Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 56
سورة الشعراء
وَ اِنَّا لَجَمِیۡعٌ حٰذِرُوۡنَ ﴿ؕ۵۶﴾
And indeed, we are a cautious society... "
اور یقیناً ہم بڑی جماعت ہیں ان سے چوکنا رہنے والے ۔
وَ اِنَّا لَجَمِیۡعٌ حٰذِرُوۡنَ ﴿ؕ۵۶﴾
And indeed, we are a cautious society... "
اور یقیناً ہم بڑی جماعت ہیں ان سے چوکنا رہنے والے ۔
But we are a host all assembled, amply forewarned. means, `we are constantly taking precautions lest they betray us.' Some of the Salaf read this with the meaning, "we are constantly forewarned and forearmed. And I want to destroy them to the last man, and destroy all their lands and property." So he and his troops were punished with the very things he sought to inflict upon the Children of Israel. Allah says: فَأَخْرَجْنَاهُم مِّن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ
5 6۔ 1اس لیے ان کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔
[٣٩] اس مقام پر بہت سے واقعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ یہ بات بھی پوری طرح معلوم نہیں ہوسکی کہ آیا فرعون نے ان جادوگروں پر بعض مصلحتوں کی بنا پر سولی چڑھانے کی دھمکی ہی دی تھی یا فی الواقعہ چڑھایا بھی تھا۔ غالب گمان یہی ہے کہ اس نے یہ کام ضرور کیا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ باطل پرست جب دلائل کے میدان میں شکست کھا جاتے ہیں تو تشدد اور اوچھے ہتھیاروں پر اتر آتے ہیں۔ پھر بھی ان کا غصہ رفع نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایسے مظالم کے نتائج بسا اوقات توقع کے خلاف نکلتے ہیں اور جس کو جتنی قوت سے دبانے کی کوشش کی جائے اتنی ہی قوت سے ابھرتی اور اپنی جڑیں مضبوط بنا لیتی ہے۔ مصر میں بھی یہی کچھ ہوا۔ بیشمار اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تو موجودہ فرعون نے اس اسرائیلیوں کے لئے وہی سزا تجویز کی جو اس کے باپ نے کی تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کے نومولود سب لڑکوں کو مار ڈالا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے اور اس طرح بتدریج ان کی نسل کو ختم کردیا جائے۔ یہ تو فرعون کا منصوبہ تھا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ علاوہ ازیں فرعون کی قوم کے چند لوگ چوری چھپے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے۔ جب فرعون کے مظالم کی حد ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعہ ملک مصر سے ہجرت کرکے ملک شام کی طرف جانے کا حکم دیا کہ وہ نبی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں رات نہایت خفیہ طریقہ سے یہاں سے نکل جائیں۔ اور پوری احتیاط ملحوظ رکھیں اور جب سفر شروع کریں تو جلد از جلد مصر کے ملک سے پار نکل جانے کی کوشش کریں فرعون یقیناً ان کا تعاقب کرے گا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ مصر کے اندر ہی تم لوگوں کے سر آن پہنچے۔ فرعون کو جب موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی روانگی کا علم ہوا تو بہت سٹ پٹایا۔ اس کے سارے منصوبے خاک میں لے رہے تھے اس نے ایک لشکر جرار تیار کرنے کا حکم دیا اور درباریوں سے کہنے لگا۔ یہ مٹھی بھر کمزور سی جماعت ہے اور ان لوگوں نے فرار کی راہ اکتیار کرکے ہمیں خواہ مخواہ غصہ چڑھا دیا ہے لہذا ہمیں چاہئے کہ فوراً ان کا تعاقب کرکے انھیں کیفر کردار سے پہنچائیں۔ ہمارے مسلح اور جرار لشکر کے مقابلہ میں ان بےچاروں کی حقیقت ہی کیا ہے۔
وَاِنَّا لَجَمِيْعٌ حٰذِرُوْنَ : یعنی اگرچہ وہ چھوٹا سا گروہ اور تھوڑے سے لوگ ہیں، مگر ہمیں ہر وقت ہوشیار اور چوکنا رہنا ہے اور ہر ایسے فتنے کا پہلے ہی سدباب کرنا ہے جو کسی وقت بھی پھیل سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس نے اپنی قوم کو ان کا پیچھا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ کہا کہ وہ قلیل تعداد والے چھوٹا سا گروہ ہیں، ان کے تعاقب میں کوئی مشکل درپیش نہیں، پھر یہ ذکر کیا کہ وہ ہمارے شدید دشمن ہیں اور انھوں نے ہمیں غصہ دلا دیا ہے، اس لیے ان کا ہر حال میں پیچھا کرنا ہوگا اور آخر میں اس نے لازمی احتیاطی تدبیر کے طور پر ان کے تعاقب کو ضروری قرار دیا۔ یہ سب باتیں اس نے اپنے خوف کو چھپانے کے لیے کیں کہ اتنا بڑا بادشاہ ہو کر ان بےسرو سامان لوگوں سے ڈر رہا ہے۔
وَاِنَّا لَجَمِيْعٌ حٰذِرُوْنَ ٥٦ۭ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔
آیت ٥٦ (وَاِنَّا لَجَمِیْعٌ حٰذِرُوْنَ ) ” ہمیں ان کی طرف سے کسی بڑے اقدام کا اندیشہ ہے۔ چناچہ ہمیں اپنی پوری قوت کو مجتمع کر کے ان کا پیچھا کرنا چاہیے۔
43 All this shows that Pharaoh in fact was terror-stricken, but was trying to hide his fear under cover of fearlessness. On the one hand, he was mobilizing forces to face the situation; on the other, he wanted to show that he was undaunted and undeterred, for a despotic ruler like Pharaoh could have no danger from a suppressed and slave community which had been living in disgrace for centuries. That is why his heralds made the people believe that the Israelites were just a handful of people, who could do them no harm, but had to be punished for the provocation they had caused. As for mobilization it was only a precautionary measure which had been taken to meet any eventuality in time.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :43 یہ باتیں فرعون کی اس چھپی ہوئی خوف زدگی کو ظاہر کرتی ہیں جس پر وہ بے خوفی کا نمائشی پردہ ڈال رہا تھا ۔ ایک طرف وہ جگہ جگہ سے فوجیں بھی فوری امداد کے لیے بلا رہا تھا جو اس بات کی کھلی علامت تھی کہ اسے بنی اسرائیل سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے ۔ دوسری طرف وہ اس بات کو چھپانا بھی چاہتا تھا کہ مدت ہائے دراز کی دبی اور پسی ہوئی قوم ، جو انتہائی ذلت کی غلامی میں زندگی بسر کر رہی تھی ، اس سے فرعون جیسا قاہر فرماں روا کوئی خطرہ محسوس کر رہا ہے حتّیٰ کہ اسے فوری امداد کے لیے فوجیں طلب کرنے کی ضرورت پیش آ گئی ہے ۔ اس لیے وہ اپنا پیغام اس انداز میں بھجتا ہے کہ یہ بنی اسرائل بیچارے چیز ہی کیا ہیں ، کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں جو ہمارا بال بھی بیگا نہیں کر سکتے ، لیکن انہوں نے ایسی حرکتیں کی ہیں کہ ہمیں ان پر غصہ آ گیا ہے اس لیے ہم انہیں سزا دینا چاہتے ہیں ، اور فوجیں ہم کسی خوف کی وجہ سے جمع نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ صرف ایک احتیاطی کارروائی ہے ، ہماری دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ کوئی بعید سے بعید بھی امکانی خطرہ ہو تو ہم بر وقت اس کی سرکوبی کرنے کے لیے تیار رہیں ۔
(26:56) حذرون۔ اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر حاذر کی جمع ہے۔ بمعنی ڈرنے والے۔ ہتھیار باندھے والے۔ مسلح محتاط رہنے والے ۔ الحذر باب سمع کے اصل معنی خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنے کے ہیں مثلاً یحذر الاخرۃ (39:9) وہ آخرت سے ڈرتا ہے۔ وانا لجمیع حذرون ۔ میں واؤ حالیہ ہے۔ لیکن ہم سب کے سب (ان کے شر سے) محتاط ہیں (اور ان کے شر کے ڈر سے مسلح اور چاک وچوبند ہیں) ۔
10 ۔ لہٰذا ہمارے لئے انہیں جا پکڑنا کوئی مشکل کام نہیں یا ” ہم سب خطرہ میں ہیں “ یا ” ہم سب چوکنے اور محتاط لوگ ہیں “ اس لئے ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے لفظ ” حاذرون “ کے یہ سبھی معنی ہوسکتے ہیں۔ (…شوکانی)
56۔ اور ہم سب ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو بحکم خداوندی لے کرنکلے اور فرعون نے اپنا تمام لشکرتعاقب کیلئے اکٹھا کیا اپنے چوبداروں کو مصر کے مختلف شہروں میں روانہ کیا اور یہ کہلا بھیجا کہ یہ بنی اسرائیل ہمارے مقابلے میں ایک تھوڑی سی جماعت ہیں اور یہ اپنی حرکات سے ہم کو سخت غصہ دلاتی رہے ہیں اور ہم کو ان کی بغاوت کا اندیشہ رہتا ہے یا یہ مطلب کہ ہم ان کی کارروائیوں سے باخبر اور ہوشیار ہیں اور ہم سب مسلح اور ایک باضابطہ فوج ہیں۔ بہر حال ! دوچار روز میں سب کو اکٹھا کرکے بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلا اور چونکہ علم الٰہی میں یہ نکلنا آخری نکلنا تھا جس کے بعد واپسی نصیب نہ ہوئی تھی اس لئے حق تعالیٰ نے فرمایا۔ حضرت شاہ (رح) صاحب فرماتے ہیں ایک رات اللہ کے حکم سے شہر مصر میں وبا پڑی ہر گھر میں بڑا بیٹا مرگیا۔ بنی اسرائیل کو آگے حکم تھا کہ تیار رہیں اسی رات نکل کھڑے ہوئے پھر کئی دن لگے ان کو تمام میں آخر فرعون کی تاکید سے سب نکل کر پیچھے لگے دریائے قلز م پر جاملے 12