41 The mention of migration here does not mean that Prophet Moses and the Israelites were immediately ordered to leave Egypt. The history of the intervening period has been related in Al-A`raf: 127-135 and Yunus: 83-89, and a part of it has been mentioned in Al-Mu`min: 23-46 and Az-Zukhruf: 46-56. Here the story is being cut short and only the final phase of the conflict between Pharaoh and Prophet Moses is given to show the tragic end of Pharaoh who had remained obdurate even after witnessing clear Signs and the ultimate success of Moses who had Divine support behind his message.
42 The warning that "you will be pursued" shows the wisdom of the instruction to set off during the night. The idea was that before Pharaoh came out with his hosts to pursue them, they should have gone far enough so as to be out of reach of him. It should be borne in mind that the Israelites were not settled in one place in Egypt but were scattered in cities and habitations all over the country and lived in large numbers especially in the land between Memphis and Rameses called Goshen. (See map in Vol . III, p. 31, on the Exodus of the Israelites). It appears that when Prophet Moses was commanded to leave Egypt, he must have sent instructions to the Israelite habitations telling the people to make necessary preparations' for migration and he must have also fixed a night for them to leave their homes for the exodus.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :41
اوپر کے واقعات کے بعد ہجرت کا ذکر شروع ہو جانے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس کے بعد بس فوراً ہی حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل سمیت مصر سے نکل جانے کے احکام دے دیے گئے ۔ دراصل یہاں کئی سال کی تاریخ بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے جسے سورہ عراف رکوع 15 ۔ 16 ، اور سورہ یونس رکوع 9 میں بیان کیا جا چکا ہے ، اور جس کا ایک حصہ آگے سورہ مومن رکوع 2 ۔ 5 اور الزُّخرف رکوع 5 میں آ رہا ہے ۔ یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جس فرعون نے صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود یہ ہٹ دھرمی دکھائی تھی اس کا انجام آخر کار کیا ہوا ۔ اور جس دعوت کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی طاقت تھی وہ کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئی ، اس لیے فرعون اور حضرت موسیٰ کی کشمکش کے ابتدائی مرحلے کا ذکر کرنے کے بعد اب قصہ مختصر کر کے اس کا آخری منظر دکھایا جا رہا ہے ۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :42
واضح رہے کہ بنی اسرائیل کی آبادی مصر میں کسی ایک جگہ مجتمع نہ تھی بلکہ ملک کے تمام شہروں اور بستیوں میں بٹی ہوئی تھی اور خصوصیت کے ساتھ منف ( Memphis ) سے رَعْمَسِیْس تک اس علاقے میں ان کی بڑی تعداد آباد تھی جسے جُشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا ( ملاحظہ ہو نقشہ خروج بنی اسرائیل ، تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ 76 ) ۔ لہٰذا حضرت موسیٰ کو جب حکم دیا گیا ہو گا کہ اب تمہیں بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جانا ہے تو انہوں نے بنی اسرائیل کی تمام بستیوں میں ہدایات بھیج دی ہوں گی کہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ ہجرت کے لیے تیار ہو جائیں ، اور ایک خاص رات مقرر کر دی ہو گی کہ اس رات ہر بستی کے مہاجرین نکل کھڑے ہوں ۔ یہ ارشاد کہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہجرت کے لیے رات کو نکلنے کی ہدایت کیوں کی گئی تھی ۔ یعنی قبل اس کے کہ فرعون لشکر لے کر تمہارے تعاقب میں نکلے تم راتوں رات اپنا راستہ اس حد تک طے کر لو کہ اس سے بہت آگے نکل چکے ہو ۔