Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 63

سورة الشعراء

فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡبَحۡرَ ؕ فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۶۳﴾

Then We inspired to Moses, "Strike with your staff the sea," and it parted, and each portion was like a great towering mountain.

ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مار پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ... Then We revealed to Musa (saying): "Strike the sea with your stick." فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ And it parted, and each separate part became like huge mountain. meaning, like mighty mountains. This was the view of Ibn Mas`ud, Ibn Abbas, Muhammad bin Ka`b, Ad-Dahhak, Qatadah and others. Ata' Al-Khurasani said, "It refers to a pass between two mountains." Ibn Abbas said, "The sea divided into twelve paths, one for each of the tribes." As-Suddi added, "And in it there were windows through which they could see one another, and the water was erected like walls." Allah sent the wind to the sea bed to make it solid like the land. Allah says: فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِى الْبَحْرِ يَبَساً لاَّ تَخَافُ دَرَكاً وَلاَ تَخْشَى and strike a dry path for them in the sea, fearing neither to be overtaken nor being afraid. (20:77) And here He says: وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الاْأخَرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

631چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ راہنمائی اور نشان دہی فرمائی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، جس سے دائیں طرف کا پانی دائیں طرف اور بائیں طرف کا پانی بائیں طرف رک گیا اور دونوں کے بیچ راستہ بن گیا کہا جاتا ہے کہ بارہ قبیلوں کے حساب سے بارہ راستے بن گئے تھے واللہ عالم۔ 632فرق قطعہ بحر، سمندر کا حصہ طور پہاڑ۔ یعنی پانی کا ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزے کا صدور ہوا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم فرعون سے نجات پالے اس تائید الہی کے بغیر فرعون سے نجات ممکن نہیں تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بوجب وحی الٰہی جب اپنا عصا سمندر پر مارا تو وہ دو حصوں میں بٹ گیا اور درمیان میں کافی کشادہ راستہ بن گیا۔ اور راستہ خشک بھی فوراً ہوگیا۔ نیچے دلدلی زمین نہیں تھی۔ ایک طرف کا پانی بھی ساکن جامد پہاڑ کی طرح کھڑا کا کھڑا رہ گیا اور دوسری طرف کا بھی۔ لیکن مفسرین کی نقل کردہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خشک راستہ نہیں بلکہ بارہ راستے بنے تھے اور کل فرق کے الفاظ بھی ان روایات کی تائید کرتے ہیں کیونکہ کل کا لفظ دو کے لئے نہیں آتا۔ روایات کے مطابق سمندر میں بارہ راستے بنے تھے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی قبیلے تھے اور ہر قبیلے کے تقریباً بارہ ہزار افراد تھے جو ہجرت کرکے آئے تھے اس لحاظ سے ان مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ چوالیس ہزار بنتی ہے اور بعض روایات کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔ جبکہ فرعون کے لشکر کی تعداد سے بہت زیادہ تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۔۔ : بعض لوگ جو معجزات کے منکر ہیں فرعون اور اس کی قوم کے سمندر میں غرق ہونے کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل سمند رکے کنارے پہنچے تو اس وقت سمندر میں جزر کی کیفیت تھی، پانی پیچھے ہٹ گیا تھا، چناچہ وہ بخیریت اس سے گزر گئے، ان کے پیچھے فرعون اور اس کی قوم بھی سمندر میں داخل ہوگئی۔ جب وہ پوری طرح اس کے اندر داخل ہوگئے تو سمندر میں ” مد “ کی کیفیت پیدا ہوگئی، پانی یک لخت چڑھ آیا اور وہ سب غرق ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویل نہیں بلکہ قرآن کا صاف انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس موقع پر موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی کہ اپنا عصا سمندر پر مار، چناچہ سمندر پھٹ گیا اور پانی کا ہر ٹکڑا ایک بہت بڑے، لمبے چوڑے اور اونچے پہاڑ کی صورت میں تھم گیا۔ سورة طٰہٰ میں ہے کہ ان کے درمیان (سمندر کی تہ کی گیلی اور دلدلی زمین میں) خشک راستہ بن گیا، فرمایا : (فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ) [ طٰہٰ : ٧٧ ] ” پس ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ بنا۔ “ غور کریں کہاں مد و جزر سے سمندر کا بڑھنا گھٹنا اور کہاں پانی کا اپنی سطح ہموار رکھنے کے بجائے بہت بڑے پہاڑوں کی صورت میں تھم جانا۔ دراصل ان لوگوں کا ایمان ہی نہیں کہ جس مالک نے آگ میں جلانے کی اور پانی میں بہنے اور ڈبونے کی خاصیت رکھی ہے، وہ جب چاہے ان سے یہ خاصیت واپس بھی لے سکتا ہے۔ یہ لوگ اندھے بہرے مادے ہی کو اپنا معبود بنائے بیٹھے ہیں، جو اپنے آپ پر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ یہاں ” فَأَوْحَیْنَا إِلَیْہِ “ کے بجائے ” فَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي “ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا نام اپنے رب پر اعتماد کے صلے میں ان کی عظمت شان کے اظہار کے لیے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ۝ ٠ۭ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ۝ ٦ ٣ۚ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے ضرب الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا [ الزخرف/ 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الكهف/ 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] . والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ : ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها . ( ض ر ب ) الضرب کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف/ 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف/ 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ فلق الفَلْقُ : شقّ الشیء وإبانة بعضه عن بعض . يقال : فَلَقْتُهُ فَانْفَلَقَ. قال تعالی: فالِقُ الْإِصْباحِ [ الأنعام/ 96] ، إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] ، فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] ، وقیل للمطمئنّ من الأرض بين ربوتین : فَلَقٌ ، وقوله : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق/ 1] ، أي : الصّبح، وقیل : الأنهار المذکورة في قوله : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل/ 61] ، وقیل : هو الکلمة التي علّم اللہ تعالیٰ موسیٰ فَفَلَقَ بها البحر، والْفِلْقُ : الْمَفْلُوقُ ، کالنّقض والنّكث للمنقوض والمنکوث، وقیل الْفِلْقُ : العجب، والْفَيْلَقُ كذلك، والْفَلِيقُ والْفَالِقُ : ما بين الجبلین وما بين السّنامین من ظهر البعیر . ( ف ل ق ) الفلق ( ض ) کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو دوسرے سے الگ کرنے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ فلقتہ میں اسے پھاڑ دیا فانفلق چناچہ وہ چیز پھٹ گئ۔ قرآن میں ہے : فالِقُ الْإِصْباحِ [ الأنعام/ 96] وہی رات کے اندھیرے سے ) صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے ۔إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] بیشک خدا ہی والے اور کٹھلی کو پھاڑ کر ان سے درخت وغیرہ اگاتا ہے ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑہ یوں ہوگیا یا بڑا پہاڑ ہے ۔ اور دوٹیلوں کے درمیان پست جگہ کو بھی فلق کہاجاتا ہ اور آیت کریمہ : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق/ 1] کہو کہ میں صبح پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔ میں فلق سے مراد صبح ہے بعض نے کہا ہے کہ اس سے نہریں مراد ہیں جن کا آیت کریمہ : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل/ 61] بھلا کس نے زمین کو قراسگاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں ۔ میں تذکرہ پایا جاتا ہے ۔ اور بعض نے وہ کلمہ مراد لیا ہے جس کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تعلیم دی تھی اور انہوں نے اس کی برکت سے سمندر پھاڑ دیا تھا اور فلق بمعنی مفلوق ہے جس طرح کہ نقض بمعنی منقوض اور نکث بمعنی منکوث آتا ہے بعض نے کہا ہے کہ فلق اور فیلق کے معنی تعجب کے ہیں اور دو پہاڑوں کی درمیانی جگہ کو فیلق وفالق کہاجاتا ہے اور اونٹ کی دوکہاں کے درمیانی حصہ کو بھی فلیق وفالق کہتے ہیں ۔ فرق الفَرْقُ يقارب الفلق لکن الفلق يقال اعتبارا بالانشقاق، والفرق يقال اعتبارا بالانفصال . قال تعالی: وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة/ 50] ، والفِرْقُ : القطعة المنفصلة، ومنه : الفِرْقَةُ للجماعة المتفرّدة من النّاس، وقیل : فَرَقُ الصّبح، وفلق الصّبح . قال : فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] ، ( ف ر ق ) الفرق والفلق کے قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن معنی انشقاق یعنی پھٹ جانا کے لحاظ سے فلق کا لفظ بولا جاتا ہے اور مغی انفعال یعنی الگ الگ ہونے کے لحاظ سے فرق قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة/ 50] اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا ۔ اور الفراق کے معنی الگ ہونے والا ٹکڑہ کے ہیں اسی سے فرقۃ ہے جس کے معنی لوگوں کا گروہ یا جماعت کے ہیں ۔ اور طلوع فجر پر فرق اور فلق دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا ( کہ ) گویا بڑا پہاڑ ہے طود قال تعالی: كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] ، الطَّوْدُ : هو الجبلُ العظیمُ ، ووصفه بالعظم لکونه فيما بين الأَطْوَادِ عظیما، لا لکونه عظیما فيما بين سائر الجبال . ( ط و د ) الطود ۔ بلند پہاڑ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] کہ گویا بڑا پہاڑ ہے ۔ الطود کے معنی ہی بڑے بلند پہاڑ کے ہیں مگر اس کے باوجود اس کے وصف میں عظیم کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ پانی بلند پہاڑ کی طرح تھا نہ یہ کہ وہ سب پہاڑوں سے بلند تر تھا ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣) پھر ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنے عصا کو دریا پر مارو، چناچہ انہوں نے مارا جس سے اس دریا کے پھٹ کر بارہ حصے ہوگئے اور ان میں سے ہر ایک حصہ اتنا بڑا تھا جتنا بڑا پہاڑ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ) ” اپنے مفہوم کے اعتبار سے آیت کے الفاظ بہت واضح ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص ان الفاظ کی لایعنی تاویل کرکے اس واقعہ کو مدوجزر قرار دے تو اسے صرف ڈھٹائی ہی کہا جاسکتا ہے۔ فَلَقَکے معنی پھٹنے کے ہیں اور یہ مادہ اس مفہوم کے ساتھ قرآن میں کثرت سے آیا ہے۔ جیسے : (فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج) (الانعام : ٩٦) ” چاک کرنے والا صبح کی سفیدی کو “۔ اور (قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ) (الفلق) ” کہیے میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی “۔ چناچہ اس آیت میں بھی لفظ فلق کے لغوی معنی ہی مراد ہیں ‘ یعنی سمندر پھٹ گیا اور اس کے دونوں حصے پہاڑ کی طرح کھڑے ہوگئے۔ کون نہیں جانتا کہّ مدوجزر کی کیفیت میں نہ تو سمندر پھٹتا ہے اور نہ ہی اس کا پانی چٹان یا پہاڑ کی طرح کھڑا ہوجاتا ہے۔ چناچہ اس تاویل کے مقابلے میں آیت کے الفاظ کا لغوی اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو قرآن کے اس فرمان کی حقانیت بھی ثابت ہوجاتی ہے : (لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ ط) ” ( حمٰ السجدۃ : ٤٢) کہ باطل اس کتاب پر حملہ نہیں کرسکتا ‘ نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے۔ یعنی قرآن اپنے مفاہیم و معانی کی حفاظت بھی خود کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47 Literally, tawd is a high mountain. It appears that as soon as Prophet Moses struck the sea with his staff, it tore the sea asunder and the waters stood like two mighty mountains on the sides and remained in that condition for so long that, on the one hand, the Israelite caravans consisting of hundreds of thousands of the nigrants were able to pass through safely, and on the other, Pharaoh and his hosts stepped in and reached the middle of the sea. In the natural course, a phenomenon like this has never occurred that due to a windstorm, however strong, the sea should have parted and stood like mighty mountains on either side for such a long time. According to verse 77 of Ta Ha, Prophet Moses was commanded by Allah "to make for them (the Israelites) a dry path across the sea. " This shows that the smiting of the sea did not only result in dividing the waters into two parts, which stood like mighty mountains on either side, but it also created a dry path in between without any mud or slush. In this connection, one should also consider verse 24 of Surah Dukhan, which says that after Moses had crossed the sea along with his people, he was commanded by Allah "to let the sea remain as it is because Pharaoh is to be drowned in it." This implies that if after crossing the sea, Moses had again struck it with his staff, the two sides would have rejoined, but he was forbidden to do so. Obviously, this was a miracle, and the view of those who try to interpret it as a natural phenomenon, is belied. For explanation, see E.N. 53 of Ta Ha.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :47 اصل الفاظ ہیں کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ۔ طود عربی زبان میں کہتے ہی بڑے پہاڑ کو ہیں ۔ لسان العرب میں ہے الطود ، الجبل العظیم ۔ اس کے لیے پھر عظیم کی صفت لانے کے معنی یہ ہوئے کہ پانی دونوں طرف بہت اونچے پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا تھا ۔ پھر جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ سمندر حضرت موسیٰ کے عصا مارنے سے پھٹا تھا ، اور یہ کام ایک طرف بنی اسرائیل کے پورے قافلے کو گزارنے کے لیے کیا گیا تھا اور دوسری طرف اس سے مقصود فرعون کے لشکر کو غرق کرنا تھا ، تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا کی ضرب لگنے پر پانی نہایت بلند پہاڑوں کی شکل میں کھڑا ہو گیا اور اتنی دیر تک کھڑا رہا کہ ہزاروں لاکھوں بنی اسرائیل کا مہاجر قافلہ اس میں سے گزر بھی گیا اور پھر فرعون کا پورا لشکر ان کے درمیان پہنچ بھی گیا ۔ ظاہر ہے کہ عام قانون فطرت کے تحت جو طوفانی ہوائیں چلتی ہیں وہ خواہ کیسی ہی تند و تیز ہوں ، ان کے اثر سے کبھی سمندر کا پانی اس طرح عالی شان پہاڑوں کی طرح اتنی دیر تک کھڑا نہیں رہا کرتا ۔ اس پر مزید سورہ طٰہٰ کا یہ بیان ہے کہ : فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیْقاً فِی الْبَحْرِ یَبَساً ، ان کے لیے سمندر میں سوکھا راستہ بنا دے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سمندر پر عصا مارنے سے صرف اتنا ہی نہیں ہوا کہ سمندر کا پانی ہٹ کر دونوں طرف پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا ، بلکہ بیچ میں جو راستہ نکلا وہ خشک بھی ہو گیا ، کوئی کیچڑ ایسی نہ رہی جو چلنے میں مانع ہوتی ۔ اس کے ساتھ سورہ دُخان آیت 24 کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ہدایت فرمائی کہ سمندر پار کر لینے کے بعد اس کو اسی حال پر رہنے دے ، لشکر فرعون یہاں غرق ہونے والا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اگر دوسرے ساحل پر پہنچ کر سمندر پر عصا مار دیتے تو دونوں طرف کھڑا ہوا پانی پھر مل جاتا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تا کہ لشکر فرعون اس راستے میں اتر آئے اور پھر پانی دونوں طرف سے آ کر اسے غرق کر دے ۔ یہ صریحاً ایک معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو اس واقعے کی تعبیر عام قوانین فطرت کے تحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 53 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: اللہ تعالیٰ نے پانی کے کئی حصے کر کے ان کو پہاڑ کی طرح کھڑا کردیا، اور ان حصوں کے درمیان خشک راستے بن گئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:63) فانفلق : ف تعقیب کا ہے انفلق ماضی واحد مذکر غائب وہ پھٹ گیا۔ انفلاق (انفعال) مصدر۔ باب ضرب سے الفلق کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو دوسرے سے الگ کرنے کے ہیں۔ فالق الاصباح (6:96) وہی رات کے اندھیرے سے صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے۔ فرق اسم فعل۔ مجموعہ میں سے کاٹ کر الگ کیا ہوا ایک ٹکڑا۔ الطور بلند پہاڑ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی پانی کئی جگہ سے ادھر ادھر ہٹ کر بیچ میں متعدد سڑکیں کھل گئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ اب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اپنی لاٹھی سمندر پر ماریں۔ ” فانفلق الخ “ چناچہ انہوں نے لاٹھی ماری تو پانی کے درمیان سمندر کی تہ تک بارہ راستے بن گئے اور پانی کا ہر ٹکڑا پہاڑ کی مانند اونچا نظر آنے لگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ برکات دہندہ بھی نہ تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

63۔ تب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی جانب حکم بھیجا کہ تو اپنی لاٹھی کو دریاپر مار چناچہ لکڑی مارتے ہی دریا پھٹ گیا اور پانی کا ہر ٹکڑا ایسا ہوگیا جیسے کوئی بڑا پہاڑ۔ حضرت شاہ (رح) صاحب فرماتے ہیں پانی پھٹ کر اٹھا بارہ 12 جگہ سے پھٹ کر گلیاں پڑی گئیں 12 بارہ قبیلے بنی اسرائیل کے اس میں بیٹھے بیچ میں پانی کے پہاڑ کھڑے ہوگئے 12 خلاصہ ! یہ کہ لاٹھی مارتے ہی دریا پھٹ کر درمیان میں راستے اور سڑکیں نکلی آئیں دائیں بائیں پانی کی دیواریں جیسے راستے کے دائیں بائیں پہاڑ کھڑے ہوں راستہ بنتے ہی بنی اسرائیل دریائی راستوں میں داخل ہوگئے۔