ج ٢۔ ) (٣ ؎ اس سلسلے میں تفسیر ابن کثیر (ص ٣٣٥ ج ٣) اور الدر المنثور (ص ٨٧ ج ٥) قابل مطالعہ ہیں (ع ‘ ح ) (١ ؎ مشکوٰۃ باب صیام التطوع فصل تیسری )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:52) اسر۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تورات کو لے کر چل۔ اسراء (افعال) جس کے معنی رات کو لے کر چلنے اور رات کو سفر کرنے کے ہیں۔ سری مادہ۔ سری یسری (ضرب) بھی انہی معنوں میں مستعمل ہے۔ باب افعال سے ہے۔ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا (17:1) پاک ذات ہے وہ جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا۔ اسری بعبادی۔ تم راتوں رات میرے بندوں کو (یہاں سے) بےجاؤ۔ انکم متبعون۔ یہ وجہ ہے راتوں رات لے جانے کی۔ تحقیق تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔ متبعون۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ متبع واحد اتباع (افتعال) مصدر۔ متبع وہ شخص جس کس پیچھا کیا جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ تو تم آگے نکل جائو۔ دشمن تمہیں اس وقت پائیں جب تم سمندر پر پہنچ جائو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 52 تا 68 اسرار و معارف جب فرعون ایسے ایسے معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہ لایا تو ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ کہ آپ میرے بندوں کو (بنی اسرائیل ایمان لا چکے تھے تو انہیں اپنے بندے ہونے کا شرف بخشا) لے کر رات کو مصر سے نکل کھڑے ہوں اور اور ساتھ یہ اطلاع بھی کردی کہ فرعون کو خبر ہوگی تو وہ تمہارا پیچھا کریگا (اور یوں اپنے انجام کو پہنچے گا) چناچہ جب فرعون کو علم ہوا کہ بنی اسرائیل تو راتو رات نکل گئے اور اہل مصر سے بہت سا مال اور زیورات بھی لے گئے تو بھڑک اٹھا اور دوسرے شہروں میں بھی ہرکارے دوڑا دئیے کہ سب لڑاکا جوان جمع ہوں اور کہا کہ یہ ایک معمولی سی بےحیثیت جماعت ہیں اور اپنی حرکت سے ہمارے غضب کو آواز دے رہے ہیں کہ چوری چھپے نکل گئے اور لوگوں کا مال بھی ساتھ لے گئے ہمیں ان سے ضرور نبٹنا ہے چناچہ پوری تیاری سے پیچھا کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا اور یہ نہ جان سکا کہ اس تدبیر کے ذریعے سے اللہ نے انہیں ان خوبصورت شہروں باغوں اور چشموں سے نکال دیا اور مال و دولت سے بھرے ہوئے گھروں کو چھوڑ گئے جو بعد میں بنی اسرائیل کو نصیب ہوئے۔ چناچہ منزلیں مارتے ہوئے گئے اور ایک روز سورج طلوع ہونے کے وقت بنی اسرائیل کو جالیا جو بحیرہ قلزم پر پہنچ چکے تھے اور پار اترنے کی فکر میں تھے انہوں نے اچانک لشکر فرعونی کو دیکھا تو پریشان ہوگئے اور کہنے لگے کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم تو پکڑے گئے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہرگز نہیں کہ انبیاء و رسل کوہ استقمت ہوتے ہیں اور ان کے علوم یقینی ہوتے ہیں اور انہیں اللہ کریم کی دی ہوئی خبر پر کامل یقین بھی ہوتا ہے چناچہ انہوں نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ میرا رب میرے ساتھ ہے وہ راستہ بنا دے گا۔ معیت ربی یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا معنی ربی میرا رب میرے ساتھ ہے ایک تو صرف اپنی بابت فرمایا دوسرے رب فرما کر ربویت صفاتی کا ذکر فرمایا جبکہ یہی حال جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آیا اور حجرت کے وقت جب مشرکین غار ثور کے دہانے پر پہنچ گئے تو سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو آپ کی فکر ہوئی جبکہ بنی اسرائیل کو اپنی فکر ہوئی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اللہ معنا یعنی اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے معیت ذاتی کا ذکر فرمایا اور صدیق اکبر (رض) کو اس میں شامل فرما کر معیت ذاتی کو ہر اس امتی کے نصیب میں کردیا جو صدیق اکبر کی طرح آپ کے ساتھ ہوجائے سبحان اللہ وبحمدہ۔ سمندر پھٹ جانے کا معجزہ چناچہ اللہ کریم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حلم دیا کہ پانی پر اپنا عصا ماریں جیسے ہی انہوں نے عصا مارا پانی پھٹ گیا اور اس میں متعدد راستے بن گئے جن کے درمیان پانی کے بہت بڑے بڑے پہاڑ کھڑے تھے سمندر تھا سطح زمین تک۔ پانی جب الگ ہوا ہوگا تو کیسے کیسے پہاڑ بنے ہونگے چناچہ بنی اسرائیل اندر گھس گئے اور دوسرے کنارے پر چلے گئے یہاں یہ سوچنا کہ مدوجذر تھا اور پانی اترا یا چڑھا ہرگز درست نہیں کہ ان آیات کا انکار لازم آتا ہے بلکہ یہ ایک اضح معجزہ تھا جو اللہ کی قدرت سے ظاہر ہوا تھا موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے متبعین تو پار اتر گئے جب کہ فرعون اور اس کا لشکر بھی ان کے تعاقب میں پانی میں بنے ہوئے راستوں پہ اتر چکا تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) پار اتر گئے تو پانی اپنی اصلی حالت پر آگیا فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق ہوگیا اور یوں بظاہر ایک بہت بڑی طاقت بغیر کسی ظاہری جنگ کے صفحہ ہستی سے ہی نابود ہوگئی۔ یہ واقع بہت بڑا درس عبرت اپنے اندر لیے ہوئے ہے کہ انبیاء کی تعلیمات کی مخالفت کس طرح تباہی کا باعث بنتی ہے مگر اس کے باوجود یہ لوگ آپ پر بہت کم ایمان لاتے ہیں اور ان بدنصیب افراد کی اکثریت اس سے محروم ہے جبکہ آپ کا پروردگار غالب ہے چاہے تو انہیں بھی فرعون کی طرح مٹا دے مگر اپنی شان رحمت سے ان سے ابھی درگزر فرمارہا ہے اس میں مسلمانوں کے لیے بھی عبرت ہے کہ احکام نبوت کی اطاعت سے دوری ذلت و رسوائی کے قریب کردیتی ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 52 تا 68 : اوحینا (ہم نے وحی کی) ‘ اسر (راتوں رات نکل جا) متبعون ( پیچھا کئے جانے والے) ‘ ارسل ( بھیج دے) ‘ مدائن (مدینۃ) شہروں ‘ شرذمۃ (جماعت۔ گروہ) غائظون (غصہ دلانے والے) حذورن (احتیاط کرنے والے۔ بچنے والے) ‘ عیون (عین) چشمے ‘ کنوز (کنز) خزانے ‘ مقام کریم (عمدہ پاکیزہ ٹھکانے) اور ثنا (ہم نے وارث (مالک) بنادیا ‘ مشرقین (سورج نکلنے (والے ) کی جگہ ‘ مدرکون (پکڑے جانے والے) ‘ انفلق (پھٹ پڑا) ‘ کل فرق (ہرحصہ) طودالعظیم (پہاڑ کی طرح بڑا حصہ) ‘ ازلفنا (ہم نے قریب کردیا) ‘ ثم (اسی جگہ) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 52 تا 68 : جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں دین اسلام پھیلانے کی جدوجہد کا آغاز کیا تو کفار مکہ نے ہر طرح مذاق اڑایا۔ ایمان لانیوالوں کو طرح طرح سے ستایا اور دین کی سچائیں سے دور بھاگنے اور بےعملی کی زندگی گذارنے کے لئے ایسی ایسی باتیں پھیلانے کی کوششیں کی گئیں جن سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین اسلام کی روشنی پھیکی پڑجائے۔ علاوہ اور کوششوں کے ایک کوشش یہ تھی کہ کفار مکہ ہر روز نئے نئے معجزات دکھانے کی فرمائشیں کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دو جوابات عنایت فرمائے ایک تو یہ کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ آخری امت ہے۔ اگر ان کفار کی فرمائشوں پر کوئی معجزہ دکھا دیا گیا اور دیکھنے کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو اللہ کے دستور کے مطابق تمام منکرین کو تہس نہیس کردیا جائے گا اور ان پر شدید عذاب آجائے گا جو اللہ کی مصلحت اور اصول کیخلاف ہوگا۔ کیونکہ اللہ آخری نبی کی آخری امت کو قیامت تک باقی رکھنا چاہتا ہے جو انشاء اللہ قیامت تک رہنمائی و رہبری کا فرض سرانجام دیتی رہے گی۔ معجزات دکھانے کے سلسلہ میں دوسرا جواب یہ یہ عنایت فرمایا ہے کہ جس کو ایمان لاکر عمل صالح اختیار کرنا ہے اس کو کسی ظاہری معجزہ کی ضرورت نہیں ہوتی اور جس کو ایمان اور عمل صالح سے فرار اختیار کرنا ہے وہ معجزات دیکھ کر بھی ایمان قبول نہیں کرتا ۔ سوائے ان لوگوں کے جن پر اللہ اپنا فضل وکرم فرمادیں۔ چنانچہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے واقعہ کو ایک مرتبہ پھر ارشاد فرمایا ہے۔ فرعون جو اپنے اقتدار حکومت و سلطنت اور ذاتی مفادات سے چمٹا ہوا تھا جب بھرے دربار میں اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا تو اس نے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو عصا اور ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟ درباریوں نے مشورہ دیا کہ کچھ دن ایسا ہی رہنے دیاجائے اور پورے ملک سے ماہر جادو گروں کو جمع کیا جائے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو سب کے سامنے ذلت ہوگی تو ہمارا مسئلہ حل جائے گا۔ چناچہ قبطیوں کے قومی دن کے میلے میں مقابلہ طے ہوا مگر وہاں فرعون اور اس کے ساتھیوں کو جس شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اس پر وہ اور بھی پریشان ہوگئے۔ اس سے بڑی شکست اور کیا ہوگی کہ جن جادوگروں کی مہارت پر ناز تھا وہ سب کے سب ایمان قبول کرکے فرعون ‘ اس کی طاقت و قوت اور دھمکیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے جس سے پورے ملک میں ایک ہنگامہ بپا ہوگیا تھا۔ اور لوگوں کے سامنے سچائی کھل کر آگئی تھی۔ فرعون نے پورے ملک کے کونے کونے میں اپنے نمائندے اور ہر کارے بھیج کر اعلان کرادیا کہ موجودہ حالات میں گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے موسیٰ اور اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت تھوڑی سی ہے جو ہماری طاقت و قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتی بہت جلد ان پر ہما قہر نازل ہونے والا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ نہایت خاموشی سے راتوں رات پورے بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف نکل جائیں۔ فرعونی اور اس کے ساتھی تمہارا پیچھا کریں گے مگر اس کی پروانہ کرنا کیونکہ ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ فرعون اور اس کے ماننے ولوں کو ان کے لہلہاتے باغوں ‘ بہتے چشموں ‘ خزانوں اور بلند وبالا محلات سے محروم کرکے بنی اسرائیل کو ان کا مالک بنادیں گے۔ لاکھوں کی تعداد میں بنی اسرائیل رات کے آخری حصے میں نہایت خاموشی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ فلسطین جانے کے لئے روانہ ہوگئے۔ جب صبح ہوئی اور حکمران طبقے کے قبطیوں نے دیکھا کہ وپرامیدان صاف ہے تو اصل حقیقت جان کر پوری قوت و طاقت لے کر فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے اس طرف روانہ ہوگیا جس طرف بنی اسرائیل جارہے تھے۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ پوری فوج اور قوت کے ساتھ فرعون نہایت تیزی سے ان کی طرف آرہا ہے تو سارے بنی اسرائیل بوکھلا اٹھے اور کہنے لگے کہ پیچھے فرعون اور اس کا لشکر ہے اور آگے سمندر ہے ہم تو بری طرح مارے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اپنے عصا کو پانی پر ماریں اور ہماری قدرت کا تماشہ دیکھیں۔ جیسے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پانی پر مارا تو وہ پانی پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا جس میں بارہ راستے بن گئے۔ چونکہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے لہٰذا وہ نہایت نظم و ضبط سے ہر راستے سے گذر کر دوسری طرف کنارے پر پہنچ گئے۔ جب فرعون اور اس کے ساتھی سمندر کے کنارے پہنچے تو انہوں نے بھی اپنیگھوڑے اور سواروں کو سمندر کے ان راستوں میں اتار دیا۔ ابھی وہ پانی کے درمیان ہی میں تھے کہ اللہ نے پانی کو پھر سے آپس میں مل جانے کا حکم دیا اور اس طرح فرعون اور اس کے تمام ساتھی اس سمندر میں ڈوب کر ہلاک و برباد ہوگئے۔ اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم اور حکومت و سلطنت سے نجات مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ فرعون کے اس واقعہ میں عبرت و نصیحت کے بیشمار پہلو ہیں مگر ان کو دیکھ کر بھی بہت سے لوگ ایمان قبول نہیں کرتے اور اپنی روش زندگی کو درست سمجھتے ہیں اور بدنصیبی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نییہ فرمادیا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو ان سچائیوں کو دیکھ کر بھی جو ایمان نہیں لائے ان کو ہلاک و برباد کردیتا لیکن وہ ہر طرح کی قدرت و طاقت کے باوجودنہایت مہربان ہے اور وہ ان کو مہلت پر مہلت دیئے جارہا ہے تاکہ وہ سنبھل کر اور سمجھ کر اللہ کے دین کی سچائیوں کو قبول کرلیں۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ اگر انہوں نے گذشتہ قوموں جیسا طریقہ اختیار کیا اور سیدھی سچی راہ کو نہ اپنا یا تو ان کا انجام بھی گذری ہوئی قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ پھر یہ ان کی دولت بڑے بڑے محل ‘ مال و دولت اور سرداریاں ان کے کام نہ آسکیں گی۔ ا ان آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جان نثار صحابہ کرام (رض) کو بھی تسلی دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ موجودہ حالات سے رنجیدہ اور پریشان نہ ہوں کیونکہ اس طرح کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ بہت جلد اسلام کا بول بالا ہو کررہے گا۔ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں عطا کی جائیں گی اور کفار و مشرکین کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو کر رہیں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی بنی اسرائیل کو۔ 5۔ چناچہ وہ موافق حکم کے بنی اسرائیل کو لے کر رات کو چل دیئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور انھوں نے فرعون کی دھمکیوں کے مقابلہ میں پوری استقامت کا مظاہرہ کیا جس پر فرعون کے مظالم میں انتہا درجہ کی تیزی آئی جس وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہجرت کا حکم ہوا۔ جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد نہ معلوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کتنی مدت تک شب و روز دعوت کے کام میں مصروف رہے لیکن حالات دن بدن دگرگوں ہوتے گئے۔ جن کا ہولناک منظر قرآن مجید کی آیات کے حوالہ سے ملاحظہ فرمائیں۔ ” جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بد ترین عذاب دیتے تھے۔ وہ تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔ “ (البقرۃ : ٤٩) انہوں نے کہا اے موسیٰ تیرے آنے سے پہلے ہمیں تکلیف پہنچائی گئی اور تیرے آنے کے بعد بھی۔ موسیٰ نے کہا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنائے گا، پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ “ (الاعراف : ١٢٩) ” ہم نے موسیٰ اور اسکے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھروں کو منتخب کرلو اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنا لو۔ نماز قائم کرو اور ایمان والوں کو خوشخبری دو ۔ “ (یونس : ٨٧) ” فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف اور ان کے فتنہ میں مبتلا کرنے کی وجہ سے موسیٰ پر اس کی قوم کے کچھ نو جوانوں کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا۔ بلا شبہ فرعون زمین میں سرکش اور حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا۔ “ (یونس : ٨٣) ” فرعون بولا مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔ وہ اپنے رب کو بلا لے مجھے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں وہ تمہارے دین کو بدل نہ دے یا ملک میں فساد برپا نہ کرے۔ “ (المومن : ٢٦) ” موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ “ (الدخان : ٢٠) ” فرعون نے کہا ہامان میرے لیے ایک محل بنوا تاکہ میں اس پر چڑھ کر آسمان تک پہنچ جاؤں۔ “ (المومن : ٣٦۔ ٣٧) ان حالات کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ رات کے وقت میرے بندوں کو لے کر مصر سے نکل جاؤ۔ لیکن یاد رکھنا کہ فرعون تمہارا پیچھا کرے گا۔ جونہی فرعون کو معلوم ہوا تو اس نے انتظامیہ اور اپنے بڑے بڑے لوگوں کو اکٹھا کیا اور انھیں کہا کہ بنی اسرائیل تھوڑے سے لوگ ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمیں غضبناک کردیا ہے اور ہم ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر انے کا حکم دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آگاہ فرمایا کہ فرعون اور اس کے لشکر تمہارا پیچھا کریں گے۔ ٣۔ فرعون اور اس کے لشکروں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) کی ہجرت : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ (العنکبوت : ٢٦) ٢۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حکم سے بنی اسرائیل کے ساتھ ہجرت کی۔ ( الدخان : ٢٣) ٣۔ کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت پر مجبور کردیا (التوبۃ : ٤٠) ٤۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والے اس کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ (البقرۃ : ٢١٨) ٥۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین ٹھکانہ میسر آئے گا۔ (النحل : ٤١) ٦۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین رزق عطا کیا جائے گا۔ (الحج : ٥٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اہل ایمان کے خلاف فرعون کی تدابیر کا ایک منظر اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی راہنمائی کا ایک منظر : واوحینآ الی ……حذرون (٥٦) اب یہاں واقعات اور زمانے کے اعتبار سے ایک بڑا اور طویل خلا ہے۔ بیچ میں سے طویل زمانے اور واقعات کو حذف کردیا جاتا ہے۔ اس مقابلے کے بعد حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) بھی مصر میں کام کرتے رہے اور سورت اعراف میں جن دوسرے معجزات کا ذکر ہوا ہے وہ بھی اس عرصہ میں رونما ہئے اور آخر کار وہ وقت آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جائیں۔ لیکن اس سورت میں ان تمام واقعات کو لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے اور قصہ مسویٰ کے ان حصوں کو یہاں لے لیا جاتا ہے جو اس سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بذریعہ وحی اجازت دے دی کہ آپ اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل جائیں۔ تمام بنی اسرائیل رات کو نکلیں۔ اس سفر کے لئے نہایت منظم خفیہ انتظامات کئے گئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ اطلاع بھی کردی گئی کہ فرعون ہر حال میں تمہارا پیچھا کرے گا اور ساحل سمندر کی طرف نکل کھڑے ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اس جگہ ساحل سمندر تک پہنچے وہ خلیج سویز اور چھوٹے چھوٹے بحیروں کے موجودہ علاقے میں یہ واقع تھا۔ فرعون کو خفیہ طور پر اطلاعات مل گئیں کہ بنی اسرائیل نکلنے والے ہیں۔ تو اس نے بھی اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ جس وقت بھی خروج شروع ہو ، پیچھا کرنے کے لئے افواج کو تیاری کی حالت میں رکھا جائے۔ تمام علاقوں میں اس نے اپنے ہر کارے بھیج دیئے کہ افواج کو تیار کیا جائے کہ یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔ یہ بچ نکلنے کی تدبیریں سوچ رہا ہے لیکن اسے پتہ نہ تھا کہ یہ خروج اللہ تعالیٰ کی طرف سے منظم کیا جا رہا ہے۔ فرعون کے لوگ فوجوں کو تیار کرتے رہے لیکن عوام کیا ندر یہ بےچینی پیدا ہو سکتی تھی کہ آخر موسیٰ کے پاس کتنی بڑی طاقت ہے کہ اس کے مقابلے میں اس قدر وسیع پیمانے پر تیاریاں ہو رہی ہیں جبکہ فرعون اپنے آپ کو الہہ بھی کہتا ہے اور پھر بھی ایک پبلک کے فرد کے مقابل میں اس قدر جنگی تیاریاں کر رہا ہے۔ چناچہ اس موقعہ پر فرعون کو اس قسم اعلان کی ضرورت پیش آئی۔ ان ھولاء لشر ذمۃ قلیلون (٢٦ : ٥٣) ” یہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ ‘ تو سوال یہ ہے کہ پھر ان کے خلاف اس قدر انتظام کیوں ہو رہا ہے اور فوجیں کیوں جمع کی جا رہی ہیں اگر وہ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ “ وانھم لنا لغآئظون (٢٦ : ٥٥) ” اور انہیں نے ہم کو بہت ہی ناراض کیا ہے۔ “ یہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جو ہمارے سامنے کسی نے نہیں کیے ، اس لئے ان کی وجہ سے ہم غیظ و غضب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ہمارے اندر جوش انتقام پیدا ہوگیا ہے۔ اگرچہ یہ لوگ نہایت ہی خطرناک ہیں اور ان کی تحریک ایک مضبوط تحریک ہے۔ لیکن سرکاری لوگ عوام سے یہی کہیں کہ حکومت نے مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کی ہوئی ہیں اور ان پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ وانا لجمیع حذرون (٢٦ : ٥٦) ” اور ہم ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہمیشہ چوکنا رہنا ہے۔ “ اور ہم ان کی سازشوں کے مقابلے میں بیدار ہیں۔ ان کے معاملات میں بڑی احتیاط برت رہے ہیں اور ان کو اچھی طرح کنٹرول کر رہے ہیں۔ جب بھی اہل باطل کا اہل ایمان سے مقابلہ ہوتا ہے تو اہل باطل اہل ایمان کے مقابلے میں اسی طرح حیران و پریشان ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بحکم الٰہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو ہمراہ لے کر راتوں رات چلا جانا اور فرعون کا پیچھا کرنا پھر لشکروں سمیت غرق ہونا سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ شانہٗ کا حکم ہوا کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر مصر سے نکل جاؤ۔ اور سمندر کی طرف جانا سمندر پر پہنچو گے تو اسے خشک پاؤ گے۔ اپنی قوم کو لے کر گزر جانا تمہارے پیچھے دشمن لگے گا بےفکر رہنا اور نڈر رہنا کما قال تعالیٰ فی سورة طٰہٰ (لاَ تَخَافُ دَرْکًا وَّ لاَ تَخْشٰی) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر چل دیئے فرعون کو پہلے اندیشہ تھا کہ کہیں یہ مصر سے نہ نکل جائیں، وہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو سچا نبی تو سمجھ ہی چکے تھے گو زبان سے نہیں مانتے تھے جسے عناد ہو وہ حق کو حق سمجھ کر بھی باطل پر اڑا رہتا ہے، فرعون کو یہ خطرہ لا حق تھا کہ بنی اسرائیل ایک دن مصر کو چھوڑ کر چل دیں گے جب اس کو علم ہوا کہ بنی اسرائیل نکل چکے ہیں تو اس نے اپنے ملک کے شہروں میں کارندے دوڑا دیئے جو ایسے لوگوں کو جمع کرکے لائیں جو اس بات کی کوشش میں مدد دے سکیں کہ بنی اسرائیل مصر سے نکلنے نہ پائیں اور اس کے ساتھ ہی اپنی رعیت کو یہ بھی یقین دلایا کہ یہ تھوڑے سے لوگ ہیں ہمیں ان پر قابو پانا آسان ہے۔ اول یہ ہماری رعایا ہیں دوسرے انہوں نے ایسی ایسی حرکتیں کی ہیں کہ انہوں نے ہمیں غصے میں ڈالا ہے ہم انہیں آزاد چھوڑنے والے نہیں ہیں اپنے ملک سے انہیں نہیں نکلنے دیں گے ہم ان کی طرف سے پوری طرح محتاط ہیں ان کے نکل جانے کا جو خطرہ ہے ہم ان سے غافل نہیں ہیں، یہ (حاذرون) کا ایک مطلب ہے، دوسرا مطلب صاحب روح المعانی نے بعض مفسرین سے (جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بھی ہیں) یہ نقل کیا ہے کہ ہم پوری طرح ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ فرعون کو بنی اسرائیل کی روانگی کا پتہ چلا تو اس نے اپنے لشکروں کو جمع کیا جو بھاری تعداد میں تھے لشکروں کا جمع ہونا پھر بنی اسرائیل کا پیچھا کرنا اس میں اتنی دیر لگ گئی کہ بنی اسرائیل سمندر کے کنارہ تک پہنچ چکے تھے ادھر فرعون اپنے لشکروں کے ساتھ پہنچا یہ ایسا وقت تھا کہ سورج کی روشنی پھیل چکی تھی بنی اسرائیل نے فرعون کو اور اس کے لشکروں کو دیکھا فرعون نے اور اس کے لشکروں نے بنی اسرائیل کو دیکھا، پہلی جماعت یعنی بنی اسرائیل اپنے دشمنوں کو دیکھ کر گھبرا اٹھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا (اِِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ ) کہ ہم تو دھر لیے گئے دشمن اپنے لشکروں سمیت پہنچ گیا ہے ہم سے قریب تر ہے اب تو ہم پوری طرح ان کے نرغہ میں ہیں، سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو بالکل ہی مطمئن تھے انہوں نے فرمایا کَلَّا ہرگز نہیں (یعنی ہم پکڑے نہیں جاسکتے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ جب قوم فرعون پر حجت خداوندی تام ہوگئی اور قوم فرعون کی ہلاکت اور بنی اسرائیل کی نجات و آزادی کا وقت آگیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تم راتوں رات بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر شام کی طرف روانہ ہوجاؤ۔ فرعون لاؤ لشکر کے ساتھ تمہارا تعاقب کرے گا۔ ” فارسل فرعون “ جب فرعون کو معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کو موسیٰ لے بھاگا ہے تو ان کا تعاقب کرنے کے لیے ملک کے تمام بڑے شہروں سے آدمی اکٹھے کیے۔ ” ان ھؤلاء الخ “ یہ ہیں کیا چیز تھوڑے سے تو ہیں لیکن ہمارے غلام اور ماتحت ہو کر ہماری اجازت کے بغیر ہی نکل کھڑے ہوئے ہیں جس سے ہمارا غضب جوش میں آگیا ہے۔ ” وانا لجمیع حاذرون “ اور اب ہم حزم و احتیاط کے طور پر ان کا تعاقب کر رہے ہیں کہ ان کو پکڑ کر سخت سزا دیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

52۔ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی اور حکم بھیجا کہ تو میرے بندوں کو راتوں رات لیکر نکل چل بلاشبہ ! تمہار پیچھا کیا جائے گا اور تمہارا تعاقب ہوگا۔