Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 60

سورة الشعراء

فَاَتۡبَعُوۡہُمۡ مُّشۡرِقِیۡنَ ﴿۶۰﴾

So they pursued them at sunrise.

پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fir`awn's Pursuit and Expulsion of the Children of Israel, and how He and His People were drowned More than one of the scholars of Tafsir said that Fir`awn set out with a huge group, a group containing the leaders and entire government of Egypt at that time, i.e., the decision-makers and influential figures, princes, ministers, nobles, leaders and soldiers. Allah tells: فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِقِينَ So, they pursued them at sunrise. means, they caught up with the Children of Israel at sunrise.

فرعون اور اس کا لشکر غرق دریا ہوگیا فرعون اپنے تمام لاؤ لشکر اور تمام رعایا کو مصر اور بیرون کے لوگوں کو اپنے والوں کو اور اپنی قوم کے لوگوں کو لے کر بڑ طمطراق اور ٹھاٹھ سے بنی اسرائیل کو تہس نہس کرنے کے ارادے سے چلا بعض کہتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر گئی تھی ۔ ان میں سے ایک لاکھ تو صرف سیاہ رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے لیکن یہ خبر اہل کتاب کی ہے جو تامل طلب ہے ۔ کعب سے تو مروی ہے کہ آٹھ لاکھ تو ایسے گھوڑوں پر سوار تھے ۔ ہمارا تو خیال ہے کہ یہ سب بنی اسرائیل کی مبالغہ آمیز روایتیں ہیں ۔ اتنا تو قرآن سے ثابت ہے کہ فرعون اپنی کل جماعت کو لے کر چلا مگر قرآن نے ان کی تعداد بیان نہیں فرمائی نہ اس کو علم ہمیں کچھ نفع دینے والا ہے طلوع آفتاب کے وقت یہ ان کے پاس پہنچ گیا ۔ کافروں نے مومنوں اور مومنوں نے کافروں کو دیکھ لیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے منہ سے بےساختہ نکل گیا کہ موسیٰ اب بتاؤ کیا کریں ۔ پکڑ لیے گئے آگے بحر قلزم ہے پیچھے فرعون کاٹڈی دل لشکر ہے ۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ۔ ظاہر ہے کہ نبی اور غیر نبی کا ایمان یکساں نہیں ہوتا حضرت موسیٰ علیہ السلام نہایت ٹھنڈے دل سے جواب دیتے ہیں کہ گھبراؤ نہیں تمہیں کوئی ایذاء نہیں پہنچا سکتی میں اپنی رائے سے تمہیں لے کر نہیں نکلا بلکہ احکم الحکمین کے حکم سے تمہیں لے کر چلاہوں ۔ وہ وعدہ خلاف نہیں ہے ان کے اگلے حصے پر حضرت ہارون علیہ السلام تھے انہی کے ساتھ حضرت یوشع بن نون تھے یہ آل فرعون کا مومن شخص تھا ۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام لشکر کے اگلے حصے میں تھے ۔ گھبراہٹ کے مارے اور راہ نہ ملنے کی وجہ سے سارے بنو اسرئیل ہکا بکا ہو کر ٹھہر گئے اور اضطراب کے ساتھ جناب کلیم اللہ سے دریافت فرمانے لگے کہ اسی راہ پر چلنے کا اللہ کا حکم تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اتنی دیر میں تو فرعون کا لشکر سر پر آپہنچا ۔ اسی وقت پروردگار کی وحی آئی کہ اے نبی ! اس دریا پر اپنی لکڑی مارو ۔ اور پھر میری قدرت کا کرشمہ دیکھو ، آپ نے لکڑی ماری جس کے لگتے ہی بحکم اللہ پانی پھٹ گیا اس پریشانی کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو دعامانگی تھی ۔ وہ ابن ابی حاتم میں ان الفاظ سے مروی ہے ۔ دعا ( یا من کان قبل کل شئی المکون لکل شئی والکائن بعد کل شئی اجعل لنا مخرجا ) یہ دعا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے منہ سے نکلی ہی تھی کہ اللہ کی وحی آئی کہ دریا پر اپنی لکڑی مارو ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس رات اللہ تعالیٰ نے دریا کی طرف پہلے ہی سے وحی بھیج دی تھی کہ جب میرے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام آئیں اور تجھے لکڑی ماریں تو تو ان کی بات سننا اور ماننا پس سمندر میں رات بھر تلاطم رہا اس کی موجیں ادھر ادھر سر ٹکراتی پھیریں کہ نہ معلوم حضرت علیہ السلام کب اور کدھر سے آجائیں اور مجھے لکڑی ماردیں ایسانہ ہو کہ مجھے خبر نہ لگے اور میں ان کے حکم کی بجا آوری نہ کرسکوں جب بالکل کنارے پہنچ گئے تو آپ کے ساتھی حضرت یوشع بن نون رحمۃ اللہ نے فرمایا اے اللہ کے نبی ! اللہ کا آپ کو کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا ــ یہی کہ میں سمندر میں لکڑی ماروں ۔ انہوں نے کہا پھر دیر کیا ہے؟ چنانچہ آپ نے لکڑی مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے تو پھٹ اور مجھے چلنے کا راستہ دے دے ۔ اسی وقت وہ پھٹ گیا راستے بیچ میں صاف نظر آنے لگے اور اس کے آس پاس پانی بطور پہاڑ کے کھڑا ہوگیا ۔ اس میں بارہ راستے نکل آئے بنو اسرائیل کے قبیلے بھی بارہ ہی تھے ۔ پھر قدرت الٰہی سے ہر دو فریق کے درمیان جو پہاڑ حائل تھا اسمیں طاق سے بن گئے تاکہ ہر ایک دوسرے کو سلامت روی سے آتا ہوا دیکھے ۔ پانی مثل دیواروں کے ہوگیا ۔ اور ہوا کو حکم ہوا کہ اس نے درمیان سے پانی کو اور زمین کو خشک کرکے راستے صاف کردیئے پس اس خشک راستے سے آپ مع اپنی قوم کے بےکھٹکے جانے لگے ۔ پھر فرعونیوں کو اللہ تعالیٰ نے دریا سے قریب کردیا پھر موسیٰ اور بنواسرائیل اور سب کو تو نجات مل گئی ۔ اور باقی سب کافروں کو ہم نے ڈبودیا نہ ان میں سے کوئی بچا ۔ نہ ان میں سے کوئی ڈوبا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ فرعون کو جب بنو اسرائل کے بھاگ جانے کی خبر ملی تو اس نے ایک بکری ذبح کی اور کہا اس کی کھال اترنے سے پہلے چھ لاکھ کا لشکرجمع ہوجانا چاہئے ۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام بھاگم بھاگ دریا کے کنارے جب پہنچ گئے تو دریا سے فرمانے لگے تو پھٹ جا کہیں ہٹ جا اور ہمیں جگہ دے دے اس نے کہا یہ کیا تکبر کی باتیں کررہے ہو؟ کیا میں اس سے پہلے بھی کبھی پھٹا ہوں؟ اور ہٹ کر کسی انسان کو جگہ دی ہے جو تجھے دوں گا ؟ آپ کے ساتھ جو بزرگ شخص تھے انہوں نے کہا اے نبی کیا یہی راستہ اور یہی جگہ اللہ کی بتلائی ہوئی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی انہوں نے کہا پھر نہ تو آپ جھوٹے ہیں نہ آپ سے غلط فرمایا گیا ہے ۔ آپ نے دوبارہ یہی کہا لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا ۔ اس بزرگ شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا اسی وقت وحی اتری کہ سمندر پر اپنی لکڑی مار ۔ اب آپ کو خیال آیا اور لکڑی ماری لکڑی لگتے ہی سمندر نے راستہ دے دیا ۔ بارہ راہیں ظاہر ہوگئیں ہر فرقہ اپنے راستے کو پہچان گیا اور اپنی راہ پر چل دیا اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بہ اطمینان تمام چل دئیے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو بنی اسرائیل کو لے کر پار نکل گئے اور فرعونی ان کے تعاقب میں سمندر میں آگئے کہ اللہ کے حکم سے سمندر کا پانی جیسا تھا ویسا ہوگیا اور سب کو ڈبودیا ۔ جب سب سے آخری بنی اسرائیلی نکلا اور سب سے آخری قبطی سمندر میں آگیا اسی وقت جناب باری تعالیٰ کے حکم سے سمندر کا پانی ایک ہوگیا اور سارے کے سارے قبطی ایک ایک کرکے ڈبودیئے گئے ۔ اس میں بڑی عبرتناک نشانی ہے کہ کس طرح گنہگار برباد ہوتے ہیں اور نیک کردار شاد ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اکثر لوگ ایمان جیسی دولت سے محروم ہیں ۔ بیشک تیرا رب عزیز ورحیم ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

601یعنی جب صبح ہوئی اور فرعون کو پتہ چلا کہ نبی اسرائیل راتوں رات یہاں سے نکل گئے، تو اس کے پندار اقتدار کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اور سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَتْبَعُوْهُمْ مُّشْرِقِيْنَ :” مُّشْرِقِيْنَ “ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ لوگ سورج طلوع ہوتے ہی بنی اسرائیل کے تعاقب میں روانہ ہوگئے اور دوسرا معنی یہ کہ وہ مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑے۔ (ابن جزی) اگر نقشے کو غور سے دیکھیں تو مصر کے مشرق میں بحر قلزم ہے، جو شمال کی طرف پھیلتا گیا ہے، اس کے آخر میں مصر خشکی کے ذریعے سے صحرائے سینا کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے نکلنے کے لیے مشرق کی طرف سمندر کا رخ کیا، جس کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف چلتے ہوئے وہ صحرائے سینا میں داخل ہونا چاہتے تھے، مگر فرعون نے انھیں سمندر پر ہی جا لیا۔ اب ان کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَتْبَعُوْہُمْ مُّشْرِقِيْنَ۝ ٦٠ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے شرق شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه . ( ش ر ق ) شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠۔ ٦١) غرض فرعونیوں نے (ایک روز) سورج نکلنے کے وقت ان کو پیچھے سے جا لیا، پھر جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جماعت اور فرعون کی جماعت کا آمنا سامنا ہوگیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہی کہنے لگے، اے موسیٰ (علیہ السلام) بس ہم تو اب ان کے ہاتھ آگئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (فَاَتْبَعُوْہُمْ مُّشْرِقِیْنَ ) ” صبح کی روشنی ہوتے ہی فرعون اور اس کے لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:60) فاتبعوھم ماضی جمع مذکر غائب ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب جس کا مرجع بنی اسرائیل ہے۔ وہ ان کے تعاقب میں گئے۔ وہ ان کے پیچھے گئے۔ مشرقین۔ اسم فاعل جمع مذکر اشراق مصدر باب افعال۔ اشراق کے وقت جب سورج طلوع ہو تو عرب کہتے ہیں شرقت الشمس اور جب اس کی روشنی پھیل جائے تو کہتے ہیں اشرقت الشمس۔ اس لئے مشرقین کا مطلب یہ ہوا کہ جب سورج چڑھ آیا اور اس کی روشنی ہر طرف پھیل گئی تو فرعون کا لشکر تعاقب میں نکلا۔ ف : آیت 54 تا 56 فرعون کا اعلان ہے کہ یہ لوگ حقیر و ذلیل و کمین اور ایک مٹھی بھر لوگ ہیں لیکن اپنی سرکشی اور شرپسندی سے انہوں نے ہم کو سخت غصہ دلایا ہے (اگرچہ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن پھر بھی) ہم سب محتاط اور مسلح ہیں (اور ان کو ان کی سرکشی اور گستاخی کا مزہ چکھا کے رہیں گے) ۔ آیات 57 تا 59 عبارت جملہ معترضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے سرداروں کے دل میں بنی اسرائیل کے خلاف حد سے زیادہ انتقام کا جذبہ پیدا کردیا کہ عام فوج کو بھیجنے کی بجائے خود فرعون بمعہ امراء ووزراء لشکر جرار کے ساتھ اپنے باغات و چشمے ، خزانے وعمارتیں خالی کر کے تعاقب میں چل نکلا اور یہ باغات و چشمے و محلات بنی اسرائیل کا مقدر بن گئے۔ یہاں اور ثنھا میں ھا ضمیر مطلق باغوں وچشموں وغیرہ کی طرف راجع ہے اور اس سے مراد خاص مصر کے باغات و چشمے وغیرہ نہیں جو امراء سلطنت خالی کرکے بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلے تھے۔ آیت 59 میں ان باغات وغیرہ کا اشارہ فلسطین کی بابرکت زمین کی طرف جہاں ایسے باغات و چشموں کی فراوانی تھی بھی ہوسکتا ہے۔ آیت نمبر 60 سے سلسلہ کلام پھر شروع ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی قریب پہنچ گئے، اس وقت بنی اسرائیل دریائے قلزم میں اترنے کی کفر میں تھے کہ کیا سامان کریں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے لشکروں کا بنی اسرائیل کا تعاقب کرنا۔ فرعون نے اپنے لوگوں کی قیادت کرتے ہوئے صبح کے وقت بنی اسرائیل کا تعاقب شروع کیا اور تیز رفتاری کے ساتھ چلتے ہوئے بنی اسرائیل کو پالیا۔ بنی اسرائیل نے فرعون اور اس کے لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! ہم تو گھیرے گئے۔ سامنے سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور پیچھے سے فرعون نے آلیا ہے۔ جائیں تو کدھر جائیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پورے اعتماد کے ساتھ فرمایا گھبراؤ نہیں فرعون ہمارے قریب نہیں پھڑک سکتا۔ یقیناً میرا رب میرے ساتھ ہے وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنا خطاب ختم کرچکے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں وحی فرمائی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اپنا عصا سمندر پر ماریے۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا پانی پر مارا تو سمندر کا پانی دونوں طرف پہاڑ کی طرح تھم گیا۔ اس طرح سمندر میں بارہ راستے بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی۔ فرعون نے یہ صورتحال دیکھی تو اس نے لشکر کو سمندر میں آگے بڑھنے کا حکم دیا لیکن جونہی اس کے لشکر کا آخری آدمی سمندر میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دوسرے مقام پر یہ وضاحت موجود ہے کہ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھی سمندر عبور کرچکے اور فرعون پورے لشکر کے ساتھ سمندر میں داخل ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پانی پر مارا۔ تھمی ہوئی موجیں آپس میں مل گئیں اور آل فرعون ڈبکیاں لیتے ہوئے موت کے گھاٹ اتر گئے۔ (القصص : ٦٣) فرعون کے بارے میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اس نے ڈبکیاں لیتے ہوئے بار بار اس بات کی دہائی دی کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا۔ ” ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اسکے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب غرق ہونے لگا تو اس نے کہا کہ میں ایمان لایا۔ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں سچ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں فرمانبرداروں میں شامل ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اسے جواب ملا کہ کیا اب ؟ حالانکہ تو نافرمان تھا اور تو فساد کرنیوالوں میں سے تھا۔ “ (یونس : ٩٠۔ ٩١) فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں قدرت کی عظیم نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر اور نہایت ہی مہربان ہے۔ نشانی اور العزیز کا لفظ استعمال فرما کر اہل مکہ اور ظالموں کو متنبہ فرمایا ہے کہ تم فرعون اور اس کے لشکروں سے طاقتور نہیں یہ تو ” اللہ “ کی حکمت ہے کہ وقت معین تک ظالموں کو مہلت دیے جاتا ہے۔ جب گرفت کرنے پر آئے تو دنیا کے اسباب وو سائل اور لاؤ لشکر کسی ظالم کو پناہ نہیں دے سکتے۔” الرحیم “ کی صفت کے حوالے سے بےبسوں اور مظلوم مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ نہایت ہی مشفق اور مہربان ہے۔ وہ دنیا میں تمہارا بدلہ لے گا اور آخرت میں تمہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔ چناچہ ہجرت مکہ کا واقعہ یاد کریں کہ جب مکہ والے غار ثور کے دہانے پر پہنچ گئے اور ابوبکر صدیق (رض) نے انہیں دیکھا تو گھبرا کر عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول کفار تو غار کے منہ پر پہنچ چکے ہیں اس موقعہ پر آپ نے جو فرمایا اس کا تذکرہ قرآن اس طرح کرتا ہے۔ (اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَافَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) [ التوبہ : ٤٠] ” اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی جب اسے کفار نے نکال دیا، جب وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے اور اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ نے اس پر اپنی سکینت اتاردی اور انہیں ایسے لشکروں کے ساتھ مدد فراہم کی جو تم نے نہیں دیکھے۔ کفار کا منصوبہ ناکام ہوا اور اللہ کا فیصلہ غالب رہا۔ اللہ سب پر غالب اور خوب حکمت والا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے پیغمبر ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ ہی انسان کی رہنمائی کرنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش میں عبرت کے اسباق ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر کام پر غالب اور اپنے بندوں کی مدد کرنے والا، نہایت ہی مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور ان کے ساتھیوں کے مظالم : ١۔ فرعون نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کی۔ (القصص : ٤) ٢۔ بنی اسرائیل قتل و غارت کے عذاب میں دو مرتبہ مبتلا کئے گئے۔ (الاعراف : ١٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقتدار بخشا تاکہ فرعون کو اپنی قدرت دکھلائے۔ (القصص : ٦) ٤۔ فرعون نے ظلم کرنے کے لیے میخیں تیار کی ہوئی تھیں۔ (الفجر : ١٠) ٥۔ فرعون نے اپنی بیوی پر اس لیے ظلم کیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ (التحریم : ١١) ٦۔ فرعون قوم موسیٰ کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ (البقرۃ : ٤٩) ٧۔ فرعون مومنوں کو کئی طرح کے اذیّتوں میں مبتلا کرتا تھا۔ (الاعراف : ١٤١) ٨۔ فرعون نے موحدین کو پاؤں اور ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دی۔ (الاعراف : ١٢٤) ٩۔ فرعون نے اللہ پر ایمان لانے والوں کو ہاتھ پاؤں کاٹنے اور کھجور کے تنوں پر پھانسی دینے کی دھمکی دی۔ (طہٰ : ٧١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاخرجنھم من ……اسرآئیل (٥٩) یہ لوگ تو اس لئے نکلے کہ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کریں مگر اپنے گھروں سے ان کا یہ خروج آخری خروج تھا۔ یہ دراصل اللہ کی اسکیم میں ان کے لئے ان انعامات اور عیاشیوں سے اخراج تھا ، جن میں وہ تھے ، اعلیٰ سہولتوں ، عزت کے مقامات اور خوشحالی اور باغات و محلات سے اخراج تھا۔ اس کے بعد یہ پھر ان مقامات کی طرف واپس نہ آئے اور یہ تھی ان کی سزابن مظالم کی وجہ سے جو یہ غریبوں پر ڈھاتے تھے۔ واورثنھا بنی اسرائیل (٢٦ : ٥٩) ” اور دوسری طرف ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث کردیا۔ “ تاریخ میں تو اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ یہ بنی اسرائیل فرعونیوں کے بعد دوبارہ مصر میں داخل ہوئے تھے اور مصر کے باغ و راغ اور مال و منال پر قابض ہوگئے تھے۔ اس لئے مفسرین یہ کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا مال و اقتدار ان کو دے دیا گیا جس طرح فرعونیوں کو دیا گیا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ ایک قوم کو زوال دیا اور دوسری کو عروج اور اس عروج میں وہ اگلی قوم کی وارث ہوگئی۔ پہلے مقام کریم اس کے پاس تھا اب اس کے پاس ہے۔ اور عمرانی سزا کے بعد اب ان کی جسمانی سزا اور آخری انجام کا ذکر آتا ہے۔ فاتبعوھم مشرقین ……الاخرین (٦٦) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندوں کو لے کر رات کے وقت نکل پڑے۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی اور ہدایت کے مطابق۔ صبح کے وقت جب فرعون نے دیکھا کہ بنی اسرائیل بھاگ گئے ہیں تو وہ اپنی فوجیں لے کر تعاقب میں نکلا۔ اس تعاقب کے لئے فرعون نے بڑی سخت تدابیر اختیار کر رکھی تھیں اور ان کو پکڑنے کا زبردست انتظام کیا تھا۔ اب یہ منظر اپنی انتہا اور انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ معرکہ اپنی انتہائی بلندی پر پہنچ گیا۔ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم ساحل پر پہنچ گئی ہے۔ وہاں کوئی کشتی نہیں ہے۔ بنی اسرائیل نہ سمندر عبور کرسکتے ہیں اور نہ فرعون کے ساتھ جنگ کے لئے کچھ سامان ہے اور فرعون ان کا تعاقب نہایت ساز و سامان سے کر رہا ہے اور انہیں گرفتار کرنے کی بےرحمانہ اسکیم اس نے تیار کی ہوئی ہے۔ بظاہر حالات یہی بتاتے ہیں کہ اب ان کے بھاگ نکلنے کی کوئی تدبیر نہیں ہے۔ آگے سمندر ہے اور پیچھے سے دشمن بڑھا چلا آ رہا ہے۔ قال اصحب موسیا نا لمدرکون (٢٦ : ٦١) ” موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو پکڑے گئے۔ ‘ اہل ایمان کی بےچینی اب انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ اب تو چند منٹوں کی بات ہے کہ لشکر فرعون انہیں قتل کرے یا گرفتار کرے اور اس سے بظاہر چھوٹ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ لیکن حضرت حضرت موسیٰ کا رابطہ تو عالم بالا سے قائم تھا۔ وحی مسلسل آرہی تھی۔ ان کا کاسہ دل اطمینان سے لبالب تھا۔ پوری طرح یقین تھا کہ اللہ کوئی صورت نکالنے والا ہے۔ مدد کی کوئی سبیل نکل آئیگی۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ نجات ملے گی۔ اگرچہ انہیں بھی معلوم نہ تھا کہ بات کیا ہوگی۔ البتہ یقین تھا کہ نجات یقینی ہے۔ کیونکہ یہ سب منصوبہ اللہ کا تیار کردہ ہے۔ قال کلا ان معی ربی سیھدین (٢٦ : ٦٢) ” موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں میرے ساتھ ، میرا رب ہے ، وہ ضرور میری اہنمائی فرمائے گا۔ “ لفظ کلا ایسی جگہ استعمال ہوتا ہے ، جہاں شدید تاکید کے ساتھ نفی مطلوب ہو۔ یعنی تم ہرگز نہ پکڑے جائو گے اور تم ہرگز کسی فتنے میں نہ پڑو گے۔ ہرگز اللہ تمہیں ضائع نہ کرے گا۔ میرے ساتھ میرا رب ہے ، وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا۔ حضرت موسیٰ بڑی تاکید ، اعتماد اور یقین کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ مایوسی کے ان اندھیروں میں اچانک روشنی کی ایک کرن نمودار ہوتی ہے۔ نجات کی راہ اس طرف سے ملتی ہے جس طرف سے کوئی امید نہ تھی۔ فاوحینا الی موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر (٢٦ : ٦٣) ” ہم نے موسیٰ کو وحی کے ذریعے حکم دیا کہ ” مار اپنا عصا سمندر پر “۔ اب سیاق کلام میں آگے یہ نہیں کہا جاتا کہ انہوں نے اپنا عصا سمندر پر مارا بلکہ نتیجہ ہی جلدی سے ہمارے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ فانفلق فکان کل فرق کالطود العظیم (٢٦ : ٦٣) ” یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم پہاڑ کی طرح ہوگ یا۔ “ یہ معجزہ واقع ہوگیا اور لوگ جس بات کو محال کہتے تھے ، وہ ہوگئی کیونکہ ان کا قیاس تو روزمرہ کے معمول کے واقعات پر تھا اور یہ روزہ مرہ کے واقعات بھی تو اللہ کی قدرت کے پیدا کردہ اصولوں کے مطابق رونما ہوتے ہیں اور یہ ان اصولوں کے مطابق تب تک چلتے ہیں جب تک اللہ چاتہا ہے۔ اللہ کا حکم یوں ہوا کہ پانی راستوں کے دونوں طرف تو دوں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ بنی اسرائیل گھس کر دریا پار کر گئے۔ فرعون اپنی افواج کے ساتھ دوسری جانب ششدر کھڑا رہ گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ یہ معجزہ دیھکا۔ لازم ہے کہ کچھ دیر کے لئے تو وہ حیرت زدہ ہو کر رہ گیا ہوگا ۔ وہ دیکھ رہا ہوگا کہ موسیٰ اور ان کی قوم وہ گئے اور پار ہوگئے۔ اس نے بہرحال اپنی افواج کو اس راستے میں گھس جانے سے بل سوچا تو ہوگا کیونکہ یہ ایک عجیب عمل تھا۔ اللہ کی اس تدبیر سے بنی اسرائیل دوسری طرف نکل گئے۔ ابھی تک پانی دو ٹکڑے ہی تھا اور فرعون اور اس کا لشکر پانی کے اندر ہی تھے کہ اللہ نے ان کا انجام قریب کردیا۔ واز لفناثم ……الاخرین (٦٦) (٢٦ : ٦٣ تا ٦٦) ” اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسیٰ اور ان سب لوگوں کو جوان کے ساتھ تھے ، ہم نے بچا لیا اور وہ دوسروں کو غرق کردیا۔ “ یہ معجزہ ایک عرصہ تک لوگوں کی زبان پر رہا۔ صدیوں تک وہ اس کا تذکرہ کرتے رہے۔ کیا اس پر زیادہ لوگ ایمان لے آتے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ جب سورج طلوع ہورہا تھا اس وقت فرعون مع قوم ان کے تعاقب میں روانہ ہوگیا۔ بنی اسرائیل بحیرہ قلزم کے کنارے پہنچے تو پیچھے سے فرعونیوں نے ان کو آلیا۔ ” فلما تراء الجمعن “ جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو بنی اسرائیل نے کہا ہم تو پکڑے گئے۔ ” قال کلا الخ “ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہرگز نہیں۔ میرا رب حافظ و ناصر ہے وہ دریا کو عبور کرنے کی مجھے کوئی تدبیر بتائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ تو یقین تھا کہ فرعون انہیں پکڑ نہیں سکے گا اور وہ دریا کو صحیح سلامت عبور کر جائیں گے لیکن ابھی تک انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اس کی صورت کیا ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غیب دان نہ تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

60۔ غرض ! دن نکلتے نکلتے فرعون کے لشکر نے عقب سے بنی اسرائیل کو جالیا۔