Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 62

سورة الشعراء

قَالَ کَلَّا ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۶۲﴾

[Moses] said, "No! Indeed, with me is my Lord; He will guide me."

موسٰی نے کہا ہرگز نہیں ، یقین مانو ، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(Musa) said: "Nay, verily with me is my Lord. He will guide me." meaning, `nothing of what you fear will happen to you, for Allah is the One Who commanded me to bring you here, and He does not go back on His promise.' إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ verily with me is my Lord. He will guide me. Harun, peace be upon him, was in the front, with Yusha` bin Nun and a bel... iever from the family of Fir`awn, and Musa, peace be upon him, was in the rear. More than one of the scholars of Tafsir said that they stood there not knowing what to do, and Yusha` bin Nun or the believer from the family of Fir`awn said to Musa, peace be upon him, "O Prophet of Allah, is it here that your Lord commanded you to bring us!" He said: "Yes." Then Fir`awn and his troops drew near and were very close indeed. At that point Allah commanded his Prophet Musa, peace be upon him, to strike the sea with his staff, so he struck it, and it parted, by the will of Allah. Allah says:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

621حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی کہ تمہارا اندیشہ صحیح نہیں، اب دوبارہ تم فرعون کی گرفت میں نہیں جاؤ گے۔ میرا رب یقینا نجات کے راستے کی نشاندہی فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] لیکن موسیٰ (علیہ السلام) پر اس صورت حال کا کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے جو فتح و نصرت کے وعدے کر رکھے ہیں وہ یقیناً پورے ہوں گے۔ اور اس مصیبت سے نجات کے لئے بھی اللہ ضرور کوئی راہ نکال دے گا۔ لہذا انہوں نے گھبرائے ہوئے بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے کہا ک... ہ فرعون تمہلارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے شامل حال ہے وہ ان حالات میں بھی ضرور ہماری رہنمائی فرمائے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ كَلَّا ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ : فرمایا، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، بلکہ میرا رب میرے ساتھ ہے، اس نے فرعون کی طرف روانہ کرتے ہوئے خود مجھ سے وعدہ کیا ہے : (اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ ) [ الشعراء : ١٥ ] ” بیشک ہم تمہارے ساتھ خوب سننے والے ہیں۔ “ اسی کے حکم سے میں یہاں آیا ہوں، یہ کس ... طرح ہوسکتا ہے کہ اب وہ مجھے بےیارو مددگار چھوڑ دے، وہ مجھے ضرور ان سے نجات کا راستہ بتائے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The reasoning for this he gave إِنَّ مَعِيَ رَ‌بِّي سَيَهْدِينِ (62) |"Indeed with me is my Lord. He will guide me.|" Such are the moments for the test of faith, when Sayyidna Musa (علیہ السلام) was not terror stricken at all, as if he was seeing for himself the way out. Almost the same thing happened with Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) at the time of migration while hiding in the cave of ... Thaur. The enemy had reached right at the opening of the cave in his pursuit. In fact they were so close that they could have seen him if they had looked down towards their toes. Sayyidna Abu Bakr (رض) got alarmed a little, but Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said exactly the same thing لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا ` Do not grieve, Allah is surely with us& (9:40). It is worth noting in the two incidents that while Sayyidna Musa (علیہ السلام) said to his Ummah in order to console them مَعِيَ رَ‌بِّي ` With me is my Lord&, Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said toSayyidna Abu Bakr (رض) in reply ` Allah is with us (two) &. It is a special privilege of the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that his followers are also honoured by the company of Allah when they are with their Rasul.  Show more

اور وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ میرے ساتھ میرا پروردگار ہے جو مجھے راستہ دے گا۔ ایمان کا امتحان ایسے ہی مواقع میں ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ذرا ہراس نہیں تھا، وہ گویا راستہ بچنے کا آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح کا بعینہ واقعہ ہجرت کے وقت غار ثور میں چھپنے کے وقت...  رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آیا تھا کہ دشمن جو آپ کے تعاقب میں تھے اس غار کے دہانے پر آکھڑے ہوئے ذرا نیچے نظر کریں تو آپ ان کے سامنے آجائیں اس وقت صدیق اکبر کو گھبراہٹ ہوئی تو آپ نے بعینہ یہی جواب دیا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ان دونوں واقعات میں ایک بات یہ بھی قابل نظر ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تسلی دینے کے لئے کہا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ میرے ساتھ میرا رب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب مَعَنَا فرمایا کہ ہم دونوں کے ساتھ ہمارا رب ہے، یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ اس کے افراد بھی اپنے رسول کے ساتھ معیت الہیہ سے سرفراز ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ كَلَّا۝ ٠ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِ۝ ٦٢ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال...  : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہم ہرگز ان کے ہاتھ نہیں آسکتے کیوں کہ میرے ساتھ میرا پروردگار ہے وہ ابھی مجھ کو ان سے نجات دے دے گا اور راستہ بتا دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (قَالَ کَلَّاج اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ ) ” اس آیت کے یہ الفاظ سورة التوبہ کی آیت ٤٠ کے ان الفاظ سے ملتے جلتے ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار ثور میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو مخاطب کر کے فرمائے تھے : (لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج) ” ( اے ابوبکر (رض) آپ پریشان ن... ہ ہوں ‘ یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46 That is, "He will show me the way out of this calamity"

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :46 یعنی مجھے اس آفت سے بچنے کی راہ بتائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:62) کلا ہرگز نہیں۔ سیھدین : س حرف ہے۔ فعل مضارع کو مستقبل قریب کے معنی کے لئے مخصوص کردیتا ہے۔ یہدین مضارع واحد مذکر غائب ھدایۃ مصدر (باب ضرب) نون وقایہ یاء متکلم محذوف (کہ اصل میں بھدینی تھا) وہ مجھے ہدایت کردیگا ۔ وہ میری راہنمائی کرے گا وہ مجھے راہ بتادے گا۔ سیھدین وہ مجھے ابھی راہ بتادے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

14 ۔ یعنی میرے پروردگار کی نصرت و حمایت میرے شامل حال ہے ان سے نجات کی ضرور کوئی سبیل نکل آئے گی۔ چناچہ آخر کار اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پانی میں عصا مارنے کا حکم دیا۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اِِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ ) (بلاشبہ میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے ضرور راہ بتائے گا) موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ شانہٗ کا حکم ہوا کہ سمندر میں اپنی لاٹھی مار دو چناچہ انہوں نے لاٹھی دریا پر مار دی، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ سمندر پھٹ گیا اور جگہ جگہ پانی ٹھہر گیا اور راستے نکل آئے پان... ی کے ٹھہرنے سے جگہ جگہ جو ٹکڑے بنے وہ اتنے بڑے تھے جیسے کوئی بڑا پہاڑ ہو ان ٹکڑوں کے درمیان راستے نکل آئے اور بنی اسرائیل کے قبیلے ان راستوں سے پار ہوگئے فرعون جو اپنے لشکر کے ساتھ پیچھے آ رہا تھا اس نے یہ نہ سوچا کہ یہ سمندر تو کبھی ٹھہرا نہیں اس میں کبھی راستے نہیں بنے یہ راستے کیسے بن گئے ؟ اگر غور کرتا تو اس کی سمجھ میں آجاتا کہ یہ بھی حضرت موسیٰ کا ایک معجزہ ہے اور وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اگر اس وقت بھی ایمان لے آتا تو ڈوبنے کی مصیبت سے دو چار نہ ہوتا، لیکن اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے لشکر کو لے کر بنی اسرائیل کے پیچھے سمندر میں داخل ہوگیا بنی اسرائیل پار ہو کر دوسرے کنارہ پر پہنچ گئے اور فرعون اپنے لشکروں سمیت ڈوب گیا جب اس کا پورا لشکر سمندر میں داخل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے سمندر کو حکم دے دیا کہ آپس میں پانی کے سب ٹکڑے مل جائیں اور جو خشک راستے بن گئے تھے وہ ختم ہوجائیں چناچہ سمندر کے ٹکڑے آپس میں مل گئے فرعون خود بھی ڈوبا اپنے لشکر کو بھی لے ڈوبا جب ڈوبنے لگا تو ایمان لے آیا اور کہنے لگا (اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآءِ یْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ) (میں ایمان لایا کہ اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں) اللہ پاک کا ارشاد ہوا (اآلْءٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ) (کیا اب ایمان لاتا ہے حالانکہ تو فساد کرنے والوں میں سے تھا) ۔ الحاصل اللہ تعالیٰ شانہٗ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام ساتھیوں کو نجات دیدی اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق فرما دیا۔ فرعون اپنی اکڑ مکڑ کے ساتھ یہ سمجھ کر نکلا تھا اور اپنے لشکروں کو ہمراہ لیا تھا کہ بنی اسرائیل کو ابھی ابھی پکڑ کرلے آئیں گے، اپنے باغوں کو اور چشموں کو اور خزانوں کو اور عمدہ مکانوں کو چھوڑ کر نکلے تھے اور خیال یہ تھا کہ ابھی واپس آتے ہیں، یہ خبر نہ تھی کہ اب لوٹنا نصیب نہ ہوگا۔ مذکورہ بالا تمام نعمتوں سے محروم ہوئے ڈوبے اور دریا برد ہوئے دنیا بھی گئی اور آخرت کا دائمی عذاب اس کے علاوہ رہا، فرعون جیسے دنیا میں بنی اسرائیل کو پکڑنے کے لیے اپنے لشکر سے آگے آگے جا رہا تھا اسی طرح قیامت کے دن دوزخ میں جاتے ہوئے اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا کما قال تعالیٰ ، فی سورة ھود (علیہ السلام) (یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَاَوْرَدَھُمُ النَّارَ ) (فرعون قیامت کے دن دوزخ کی طرف جاتے ہوئے اپنی قوم سے آگے آگے ہوگا سو وہ انہیں دوزخ میں وارد کر دے گا) ۔ فرعون اور فرعون کے ساتھی باغوں اور چشموں اور خزانوں اور اچھے مکانوں سے محروم ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بنی اسرائیل کو عطا فرما دیں، صاحب روح المعانی (رح) نے بنی اسرائیل کو وارث بنانے کے بارے میں اولاً تو مفسر واحدی سے یوں نقل کیا ہے کہ جب فرعون اور اس کی قوم کے لوگ غرق ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو واپس مصر بھیج دیا اور قوم فرعون کے جو اموال اور جائیدادیں اور رہنے کے گھر تھے وہ سب بنی اسرائیل کو عطا فرما دیے حضرت حسن سے بھی یہی بات نقل کی ہے اور ایک قول یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ فرعون کے غرق ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ واپس چلے گئے تھے اور وہاں جا کر قوم فرعون یعنی قبطیوں کے اموال پر قابض ہوگئے تھے اور باقی لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ شام کی طرف چلے گئے اور ایک قول یہ لکھا ہے کہ (وَ اَوْرَثْنَاھَا بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ ) کا یہ مطلب نہیں کہ سمندر سے نجات پانے کے بعد اسی وقت مصر کو واپس لوٹ گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد انہیں مصر میں اقتدار مل گیا اور مذکورہ چیزیں ان کے قبضہ میں آگئیں لیکن اقتدار اور قبضہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا۔ احقر کے خیال میں یہی بات صحیح ہے کیونکہ آیتوں میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ انہیں فوراً ہی مصر میں اقتدار مل گیا اور اس قول کے مطابق جنات اور عیون اور کنوز کے بارے میں یوں کہا جائے گا کہ الفاظ جنس کے لیے استعمال ہوئے ہیں عین وہی چیزیں مراد نہیں ہیں جو فرعون اور ان کے ساتھیوں نے چھوڑی تھیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہرگز نہیں کیونکہ میرے ساتھ میرا پروردگار ہے وہ عنقریب میر ی رہنمائی فرمائے گا یعنی دریا کو پار کرنے کا راستہ دکھائے گا۔