47 Literally, tawd is a high mountain. It appears that as soon as Prophet Moses struck the sea with his staff, it tore the sea asunder and the waters stood like two mighty mountains on the sides and remained in that condition for so long that, on the one hand, the Israelite caravans consisting of hundreds of thousands of the nigrants were able to pass through safely, and on the other, Pharaoh and his hosts stepped in and reached the middle of the sea. In the natural course, a phenomenon like this has never occurred that due to a windstorm, however strong, the sea should have parted and stood like mighty mountains on either side for such a long time. According to verse 77 of Ta Ha, Prophet Moses was commanded by Allah "to make for them (the Israelites) a dry path across the sea. " This shows that the smiting of the sea did not only result in dividing the waters into two parts, which stood like mighty mountains on either side, but it also created a dry path in between without any mud or slush. In this connection, one should also consider verse 24 of Surah Dukhan, which says that after Moses had crossed the sea along with his people, he was commanded by Allah "to let the sea remain as it is because Pharaoh is to be drowned in it." This implies that if after crossing the sea, Moses had again struck it with his staff, the two sides would have rejoined, but he was forbidden to do so. Obviously, this was a miracle, and the view of those who try to interpret it as a natural phenomenon, is belied. For explanation, see E.N. 53 of Ta Ha.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :47
اصل الفاظ ہیں کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ۔ طود عربی زبان میں کہتے ہی بڑے پہاڑ کو ہیں ۔ لسان العرب میں ہے الطود ، الجبل العظیم ۔ اس کے لیے پھر عظیم کی صفت لانے کے معنی یہ ہوئے کہ پانی دونوں طرف بہت اونچے پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا تھا ۔ پھر جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ سمندر حضرت موسیٰ کے عصا مارنے سے پھٹا تھا ، اور یہ کام ایک طرف بنی اسرائیل کے پورے قافلے کو گزارنے کے لیے کیا گیا تھا اور دوسری طرف اس سے مقصود فرعون کے لشکر کو غرق کرنا تھا ، تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا کی ضرب لگنے پر پانی نہایت بلند پہاڑوں کی شکل میں کھڑا ہو گیا اور اتنی دیر تک کھڑا رہا کہ ہزاروں لاکھوں بنی اسرائیل کا مہاجر قافلہ اس میں سے گزر بھی گیا اور پھر فرعون کا پورا لشکر ان کے درمیان پہنچ بھی گیا ۔ ظاہر ہے کہ عام قانون فطرت کے تحت جو طوفانی ہوائیں چلتی ہیں وہ خواہ کیسی ہی تند و تیز ہوں ، ان کے اثر سے کبھی سمندر کا پانی اس طرح عالی شان پہاڑوں کی طرح اتنی دیر تک کھڑا نہیں رہا کرتا ۔ اس پر مزید سورہ طٰہٰ کا یہ بیان ہے کہ : فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیْقاً فِی الْبَحْرِ یَبَساً ، ان کے لیے سمندر میں سوکھا راستہ بنا دے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سمندر پر عصا مارنے سے صرف اتنا ہی نہیں ہوا کہ سمندر کا پانی ہٹ کر دونوں طرف پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا ، بلکہ بیچ میں جو راستہ نکلا وہ خشک بھی ہو گیا ، کوئی کیچڑ ایسی نہ رہی جو چلنے میں مانع ہوتی ۔ اس کے ساتھ سورہ دُخان آیت 24 کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ہدایت فرمائی کہ سمندر پار کر لینے کے بعد اس کو اسی حال پر رہنے دے ، لشکر فرعون یہاں غرق ہونے والا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اگر دوسرے ساحل پر پہنچ کر سمندر پر عصا مار دیتے تو دونوں طرف کھڑا ہوا پانی پھر مل جاتا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تا کہ لشکر فرعون اس راستے میں اتر آئے اور پھر پانی دونوں طرف سے آ کر اسے غرق کر دے ۔ یہ صریحاً ایک معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو اس واقعے کی تعبیر عام قوانین فطرت کے تحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 53 ) ۔